ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ؟

لالہ رخ

محفلین
یہاں ہم آج اس موضوع پہ بات کریں گے کہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اور غور طلب مسئلہ کون سا ہے؟ ہم میں سے اکثر ہی تو جانتے اور کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں مسائل بہت ہیں، یہ پاکستان ہے یہ ترقی نہیں کرسکتا؟ یہاں کچھ نہیں ہوسکتا وغیرہ وغیرہ!!!
تو آپ کے خیال میں ایسا کون سا مسئلہ ہے جو ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ یہ موضوع شروع کرنے کا۔

تمام اراکین محفل کو دعوت ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
میری رائے میں ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا غور طلب مسئلہ تعلیم ہے۔ وہ تعلیم جسے حاصل کر شعور حاصل ہو نہ کہ پڑھے لکھے جاہل ہی رہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اور غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ​
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اور غور طلب مسئلہ​
کیا ہے؟ :)
 

لالہ رخ

محفلین
میری رائے میں ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا غور طلب مسئلہ تعلیم ہے۔ وہ تعلیم جسے حاصل کر شعور حاصل ہو نہ کہ پڑھے لکھے جاہل ہی رہیں۔

تعلیم سے ہی ہر قوم و ملک نے ترقی پائی ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے ہم لوگوں کی تعلیم حاصل کرنے کی ترجیحات اور وجوہات نرالی ہیں۔ ہم میں سے اکثریت صرف اس لیے تعلیم حاصل کرتی ہے کہ اچھی نوکری مل جائے گی اور باقی آسائشات بھی ۔۔۔ اور حیرت کی بات ہے کہ جو پڑھے لکھے ہیں چند لوگ ان کی سوچ اور مزاج میں بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔
 

ساجد

محفلین
میں شمشاد بھائی سے متفق ہوں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم ہی ہے ۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں تعلیم کا تناسب بڑھ رہا ہے تو میں کس بنیاد پر یہ بات کہہ رہا ہوں اس کا جواب یہ ہے کہ مسئلہ تعلیم کا نہ ہونا نہیں بلکہ اس کا غیر سمت ہونا ہے۔ طبقاتی نظام تعلیم نے ہمارے معاشرے کی دھجیاں اڑا دی ہیں جس کی وجہ سے وہ تعلیم جس کا سب سے بڑا مقصد دستیاب وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرنا تھا وہ مسائل کی تخلیق کا سبب بن گئی ہے۔ غربت و لاقانونیت سے لے کر فرقہ بندی و ملکی معاشی بد حالی تک کے باقی سارے عوامل اسی کا نتیجہ ہیں۔
 

سید زبیر

محفلین
میرا خیال ہے ' عدل ' کی نا یابی نے اس قوم کو لا تعداد امراض کا شکار بنا دیا۔ عدل ؛ خاندان ، معاشرے اور ریاستی سطح پر بالکل ہی نا پید ہو چکا ہے ۔ عدل کا حصول سب سے اہم ہے
 

شمشاد

لائبریرین
بد اعتمادی، بے اعتمادی، عدل اور عدل کی نایابی، ان سب کی جڑ بھی تو تعلیم ہی ہے ناں۔ جب تک تعلیم اور وہ بھی صحیح تعلیم نہیں ہو گی، یہ ساری باتیں موجود ہی رہیں گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی جو اتری وہ "اقرا" سے شروع ہوئی۔ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم بھی ہے کہ مہد سے لحد تک علم حاصل کرو۔ اور پھر ایک نہیں کئی ایک احادیث ہیں علم حاصل کرنے کے بارے میں۔ ایک اور مشہور حدیث ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے (مطلب کے علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر کرنا پڑے)۔

تعلیم اور خاص کر لڑکیوں کو تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے۔
 

یوسف-2

محفلین
ہمارے معاشرے سے اگر ہماری مراد 'ہمارا پاکستان“ ہے تو۔۔۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود قرآن اور قرآنی تعلیمات سے بے بہرہ اور اس پر عملدرآمد سے محروم ہیں۔
اگر ہم اس دنیا میں ایک ”ترقی یافتہ، خوشحال اور پُر امن قوم“ بننا چاہتے ہیں تو ہمیں دو میں ایک کام لازماً کرنا پڑے گا۔
  1. یا تو اسلام اور مسلمان ہونے کا ”طوق“ اپنی گردن سے یکسر اتار پھینکیں :eek: :eek:
  2. یا اگر مسلمان ہونے کی شناخت کو ترک نہیں کرسکتے تو پھر قرآن اور حدیث کی تعلیمات کوانفرادی اور اجتماعی طور پر عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار ہوجائیں۔
موجودہ دوغلی پالیسی اور عملی منافقت برقرار رکھتے ہوئے ہم کبھی بھی ایک ”ترقی یافتہ، خوشحال اور پُر امن قوم“ نہیں بن سکتے۔ خواہ ہم ”کچھ“ بھی کرلیں۔:D
 

