محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ہمارے انوکھے مہمان
از محمد خلیل الرحمٰن
از محمد خلیل الرحمٰن
ہمارا متوسط سائز کا فلیٹ ایک رہائشی عمارت کی دوسری منزل پر شرقاً غرباً پھیلا ہے۔ مغربی سمت میں دیوان خانے کے اختتام پر ایک بالکونی ہے اور اسی طرح مشرق میں رسوئی بھی ایک بالکونی میں کھلتی ہے۔ اس اہتمام کے باعث دیوانی ہوا سارا دن ہمارے فلیٹ میں اٹھکیلیاں کرتی پھرتی ہے۔ ہوا کے دوش پر اونچی اونچی اُڑانیں بھرنے والے بہت سے پنچھی ہمارے ساتھ اس فلیٹ میں سانجھی و ساتھی بننے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ بہت سی چڑیوں اور کبوتریوں کو انڈے سینے کے لیے گھونسلہ بنانے کی ضرورت پڑتی ہےتو ہمارے ہی فلیٹ کو تاکتے ہیں، یہ اور بات کہ ہماری نصف بہتر اپنا گھر کسی بھی قماش کی شخصیت کے ساتھ شریک کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ وہ لٹھ لیے ان کبوتروں کے پیچھے دوڑا کرتی ہیں جو ہر دوسرے روز غٹر غوں، غٹرغوں کرتے ہوئے رسوئی میں در آتے ہیں اور نعمت خانے کے اوپر گھونسلہ بنانے کی تگ و دو میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ چڑیوں کا تو کہنا ہی کیا کہ وہ پُھر پُھر کرتی اِدھر سے داخل ہوتی ہیں تو اُدھر سے واپس دوڑ جاتی ہیں۔ ایک آدھ مرتبہ انہوں نے بھی گھونسلہ بنانے کی کوشش کی جسے محترمہ نے ناکام بنادیا۔
ایک دن ایک کبوتر کا بچہ دیوان خانے کے راستے اندر داخل ہوا اور سیدھا رسوئی پہنچ گیا۔ اسکے وہاں پہنچنے سے پہلے کسی نے بالکونی کا دروازہ بند کردیا تھالہٰذا وہ وہیں دبک کر بیٹھ رہا۔ ہم گھر پہنچے تو اس مہمان کی آمد کی اطلاع ملی۔ ایمان اسکے آنے سے بہت سخت پریشان تھیں اور انہوں نے خود کو اپنے کمرے میں بند کرلیا تھا کہ جب تک یہ پھڑپھڑاتا ہوا خوفناک پرندہ باہر نہیں جائے گا، میں بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلوں گی۔ بیگم نے جو ان معاملات میں ہم سے زیادہ بہادر واقع ہوئی ہیں اور گھر کی چھپکلیوں کو خود مارا کرتی ہیں ، جانے کیا سوچ کر یہ کام ہمارے سپرد کردیا۔ ہم دبے پاؤں رسوئی میں پہنچے اور اس ناہنجار کبوتر کے بچے کو چھاپ بیٹھے۔اسے اپنے سینے سے لگائے ایمان کے کمرے میں پہنچے تو وہ چیخ مارکر دوسرے کمرے کی جانب لپکیں۔
اس ہنگامے کو فرو کرنے کی خاطر بیگم نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اسے فوراً باہر چھوڑدیں۔ ہم نے اسے بالکونی میں چھوڑا تو وہ چھوٹی کھڑکی کے فریم کے اندر جاکر بیٹھ گیا ۔ بیگم اور ایمان کے مزید اصرار کے باوجود ہم نے اسے مزید تنگ کرنے سے انکار کردیا اور وہاں سے سیدھے اپنے کمرے میں پہنچ کر بستر پر دراز ہوگئے۔
کبوتر کے بچے نے موقع غنیمت جان کر خود ہی کہیں اور کے لیے اُڑان بھر لی اور یوں یہ ہنگامہ فرو ہوا۔ شنید ہے کہ اگلے روز تک وہ ناہنجار اسی بالکونی میں موجود تھا۔
گزشتہ سال موقع دیکھ کر ایک کم بخت چڑیل یعنی چیل نے بیٹھک کی اُس کھڑکی کے فریم میں اپنا گھونسلہ بنالیا جسے فلیٹ کے معمار نے ائرکنڈیشن کے لیے چھوڑا تھا۔ چیل نے اپنے انڈوں کو سینا شروع کیا تو اس وقت تک ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ہنگامہ تو اُس وقت شروع ہوا جب چیل صاحبہ ایک عدد بچے کی اماں بن گئیں۔ اب تو اس خدائی فوجدار نے ہر کس و ناکس کا بالکونی میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ فلیٹ سے دور کسی درخت یا کسی دوسری عمارت پر بیٹھی اپنے گھونسلے کو تکا کرتی ۔ جوں ہی کوئی گھر والا بالکونی میں جاتا ، وہ لمبی اُڑان لے کر آتی اور جھپٹا مارکر ہمیں بالکونی کی جالی سے باہر جھانکنے اور ہاتھ باہر نکالنے سے باز رکھتی۔
