(۴)
’’پاپا ! بلی چاہیے؟‘‘ سلمان نے ہمیں ایک خوبصورت بلونگڑے کی تصویر دکھائی۔
’’ہاں، ہاں! کہاں ہے؟‘‘ ہم مچل گئے۔
’’ ایک دوست کے پاس ہے، اس کے کمرے میں۔ اس کے روم میٹ کو الرجی ہورہی ہے لہٰذا وہ بلی کو اپنے کمرے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ ‘‘
’’فوراً اس سے کہدو کہ ہم لیتے ہیں۔‘‘
بات آئی گئی ہوگئی۔ دو دن بعد بیٹے نے بتایا کہ دوست نے کسی اور سے وعدہ کرلیا ہے۔ ہم نے اصرار کیا ۔
’’کہو کہ ہمیں ہی چاہیے، بس!‘‘
اگلے دن خوشخبری مل گئی۔ دوست نے حامی بھرلی۔ اگلا مرحلہ بیگم صاحبہ کو منانے کا تھا۔ وہ یوں تو’’ مزید‘‘ کسی جانور کے لیے راضی نہ ہوتیں ، لیکن ابھی حال ہی میں بھائی کا بلا ہمارے گھر کئی بار مہمان بنا تھا ، اور چونکہ وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے لاپتہ تھا، بیگم مان گئیں۔ لاپتہ بلے کی یاد نے انہیں پگھلا دیا۔ پھر بھی انہوں نے تاکیداً کہہ دیا کہ اس کے کھانے اور پوٹی وغیرہ کا خیال سلمان کو رکھنا پڑے گا۔
اگلے ہی دن سلمان اس بلونگڑے کو گھر لے آیا۔ چند ہفتوں کا یہ بلا ہمیں بھاگیا۔
اس کا نام کیا رکھیں؟
’’دوست نے اس کا نام یومی رکھا ہے‘‘
بلجیئم سے عثمان نے پوچھا، ’’ اوا تار والی؟‘‘
’’نہیں وہ بومی ہے‘‘ سلمان نے کہا۔
’’تو بومی ہی رکھ دیتے؟‘‘
’’یومی لیگ آف لیجنڈز میں بلی کا نام ہے‘‘
’’لیگ آف لیجنڈز فالتو!!! تبھی اس کا شارٹ لول ہے!‘‘ عثمان کھول گیا‘‘
’’سب سے اچھا تو مانو رہے گا‘‘ ہم بولے، Manav نہیں ، مانو‘‘
’’مانو آواز لگائیں تو تین چار بلیاں مونہہ موڑتی ہیں‘‘، عثمان نے اعتراض کیا، ’’محلے کی بلیاں پہنچ جاتی ہیں۔ مانو چھ سو چھپن رکھنا پڑے گا‘‘
نام پر کوئی سمجھوتا نہ ہوا تو عارضی طور پر یو ۔می ہی رکھ دیا گیا۔ اب جبکہ پانچ ماہ ہوچکے، نام یو۔می ہی ہے۔ اب تو یومی صاحب اس نام پر خوب متوجہ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی اگنور بھی مارتے ہیں، جو بلیوں کا خاصہ ہے۔
شروع شروع میں کیٹ فوڈ کھاتے تھے۔ ایک دن ہم اور سلمان انہیں ویکسی نیشن کے لیے جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے پوچھا ’’ کھانے میں کیا دیتے ہیں؟‘‘
’’بازار سے پیکڈ کیٹ فوڈ ‘‘
’’فوراً بند کردیں اور چکن لیور ابال کردیں‘‘
اس دن کے بعد سے چکن لیور کھانے لگے یو۔می صاحب۔
کچھ دن بعد ہم نے دیکھا کہ انہیں کچھ بدہضمی کی شکایت ہوگئی ہے۔ بیگم صاحبہ نے تجویز کیاکہ فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جائیے۔ ہم آلکس کے مارے ٹس سے مس نہ ہوئے بلکہ حکم صادر کردیا کہ یو۔می چکن لیور ہضم نہیں کرپارہا ہے لہٰذا اسے چکن کھلایا جائے۔
دودن تک یو۔می نے روزہ رکھا، کچھ کھایا نہ پیا۔ دو دن بعد ایک آدھ بوٹی کھائی ۔ ایک دودن میں ڈٹ کر چکن کھانے لگے۔
