تاسف ہمدرد نونہال کے مدیر اعلیٰ آج کراچی میں انتقال کر گئے

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سید عاطف علی

لائبریرین
مسعود احمد برکاتی صاحب مرحوم کی یادگار تصویر
24993516_1547928678577684_8808909391720634957_n.jpg

انا للہ وانا الیہ راجعون۔
 
Posted on December 11, 2017
maqsood-ahmed.jpg




عام خیال ہے کہ کسی جریدے کا مدیر ہونا بے ثمر کام ہے، آدمی کتنی ہی جان مار لے، کوششیں رائیگاں جاتی ہیں، نہ تو مالی آسودگی ملتی ہے، نہ ہی شہرت۔

البتہ اگر معاملہ “نونہال” کی ادارت کا ہو، تو صورت حال بدل جاتی ہے کہ یہ پرچہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ نسلوں کے ادبی ذوق کی آب یاری کی اس نے۔

اب اگر کسی نے اس جریدے کی ادارت لگ بھگ نصف صدی سنبھالی ہو اور یوں سنبھالی ہو کہ لاکھوں، بلکہ کہہ لیجیے کروڑوں افراد کو گرویدہ بنایا ہو، تو وہ حق دار ہے کہ اسے اکیس توپوں کی سلامی پیش نہ بھی کی جائے، تب بھی احترام اور محبت کے ساتھ یاد رکھا جائے۔

آج جو ہم مسعود احمد برکاتی کو یاد کر رہے ہیں، علمی اور ادبی حلقے انھیں فیس بک اور ٹوئٹر پر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں ، ان کی بابت مضامین باندھے جارہے ہیں،تو سبب یہی ہے کہ انھوں نے دو نسلوں کی آب یاری کی۔

مدیرمسعود احمد برکاتی کی نمازِ جنازہ ادا*
اس نابغہ روزگار شخص کے انتقال کی خبر غیرمتوقع نہیں تھی کہ وہ عرصے سے بیمار تھے، مگر یہ خبر کتنے ہی دلوں کو سوگوار کر گئی۔ گیارہ دسمبر کو ان کی تدفین ہوئی، تو گویا ایک عہد تمام ہوا۔

آگے بڑھنے سے پہلے کیوں ناں ان کے حالات زندگی کھنگال لیے جائیں۔

ایک نظر حالات زندگی پر
مسعود احمد برکاتی ٹونک کے تھے۔ 1931 میں پیدا ہوئے۔ بٹوارے کے بعد ادھر چلے آئے۔ کچھ زمانہ حیدرآباد اور جام شورو میں گزرا۔

پھر کراچی پہنچے۔ باصلاحیت تھے، ضرورت ایک پلیٹ فورم کی تھی، جو مہیا کیا ہمدرد فاؤنڈیشن نے۔ 1953 میں ہمدرد نونہال کی ادارت سنبھالی، تو اس سفر کا آغاز ہوا، جو انھیں امر کرنے والا تھا۔

مترجم بھی تھے۔ کئی عظیم ناولز کی تلخیص ہم تک ان کے قلم سے یا ان کے وسیلے پہنچی۔ ڈوما کا ناول ’’تین بندوقچی‘‘ تو سب کو یاد ہوگا۔ بچوں کے لیے لکھی کتابیں ایک درجن سے زاید ہیں۔

بحیثیت ایڈیٹر مسعود احمد برکاتی ایک طویل عرصے تک ’’پہلی بات‘‘ کے نام سے نونہال کا اداریہ لکھتے رہے، جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول تھا۔ حکیم محمد سعید کی تحریروں کی نوک پلک بھی وہی سنوارتے تھے۔

ایک یادگار واقعہ
اوروں کی طرح ہم بھی ان کے معتقد تھے۔ ان سے چند ملاقات بھی ہوئیں، مگر جو واقعہ یہاں موضوع، وہ ان کے انٹرویو سے جڑا ہے۔

بڑی خواہش تھی کہ ان کا انٹرویو کیا جائے۔

فون پر خواہش ظاہر کی، تو بولے پہلے ملاقات کرلیجیے۔ ہم سمجھ گئے، وہ انٹرویو دینے سے پہلے ہمارا انٹرویو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ہم جب ان کے انٹرویو میں ’’پاس‘‘ ہوگئے، تو فرمانے لگے، آپ سوال نامہ بھجوا دیں، میں جواب لکھ کر بجھوا دوں گا۔