یوسف-2

محفلین
بد اعتمادی، بے اعتمادی، عدل اور عدل کی نایابی، ان سب کی جڑ بھی تو تعلیم ہی ہے ناں۔ جب تک تعلیم اور وہ بھی صحیح تعلیم نہیں ہو گی، یہ ساری باتیں موجود ہی رہیں گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی جو اتری وہ "اقرا" سے شروع ہوئی۔ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم بھی ہے کہ مہد سے لحد تک علم حاصل کرو۔ اور پھر ایک نہیں کئی ایک احادیث ہیں علم حاصل کرنے کے بارے میں۔ ایک اور مشہور حدیث ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے (مطلب کے علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر کرنا پڑے)۔

تعلیم اور خاص کر لڑکیوں کو تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے۔
ایک تحقیق کے مطابق یہ ایک عربی کہاوت ہے، حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔:)
 

سید زبیر

محفلین
بد اعتمادی، بے اعتمادی، عدل اور عدل کی نایابی، ان سب کی جڑ بھی تو تعلیم ہی ہے ناں۔ جب تک تعلیم اور وہ بھی صحیح تعلیم نہیں ہو گی، یہ ساری باتیں موجود ہی رہیں گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی جو اتری وہ "اقرا" سے شروع ہوئی۔ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم بھی ہے کہ مہد سے لحد تک علم حاصل کرو۔ اور پھر ایک نہیں کئی ایک احادیث ہیں علم حاصل کرنے کے بارے میں۔ ایک اور مشہور حدیث ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے (مطلب کے علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر کرنا پڑے)۔

تعلیم اور خاص کر لڑکیوں کو تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے۔
سر ! میں آپ کے جواب سو فیصد متفق ہوں ، مگر میرے خیال میں ہم تعلیم کے ساتھ بھی عدل نہیں کررہے ، پیشہ ورانہ تعلیم ضرور حاصل کرر ہے ہیں مگر جو تعلیم ہمیں زندگی کے آداب سکھائے وہ ہمارے ہاں ناپید ہے اور جو تعلیم حاصل کرتے ہیں اس کے ساتھ بھی عدل نہیں کرتے ، اس پر عمل نہیں کرتے ،
دوسرا نکتہ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کے متعلق ہے کہ باوجود بسیار کوشش ، مجھے اس حدیث کی سند نہ مل سکی ۔ اگر یہ حدیث مبارکہ ہے تو میرا ایمان ہے کہ چین کو بھی کبھی زوال نہیں ہوگا اور یہ تا قیامت علم کا مرکز رہے گا ۔ آقا ئے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک لفظ با مقصد ہوتا تھا ۔
جزاک اللہ بالخیر
 

لالہ رخ

محفلین
میرے نزدیک تو موجودہ صورتحاک؎ل کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا انفرادی رویہ جو ہے وہ تمام مسائل کو جنم دے رہا ہے ، تعلیم بلاشبہ سب سے بڑا اور اہم مسلہ ہے مگر جب تک ہم خود کو نہیں سدھاریں گے تب تک کچھ نہیں سدھر سکتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
محسن وقار علی بھائی سے متفق ہوتے ہوئے، میری نظر میں کم ظرفی ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جسے کافی ہلکا لیا جاتا ہے۔ یہاں جو شخص ہم سے کسی بھی لحاظ سے نسلی، لسانی یا مذہبی طور پر الگ ہو فوراً اُس کے بارے میں منفی تصور قائم کر لیا جاتا ہے اور بے مصرف نفرت شروع ہو جاتی ہے۔ اس کے سدِ باب لیے کوئی ایسا لائحہ عمل ضروری ہے جس سے ہم پاکستان کی کثیر الثقافتی اور کثیر المسالکی حیثیت کو قبول کرتے ہوئے مختلف لسانی اور مذہبی اکائیوں کے درمیان بھائی چارے اور باہمی احترام و محبت کو فروغ دے سکیں۔

ویسے کم ظرفی جہالت کی پیداوار تو کہی جا سکتی ہے۔ لیکن پڑھے لکھے لوگ ہی اس کم ظرفی کے مبلغ نظر آتے ہیں۔
 
Top