ہم دن رات جل تو، جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرتے لیکن اس مصیبت سے اُسی وقت چھٹکارانصیب ہوا جب چیل کے فرزندِ ارجمند اُڑنے چُگنے کے قابل ہوگئے اور چیل نے اپنے گھونسلے کو خیر باد کہہ دیا۔ لمبے بانس کی مدد سے اس کے گھونسلے کا صفایا کرتے ہوئے ہم حیران تھے کہ یہ بھلی مانس اِن موٹے موٹے سخت تنکوں پر کیونکر اپنے نازک انڈوں کو رکھ پاتی ہے اور کیونکر سیتی ہے۔
ایک کوّے صاحب البتہ ہماری بیگم کے سخت دل کو موم کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور اُن سے دوستی گانٹھ لی ہے۔ ہر روز ایک مقررہ وقت پر رسوئی کی جالی پر آکر بیٹھ جاتے ہیں، بیگم کو پیار سے آواز لگاتے ہیں۔ بیگم صاحبہ دوڑی ہوئی جاتی ہیں اور پانی میں روٹی بھگوکر اُس کے سامنے رکھ دیتی ہیں۔ گرمی زیادہ ہوتو پانی کی کٹوری میں پانی بھرکر بھی اس کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اِس دوران کوّا پھدک کر ایک قدم آگے بڑھ آتا ہےاور یوں دونوں میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔بیگم صاحبہ اِس کا حال دریافت کرتی ہیں تو وہ محلے کے دیگر کوّوں کا رونا لیکر بیٹھ جاتا ہے۔ لنچ سامنے رکھنے پر وہ اطمینان سے ماحضر تناول فرماتا ہے اور پانی وغیرہ نوش جان فرماکر اپنی راہ لیتا ہے۔ کبھی کبھار بیگم کی غیر مودگی میں ہم اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور کوّے صاحب اپنا جائز حق سمجھتے ہوئے ہماری خدمات کو شرفِ قبولیت بخشتے ہیں۔ آخر کو اُن کی میزبان صاحبہ کے ہی تو شوہرِ نامدار ہیں۔
کل سہہ پہر ایک عجیب واقعہ ہوا ۔ ایک چیل کا بچہ کہیں سے آکر ہماری رسوئی کی جالی پر بیٹھ گیا۔ ایمان کو دور سے اُسے دیکھنا بہت اچھا لگا۔ کچھ دیر تو وہ اپنی اماں جان کے ہمراہ ایک محتاط فاصلے سے اُسے دیکھتی رہیں ، پھر ہمیں اِس معاملے میں الجھانے کی خاطر آواز دے ڈالی۔ ہم نے طوعاً و کرھاً محفل کے صفحے کو بند کیا اور رسوئی کی جانب لپکے۔ وہاں یہ ماجرا دیکھا تو حیران رہ گئے۔ کچھ دیر اِس خوبصورت بچے کو تکتے رہےپھر دبے پاؤں آگے بڑھے۔ بالکونی میں داخل ہوئے ہی تھے کہ چیل کے بچے نے اپنا ننھا سا سر گھماکر ہماری جانب گھورکر دیکھا۔ اُس کی بڑی بڑی زرد آنکھیں اور بڑی ہوکر چمکنے لگیںگویا کہہ رہا ہو ، ’’ میاں خبردار جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا ہو! میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر نیچے کود جاؤں گا۔ رہے نام اللہ کا۔‘‘
ہم ٹھٹھک گئے۔ یوں بھی بڑا خطرہ یہ تھا کہ اسکے زیادہ قریب گئے تو کہیں سے اُس کی خونخوار والدہ محترمہ نہ جھپٹ پڑیں۔ بہت احتیاط کے ساتھ ہاتھ لمبا کرکے ڈبل روٹی ایک ٹکڑا اسکے قریب منڈیر پر رکھا اور اپنا موبائل سنبھال کر وہیں سے تصویریں بنانے لگے۔
کئی زاویوں سے تصویر کے لیے اپنے آپ کو پوز کرتے کرتے چیل کا بچہ اُکتا گیا، لیکن زبان سے کچھ نہ بولا۔
ہم نے بھی اُسے زیادہ تنگ کرنا مناسب نہ جانا اور وہاں سے ہٹ گئے۔ اِدھر محلے کے کوّوں کو یہ بات سخت ناگوار گزر رہی تھی کہ کوئی اجنبی کیوں ان کے گھر کی دہلیز پر یوں دھرنا دئیے بیٹھا رہے، لہٰذا وہ بار بار قریب آکر اُسے اپنے کھانے اور پانی سے دور رکھنے کا جتن کررہے تھے۔ شام تک ہمارا ننھا مہمان جاچکا تھا۔ ذیل میں اس مہمان کی تصاویر محفلین کی تفریحِ طبع کے لیے پیش ہیں کہ کسی چیل کی تصویر اس قدر نزدیک سے کھینچنا ممکن نہہیں، لیکن شاید یہ بچہ ابھی اُڑنا سیکھ رہا تھا اور اُڑان بھرتے ڈرتا تھالہٰذا گھنٹہ بھر کو ہماری منڈیر پر بیٹھا رہ گیا، اور ہم نے کئی زاویوں سے اُس کی تصاویر بنالیں اور محظوظ ہوتے رہے۔
آخری تدوین: