ہمارے بیچ تو کچھ بھی نہیں اب برائے اصلاح

صابرہ امین

لائبریرین
معزز اساتذہ کرام

الف عین ، محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی

@محمّد احسن سمیع :راحل: بھائ


آپ سے رہنمائ و اصلاح کی درخواست ہے ۔ ۔

شکریہ

ہماری جان لینا ہو تو آئے
ہما را دل دکھانا ہو تو آئے

میرے جذبوں میں آتش ہے بلا کی
کسی کو راکھ ہونا ہو تو آئے

زمیں سے جڑنے میں کیا ہی مزہ ہے
کسی کو خاک ہونا ہو تو آئے

ہماری آنکھ ہے گہر ا سمند ر
کسی کو ڈوب جانا ہو تو آئے

ہمارے دل میں ہیں لاکھوں دفینے
کسی کو غم چھپانا ہو تو آئے

کہو تو چھیڑ دیں ہم ساز دل کو
کسی کو سر لگانا ہو تو آئے

ہم اس کواب نہ جائیں گے منانے
اسے گر مان جانا ہو تو آئے

مزہ چکھنا جو چاہے گر وفا کا
اسے پیماں نبھانا ہو تو آئے

محبت نے ہی دی ہے یہ رعایت
اسے جب دل دکھانا ہو تو آئے
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
بھئی قوافی کی اچھی پابندی کریں صابرہ تاکہ غزل کی شکل دیا جاسکتی ہے یا نظم کو متعین کیا جاسکے ۔
نظم ہو تو اس میں بھی قوافی کا انتظام کریں ۔
سب سے جب تک ایک قافیہ لیکن اس کے بعد کاری اور گہری کا قافیہ کیوں ۔
دوسرے یہ کہ کاری اور گہری کا قافیہ درست نہیں ۔ کاری کا قافیہ ساری تو ٹھیک ہے لیکن گہری یا دوری نہیں ۔
یہ قوافی کا نظم و ضبط قائم ہو جائے تو پھر زبان و بیان پر بات ہو جائے گی ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بھئی قوافی کی اچھی پابندی کریں صابرہ تاکہ غزل کی شکل دیا جاسکتی ہے یا نظم کو متعین کیا جاسکے ۔
نظم ہو تو اس میں بھی قوافی کا انتظام کریں ۔
سب سے جب تک ایک قافیہ لیکن اس کے بعد کاری اور گہری کا قافیہ کیوں ۔
دوسرے یہ کہ کاری اور گہری کا قافیہ درست نہیں ۔ کاری کا قافیہ ساری تو ٹھیک ہے لیکن گہری یا دوری نہیں ۔
یہ قوافی کا نظم و ضبط قائم ہو جائے تو پھر زبان و بیان پر بات ہو جائے گی ۔

عاطف بھائ
آداب
میں نے غزل تبدیل کر دی ہے ۔ ۔ جلد ہی قوافی کا دوبارہ یکسوئ سے مطالعہ کرتی ہوں ۔ ۔ ۔ شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تین اشعار کے قوافی درست نہیں، باقی کے درست ہیں یعنی ان میں مشترک حروف 'انا' ہے، یعنی جانا، گانا، کھانا، بھانا۔ لیکن ہونا اور لینا غلط قافیہ ہے
 

الف عین

لائبریرین
ایک بات اور، لگتا ہے کہ تم نے اصل مراسلے میں ترمیم کر دی تھی، پہلے کچھ اور قوافی تھے۔ مجھے محض سید عاطف علی کے مراسلے سے پتہ چلا۔ ان کے مراسلے کے بعد اگلے مراسلے میں تبدیلیاں کرنا بہتر تھا تاکہ دونوں صورتیں اصلاح کرنے والوں ہی نہیں، استفادہ کرنے والوں کو بھی پرھنے کو ملتا کہ اس میں کیا کیا اغلاط تھیں اور کس طرح سدھاری گئی ہیں
 

صابرہ امین

لائبریرین
ایک بات اور، لگتا ہے کہ تم نے اصل مراسلے میں ترمیم کر دی تھی، پہلے کچھ اور قوافی تھے۔ مجھے محض سید عاطف علی کے مراسلے سے پتہ چلا۔ ان کے مراسلے کے بعد اگلے مراسلے میں تبدیلیاں کرنا بہتر تھا تاکہ دونوں صورتیں اصلاح کرنے والوں ہی نہیں، استفادہ کرنے والوں کو بھی پرھنے کو ملتا کہ اس میں کیا کیا اغلاط تھیں اور کس طرح سدھاری گئی ہیں
استادِ محترم
آداب
جی میں نے وہ غزل ہی بدل ڈالی کہ اس میں شروع کے چار قوافی (اب،سب، جب) ایک بند کی صورت تھے ۔ ۔ جب کہ باقی "ی" کو حرف روی باندھنے کی کوشش کی تھی جو سب گڑ بڑ ھو گئ ۔ ۔ میں نے دیکھا تھا کہ شعرا ایسا کرتے ہیں ۔ ۔ ایک ہی نظم میں کئ قافیہ بدل ڈالتے ہیں ۔ ۔ مگر کچھ ایسا ضرور ہے جو میں سمجھ نہ پائ کہ ایسا کب کب کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ آپ کہیں تو میں پہلے والی غزل دوبارہ لگا دوں ۔ ۔موجودہ غزل کی ایک نئ لڑی تیار کی جا سکتی ہے ۔ ۔ ابھی تدوین کی گنجائش ہے ۔ ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
پہلے تین اشعار کے قوافی درست نہیں، باقی کے درست ہیں یعنی ان میں مشترک حروف 'انا' ہے، یعنی جانا، گانا، کھانا، بھانا۔ لیکن ہونا اور لینا غلط قافیہ ہے
آداب
استادِ محترم پہلے تین اشعار اب ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔ ۔

جب اپنا دل لبھانا ہو تو آئے
ہمارا دل دکھانا ہو تو آئے

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
کسی کو بھی ستانا ہو تو آئے
یا
کسی کو جب ستانا ہو تو آئے

ہے اس کےجذبوں میں آتش بلا کی
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے
یا

کسی کو دل جلانا ہو تو آئے
 

الف عین

لائبریرین
نظم اور غزل کو خلط ملط مت کیا کرو صابرہ، یہ تو غزل ہی ہے موضوع اور فارمیٹ کے حساب سے
جب اپنا دل لبھانا ہو تو آئے
ہمارا دل دکھانا ہو تو آئے
... تکنیکی طور پر اس میں ایطا کا عیب آ گیا ہے۔ یعنی مطلع جو قافیہ متعین کر رہا ہے، 'ھانا' کو مشترکہ حروف بنا رہا ہے، یعنی اب قوافی ٹھانا، دکھانا، لبھانا وغیرہ ہوں گے جو نہیں ہیں، یعنی مطلع ویسے درست ہے مگر پوری غزل کے قوافی غلط ہیں۔ باقی غزل کو درست کرنے کی بجائے مطلع میں ہی تبدیلی کی جائے کہ دونوں مصرعوں میں ھانا مشترک نہ یو( حرف روی کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا میں)

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
کسی کو بھی ستانا ہو تو آئے
یا
کسی کو جب ستانا ہو تو آئے
... یہ دو لخت لگتا ہے یعنی دونوں مصرعوں میں باہم ربط نہیں

ہے اس کےجذبوں میں آتش بلا کی
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے
... 'جذبوں' کا 'وں' کا اسقاط ہو رہا ہے جو اچھا نہیں
اس کے علاوہ 'بلا کی' جیسے محاورے کے ساتھ 'آتش' جیسی فارسی نہیں بھاری جاتی! 'گرمی بلا کی' بہتر نہیں ہوتا؟
( یہی متبادل بہتر ہے)
 

صابرہ امین

لائبریرین
نظم اور غزل کو خلط ملط مت کیا کرو صابرہ، یہ تو غزل ہی ہے موضوع اور فارمیٹ کے حساب سے

آداب
جی اچھا ۔ ۔ اب انشااللہ یہ سب دھیان میں رکھوں گی ۔ ۔


جب اپنا دل لبھانا ہو تو آئے
ہمارا دل دکھانا ہو تو آئے
... تکنیکی طور پر اس میں ایطا کا عیب آ گیا ہے۔ یعنی مطلع جو قافیہ متعین کر رہا ہے، 'ھانا' کو مشترکہ حروف بنا رہا ہے، یعنی اب قوافی ٹھانا، دکھانا، لبھانا وغیرہ ہوں گے جو نہیں ہیں، یعنی مطلع ویسے درست ہے مگر پوری غزل کے قوافی غلط ہیں۔ باقی غزل کو درست کرنے کی بجائے مطلع میں ہی تبدیلی کی جائے کہ دونوں مصرعوں میں ھانا مشترک نہ یو( حرف روی کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا میں)

استادِ محترم، مطلع ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔

جب اپنا دل لگانا ہو تو آئے
ہمارا دل دکھانا ہو تو آئے

یا

گر اپنا دل لگانا ہو تو آئے
ہمارا دل دکھانا ہو تو آئے

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
کسی کو بھی ستانا ہو تو آئے
یا
کسی کو جب ستانا ہو تو آئے
... یہ دو لخت لگتا ہے یعنی دونوں مصرعوں میں باہم ربط نہیں
مجھے لگا کہ اس میں ربط ہے یعنی لوگ فقیروں کو ستاتے ہیں نا ۔ ۔ مگر شائد یہ صرف ہمارے ملک میں ہوتا ہو ۔ ۔ ۔

اچھا اب دیکھیئے ۔ ۔

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
اسے گرلطف اٹھانا ہو تو آئے
یا

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
گدائ ساتھ کرنا ہو تو آئے
یا
فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
اسے کچھ دان کرنا ہو تو آئے
یا

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
دل اپنا دان کرنا ہو تو آئے


ہے اس کےجذبوں میں آتش بلا کی
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے
... 'جذبوں' کا 'وں' کا اسقاط ہو رہا ہے جو اچھا نہیں
اس کے علاوہ 'بلا کی' جیسے محاورے کے ساتھ 'آتش' جیسی فارسی نہیں بھاری جاتی! 'گرمی بلا کی' بہتر نہیں ہوتا؟
( یہی متبادل بہتر ہے)

جی بہتر ۔ ۔

'جذبوں' کا 'وں' کا اسقاط اب شائد نہیں ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔

بلا کی گرمی ہے جذبوں میں اس کے
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے
یا
ہے اس میں گرمئِ جذبات بے حد
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے
یا

بلا کی گرمئِ جذبات، اس میں
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے

امید کرتی ہوں کہ اب بہتری آئ ہو گی ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ تمہارے تخیلات! چار چار متبادل پا لیتی ہو اور سب الگ الگ مفہوم کے! برادرم ارشد چوہدری کو آپ سے سبق لینا چاہیے!
مطلع جو پسند ہو، لے سکتی ہو
دوسرے شعر میں یہ گرہ
فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
مجھے بہترین لگ رہی ہے، لیکن تیسرا اور چوتھا متبادل بھی درست اور اچھے ہیں
تیسرے میں
بلا کی گرمی ہے جذبوں میں اس کے
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے
... جذبوں درست ہو گیا تو گرمی کی ی گرنے لگی!
ہے اس میں گرمئِ جذبات بے حد
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے
... یہ گرہ درست ہے
تیسرے میں 'ہے' کی کمی ہے
 

صابرہ امین

لائبریرین
ماشاء اللہ تمہارے تخیلات! چار چار متبادل پا لیتی ہو اور سب الگ الگ مفہوم کے!