ایک دن ہم آفس کے لیے روانہ ہونے سے پہلے ناشتہ تناول فرمارہے تھے کہ یو۔می بھی آن پہنچے اور پیار بھری نظروں سے ہمیں دیکھنے لگے۔ ہم نے پراٹھے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ان کے سامنے ڈال دیا۔ انہوں نے سونگھ کر چھوڑدیا۔ہم نے پھر کوشش کی۔ اس مرتبہ نوالہ ان کے منہ کے سامنے پکڑکر انتظار کیا ۔ انہوں نے جھٹ نوالہ منہ میں بھرلیا گویا اسی بات کا انتظار تھا۔ وہ دن اور آج کا دن۔ صبح پہلے چکن بوٹی کھاتے ہیں پھر کوئی ایک آدھ کھنٹے بعد جب ہم ناشتہ کررہے ہوتے ہمارے ہاتھوں سے پراٹھے کے نوالے تناول فرماتے ہیں۔
ایک دن صبح ہم سوتے سوتے اچانک اپنے چہرے پر کسی کا لمس محسوس کرکے اٹھے۔دیکھا تو یو۔می کا منہ ہمارے چہرے پر تھا، یو۔می ہمیں اٹھارہے تھے۔
’’اچھا اچھا! ابھی تمہیں ناشتہ کھلاتے ہیں‘‘ ہم نے کہا اور ان کے جسم کی مالش کرنے لگے۔ بیگم اسکول جانے سے پہلے چکن کو ایک دم دے گئی تھیں۔ اسے پھر سے جوش دے کر اچھی طرح گلایا اور یو۔می کو پیش کردیا۔ اب یہی معمول ہے۔ہم نہ اٹھیں تو ناراض ہوتے ہیں، ہمارے ہاتھ کو کاٹنا شروع کرتے ہیں ، جس سے ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ صاحب سے اب بھوک برداشت نہیں ہورہی، لہٰذا اب تو اٹھنا ہی پڑےگا۔
کھانے کھاچکنے کے بعد ورزش کے کچھ کھیل وغیرہ بھی چلتا ہے۔ ہمارے، سلمان اور ایمان کے ساتھ آنکھ مچولی ان کا محبوب ترین کھیل ہے۔ دروازے کی اوٹ سے جھانک کر دیکھو اور پھر چھپ جاؤ۔ دوسری مرتبہ ایسا کرنے پر دوڑکر آتے ہیں ۔ اور پاس سے گزر کر کسی دوسرے کمرے میں جاکر چھپ جاتے ہیں۔ انہیں ڈھونڈنے اس کمرے میں پہنچو تو وہاں سے بھاگ کر کسی دوسرے جگہ چھپ جاتے ہیں۔
ہماری مچلتی انگلیوں کا شکار بھی ان کا محبوب کھیل ہے۔ کبھی کبھی ان کے لیے تکیے کی مچان بناکر دے دیں تو اس میں سے چھپ کر شکار کھیلتے ہیں۔
یوں تو نیچے ہی بیٹھنا اور لیٹنا پسند ہے لیکن بیگم یا ایمان انہیں ننھے بچوں کی گود میں اٹھالیں تو کچھ دیر برداشت کرہی لیتے ہیں ۔
ان کے لیے پوٹی کا انتظام ، اور نہلانا دھلانا سلمان کی زمہ داری ہے۔ واش بیسن میں بیٹھ کر سلمان کے ہاتھوں نہاتے ہیں، بعد میں گیلا بدن لیے مسمسی صورت بنائے بیٹھے اپنے جسم کو چاٹا کرتے ہیں۔ لٹر قریب الختم ہو تو ہم مارے مارے پھرتے ہیں اور کہیں نہ کہیں سے خرید لاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر بیگم ، ایمان اور بھائی کے بچوں کو کھویا ہوا بلا مائیلو یاد آجاتا ہے۔ سب سے پیار سمیٹتے ہیں، البتہ ہمارے ہم زلف جو جانوروں سے الرجک ہیں، انہوں نے ہمارے گھر آنا چھوڑ رکھا ہے۔
گھر میں مہمان آجائیں اور یو۔می کو کسی ایک کمرے میں بند کردیا جائے تو ان کی بے چینی دیدنی ہوتی ہے۔ جلد سے جلد قید سے فرار ہوکر سب کے سامنے آکر لیٹنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔
پچھلے دنو ں ہماری بھانجی صدف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہمارے گھر تشریف لائیں۔ سب کی دیکھا دیکھی یو۔می بھی مہمانوں سے ملنے کے لیے لپکے۔ انہیں اپنی جانب آتا دیکھ کر صدف بٹیا تو ایک دل دہلا دینے والی چیخ مارکر صوفے پر جا چڑھیں۔ بڑی مشکل سے یومی کو ایک کمرے میں بند کرکے صدف کو صوفے سے اتارا گیا۔ پھر شام گئے، جب تک مہمان گھر میں رہے، یہ بیچارے اسی کمرے میں قید رہے۔
ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌ ٌٌٌ