مہوش علی
لائبریرین
ہمدردی بھی انسانی نہیں‘ فرقہ وارانہ.....سویرے سویرے…نذیر ناجی
میرے ساتھی عطا الحق قاسمی کا تعلق‘ میری طرح ایک روایتی مذہبی خاندان سے ہے۔نسبت اور سوچ دونوں اعتبار سے ‘ ان کا جھکاؤ مذہبی سیاستدانوں کی طرف رہتا ہے۔ لیکن ان کے اندر کا پاکستانی شدید جذباتی ہے۔ جب بھی ملک و قوم کا سوال آتا ہے۔ وہ اپنی نسبت اور سوچ دونوں کو فراموش کر کے پاکستانیت کی رو میں بہہ نکلتے ہیں۔ ان دنوں ان کی یہی کیفیت ہے۔ گزشتہ روز مختلف مسالک فکر کے علمائے کرام نے جو علیحدہ علیحدہ کانفرنسیں منعقد کیں اور وہاں جو تقاریر ہوئیں‘ ان پر عطا بے حد رنجیدہ ہیں۔ وہ کہنے لگے ”یہ لوگ قومی امتحان کے آزمائشی لمحات میں بھی مسلکی اختلافات سے جان نہیں چھڑا سکے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ پاکستان کیسی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہے؟ اور یہ اپنی فرقہ بندی کی زنجیریں نہیں توڑ سکے۔“ میں اس کیفیت سے بہت پہلے گزر چکا ہوں۔ یہ بہت پہلے کا قصہ ہے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران‘جھنگ شہر میں مسجد اہلحدیث سے جلوس شروع ہوا کرتا تھا۔ سب لوگ وہیں نماز پڑھتے۔ چند لوگ ہی ایسے تھے ‘ جو فرقہ وارانہ تعصب کی بنا پر باہر سے نماز پڑھ کے آتے اور مسجد اہلحدیث پہنچ کر جلوس میں شامل ہوتے۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ جلوس میں ہرمکتبہ فکر کے لوگ تحفظ ختم نبوت کے حق میں مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتاریاں دیتے۔ طریقہ کار یہ تھا کہ تحریک کی طرف سے شہر میں جلوس منظم کرنے کے لئے ایک سالار نامزد ہوتا۔ اگلے روز وہ چار ساتھیوں کے ہمراہ تھانے کے سامنے پہنچ کر گرفتار ہو جاتا۔ اس کا جانشین پھر یہی عمل دوہراتا۔ ان تھک بھاگ دوڑ کی وجہ سے تحریک ختم نبوت کی مقامی کمیٹی نے مجھے کم عمری کے باوجود سالارنامزد کر دیا۔ شہر کے ایس ایچ او چودھری خوشی محمد‘ میرے والد مرحوم کے دوست تھے۔ میں اس رشتے کا فائدہ اٹھا کر گرفتاری کے وقت کھسک گیا اور اگلے دن پھر جلوس کے ساتھ نمودار ہو اور ایک کے بجائے پانچ دن تک جلوس منظم کئے۔ چھٹے روزچودھری صاحب پر انتظامیہ کا دباؤ بڑھا۔ انہوں نے ابا جی کو دوستی کا واسطہ دے کر مدد کے لئے کہا۔ اگلے روز میں نے روپوش ہونے کی بجائے گرفتاری دے دی۔
تحریک کی وجہ سے پنجاب کے تمام تھانوں میں سیفٹی ایکٹ دفعہ 3 کے تحت ‘ مجسٹریٹ کے دستخطوں والے وارنٹ بغیر نام کے تیار ہوا کرتے تھے۔ جیسے ہی کوئی گرفتاری ہوتی‘ اس کا نام لکھ کر ملزم کو براہ راست جیل بھیج دیا جاتا۔ اسے 90دنوں کے لئے نظربند کرنے کا حکم ہوتا تھا۔ جلوس کی قیادت کرنے والے ہر کارکن کو جیل میں بی کلاس دینے کا حکم ہوتا تھا۔ دیگر کئی شہروں کی طرح جھنگ جیل میں بھی یہ سہولت موجود نہیں تھی۔ مجھے جھنگ سے لائل پور بھیجا گیا۔ مگر چند ہی روز بعد حکم ہوا کہ پنجاب میں اے اور بی کلاس کے سارے قیدیوں کو کیمپ جیل لاہور منتقل کر دیا جائے۔ پنجاب بھر میں گرفتار ہونے والے قائدین کو کیمپ جیل میں جمع کر دیا گیا۔ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا نام مسٹر طور تھا۔ انہوں نے اپنی جیل میں جمع ہونے والے تمام نظربندوں کو یکجا بٹھا کر‘ جیل کے چند طور طریقے بتائے۔ اپنے حاضرین کے لئے عزت و احترام کے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ان کی سہولت کے لئے ہرطرح کی خدمات مہیا کر کے اپنے لئے ثواب دارین حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بقول مسٹر طور ‘ انہوں نے ثواب دارین حاصل کرنے کے لئے اپنے مہمانوں کو مطلوبہ برتن‘ باورچی اور مشقتی معقول تعداد میں فراہم کر دیئے۔ اس درجے کے قیدی کو راشن دینے کے لئے جتنی رقم منظورشدہ تھی‘ اس کا وہ کچا راشن منگوا دیتے۔ جس سے کھانا تیار کر کے کھلا دیا جاتا۔ تین دن اخوت اسلامی کا شاندار مظاہرہ ہوا اور چوتھے روز وہ کہانی شروع ہوئی‘ جس نے میری زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔
تین دن گزرنے کے بعد ایک اجتماعی مطالبہ آیا کہ سالن کے لئے خریدے جانے والے سامان کی فہرست ہم سے طلب کی جائے۔ چنانچہ دو نظربندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنی۔ وہ خریداری کی فہرست دینے لگی۔ دو دن یہ انتظام چل گیا۔ نیا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اے اور بی کلاس والے نظربندوں کے راشن میں فرق تھا۔ ان کے راشن علیحدہ کر دیئے گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد اکثریت نے اہلحدیث کے لئے علیحدہ کھانا تیار کرنے کا مطالبہ داغ دیا۔ایک مہینہ پورا ہونے سے پہلے پہلے سارے فرقے اپنے کچن علیحدہ کر چکے تھے۔ تقسیم یہیں پر نہیں رکی۔ کھانوں میں نجی پسندیدگی کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ہر ضلع کے نظربند اپنے اپنے فرقہ وارانہ کچن علیحدہ قائم کریں گے۔ جیل میں کل 300 کے قریب نظربند تھے۔ ان کے لئے 26 جگہ علیحدہ کھانے پکنے لگے۔ اسی دوران رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آ گیا۔ جماعت اسلامی کے ایک رہنما ملتان سے گرفتار ہو کر آئے تھے۔ ان کا نام محمد باقر تھا۔ وہ مولانا نہیں کہلواتے تھے۔ احتراماً ان کا نام انہی کی خواہش کے مطابق لکھ رہا ہوں۔ وہ جماعت اسلامی کے ابتدائی کارکنوں کی طرح انتہائی خوش اخلاق‘ شیریں کلام اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ انہی دنوں تفہیم القرآن کی پہلی جلد شائع ہو کر آئی۔ انہوں نے چار دن میں مطالعہ مکمل کرنے کے بعد یہ کتاب مجھے دے دی۔ پڑھ کر میرے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوتے‘ میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان پر بات چیت کرتا۔ وہ جیل کی صورتحال پر انتہائی غمزدہ تھے۔تنگ آ کر انہوں نے جیل انتظامیہ سے کہہ دیا کہ ان کا کھانا وہ جیل کے لنگر سے بھجوا دیا کریں۔ میں نے ان کا ساتھ دیا۔ رمضان المبارک میں 26 جگہ پکنے والے کھانوں پر مزید جھگڑے کھڑے ہو گئے۔ کوئی دودھ کا دہی تیار کرنے پر لڑتا اور کوئی دودھ کو براہ راست پی جانے پر مصر ہوتا۔ سالن کے ذائقوں پر جھگڑے ہوتے۔سالن کی تقسیم پر ہاتھا پائی بھی ہو جاتی اور کئی بار شمع رسالت کے پروانوں کو کڑچھوں کے ساتھ شمشیر زنی کرتے بھی دیکھا گیا۔ اس طرح کے مناظر باقر صاحب اور ان جیسے کئی سنجیدہ مزاج بزرگوں کو بہت تکلیف دیتے۔ جیل کا عملہ شکایات سنتے سنتے تنگ آ گیا تھا اور وہی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ مسٹر طور جو شمع رسالت کی خدمت کر کے ثواب کمانے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کے سامنے آ کر کہنے لگے کہ ”آپ لوگوں کے طوراطوار دیکھ کر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ شمع رسالت کے نہیں شمع رسالے کے پروانے ہیں۔“ یاد رہے ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان اخبارات و رسائل کی آمدورفت پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ تین ماہ کے بعد مزید ایک تین ماہ کی نظربندی کا حکم آیا۔ مگر اس نظربندی کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی عام رہائی کا حکم ہو گیا۔ میں جیل ہی سے نہیں‘ روایت پسندی اور مولویت سے بھی رہا ہو گیا۔
اس تجربے کے بعد میں نے جو کچھ پڑھا۔ ایک نئے نکتہ نظر کے تحت پڑھا اور وقت کے ساتھ ساتھ میرا یہ خیال پختہ ہوتا چلا گیا کہ مذہب کے نام پر سماجی اور سیاسی عمل کو انسانیت کے اجتماعی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانے میں خطرات پوشیدہ ہیں۔ بقول علامہ اقبال و رکعت“ کے اماموں کو قوموں کی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کی ذمہ داریاں نہیں دی جا سکتیں۔ جو لوگ چند روز کیلئے جیل میں رہ کر کھانوں کی تیاری پر اتفاق نہیں کر سکتے اور رمضان المبارک میں سحروافطارکے کھانوں کی تیاری اور تقسیم پر دست و گریبان ہوتے ہیں‘ وہ سماجی زندگی میں کیا نظم و ضبط پیدا کر سکتے ہیں؟ اور حکومتیں کیسے چلا سکتے ہیں؟جب بھی قومی امتحان کے کسی معاملے پر مذہبی سیاستدانوں کو فرقہ وارانہ نفرتوں میں مقید دیکھتا ہوں‘ تو مجھے نظربندی کے دوران دیکھے گئے وہی مناظر یاد آنے لگتے ہیں۔ عطا الحق قاسمی کو اس پر بہت دکھ ہوا کہ پاکستانی‘ پاکستانیوں کا خون بہا رہے ہیں۔ 10لاکھ سے زیادہ ہم وطن جو کہ مسلمان بھی ہیں‘ بال بچوں سمیت بے یارومددگار اور بے سروسامان پڑے ہیں۔ مگر ہمارے مذہبی سیاستدان ان کے ساتھ اپنے جذبہ ہمدردی کو بھی فرقوں میں تقسیم کر کے دیکھ رہے ہیں۔ جب تک انہیں امور مملکت و سیاست سے بے دخل کر کے ملک و قوم کے ساتھ محبت کو باہمی نفرتوں پر غالب آنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو گی ہم یہی کچھ کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے۔
نوٹ:- کل پیٹ کے ہرنیا کے آپریشن کے لئے‘ ہسپتال میں داخل ہو رہا ہوں۔ قارئین سے استدعا ہے کہ دعائے خیر فرمائیں۔
میرے ساتھی عطا الحق قاسمی کا تعلق‘ میری طرح ایک روایتی مذہبی خاندان سے ہے۔نسبت اور سوچ دونوں اعتبار سے ‘ ان کا جھکاؤ مذہبی سیاستدانوں کی طرف رہتا ہے۔ لیکن ان کے اندر کا پاکستانی شدید جذباتی ہے۔ جب بھی ملک و قوم کا سوال آتا ہے۔ وہ اپنی نسبت اور سوچ دونوں کو فراموش کر کے پاکستانیت کی رو میں بہہ نکلتے ہیں۔ ان دنوں ان کی یہی کیفیت ہے۔ گزشتہ روز مختلف مسالک فکر کے علمائے کرام نے جو علیحدہ علیحدہ کانفرنسیں منعقد کیں اور وہاں جو تقاریر ہوئیں‘ ان پر عطا بے حد رنجیدہ ہیں۔ وہ کہنے لگے ”یہ لوگ قومی امتحان کے آزمائشی لمحات میں بھی مسلکی اختلافات سے جان نہیں چھڑا سکے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ پاکستان کیسی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہے؟ اور یہ اپنی فرقہ بندی کی زنجیریں نہیں توڑ سکے۔“ میں اس کیفیت سے بہت پہلے گزر چکا ہوں۔ یہ بہت پہلے کا قصہ ہے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران‘جھنگ شہر میں مسجد اہلحدیث سے جلوس شروع ہوا کرتا تھا۔ سب لوگ وہیں نماز پڑھتے۔ چند لوگ ہی ایسے تھے ‘ جو فرقہ وارانہ تعصب کی بنا پر باہر سے نماز پڑھ کے آتے اور مسجد اہلحدیث پہنچ کر جلوس میں شامل ہوتے۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ جلوس میں ہرمکتبہ فکر کے لوگ تحفظ ختم نبوت کے حق میں مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتاریاں دیتے۔ طریقہ کار یہ تھا کہ تحریک کی طرف سے شہر میں جلوس منظم کرنے کے لئے ایک سالار نامزد ہوتا۔ اگلے روز وہ چار ساتھیوں کے ہمراہ تھانے کے سامنے پہنچ کر گرفتار ہو جاتا۔ اس کا جانشین پھر یہی عمل دوہراتا۔ ان تھک بھاگ دوڑ کی وجہ سے تحریک ختم نبوت کی مقامی کمیٹی نے مجھے کم عمری کے باوجود سالارنامزد کر دیا۔ شہر کے ایس ایچ او چودھری خوشی محمد‘ میرے والد مرحوم کے دوست تھے۔ میں اس رشتے کا فائدہ اٹھا کر گرفتاری کے وقت کھسک گیا اور اگلے دن پھر جلوس کے ساتھ نمودار ہو اور ایک کے بجائے پانچ دن تک جلوس منظم کئے۔ چھٹے روزچودھری صاحب پر انتظامیہ کا دباؤ بڑھا۔ انہوں نے ابا جی کو دوستی کا واسطہ دے کر مدد کے لئے کہا۔ اگلے روز میں نے روپوش ہونے کی بجائے گرفتاری دے دی۔