ہم سٹپٹا گئے ۔ ہم تو کہانی سننے کا ارادہ لیے گئے تھے اور وہ ہمیں کہانی پڑھوانے پر مصر تھے۔ جواز دل چسپ تھا۔ کہنے لگے، اسی طرح لکھنے میں سہولت ہے، یوں آپ اور ہم بولنے کی اذیت سے بچ جائیں گے۔

خیر! ہم نے جواز مان لیا اور لگ بھگ 30 سوالوں پر مشتمل سوال نامہ ارسال کر دیا۔ چند روز میں انھوں نے مطلع کیا کہ جوابات تیار ہیں۔ ہم دوڑے دوڑے پہنچے۔

انھوں نے مسکراتے ہوئے تیس پینتیس صفحات پر مشتمل پلندہ پکڑایا، تو ہم گھبرا گئے کہ یا خدا، اسے ایڈٹ کرنے والا مدیر کہاں سے لائیں گے، مگر جب جائزہ لیا، تو اندازہ ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔

دراصل انہوں نے ہر سوال کے لیے الگ الگ صفحات مختص کر لیے تھے۔ اب چاہے جواب ایک لفظ جیسے ہاں یا ناں پر مشتمل ہو یا تین چار پیراگراف پر، سب کے حصے میں پورا پورا صفحہ آیا۔ یہ سوالات پر برکاتی صاحب کی مہربانی تھی۔

اچھا، ساتھ اپنی کچھ یادگار تصاویر بھی دیں، جو لگ بھگ ایک صدی جینے والے اس شخص کی بصری کہانی بیان کرتی تھیں۔

افسوس، وہ سب زندگی کی بھاگ دوڑ میں کہیں گم ہوئیں. باقی رہ گئی فقط برکاتی صاحب کی یاد۔

اور یہ یاد کئی برس مہکتی رہے گی۔

برکاتی صاحب نے کہا: بس آپ سوال نامہ بھجوا دیں
 

سین خے

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون
بہت افسوس ہوا۔ مسعود احمد برکاتی صاحب سے بڑی انسیت محسوس ہوتی تھی۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے آمین۔ بہت ہی اچھے انسان تھے۔
 
ہم کو معلوم ہے جیون سزا ہو جانا
دل کی دنیا میں کسی اور کا خدا ہو جانا

آ زیارت کو مری واعظِ ناداں آ دیکھ
تُو نہیں جانتا آدم کا فنا ہو جانا

رقصِ بسمل نہیں دیکھا تو نے سرِ محفل
خاک جانے تو پھر انساں کا ہوا ہو جانا

تم کو دیکھا تو یہ معلوم ہوا ہے جاناں
کس کو کہتے ہیں اوسان خطا ہو جانا

آتشِ عشق میں جلتے ہی یہ معلوم ہوا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
 
آسمانِ ادب کا سورج
از زاہدہ مسعود برکاتی​

ایک جانا پہچانا نام شہیدِ پاکستان کے دستِ راست، اُن کے پرانے ساتھی، نونہالوں کے ہمدرد سید مسعود احمد برکاتی ہمدرد نونہال کے مدیر اور پھر مدیرِ اعلا رہے۔ ماہنامہ ہمدرد صحت کے مدیر منتظم رہے۔ اس کے علاؤہ ہمدرد پبلیکیشنز کے سینئر ڈائریکٹر اور ہمدرد وقف کے ٹرسٹی رہے۔ ہو نیسکو کے ماہنامے کوریر کے اردو ایڈیشن پیامی کے حکیم محمد سعید کے ساتھ شریک مدیر رہے اور اسے چودہ سال تک کامیابی سے نکالا۔ کوریر انٹرنیشنل کے مدیر وں کی میٹنگ میں حکیم صاحب کے ساتھ انگلستان اور فرانس گیے۔ وہاں سے واپسی پر حکیم صاحب کی ہدایت پر سفر نامہ " دو مسافر دو ملک" کے نام سے لکھا جو اردو ادب میں بچوں کا پہلا سفر نامہ ہے۔
انہیں انگریزی لٹریچر کو اردو کے قالب میں ڈھالنے پر بھی خوب ملکہ حاصل تھا۔ انھوں نے چار انگریزی ناولوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔

مسعود احمد برکاتی آسمان ِ ادب پر چمکتا سورج! ایک ایسا سورج جس کے علم ، جس کی محبت، جس کی ہمدردی، جس کے ایثاراور جس کا عفو و درگزر لوگوں کے دلوں کو گرماتا رہے گا۔

میں کچھ کامیاب لوگوں کو ذاتی طور پر جانتی ہوں اور بہت سوں کے بارے میں پڑھا اور سنا ہے۔ انسان میں خامیاں اور کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں ۔ کوئی بھی انسان سوائے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، کامل نہیں ہے۔ اسی لیے یہ کامیاب لوگ اپنے شوق ، اپنی ملازمت اور اپنے کام میں تو طاق ہوتے ہیں، لیکن اپنے گھر میں اُتنے کامیاب نہیں ہوتے جتنے گھر سے باہر کامران ہوتے ہیں۔ برکاتی صاحب کی یہ خوبی تھی کہ وہ اپنے کام اور گھر دونوں ہی میں کام یاب تھے۔ گھر کا ہر فرد یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ برکاتی صاحب سب سے زیادہ اُسے چاہتے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
"تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کےلئے بہتر ہو، اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہوں۔"

کہتے ہیں کہ شخصیت انسان کے کردار کا آئینہ ہوتی ہے۔ وضع داری ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔ یہ وضع داری ان کے دل اور روح کی وضع داری تھی، جو ان کی شخصیت کا حصہ بن گئی تھی۔

وہ لوگوں کی امید تھے۔ جب بھی کوئی بے روزگار ملازمت کے لیے ان کے پاس جاتا تو اسے امید دلاتے اور کبھی منع نہیں کرتے تھے۔ جب گھر آتے اور مجھے بتاتے تو میں ان سے کہتی کہ آپ کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے تو آپ نے اسے منع کیوں نہیں کیا، تو فرماتے؛ " بے روزگار آدمی کے پاس اُمید کے سوا ہے ہی کیا، اس کی امید نہیں تعڑنی چاہیے۔ اللہ اسے ملازمت کہیں نہ کہیں دلادے گا۔ "

برکاتی صاحب نے ہمیشہ لکھنے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی ، بلکہ بڑے اور معروف لکھنے والوں کو بھی بچوں کے لیے لکھنے پر آمادہ کیا۔ برکاتی صاحب کو بچوں اور نوجوانوں سے حد درجہ محبت تھی۔ اپنے بچوں کے بچے ہوں یا خاندان میں سے کسی کے ہاں یا اجنبی پوں، حد تو یہ ہے کہ راہ چلتے بچوں سے بھی والہانہ محبت کا اظہار کرتے تھے۔ جیب میں ٹافیاں رکھتے تھے اور بچوں کو بانٹا کرتے تھے۔

2 / مارچ 1996 ء کو اے پی این ایس نے برکاتی صاحب کو سب سے سینیئر پروفیشنل ایڈیٹر کی حیثیت سے نشان سپاس پیش کیا۔

جولائی 2010ء کو پی ایم اے کے ادارے نبض فورم نے برکاتی صاحب کے اعزاز تقریبِ پزیرائی منعقد کی۔

16/ اپریل 2016ء کو اے پی این ایس نے" لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ" پیش کیا۔

برکاتی صاحب ملک کے ممتاز میڈیکل جرنلسٹ تھے۔ اس کے علاؤہ ملک کے مختلف اخبارات ورسائل میں جو علمی، ادبی، تحقیقی، صحی، نفسیاتی اور سوانحی مضامین شائع ہوئے ہیں ان کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے۔

برکاتی صاحب نے حکیم صاحب کی کئ کتابوں کو مرتب کیا ہے۔ ان کی عملی زندگی کا سفر حکیم صاحب سے شروع ہوا تھا اور برکاتی صاحب کی آخری مرتب کردہ کتاب بھی حکیم محمد سعید کے اقوال پر مشتمل" گلستان ِ سعید" ہے۔

اب" سعید و مسعود" دونوں تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ دونوں کی قومی خدمات، دونوں کے طویل ساتھ، دونوں کی مثبت سوچ اور اعلیٰ اخلاق و جذبے کو میرا سلام۔
(ہمدرد نونہال، فروری 2018ء)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top