ہمارے مسائل کے حل جمہوریت یا شریعت؟

اوپر والا مباحثہ پڑھ کر میر ے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہورہے ہیں ۔۔۔۔ شاید آپ میں سے کوئی ان کے جوابات جانتا ہو۔

1- اگر ترقی کے لیے شریعت ضروری ہے تو وہ لوگ یا ملک کیوں ترقی کر رہے ہیں جو شریعت نہیں جانتے۔ (وہ علیحدہ بات ہے کہ اگر کوئی انہیں ترقی یافتہ نہ مانیں مثلاً امریکہ ، برطانیہ، جاپان وغیرہ)

2- کیا ترقی کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے کہ اچھا انسان ہونا ضروری ہے؟

3- آپ جمہوریت کسے کہتے ہیں جو پاکستان میں ہے یا پھر ترقی یافتہ ممالک میں ہے یا پھر دونوں سے انکار ہے۔

4- کیا عالم اسلام دنیا میں پیچھے ہے یا پھر وہ گروہ جو اپنے آپ کو اسلام کاعلمبردار کہتا ہے ۔

5- کیا سچ بولنا ، صحیح تولنا اور انصاف کرنا ایک مسلمان پر فرض ہے کہ انسان (میرا مطلب جو مسلمان نہیں) پر بھی فرض ہے؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم عتیق،

کافی دنوں بعد آپ نے کوئی پوسٹ کی ہے۔ آپ کے سوالات موضوع سے کچھ ہٹ رہے ہیں۔ بہتر ہوتا اگر آپ ایک اور تھریڈ شروع کر دیتے۔ میں امید کرتا ہوں کہ باقی حضرات عتیق کے سوالات کو خندہ پیشانی سے قبول کریں گے۔

اب جہاں عتیق نے یہ نکتہ اٹھایا ہے تو میں بھی کچھ کہنے کی جسارت کرتا ہوں۔ میں تاریخ کی زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ صرف زمانہ حاضر کی چند مثالیں پیش کروں گا۔ زمانہ حاضر میں اسلامی حکومتوں کے قیام کی مثالیں ایران اور افغانستان ہیں۔ یہاں یہ نکتتہ اٹھانا کہ مذہب نے ان ممالک کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا، شاید ایک اور طویل بحث چھیڑ دے۔ میں اس سے قطع نظر ملائشیا کا ذکر کروں گا جو کہ ایک مسلمان ملک ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ملائشیا کی ترقی میں مذہب نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ملائشیا کی ترقی کا اصل سبب تعلیم کا فروغ ہے۔ میرا نکتہ نظر صرف یہ ہے کہ مذہب کو ریاست کے معاملات میں مداخلت ملک و قوم کے لیے سود مند نہیں ہے۔ ایک خلیفہ جو کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے مرکزیت کی علامت ہو، میری نظر میں محض ایک رومانوی تخیل ہے۔ خلافت کے قیام کے لیے سرگرم لوگوں سے اگر پوچھا جائے کہ وہ اس سلسلے میں کیا لائحہ عمل رکھتے ہیں تو وہ اس کا کبھی ٹھوس جواب نہیں دے پاتے۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر حقیقی آئیڈیلز کا پیچھا کرنا صرف تباہی پر منتج ہوتا ہے۔ تاریخ کا ایک سبق اور بھی ہے ،وہ یہ کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔

ان نکات سے میرا مقصد کسی کی دلآزاری نہیں تھا۔ میں اس تھریڈ میں مزید پوسٹ نہیں کروں گا۔

والسلام
 

زیک

مسافر
عتیق الرحمان اور سیفی: بحث لمبی بھی ہو رہی ہے مگر one-liners سے بھی آگے نہیں بڑھ پا رہی۔

جمہوریت اور خلافت کو آپ کیسے define کریں گے؟ کیا جمہوریت سے مراد direct democracy ہے یا representative democracy اور constitutional republic؟ خلافت کی اصل کیا ہے؟ خلیفہ کون ہو گا اور اسے کون چنے گا؟ کیا وہ ایک مطلق العنان حاکم ہو گا؟ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سی چیز خدا کے حکم کے مطابق ہے اور کونسی خلاف؟ لگتا ہے اس کا فیصلہ انسان ہی کریں گے۔ یہ لوگ کون ہوں گے؟ علماء؟ ان علماء کو کیسے منتخب کیا جائے گا؟ کیا ایران کی طرح کی theocracy بنائیں گے؟

انسانوں کو گننا تو آسان ہے مگر تولیں کیسے؟ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ پانچ گہری نظر رکھنے والے کون ہیں؟ اور صحیح بھی ہیں یا نہیں؟
 

زیک

مسافر
اب بات سا موضوع پر چل ہی رہی ہے تو کیا آپ نے محمد اسد کی کتاب The Principles of State and Government in Islam پڑھی ہے؟
 

سیفی

محفلین
السلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زکریا بھائی۔۔۔۔۔میں درج ذیل بات کی پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔۔۔اگرچہ میں ایسی بات کیا نہیں کرتا ۔۔۔مبادا کسی کی دل آزاری ہو۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا وجہ ہے کہ ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ ، علمائے اسلام کی کتابوں کو وہ وقعت نہیں دیتا جو وہ انگریزی مصنفین کی کتابوں کو دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر بات فراوانئ علم اور وسعتِ نظر کی ہے تو کیا میڈیکل کے طلباء ایک الیکٹرانکس انجینئر کی خالص میڈیکل پر لکھی کتاب پر اعتبار کریں گے۔۔۔۔

کیا وجہ ہے کہ ہم پوری زندگی علم کی تحصیل میں گزار دینے والوں کی بات کو اہمیت نہیں دیتے اور کچھ سال کسی اخبار میں کالم لکھنے والوں اور مدیروں کی بات معتبر سمجھتے ہیں۔۔۔۔

اگر بات یہ ہے کہ علماء کے قول و فعل میں تضاد ہے تو یہ بات تو ان مصنفین پر بھی لاگو ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔تو کیا وجہ ہے کہ ہم علماء کے قول کو تو رد کر دیں اور ان مصنفین کی باتیں من و عن مان لیں۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری بات سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں۔۔۔۔تاہم اگر کوئی میری بات کا مدلل جواب دے دے تو میرا شکوہ دور ہو جائے گا۔۔۔۔۔
 

زیک

مسافر
کیا محمد اسد کو آپ عالم نہیں مانتے؟ اور بھی کئی حوالے دیئے جا سکتے ہیں مگر یہ یاد تھا باقیوں کے لئے لائبریری چھاننی پڑے گی۔

اور اگر علماء پر اعتبار کی بات ہے حکومت کے سلسلے میں تو کیا آپ ولایتِ فقیہہ کو مانتے ہیں؟ یہ مان بھی لیں کہ علماء شریعت کے مطابق فیصلہ دیں گے تو یہ کون فیصلہ کرے گا کہ کون سے علماء اس مجلس یا کمیٹی یا باڈی کے رکن ہوں گے جو حکومتی فیصلے کرے؟ پھر کیا سپاہ صحابہ جیسے مشٹنڈے بھی علماء میں شامل ہوں گے؟ شیعہ سنی دیوبندی بریلوی کے اختلافات حکومتی سطح پر کیسے طے ہوں گے؟

سچی بات یہ ہے کہ مجھے آپ کا سوال سمجھ ہی نہیں آیا۔ مجھے میری پچھلی تحریروں سے اس کا تعلق نظر نہیں آ رہا۔ اس لئے کچھ ادھر ادھر کی مار رہا ہوں۔ اگر آپ وضاحت کر دیں تو بہتر ہو گا۔
 

سیفی

محفلین
سلام زکریا بھائی۔۔۔۔

پہلے تو ایک درخواست ہے کہ آپ سپاہِ صحابہ یا کسی اور مذہبی جماعت کے بارے میں سخت ریمارکس نہ دیں۔۔۔۔ہماری اس محفل میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اسطرح انکی دل آزاری ہو گی۔۔۔۔۔ملاحظہ فرمائیے


http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=674&postorder=asc&highlight=سپاہ

یہ url انسرٹ آپشن صحیح کام نہیں کر رہا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک رہا سنی دیوبندی بریلوی اختلاف کا۔۔۔۔۔۔۔تو میرے محدود علم کے مطابق ان کے درمیان اختلافات فروعی ہیں۔۔۔۔۔۔مثلا اولیٰ یا غیر اولیٰ کا۔۔۔۔یا پھر عقیدہ پر کچھ اختلاف۔۔۔۔کہ بزرگانِ دین موت کے بعد زندہ ہیں یا نہیں۔۔۔۔یا اسطرح کچھ اور۔۔۔۔

اسلام کی نصوص اور اسلامی حکومت کے مسائل پر ان کے اختلافات نہ ہونے کے برابر ہیں۔۔۔۔۔۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایکدفعہ کسی سابقہ حکومت میں یہی بات سامنے آئی تو مختلف مکاتبِ فکر کے علماء نے مل کر ایک مسودہ اسلامی حکومت کے احکام کا پیش کیا تھا جس پر کسی کو کوئی اختلاف نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔

میرے دفتر میں ایک اہلِ تشیع ساتھی ہیں ۔۔۔۔۔اپنے مسلک میں بڑے پڑھے لکھے ہیں۔۔۔ان سے میں نے پوچھا تھا کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ کم از کم شیعہ اور سنی کا حکومتی احکام میں اختلاف ہے تو کسطرح اس دور میں اسلامی حکومت کی نشاہ ثانیہ ممکن ہے۔۔۔۔۔انھوں نے جواب دیا تھا کہ ایران میں اہلِ تشیع کی اکثریت ہے اس لئے وہاں کا عام قانون اہلِ تشیع مسلک کے مطابق ہو گا۔۔۔۔اور سنی عوام کے اختلافی فیصلے ان کے عقائد کے مطابق ہوں گے۔۔۔۔۔

اسیطرح پاکستان میں سنی مسلک کے مطابق قانون نافذ کر دیا جائے اور اہلِ تشیع عوام کے لئے اختلافی مسائل ان کے مسلک کے مطابق کئے جائیں۔۔۔۔۔

بعینہ یہی قانون تمام دنیا میں لاگو کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔اور میرے ناقص علم کے مطابق ان دو بڑے مسالک کے علاوہ باقی جو فروعی اختلافات ہیں وہ عقائد یا اعمال کی افضلیت کے ہیں۔۔۔۔۔۔۔تاہم فریقین کے مسلک کا لحاظ کرتے ہوئے اسلامی حکومت کے اندر انتظامی امور نمٹائے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیفہ اسلام کے چناؤ کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئے۔۔۔۔۔اہلِ تشیع تو ولایتِ فقیہہ کے قائل ہیں تو شیعہ اکثریتی علاقوں میں تو اسکا اختلاف ہی نہیں رہتا۔۔۔۔۔میرے خیال میں ایران میں اسکا کامیاب تجربہ امام خمینی کی حکومت کی صورت کیا جاچکا ہے۔۔۔۔
اور اہلِ سنت کے پاس بھی خلیفہ کے چناؤ کے رہنما اصول موجود ہیں۔۔۔ مجھےاب یاد نہیں پڑتا لیکن میں نے کہیں پڑھا تھا کہ گیارہ اصول ہونے چاہئیں ایک خلیفہ کے اندر۔۔۔شاید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات اور کہ میں اپنی نالائقی اور کم قوتِ بیانیہ کی وجہ سے اگر کوئی بات صحیح بیان نہ کر پاؤں تو اس سے یہ اخذ نہ کریں کہ اسلامی تعلیمات میں کوئی نقص ہے۔۔۔میرا علم (بلکہ معلومات۔۔) بہت بہت کم ہے۔۔۔

وما علینا الا البلاغ۔۔۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مجھے مجبوراً اس تھریڈ میں واپس آنا پڑ رہا ہے اور میں جلدی ہی اس سے نکل جاتا ہوں۔ سیفی بھائی زکریا نے کب اسلامی تعلیمات میں کوئی نقص نکالا ہے۔ وہ اپنے بلاگ پر دینی معاملات پر بہت مطالعے کے بعد لکھتے ہیں۔ آپ ایران میں اسلامی حکومت کے تجربے کو کامیاب سمجھتے ہیں؟ مجھے خود کچھ دن ایران رہنے کا اتفاق ہوا ہے اور کئی ایرانیوں کو جانتا ہوں اور اسی لیے جانتا ہوں کہ وہاں کے عوام اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ دوسرے کیا آپ واقعی سپاہ صحابہ کو مذہبی جماعت سمجھتے ہیں یا اس سے کے لیے نرم جذبات رکھتے ہیں؟

یہ تھریڈ الطاف کا شروع کیا ہوا تھا، ملبہ اس کا سیفی کے سر پڑ گیا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم
بہت نازک موضوع ہے، مگر اتنا ہی اہم بھی۔
اگر اس سوال کا صحیح جواب ڈھونڈ لیا گیا، تو لگتا ہے کہ اُس دن امت مسلمہ دنیا پر چھا جائے گی اور پوری دنیا میں عدل و انصاف بھر جائے گا۔

آپ لوگ اس موضوع کو جاری رکھیں، اور اگر ہو سکے تو ان سوالات کا بھی جواب دیتے جائیں۔

1۔ اللہ نے کھل کر شریعت کے اصول و قوانین بتا دیے۔ کیا وجہ ہے کہ رسول ص نے کھل کر کبھی اسلام کا نظام حکومت نہیں بیان فرمایا۔
یعنی خلیفہ کا انتخاب کیسے ہو گا۔

میں نے تاریخ کو پڑھنے کی کوشش کی تو مجھے یہ حقائق نظر آئے

۔ خلافت پر پہلا اختلاف مجھے سقیفہ بنی ساعدہ میں نظر آیا جہاں انصار جمع ہو گئے تھے اور بغیر مہاجرین کے مشورے کے اپنا خلیفہ مقرر کرنا چاہتے تھے۔

- حضرت ابو بکر ر کی خلافت پر وہ اُس وقت متفق ہوئے جب انہوں نے رسول ص کی اس حدیث کا حوالہ دیا کہ میری امت میں 12 خلفا ہوں گے جن کا تعلق قریش سے ہو گا۔

مجھے ابھی تک ان خلفا کی قریشی ہونے کی لوجک نہیں سمجھ آ سکی۔

بہرحال آگے چلتے ہیں۔


2۔ حضرت عمر ر کو نام لے کر مقرر کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ جب رسول ص نے نام لے کر حضرت ابو بکر کو نہیں نامزد کیا، بلکہ یہ معاملہ امت کے لیے کھلا رکھا، تو پھر کیا حضرت ابو بکر نے رسول کی سنت کی خلاف ورزی کی

نوٹ: کچھ حضرات نے اس کا جواب یہ دیا کہ حضرت عمر امت کے لیے بہترین شخص تھے اس لیے حضرت ابو بکر نے انہیں نامزد کیا۔

میرا اُن حضرات سے سوال یہ ہے کہ حضرت ابو بکر تو حضرت عمر سے بھی امت کے لیے بہترین شخص تھے، تو پھر رسول ص نے انہیں کیوں نام لے کر نامزد نہیں کیا۔


3۔ حضرت عثمان ر کی خلافت کے لیے ایک کمیٹی بٹھائی گئی۔
سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عمر اس کمیٹی کے ارکان نامزد کیے بغیر ہی شہید ہو جاتے تو پھر اس کمیٹی یا اگلے خلیفہ کا کیا ہوتا


4۔ علی ابن ابی طالب کی خلافت جیسے منعقد ہوئی، اس کا سبھی کو علم ہے۔
اور اُن کی خلافت میں جو فتنے امت نے دیکھے وہ بھی سبھی جانتے ہیں۔

5۔ پھر اموی خاندان برسر اقتدار آ جاتا ہے اور صحابہ اور تابعین اُن کی بیعت کرتے ہیں اور جانشینی کا نظام شروع ہو جاتا ہے۔

چنانچہ پلٹ کر میں اپنے اصل سوال کی طرف آتی ہوں کہ اسلام نے شریعت کا ایک ایک اصول دے دیا مگر کیا وجہ ہے کہ شریعت رسول کے جانشین کے بارے میں کوئی اصول نہیں دیتی
اس اصول کی عدم موجودگی سے جو اختلافات سقیفہ بنی ساعدہ سے شروع ہوئے، وہ آج تک مجھے امت مسلمہ کا پیچھا کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔


میرا یہ سوال سیفی بھائی کی خدمت میں جاتا ہے۔


آگے ایک مشاہدہ بیان کرنا چاہتی ہوں۔

نظام چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو، اگر افراد اُس سے وفادار نہیں، تو وہ نظام کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

اور اس ناکامی کا الزام نہ اُس نظام پر جاتا ہے، اور نہ اُس کے چلانے والوں پر۔ بلکہ افراد خود اس کے ذمہ دار ہیں۔

مثال کے طور پر موسی کلیم اللہ جب طور پر گئے تو ہارون کو پیچھے چھوڑ گئے۔ انہوں نے نظام تو اللہ کا ہی نافذ رکھا، مگر پھر بھی لوگ بہک گئے اور بربادی میں پڑ گئے۔ اب اس کا الزام نہ نبی پر ہے اور نہ نظام پر، بلکہ لوگوں پر خود ہے

اسی طرح کئی انبیا کو اُن کی قوموں نے قتل تک کر دیا۔

میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر لوگ خلافت میں بہکے تو اُس کا الزام نظام کو نہیں دیا جائے ، جیسا کہ خارجی لوگ علی ابن ابی طالب کی خلافت میں بہکے۔

یہی اصول ہمیں ہر نظام پر عائد کرنے ہوں گے، چاہے وہ سعودی ہو یا ایران، یا پھر طالبان کا افغانستان۔

یعنی اگر آپ کو نظام میں کوئی خرابی نظر آتی ہے تو وہ قابل گرفت ہے مگر اُس نظام کے اچھے یا بُرے ہونے کا معیار اگر لوگوں کو قرار دے دیا جائے تو یہ ناانصافی ہو گی۔

والسلام۔
 

دوست

محفلین
ایران میں اسلامی حکومت۔ ہر کسی کا اپنا خیال ہے مگر اس سلسلے میں کئی لوگوں کے تحفظات سنے ہیں میں نے مثلًا سنیوں کو وہاں مساجد بنانے کی آزادی نہیں وہ اس پر شکوہ کناں ہیں۔
بذات خود وہاں کے شیعہ عوام بھی بعض اوقات حکومت سے نالاں ہیں وجہ حد سے زیادہ سختی ہے جیسے ملک کمیونسٹ ہو۔
مہوش کی بات سے میں اتفاق کرتا ہوں مسئلہ کسی ایک نظام حکومت کو اپنا کر اس پر مسلسل اچھے طریقے سے چلنے کا ہے۔ جہاں تک بات قوانین کی ہے یہ سب فقہ ہے یعنی اخذ کیا ہوا۔ کیا اچھا نہیں کہ ہم حکومتی سطح پر اس کام کو کریں یعنی جس میں سب کی ہاں ہو۔جیسے یہاں پاکستان میں کتنے قوانین ہیں جو خالص اسلامی ہیں یا میرے خیال میں عین فقہ کے مطابق۔
زمانے کے ساتھ قوانین کو بدلنا پڑتا ہے۔اجتہاد،اجماع اس سب کی ہمیں اجازت دی گئی ہے۔ چناچہ اس سب کے لیے قرآن و حدیث سے براہ راست استفادہ کیا جائے۔ فقہ کے چکر میں پڑ کر اسی کو اسلام سمجھ لینا درست نہیں۔
 

زیک

مسافر
سیفی دو باتیں:

جب تک سپاہ صحابہ اہل تشیع سے برا سلوک کریں گے میں ان کی برائی سے باز نہیں آؤں گا۔

تمام شیعہ کا ولایت فقیہہ پر اتفاق نہیں ہے۔ یہ خمینی کی اختراع ہے۔ زیادہ تر شیعہ علماء اس کو نہیں مانتے۔

مہوش آپ امامت کے بارے میں شیعہ مسلک کو نظرانداز کر رہی ہیں۔
 

سیفی

محفلین
السلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گفتگو بڑے نازک موڑ پر ہے۔۔۔اگر حاضرینِ محفل کشادہ دلی کا رویہ جاری رکھیں گے تو انشاء اللہ اس فورم کو مقفل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی نبیل بھیا کو۔۔۔۔ :)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبیل بھیا:
میرے سمجھنے یا نرم گوشہ رکھنے کی بات نہیں۔۔۔۔میں نے جو لنک دیا تھا اسکے آخری پیغامات میں آپ ہمارے معزز اراکینِ محفل کے خیالات دیکھ سکتے ہیں۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ نئے آنے والے ساتھی اس وجہ سے محفل چھوڑ جائیں کہ یہاں ان کے مذہبی خیالات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔۔۔۔

دوسری بات کہ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ بھائی زکریا کسی اسلامی بات میں نقص نکالتے ہیں۔۔۔۔۔میرے کہنے کا مطلب عام تھا کہ کوئی صاحب کسی مسئلے بارے جواب نہ ملنے سے یہ نہ سمجھیں کہ اسلام میں اس مسئلے کا جواب ہی نہیں۔۔۔۔بلکہ اپنے طور پر تلاش کر لیں۔۔۔۔۔میری معلومات ناقص ہیں۔۔۔۔جیسے اب مہوش بی بی کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات کے لئے تھوڑی سی “پیہ“ کاٹنی پڑے گی مجھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہوش۔۔۔۔۔
آپکی باتیں واقعی وزنی ہیں اور انکے جواب بھی مدلل ہونے چاہیئں۔۔ کیا آپ مجھے کچھ وقت دیں گی کہ میں اسکا تفصیلی جواب دے سکوں۔۔۔۔دراصل شیطان نے مجھے دنیاوی دھندوں میں کچھ ایسے الجھا لیا ہے کہ دین کی خدمت بڑی بعید ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔ اللہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو دین کے لئے قبول کرے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زکریا بھائی۔۔۔
آپ کا اختلاف کسی جماعت سے بجا ہو سکتا ہے۔۔۔میں کسی کی وکالت نہیں کرتا مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ اس محفل میں ہر طبقہِ فکر کے لوگ ہیں۔۔۔۔کیا ہمیں انکے جذبات کا خیال نہیں کرنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

دوسری بات:

میں نے جو بات شروع کی تھی وہ یہ تھا کہ امت کے ہر مسلک کے پاس حکومتِ اسلامیہ کے قیام کے خدوخال موجود ہیں۔۔۔مجھے امام خمینی کے نظامِ حکومت کی خوبیوں اور خامیوں کا پتہ نہیں اور نہ مجھے سعودی حکومت یا طالبان کی حکومت دیکھنے کا موقع ملا ہے۔۔۔۔۔۔میں صرف یہ کہہ رہا تھا کہ یہ بات درست نہیں کہ اسلام کے اندر حکومت کا کوئی خاکہ نہیں۔۔۔اور حکومت کے قیام کے سلسلے میں تمام اختیارات انسانوں پر چھوڑ دیئے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

قطع نظر اس کے کہ کسی کی قائم کردہ اسلامی حکومت کتنا اسلامی اصولوں پر چلتی ہے اور کتنا لوگ اس سے مطمئن ہیں۔۔۔۔۔یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ اسلام کے اندر ایک اسلامی حکومت کے خدوخال اور خاکہ موجود ہے۔۔۔اب کوئی اور مسلک اس سے اختلاف کرتا ہے تو یہ الگ بات ہے۔۔۔۔میں صرف اس بات پر زور دے رہا تھا۔۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم سیفی بھائی۔

میرے خیال میں اب یہ فورم کچھ پختگی کی طرف گامزن ہے اور شاید یہ اس گفتگو کا بوجھ سہار جائے۔ یہ علمی موضوع ہے اس پر گفتگو شائستگی اور علمیت کے اصولوں کی حدود میں رہتے ہوئے جاری رہنی چاہیے۔ علمی گفتگو کے جاری رہنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دے کر آگے بڑھا جائے۔

سیفی بھائی اگرچہ ہم ہر ایک کو یہاں گرم جوشی سے خوش آمدید کہتے ہیں لیکن فرقہ واریت اور دہشت گردی کی پرچار تنظیموں کے ذکر پر خاموشی میرے خیال میں مناسب نہیں ہے۔ آپ کو اگر موقعہ ملے تو پنجاب کے سابق آئی جی چوہدری سردار محمد کی کتاب جہان حیرت کا مطالعہ فرمائیں۔ اس کے ایک باب میں وہ اس دور کا ذکر کرتے ہیں جب جھنگ میں مذہبی غنڈہ گردی اور فرقہ واریت کی مافیا کا راج تھا۔ ان لوگوں کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ ان کی سرپرستی میں جھنگ میں کھلے عام قحبہ گری ہورہی تھی اور جوئے خانے کھلے ہوئے تھے۔ میرے خیال میں ایسی دہشت گرد تنظیموں کو جنہوں نے مخالف فرقے کے مساجد پر خود کش دھماکوں کی روایت ڈالی ہو مذہبی قرار دینا اور ان کے متعلق اپنے جذبات پوشیدہ رکھنا ضروری نہیں ہے۔ میں کسی صاحب کو ان (کالعدم) تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھنے سے منع نہیں کر سکتا لیکن یہ توقع بھی نہیں رکھی جا سکتی کہ ان کی آراء پر خاموشی اختیار کی جائے گی۔

مہوش علی نے اپنی پوسٹ میں کئی نکات اٹھائے ہیں اور زکریا نے بھی علامہ اسد کی کتاب کا ذکر کیا ہے۔ میری بھی گزارش تھی کہ حالیہ دور میں اسلام کے نام پر قائم تھیاکریٹک حکومتوں کا بھی کچھ تجزیہ کیا جائے۔

کسی ملک کی حکومت کا کام ملک کا نظم و نسق سنبھالنا اور اس کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں تشکیل دینا ہے۔ یہ کام کبھی بھی آسان نہیں تھا اور آج کے پرپیچ دور میں بہت مشکل بھی ہے۔ اس کے لیے تجربہ کار اور competent لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ اسلامی اصولوں سے رہنمائی لے سکتی ہے۔ میری دانست میں کسی ایک مسلک کے مذہب کو پبلک لاء قرار دینا قرین انصاف نہیں ہے۔
 

زیک

مسافر
سیفی سپاہ صحابہ پر نبیل نے جو کہا ہے وہی میری طرف سے سمجھیں۔

اسلام میں حکومت کا خاکہ کچھ پراگندہ سا لگتا ہے۔ (اسلام سے یہاں میری مراد مسلمانوں کی تاریخ اور مسلم علماء اور دانشوروں کی تحریریں ہیں۔) (پراگندہ شاید میں غلط استعمال کر رہا ہوں، منتشر شاید بہتر رہے۔) مہوش کے سوال اس سلسلے میں اہم ہیں۔

کچھ لوگوں نے اس بارے میں غوروخوض کیا ہے اور لکھا بھی ہے۔ اسی لئے میں نے محمد اسد کا ذکر کیا تھا۔ اسد کا خیال ہے کہ اسلام کا نظام حکومت جمہوریت ہی پر مبنی ہے۔

ہمیں تاریخ بھی دیکھنی ہے مگر موجودہ زمانے کا خیال بھی رکھنا ہے۔ مثال کے طور پر پرانے فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ حاکم قریش سے ہو تو بہتر ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو عرب ضرور ہو۔ کیا یہ بات آپ کو مناسب لگتی ہے؟ اسی طرح کئی فقہاء نے کہا کہ جب تک حکمران مسلمان ہو تو اس کا حکم مانو چاہے وہ جابر ہو۔ یہ بھی عجیب ہے کہ نہیں؟ اس کی وجہ اس زمانے کے ظالم حکمران اور خانہ جنگی اور فساد کا ڈر تھا۔

موجودہ زمانے میں ایک طرف ڈاکٹر فضل الرحمان، محمد اسد، محمد عبدہ وغیرہ ہیں اور دوسری طرف طالبان، سعودی حکومت، ایران کا نظام وغیرہ۔ ہمیں ان سے کیا سیکھنا ہے اور کیسے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔
 

دوست

محفلین
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے سے گفتگو کا آغاز کر رہا ہوں
آداب
بات جو میری سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ کوئی نظام حکومت ہو جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ مسلک کے پیچھے اتنا نہ پڑیں اسلام کی روح یہ مسلک نہیں۔ اسلام ان سب سے اعلٰی ہے۔ جہاں تک بات سپاہ صحابہ اور تحریک جعفریہ کی ہے تو آپ کی بات درست ہے ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا ان لوگوں نے حکومت کے اندر حکومت قائم کر رکھی تھی بہرحال اب تو کافی بچت ہے۔
بات حکومت کی ہو رہی تھی جمہوریت میرے خیال میں اس کا حل ہے۔
مگر حاکم وہ شخص بنے جو اس کا اہل ہو۔ ایک ایسا ادارہ جو صرف اس کام کے لیے موجود ہو جس کی سند کے بغیر کسی کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہو۔ مومودہ پولیٹٰکل سائنس کے نصاب میں مناسب ترامیم کرکے بھی بات بن سکتی ہے۔
مگر یہ کرنا ہی ہوگا حکومت کوئی بچوں کا کھیل نہیں اس کے لیے سیشلائزڈ لوگ ہونے ضروری ہیں یہاں یا تو باد شاہت ہے یا جو اٹھتا ہے ڈنڈے کے زور پر حکومت کرنے لگتا ہے۔
اور سیاست کا نصاب خالصتا اسلام کے اصولوں پر مرتب کیا جائے فارغ التحصیل لوگ سچے مسلمان ہوں مسلک سے ماورا سب کے لیے یکساں قابل قبول۔
ً
 

زیک

مسافر
دوست نے کہا:
ایک ایسا ادارہ جو صرف اس کام کے لیے موجود ہو جس کی سند کے بغیر کسی کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہو۔

اس ادارے کو ایران میں Council of Guardians کہتے ہیں اور اس نے بہت مسائل پیدا کئے ہیں۔
 

دوست

محفلین
کونسل آف گارڈین میرے خیال میں ایران میں صرف اس لیے قائم کی گئی ہےکہ آزادی اظہار کو دبایا جائے۔ خبروں اور تجزیوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہاں کیا صورت حال ہے۔ دوسرے ان کے معیار کے مطابق سچا مسلمان وہ ہے جس نے تشیع فقہ کی تعلیم حاصل کی ہو(اگر میں غلط ہوں تو درست کر دیجیے گا) اصل میں اس ادارے کو قدامت پرست اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
بات ایک اجتماعی تبدیلی لانے کی ہے جسے سب قبول کریں۔
یہ تب کی بات ہے جب انقلاب آیا تھا سارے عوام ان کے ساتھ تھے آج کوئی بھی بڑی آسانی سے یہ کہہ سکتا ہے کہ عوام کی ایک مناسب تعداد مولویوں کے خلاف ہے۔ جن کے خیال میں حکومت صرف ان کا حق ہے۔
بہرحال میں نے اس سب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی تھی پولیٹیکل سائنس بھی ہماری ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے دوسرے میں نے ایک تعلیمی ادارے کے قیام کی تجویز دی تھی جو ڈگری جاری کرے اور جس کی بنیاد پر الیکشن کمیشن امیدوار کے بارے فیصلہ کرے۔
 

نعمان

محفلین
میرے ذہن میں بھی چند سوال ہیں وہ یہ کہ جو صاحبان خلافت یا شرعی حکومت کی بات کر رہے ہیں ان کے خیال میں اسلامی مملکت میں اظہار رائے کی آزادی کی کیا ضمانت ہوگی؟ کیا ایسی کسی اسلامی مملکت میں اقلیتوں، خواتین اور دیگر گروہوں کے لئیے برابری کے قوانین ہونگے؟ کیا پاکستان میں موجود ہندو اور عیسائی بھی خلیفہ یا امیر کے انتخاب میں اسی طرح حصہ لے سکیں گے جیسے مسلمان؟ کیا دیگر مذاہب کے مردوں کو اسلامی قانون کے تحت ایک سے زائد بیویاں بیک وقت رکھنے کی اجازت ہوگی؟ کیا انہیں مذہبی آزادی حاصل ہوگی؟ کیا ایک غیر مسلم شخص اپنی قابلیت کی بنا پر ریاست کا امیر بن سکے گا؟ کیا ہم جنس پرستوں کو قتل کردیا جائے گا؟ خواتین کے پردے کا کیا ہوگا اور غیر مسلم خواتین کا کیا ہوگا۔ ایسی کسی ریاست میں مذہبی رواداری کو کس طرح برقرار رکھا جائے گا؟ کیا چوروں کے ہاتھ اور ہیروئن فروشوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں گی؟
 