میرے بہت ہی اچھے استادِ محترم
آداب

آج تو آپ نے " میرا دن بنا دیا" ۔ ۔ چلیں کچھ تو اچھا ہے جس میں یقیناََ اللہ کی مہربانی اور آپ کا بڑا پن اور حسنِ ظن شامل ہے ۔ ۔ :blushing::blushing: :happy: :happy:


ممطلع جو پسند ہو، لے سکتی ہو

دوسرے شعر میں یہ گرہ
فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
مجھے بہترین لگ رہی ہے، لیکن تیسرا اور چوتھا متبادل بھی درست اور اچھے ہیں
تیسرے میں
بلا کی گرمی ہے جذبوں میں اس کے
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے
... جذبوں درست ہو گیا تو گرمی کی ی گرنے لگی!
ہے اس میں گرمئِ جذبات بے حد
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے
... یہ گرہ درست ہے
تیسرے میں 'ہے'
استادِ محترم

ایک شعرغلطی سے صحیح ہونے سے رہ گیا تھا یعنی

زمیں سے جڑنے میں کیا ہی مزہ ہے
کسی کو خاک ہونا ہو تو آئے

تو اسے اس طرح تبدیل کر دیا ہے ۔ ۔ ۔

زمیں سے جڑنے میں کیا ہی مزہ ہے
اسے گرلطف اٹھانا ہو تو آئے

جبکہ دوسرے شعر میں اس طرح گرہ لگائ ہے ۔ ۔

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
گدائ ساتھ کرنا ہو تو آئے




مندرجہ بالا تمام گراں قدر اصلاحی نکات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سے نظرِ ثانی کی درخواست ہے ۔ ۔ شکریہ

جب اپنا دل لگانا ہو تو آئے
ہمارا دل دکھانا ہو تو آئے



فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
گدائ ساتھ کرنا ہو تو آئے

ہے اس میں گرمئِ جذبات بے حد
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے

زمیں سے جڑنے میں کیا ہی مزہ ہے
اسے گرلطف اٹھانا ہو تو آئے

ہماری آنکھ ہے گہر ا سمند ر
کسی کو ڈوب جانا ہو تو آئے

ہمارے دل میں ہیں لاکھوں دفینے
کسی کو غم چھپانا ہو تو آئے

کہو تو چھیڑ دیں ہم ساز دل کو
کسی کو سر لگانا ہو تو آئے

ہم اس کواب نہ جائیں گے منانے
اسے گر مان جانا ہو تو آئے

مزہ چکھنا جو چاہے گر وفا کا
اسے پیماں نبھانا ہو تو آئے

محبت نے ہی دی ہے یہ رعایت
اسے جب دل دکھانا ہو تو آئے



 
آخری تدوین:
فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
گدائ ساتھ کرنا ہو تو آئے
خیال تو بہت اچھا ہے، مگر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ’’آنا‘‘ کی آوازوں کے بیچ ’’کرنا‘‘ کیسے قافیہ آسکتا ہے؟؟؟
استادِ محترم، سیدی عاطف صاحب وغیرہ کچھ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
خیال تو بہت اچھا ہے، مگر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ’’آنا‘‘ کی آوازوں کے بیچ ’’کرنا‘‘ کیسے قافیہ آسکتا ہے؟؟؟
استادِ محترم، سیدی عاطف صاحب وغیرہ کچھ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ

راحل بھائ
آداب

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
اسے گرلطف اٹھانا ہو تو آئے

یہ سوچا گیا تھا ۔ ۔ اب ٹھیک ہے نا ۔ ۔


ایک شعرغلطی سے صحیح ہونے سے رہ گیا تھا یعنی

زمیں سے جڑنے میں کیا ہی مزہ ہے
کسی کو خاک ہونا ہو تو آئے

اب دیکھیئے ۔ ۔


زمیں سے جڑنے میں کیا ہی مزہ ہے
کسی کو لطف اٹھانا ہو تو آئے



مندرجہ بالا تمام گراں قدر اصلاحی نکات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سے نظرِ ثانی کی درخواست ہے ۔ ۔ شکریہ

جب اپنا دل لگانا ہو تو آئے
ہمارا دل دکھانا ہو تو آئے

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
اسے گرلطف اٹھانا ہو تو آئے

ہے اس میں گرمئِ جذبات بے حد
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے

زمیں سے جڑنے میں کیا ہی مزہ ہے
کسی کو لطف اٹھانا ہو تو آئے

ہماری آنکھ ہے گہر ا سمند ر
کسی کو ڈوب جانا ہو تو آئے

ہمارے دل میں ہیں لاکھوں دفینے
کسی کو غم چھپانا ہو تو آئے

کہو تو چھیڑ دیں ہم ساز دل کو
کسی کو سر لگانا ہو تو آئے

ہم اس کواب نہ جائیں گے منانے
اسے گر مان جانا ہو تو آئے

مزہ چکھنا جو چاہے گر وفا کا
اسے پیماں نبھانا ہو تو آئے

محبت نے ہی دی ہے یہ رعایت
اسے جب دل دکھانا ہو تو آئے


امید کرتی ہوں کہ اب بہتری آئ ہو گی ۔ ۔ شکریہ
 
آخری تدوین:
فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
اسے گرلطف اٹھانا ہو تو آئے
صرف "اسے" ہی کیوں؟ اگر خطاب عام کردیا جائے تو بیان میں ایک شان قلندری نہیں آجائے گی؟ مثلا
کسی کو لطف اٹھانا ہو، تو آئے!

زمیں سے جڑنے میں کیا ہی مزہ ہے
کسی کو لطف اٹھانا ہو تو آئے
یہ کم و بیش وہی مفہوم ہے جو اوپر والے شعر کا ہے، اگر پچھلے شعر میں آپ کا اصل مصرعہ لیا جائے، تب بھی کافی الفاظ مشترک رہتے ہیں. پہلے مصرعے میں جڑنے کی ی کا اسقاط بھی اچھا نہیں لگتا.

کہو تو چھیڑ دیں ہم ساز دل کو
کسی کو سر لگانا ہو تو آئے
جب آپ نے سازِ دل چھیڑ دیا، تو اب آنے والا سر لاگائے گا نہیں، ملائے گا :) یعنی
کسی کو سر ملانا ہو، تو آئے!

ہم اس کواب نہ جائیں گے منانے
اسے گر مان جانا ہو تو آئے
مجھے پہلے مصرعے میں کچھ غیر ضروری تعقید محسوس ہوتی ہے.
نہ جائیں گے ہم اب اس کو منانے
اسے خود مان جانا ہو تو آئے

مزہ چکھنا جو چاہے گر وفا کا
اسے پیماں نبھانا ہو تو آئے
پہلے مصرعے میں بھرتی کے الفاظ ہیں. سامنے کی صورت تو یہ ہے
مزا چکھنا اگر چاہے وفا کا
لیکن اس طرح بھی میرے خیال میں کامل ابلاغ نہیں ہوپائے گا. اصل بات غالبا یہ ہے کہ "اگر وہ پیمان نبھانے آجائے تو ہم بھی وفا کا ایسا مظاہرہ دکھائیں گے کہ اسے لطف آجائے گا!" ؟؟؟
میرے خیال میں اس پر نظر ثانی کر لیں.

جب دل دکھانا ہو تو آئے
خیال بہت عمدہ ہے. اگر الفاظ میں تھوڑا سا ردوبدل کردیا جائے؟
محبت نے اسے دی یہ رعایت
کہ جب بھی دل دکھانا ہو تو آئے!

اگرچہ اس صورت میں جب اور بھی میں تنافر پیدا ہورہا ہے، مگر تاکید بیان کی خاطر شاید گوارا کر لیا جائے.

دعاگو،
راحل.
 

صابرہ امین

لائبریرین
آداب
آپ کی رہنمائ کی روشنی میں کچھ ایسی صورت نکلی ہے ۔ ۔

صرف "اسے" ہی کیوں؟ اگر خطاب عام کردیا جائے تو بیان میں ایک شان قلندری نہیں آجائے گی؟ مثلا
کسی کو لطف اٹھانا ہو، تو آئے!


