زبیر مرزا
محفلین
شام ڈھل چکی تھی اور رات کا سرمگیں تسلط جمنے لگا تھا۔ پرندے گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ ہوا ٹھہر گئی تھی، درخت خاموش تھے اور ندی کا پانی شانت۔
ندی سے ذرا ہٹ کر چراگاہ کے اس پار پیڑوں کے ایک چھوٹے سے جھنڈ میں جنگلی انجیر کے درخت کی ایک جھکی سی شاخ پر ایک بلبل سہما بیٹھا تھا۔ ارد گرد پھیلتی رات کی سیاہی تھی، خاموشی اور چھوٹے بڑے درختوں کے ہیولے۔
پاس سے اک جگنو گزرا۔ وہ ساتھ کے کھیت سے آیا تھا جہاں اس کے کئی ساتھی آندھی سے گرے کیکر کے ایک سوکھے درخت کی ٹہنیوں میں ٹمٹما رہے تھے۔ جگنو اپنی روانی میں بتی جلاتا ہوا بلبل کے پاس سے گزرا، سرسری سا بلبل کی طرف دیکھا اور آگے بڑھ گیا، پھر اچانک رکا، پلٹا اور آہستہ سے اڑتا ہوا اسی ٹہنی پر جا بیٹھا جس پر بلبل بیٹھا ہوا تھا۔
خیریت تو ہے، اس وقت یہاں؟ جگنو نے تعجب اور کسی قدر رعب سے پوچھا۔
ہاں خیرت ہے، وہ ذرا دیر ہو گئی ہے۔ بلبل نے ڈرا سا جواب دیا۔
اچھا اندھیرے سے گھبرا رہے ہو، ہوں! جگنو مسئلہ بھانپ کر بولا۔
ہاں جی وہ مجھے گھر جانا تھا اور رات ہو گئ ہے۔
تو اس میں منہ لٹکانے والی کون سی بات ہے؟ اُڑو اور گھر چلے جاؤ۔ جگنو نے چھیڑنے کے انداز میں کہا۔
جی چلا تو جاؤں لیکن اندھیرا بہت ہے اور مجھے کچھ دیکھائی نہیں دے رہا۔
ہوں!! تو تمہیں پہلے نہیں پتہ تھا کہ رات کو اندھیرا ہو جائے گا اور گھر جانے میں مشکل ہو گی۔ جگنو کو اپنے سے کہیں بڑے پرندے پر شکنجہ کسنے کا موقع ملا۔
جی! بس یوں ہی اڑتے چگتے دن گزر گیا۔ بلبل کسی قدر شرمندگی سے بولا۔
اس طرح تو ہوتا ہے نا اس طرح کے کاموں میں، لاپرواہی کا نتیجہ یوں ہی نکلا کرتا ہے، جو بوؤ گے کاٹنا تو پڑے گا، اب جو چنتا سے کملائے جا رہے ہو اگر شام سے پہلے ہی احساس کر لیا ہوتا تو اس وقت تم اپنے گھونسلے میں ہوتے۔ جگنو نے وعظ کا مزہ لیتے ہوئے لمبی سنائی۔
جی بجا فرماتے ہیں آپ مگر۔۔۔ بلبل کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
اب اگر مگر سے کیا ہو گا! سمجھدار پرندے صبح سویرے طے کر کے گھر سے نکلتے ہیں کہ دن کو کیا کچھ کرنا ہے، کدھر جانا ہے کدھر نہیں جانا، کب واپسی کا سفر شروع کر دینا ہے، اب بے اعتدالی اور لاپرواہی کا نتیجہ تو یہ ہی کچھ ہوتا ہے نا۔ جگنو نے عالمانہ انداز میں نصیحت کی۔
جی بالکل! اب میں کبھی لاپرواہی نہیں کروں گا۔
جب تک ٹھوکر نہ لگے عقل آتی کب ہے!! جگنو نے ڈانٹ کر کہا اور جانے کے لیے اڑا۔
وہ اگر آپ گھر جانے میں میری تھوڑی سی مدد کر دیتے اللہ نے آپ کو روشنی دی ہے۔ بلبل نے نرمی سے التجا کی۔
جگنو نے بلبل کی طرف دیکھا اور زہریلی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، آج اگر میں تمہاری مدد کر بھی دوں تو مجھے یقین ہے کل پھر تمہارے ساتھ یہ ہی کچھ ہو گا لہذا بہتر یہ ہی ہے کہ تم آج رات اسی شاخ پر گزارو اور عبرت پکڑو۔ جگنو نے کہا اور آگے بڑھ گيا۔
اتنے میں بلبل پر پانی کی ایک بوند گری، بلبل اسے بارش کی بوند سمجھا، لیکن وہ بارش کا قطرہ نہیں تھا، وہ تو آنسو تھا جو ایک بوڑھے جگنو کی روح کی آنکھ سے ٹپکا تھا۔