دوست

محفلین
دیکھیں جی جمہوریت اس وقت بھی تھی جب خلافت راشدہ کا دور تھا تب ہی ایک عام آدمی نے اٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ سے چادر سے لباس بنانے کےبارے میں سوال کر لیا تھا اور اس کی تسلی بھی کی گئی۔
آج کے دور میں خلافت کی ڈگڈگی بجاتے رہنے کی پتہ نہیں کیا تک ہے جمہوریت ایک طرز حکومت جب موجود ہے اس میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
اقلیتوں کے جائز حقوق انھیں ضرور ملنے چاہیں یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے۔ مگر آپ کی بات کہ ہم جنس پرستی،اور ہیروئن فروشوں کے سر قلم یہ وہ۔
دیانتداری سے کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے(میری مراد ہم جنس پرستی سے ہے اور اس بات کی اجازت کسی بھی الہامی مذہب میں نہیں)؟؟
نہیں دیتا مگر اقلییتیں تو مسلم نہیں ہونگی مگر بات یہ ہے کہ اسلامی ریاست جہاں اقلیتوں کے حقوق کی محافظ ہے وہاں یہ بھی تو دیکھیں اسے برائی روکنے اور نیکی کا حکم دینے کا فرمایا گیاہے۔
یہ اخلاقی برائیاں جو اگر اقلیتوں کے لیے جائز قرار دے دی گئیں تو کل کلاں کو مسلم رعایا کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے چناچہ اسلامی ریاست کتنی بھی لبرل ہو اور حقوق کی محافظ بھی مگر بات جائز ناجائز کی آجاتی ہے بے شک ان کی نظر میں یہ ناجائز ہو گا مگر حکومت کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہے۔
یہاں تو یہ جدید معاشرے جائز حقوق دیتے کتراتے ہیں فرانس کی مثال آپ کے سامنے ہے وہاں مسلمان بچیوں کو حجاب لینے کی اجازت نہیں۔
مسلم خواتین کا پردہ ایک متنازعہ موضوع ہے۔ یہ ہونا چاہیے یا نہیں آپ اور میں سب جانتے ہیں کہ پردے کا حکم ہے جب ہے تو پھر ہے اگر مگر کی گنجائش نہیں ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ پردہ کتنا ہو وغیرہ۔
ایک نظریاتی اسلامی ریاست جیسے پاکستان میں غیر مسلم امیر نہیں منتخب ہو سکتا کیونکہ یہ آئین میں لکھا جا چکا ہے اس کی تو بحث ہی نہیں۔
رواداری کے لیے اتنا کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر اگر دیانت داری سے عمل کیا جائے تو کیا کیوں اور کیسے کا سوال ہی نہیں رہتا۔
خواتین کی برابری بھی ایک متنازعہ مسئلہ ہے ان کو اسلام نے جتنی عزت اور احترام دیا کسی اور مذہب نے نہیں دیا اگر آپ کے محل نظر آج کل کی“آزادی“ خواتین کی آزادی ہے تو پھر میرا نہیں خیال کہ اسلامی حکومت اس کی اجازت دے ہاں خواتین کو کام کرنے کا حق ہونا چاہیے مگر کچھ حدود کے ساتھ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد جہاں چاہیں جو چاہیں کریں دندناتے پھریں دونوں کی حدود مقرر ہوں( جیسے خواتین اعلٰی تعلیم حاصل کریں مگر ان کی الگ یونیورسٹیاں ہوں)
سخت قسم کی سزائیں اس لیے وضع کی گئی تھیں کی عبرت حاصل ہو اگر اس کے بغیر کام چلتا ہے تو ہاتھ نہ کاٹیں سر قلم نہ کریں مگر ایسا نہیں ہوتا تو سیدھی سی بات ہے کہ سزا دیں تاکہ کوئی یہ کام کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔(سکینڈے نیویا کے بعض ممالک میں سزائے موت نہیں بلکہ مجرموں کو قید اور نفسیاتی طریقہ علاج سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے نتائج اچھے بھی ہیں اور برے بھی مجرم آرام سے جرم کر کے خود کو نفسیاتی مریض ثابت کرتے ہیں اور جیل میں عیش کرتے ہیں چناچہ اب ان کی حکومت بھی نالاں ہے)
ہم جن کی تقلید میں اتنا آزاد خیال بننے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اتنے بھی آزاد خیال نہیں۔
باقی ہر کسی کی اپنی رائے ہے کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت۔
وسلام
 
بات جمہوریت کی ہو یا شریعت کی دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔ فلاحِ عام، اگر جمہوریت سے حاصل ہو تو بھی ٹھیک ہے اور اگر شریعت سے تو بھی ٹھیک ہے۔ مقصد ہے کہ چور چور نہ کرپائے اور نوسرباز اپنے گھر میں رہے، اس مقصد کےلئے دونوں ہی طریق پوری سپوٹ کرتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ وہ قانون جس میں عوام کی فلاح نہ ہو بلکہ زندگی کےمعاملات مشکل ہوجائیں، اپنی موت آپ مرجاتا ہے، آپ سارے صاحبانِ شعور ہیں لہذا زیادہ مثالیں دینے کی ضرور نہین ہے ۔ جمہوریت ہو یا شریعت فلاح کےلئے ہو اور اس پر عمل بھی ہو۔
 
Top