تحریک کی وجہ سے پنجاب کے تمام تھانوں میں سیفٹی ایکٹ دفعہ 3 کے تحت ‘ مجسٹریٹ کے دستخطوں والے وارنٹ بغیر نام کے تیار ہوا کرتے تھے۔ جیسے ہی کوئی گرفتاری ہوتی‘ اس کا نام لکھ کر ملزم کو براہ راست جیل بھیج دیا جاتا۔ اسے 90دنوں کے لئے نظربند کرنے کا حکم ہوتا تھا۔ جلوس کی قیادت کرنے والے ہر کارکن کو جیل میں بی کلاس دینے کا حکم ہوتا تھا۔ دیگر کئی شہروں کی طرح جھنگ جیل میں بھی یہ سہولت موجود نہیں تھی۔ مجھے جھنگ سے لائل پور بھیجا گیا۔ مگر چند ہی روز بعد حکم ہوا کہ پنجاب میں اے اور بی کلاس کے سارے قیدیوں کو کیمپ جیل لاہور منتقل کر دیا جائے۔ پنجاب بھر میں گرفتار ہونے والے قائدین کو کیمپ جیل میں جمع کر دیا گیا۔ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا نام مسٹر طور تھا۔ انہوں نے اپنی جیل میں جمع ہونے والے تمام نظربندوں کو یکجا بٹھا کر‘ جیل کے چند طور طریقے بتائے۔ اپنے حاضرین کے لئے عزت و احترام کے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ان کی سہولت کے لئے ہرطرح کی خدمات مہیا کر کے اپنے لئے ثواب دارین حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بقول مسٹر طور ‘ انہوں نے ثواب دارین حاصل کرنے کے لئے اپنے مہمانوں کو مطلوبہ برتن‘ باورچی اور مشقتی معقول تعداد میں فراہم کر دیئے۔ اس درجے کے قیدی کو راشن دینے کے لئے جتنی رقم منظورشدہ تھی‘ اس کا وہ کچا راشن منگوا دیتے۔ جس سے کھانا تیار کر کے کھلا دیا جاتا۔ تین دن اخوت اسلامی کا شاندار مظاہرہ ہوا اور چوتھے روز وہ کہانی شروع ہوئی‘ جس نے میری زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔
تین دن گزرنے کے بعد ایک اجتماعی مطالبہ آیا کہ سالن کے لئے خریدے جانے والے سامان کی فہرست ہم سے طلب کی جائے۔ چنانچہ دو نظربندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنی۔ وہ خریداری کی فہرست دینے لگی۔ دو دن یہ انتظام چل گیا۔ نیا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اے اور بی کلاس والے نظربندوں کے راشن میں فرق تھا۔ ان کے راشن علیحدہ کر دیئے گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد اکثریت نے اہلحدیث کے لئے علیحدہ کھانا تیار کرنے کا مطالبہ داغ دیا۔ایک مہینہ پورا ہونے سے پہلے پہلے سارے فرقے اپنے کچن علیحدہ کر چکے تھے۔ تقسیم یہیں پر نہیں رکی۔ کھانوں میں نجی پسندیدگی کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ہر ضلع کے نظربند اپنے اپنے فرقہ وارانہ کچن علیحدہ قائم کریں گے۔ جیل میں کل 300 کے قریب نظربند تھے۔ ان کے لئے 26 جگہ علیحدہ کھانے پکنے لگے۔ اسی دوران رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آ گیا۔ جماعت اسلامی کے ایک رہنما ملتان سے گرفتار ہو کر آئے تھے۔ ان کا نام محمد باقر تھا۔ وہ مولانا نہیں کہلواتے تھے۔ احتراماً ان کا نام انہی کی خواہش کے مطابق لکھ رہا ہوں۔ وہ جماعت اسلامی کے ابتدائی کارکنوں کی طرح انتہائی خوش اخلاق‘ شیریں کلام اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ انہی دنوں تفہیم القرآن کی پہلی جلد شائع ہو کر آئی۔ انہوں نے چار دن میں مطالعہ مکمل کرنے کے بعد یہ کتاب مجھے دے دی۔ پڑھ کر میرے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوتے‘ میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان پر بات چیت کرتا۔ وہ جیل کی صورتحال پر انتہائی غمزدہ تھے۔تنگ آ کر انہوں نے جیل انتظامیہ سے کہہ دیا کہ ان کا کھانا وہ جیل کے لنگر سے بھجوا دیا کریں۔ میں نے ان کا ساتھ دیا۔ رمضان المبارک میں 26 جگہ پکنے والے کھانوں پر مزید جھگڑے کھڑے ہو گئے۔ کوئی دودھ کا دہی تیار کرنے پر لڑتا اور کوئی دودھ کو براہ راست پی جانے پر مصر ہوتا۔ سالن کے ذائقوں پر جھگڑے ہوتے۔سالن کی تقسیم پر ہاتھا پائی بھی ہو جاتی اور کئی بار شمع رسالت کے پروانوں کو کڑچھوں کے ساتھ شمشیر زنی کرتے بھی دیکھا گیا۔ اس طرح کے مناظر باقر صاحب اور ان جیسے کئی سنجیدہ مزاج بزرگوں کو بہت تکلیف دیتے۔ جیل کا عملہ شکایات سنتے سنتے تنگ آ گیا تھا اور وہی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ مسٹر طور جو شمع رسالت کی خدمت کر کے ثواب کمانے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کے سامنے آ کر کہنے لگے کہ ”آپ لوگوں کے طوراطوار دیکھ کر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ شمع رسالت کے نہیں شمع رسالے کے پروانے ہیں۔“ یاد رہے ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان اخبارات و رسائل کی آمدورفت پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ تین ماہ کے بعد مزید ایک تین ماہ کی نظربندی کا حکم آیا۔ مگر اس نظربندی کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی عام رہائی کا حکم ہو گیا۔ میں جیل ہی سے نہیں‘ روایت پسندی اور مولویت سے بھی رہا ہو گیا۔
اس تجربے کے بعد میں نے جو کچھ پڑھا۔ ایک نئے نکتہ نظر کے تحت پڑھا اور وقت کے ساتھ ساتھ میرا یہ خیال پختہ ہوتا چلا گیا کہ مذہب کے نام پر سماجی اور سیاسی عمل کو انسانیت کے اجتماعی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانے میں خطرات پوشیدہ ہیں۔ بقول علامہ اقبال و رکعت“ کے اماموں کو قوموں کی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کی ذمہ داریاں نہیں دی جا سکتیں۔ جو لوگ چند روز کیلئے جیل میں رہ کر کھانوں کی تیاری پر اتفاق نہیں کر سکتے اور رمضان المبارک میں سحروافطارکے کھانوں کی تیاری اور تقسیم پر دست و گریبان ہوتے ہیں‘ وہ سماجی زندگی میں کیا نظم و ضبط پیدا کر سکتے ہیں؟ اور حکومتیں کیسے چلا سکتے ہیں؟جب بھی قومی امتحان کے کسی معاملے پر مذہبی سیاستدانوں کو فرقہ وارانہ نفرتوں میں مقید دیکھتا ہوں‘ تو مجھے نظربندی کے دوران دیکھے گئے وہی مناظر یاد آنے لگتے ہیں۔ عطا الحق قاسمی کو اس پر بہت دکھ ہوا کہ پاکستانی‘ پاکستانیوں کا خون بہا رہے ہیں۔ 10لاکھ سے زیادہ ہم وطن جو کہ مسلمان بھی ہیں‘ بال بچوں سمیت بے یارومددگار اور بے سروسامان پڑے ہیں۔ مگر ہمارے مذہبی سیاستدان ان کے ساتھ اپنے جذبہ ہمدردی کو بھی فرقوں میں تقسیم کر کے دیکھ رہے ہیں۔ جب تک انہیں امور مملکت و سیاست سے بے دخل کر کے ملک و قوم کے ساتھ محبت کو باہمی نفرتوں پر غالب آنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو گی ہم یہی کچھ کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے۔
نوٹ:- کل پیٹ کے ہرنیا کے آپریشن کے لئے‘ ہسپتال میں داخل ہو رہا ہوں۔ قارئین سے استدعا ہے کہ دعائے خیر فرمائیں۔