http://www.abbaspk.com/blog/ہمدردی/#comment-2492
ندی سے ذرا ہٹ کر چراگاہ کے اس پار پیڑوں کے ایک چھوٹے سے جھنڈ میں جنگلی انجیر کے درخت کی ایک جھکی سی شاخ پر ایک بلبل سہما بیٹھا تھا۔ ارد گرد پھیلتی رات کی سیاہی تھی، خاموشی اور چھوٹے بڑے درختوں کے ہیولے۔
پاس سے اک جگنو گزرا۔ وہ ساتھ کے کھیت سے آیا تھا جہاں اس کے کئی ساتھی آندھی سے گرے کیکر کے ایک سوکھے درخت کی ٹہنیوں میں ٹمٹما رہے تھے۔ جگنو اپنی روانی میں بتی جلاتا ہوا بلبل کے پاس سے گزرا، سرسری سا بلبل کی طرف دیکھا اور آگے بڑھ گیا، پھر اچانک رکا، پلٹا اور آہستہ سے اڑتا ہوا اسی ٹہنی پر جا بیٹھا جس پر بلبل بیٹھا ہوا تھا۔
خیریت تو ہے، اس وقت یہاں؟ جگنو نے تعجب اور کسی قدر رعب سے پوچھا۔
ہاں خیرت ہے، وہ ذرا دیر ہو گئی ہے۔ بلبل نے ڈرا سا جواب دیا۔
اچھا اندھیرے سے گھبرا رہے ہو، ہوں! جگنو مسئلہ بھانپ کر بولا۔
ہاں جی وہ مجھے گھر جانا تھا اور رات ہو گئ ہے۔
تو اس میں منہ لٹکانے والی کون سی بات ہے؟ اُڑو اور گھر چلے جاؤ۔ جگنو نے چھیڑنے کے انداز میں کہا۔
جی چلا تو جاؤں لیکن اندھیرا بہت ہے اور مجھے کچھ دیکھائی نہیں دے رہا۔
ہوں!! تو تمہیں پہلے نہیں پتہ تھا کہ رات کو اندھیرا ہو جائے گا اور گھر جانے میں مشکل ہو گی۔ جگنو کو اپنے سے کہیں بڑے پرندے پر شکنجہ کسنے کا موقع ملا۔
جی! بس یوں ہی اڑتے چگتے دن گزر گیا۔ بلبل کسی قدر شرمندگی سے بولا۔
اس طرح تو ہوتا ہے نا اس طرح کے کاموں میں، لاپرواہی کا نتیجہ یوں ہی نکلا کرتا ہے، جو بوؤ گے کاٹنا تو پڑے گا، اب جو چنتا سے کملائے جا رہے ہو اگر شام سے پہلے ہی احساس کر لیا ہوتا تو اس وقت تم اپنے گھونسلے میں ہوتے۔ جگنو نے وعظ کا مزہ لیتے ہوئے لمبی سنائی۔
جی بجا فرماتے ہیں آپ مگر۔۔۔ بلبل کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
اب اگر مگر سے کیا ہو گا! سمجھدار پرندے صبح سویرے طے کر کے گھر سے نکلتے ہیں کہ دن کو کیا کچھ کرنا ہے، کدھر جانا ہے کدھر نہیں جانا، کب واپسی کا سفر شروع کر دینا ہے، اب بے اعتدالی اور لاپرواہی کا نتیجہ تو یہ ہی کچھ ہوتا ہے نا۔ جگنو نے عالمانہ انداز میں نصیحت کی۔
جی بالکل! اب میں کبھی لاپرواہی نہیں کروں گا۔
جب تک ٹھوکر نہ لگے عقل آتی کب ہے!! جگنو نے ڈانٹ کر کہا اور جانے کے لیے اڑا۔
وہ اگر آپ گھر جانے میں میری تھوڑی سی مدد کر دیتے اللہ نے آپ کو روشنی دی ہے۔ بلبل نے نرمی سے التجا کی۔
جگنو نے بلبل کی طرف دیکھا اور زہریلی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، آج اگر میں تمہاری مدد کر بھی دوں تو مجھے یقین ہے کل پھر تمہارے ساتھ یہ ہی کچھ ہو گا لہذا بہتر یہ ہی ہے کہ تم آج رات اسی شاخ پر گزارو اور عبرت پکڑو۔ جگنو نے کہا اور آگے بڑھ گيا۔
اتنے میں بلبل پر پانی کی ایک بوند گری، بلبل اسے بارش کی بوند سمجھا، لیکن وہ بارش کا قطرہ نہیں تھا، وہ تو آنسو تھا جو ایک بوڑھے جگنو کی روح کی آنکھ سے ٹپکا تھا۔
http://www.abbaspk.com/blog/ہمدردی/#comment-2492