اچھا خیال ہے مگر یہ بعد والے شعر میں استعمال ہو چکا ہے ۔ ۔ ۔

اگر ان میں سے کچھ مناسب لگے تو۔ ۔ ۔

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
اسے کاسہ اٹھانا ہو تو آئے

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
نعرہءِ حق لگانا ہو تو آئے

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
کسی کو بھی گوارا ہو تو آئے

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
کسی کو سب لٹانا ہو تو آئے

فقیری میں عجب سی ہے لطافت
مزہ خود کو چکھانا ہو تو آئے

گدائ لے گئ مولا کے در پر
کسی کو سر جھکانا ہو تو آئے

مرا کاسہ ہے اب تاجِ شہنشاہ
اسے کاسہ اٹھانا ہو تو آئے

مرا کاسہ ہے اب تاجِ شہنشاہ
کسی کو سب لٹانا ہو تو آئے


زمیں سے جڑنے میں کیا ہی مزہ ہے
کسی کو لطف اٹھانا ہو تو آئے

یہ کم و بیش وہی مفہوم ہے جو اوپر والے شعر کا ہے، اگر پچھلے شعر میں آپ کا اصل مصرعہ لیا جائے، تب بھی کافی الفاظ مشترک رہتے ہیں. پہلے مصرعے میں جڑنے کی ی کا اسقاط بھی اچھا نہیں لگتا.

زمیں سے جڑنے کا بھی اک مزہ ہے
کسی کو لطف اٹھانا ہو تو آئے

جب آپ نے سازِ دل چھیڑ دیا، تو اب آنے والا سر لاگائے گا نہیں، ملائے گا :) یعنی
کسی کو سر ملانا ہو، تو آئے!
جی بہتر ۔ ۔۔


مجھے پہلے مصرعے میں کچھ غیر ضروری تعقید محسوس ہوتی ہے.
نہ جائیں گے ہم اب اس کو منانے
اسے خود مان جانا ہو تو آئے

پہلے مصرعے میں بھرتی کے الفاظ ہیں. سامنے کی صورت تو یہ ہے
مزا چکھنا اگر چاہے وفا کا
لیکن اس طرح بھی میرے خیال میں کامل ابلاغ نہیں ہوپائے گا. اصل بات غالبا یہ ہے کہ "اگر وہ پیمان نبھانے آجائے تو ہم بھی وفا کا ایسا مظاہرہ دکھائیں گے کہ اسے لطف آجائے گا!" ؟؟؟
میرے خیال میں اس پر نظر ثانی کر لیں.
جی بہتر
اب دیکھیئے ۔ ۔

ہمارا در کھلا ہے، اور رہے گا
اسےگر مان جانا ہو تو آئے

خیال بہت عمدہ ہے. اگر الفاظ میں تھوڑا سا ردوبدل کردیا جائے؟
محبت نے اسے دی یہ رعایت
کہ جب بھی دل دکھانا ہو تو آئے!

اگرچہ اس صورت میں جب اور بھی میں تنافر پیدا ہورہا ہے، مگر تاکید بیان کی خاطر شاید گوارا کر لیا جائ

جی اچھا خیال ہے ۔ ۔ گوارہ کر لیتے ہیں ۔ ۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
لگتا ہے میری پچھلی بات کا زیادہ ہی اثر لے لیا، اقتباس میں ہی اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوں
اگر ان میں سے کچھ مناسب لگے تو۔ ۔ ۔

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
اسے کاسہ اٹھانا ہو تو آئے

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
نعرہءِ حق لگانا ہو تو آئے
.. یہ تو وزن میں نہیں

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
کسی کو بھی گوارا ہو تو آئے
.. قافیہ؟

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
کسی کو سب لٹانا ہو تو آئے
...یہ بھی عجز بیان لگتا ہے

فقیری میں عجب سی ہے لطافت
مزہ خود کو چکھانا ہو تو آئے
.. یہ بھی پسند نہیں آیا

گدائ لے گئ مولا کے در پر
کسی کو سر جھکانا ہو تو آئے
.. بے ربط ہے

مرا کاسہ ہے اب تاجِ شہنشاہ
اسے کاسہ اٹھانا ہو تو آئے

مرا کاسہ ہے اب تاجِ شہنشاہ
کسی کو سب لٹانا ہو تو آئے
آخری دونوں اشعار ایک جیسے ہیں، دونوں بے ربط لگ رہے ہیں۔ اصل مصرع ہی راحل میاں کی اصلاح کے ساتھ بہتر ہے
کسی کو لطف اٹھانا..

زمیں سے جڑنے کی ے کے اسقاط کا حل تو نہیں نکلا، شاید تم سمجھیں نہیں۔ اسقاط سے مطلب کہ محض 'جڑن' سے وزن میں آ رہا ہے،یکن دوسرا مصرع بھی استعمال ہو چکا ہے، پھر اس کا استعمال کیوں؟ یہ مصرع
زمیں سے جڑ گئے تو لطف ایا
زمیں سے جڑ چکے تو کیا مزا ہے
یا اس قسم کا کیا جا سکتا ہے

باقی ٹھیک ہیں اشعار
 

صابرہ امین

لائبریرین
لگتا ہے میری پچھلی بات کا زیادہ ہی اثر لے لیا، اقتباس میں ہی اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوں

آخری دونوں اشعار ایک جیسے ہیں، دونوں بے ربط لگ رہے ہیں۔ اصل مصرع ہی راحل میاں کی اصلاح کے ساتھ بہتر ہے
کسی کو لطف اٹھانا..

زمیں سے جڑنے کی ے کے اسقاط کا حل تو نہیں نکلا، شاید تم سمجھیں نہیں۔ اسقاط سے مطلب کہ محض 'جڑن' سے وزن میں آ رہا ہے،یکن دوسرا مصرع بھی استعمال ہو چکا ہے، پھر اس کا استعمال کیوں؟ یہ مصرع
زمیں سے جڑ گئے تو لطف ایا
زمیں سے جڑ چکے تو کیا مزا ہے
یا اس قسم کا کیا جا سکتا ہے

باقی ٹھیک ہیں اشعار
استادِ محترم

آداب
جی صحیح فرمایا ۔ ۔ ۔شائد " دماغ " نے زیادہ ہی اثر لے لیا کہ اشعار کی بھرمار ہو گئ اور رکنے میں نہ آتی تھی ۔ ۔ ۔ !!! بڑی مشکل سے روکا کہ نیند آ رہی تھی ورنہ ۔ ۔ ۔ :LOL:

آپ نے بجا فرمایا کی دونوں مصرے ایک سے معلوم ہو رہے ہیں اس لیئے ایک کو نکال کر کسی اور غزل وغیرہ میں استعمال کر لیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مجھے بھی اصلاح کرتے ہوئے کئ بار ایسا لگا ۔ ۔

راحل بھائ اور آپ کی گراں قدر رہنمائ کے بعد الحمدللہ یہ صورت ہے ۔ ۔ بے حد شکریہ اور نوازش


جب اپنا دل لگانا ہو تو آئے
ہمارا دل دکھانا ہو تو آئے

فقیری کا بھی اپنا ہی مزہ ہے
کسی کو لطف اٹھانا ہو تو آئے

ہے اس میں گرمئِ جذبات بے حد
ہمارا دل جلانا ہو تو آئے

ہماری آنکھ ہے گہر ا سمند ر
کسی کو ڈوب جانا ہو تو آئے

ہمارے دل میں ہیں لاکھوں دفینے
کسی کو غم چھپانا ہو تو آئے

کہو تو چھیڑ دیں ہم ساز دل کو
کسی کو سر لگانا ہو تو آئے

ہم اس کواب نہ جائیں گے منانے
اسے گر مان جانا ہو تو آئے

مزہ چکھنا جو چاہے گر وفا کا
اسے پیماں نبھانا ہو تو آئے

محبت نے ہی دی ہے یہ رعایت
اسے جب دل دکھانا ہو تو آئے
 

الف عین

لائبریرین
کہو تو چھیڑ دیں ہم ساز دل کو
کسی کو سر لگانا ہو تو آئے
... شاید راحل نے 'سر ملانا' تجویز کیا تھا جو بہتر ہے

مزہ چکھنا جو چاہے گر وفا کا
اسے پیماں نبھانا ہو تو آئے
.. جو کن معنوں میں؟ شخص کے لئے یا چاہنے کے عمل کے لئے؟ بہر حال پہلا مصرع گنجلک ہو گیا ہے۔
دوسرے مصرعے میں پیماں سے روانی متاثر ہو رہی ہے، یہاں وعدہ ہی اچھا رہے گا نا!
 
Top