ہمساٰئیہ ممالک کا پاکستان کے خلاف محاز

جمال خان

محفلین
زاویہ نگاہ
ریاض احمد چوہدری
روزنامہ پاکستان 6 ایپریل 2014
پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے، ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچانے اور خلیج میں اہم کردار کو روکنے کے لئے امریکی سرپرستی میںبھارت، ایران، افغانستان اور اسرائیل ایک ہوگئے اور چاروں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کا انکشاف ہوا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ ماہ نئی دہلی میں بھارتی خفیہ ایجنسی”را“کے ہیڈ کوارٹر میں افغان خفیہ ایجنسی”خاد“ایرانی ایجنسی’ویواک‘ اور اسرائیلی ایجنسی ’موساد‘کے اعلیٰ حکام کا اجلاس ہوا۔
منصوبے کے مطابق پاکستان کو دنیا میں دہشت گردی کا مرکز قرار دے کر مقامی اور عالمی میڈیا میں پاکستان کے خلاف بھرپور پراپیگنڈہ مہم چلائی جائے گی۔بھارت ، افغانستان اور ایران اپنے ہاںہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔یوں پاکستان کو ایک غیر ذمہ دار اور دہشت گردملک قرار دیا جائے گا اور اس کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کوشش کی جائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ خطے میں استحکام نہیں چاہتا۔ پاکستان نے امریکی جنگ میں اتحادی کا کردار ادا کرنے کی قیمت جانی ومالی نقصانات کی صورت میں ساری دنیا سے زیادہ ادا کی، لیکن امریکہ نے بھارت کو سر پر چڑھایا ہوا ہے۔ بھارت نہ تو افغانستان کا ہمسایہ ہے نہ اس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ نہ ہی کوئی مذہبی، ثقافتی یا روحانی رشتہ ہے تو پھر بھارت کو افغانستان میں مراعات دینے کا کیا مطلب ہے۔

یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ امریکہ سے ڈرون طیاروں کے حصول کے لیے کوشاں ممالک میں بھارت سر فہرست ہے۔بظاہر بھارت امریکی انخلاءکے بعد افغانستان میں امریکی مفادات کی دیکھ بھال کے لئے ڈرون طلب کر رہا ہے، مگر سب جانتے ہیں کہ یہ ڈرون صرف اور صرف پاکستان کے خلاف استعمال ہوں گے۔ حامد کرزئی کا یہ اعلان ریکارڈ پر موجودہے کہ وہ افغان افواج کو تربیت کے لیے بھارت بھیجیں گے۔ بھارت افغانستان میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ڈیڑھ لاکھ کے قریب بھارتی افواج کو تعینات کرنے کا خواہاں ہے۔ افغانستان میں بھارت کو لانے کا مقصد اس خطے کو عدم استحکام میں مبتلا رکھنا ہے۔ حیرت ہے کہ امریکی 12 سال تک افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکرانے کے باوجود افغانستان کے مزاج کو نہیں سمجھ سکے۔
پاکستان کے ساتھ یہ امریکی رویہ ہے، جبکہ دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارت کی چاپلوسی کرتے ہوئے کہا کہ’ مضبوط بھارت امریکہ کے قومی مفاد میں ہے،افغانستان کے الیکٹرول سسٹم میں بہتری کے لئے بھارت اہم کردار ادا کرسکتا ہے ،بھارت جنگ زدہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد ہونے والے انتخابات میں مرکزی کردار ادا کرے۔یہ در اصل بھارت کو افعانستان کے قومی معاملات میں مداخلت کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔
ایک طرف طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کی اطلاعات پر افغان حکومت نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے وفد کو دوحہ بھیجنے سے انکار کر دیاہے تو دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارت پہنچنے پر جو بیان دیاہے اس پر پاکستان کی طرف سے تشویش ظاہر کی جارہی ہے یعنی افغانستان میں بھارت کا کردار اہم ہوگا۔ آئندہ سال افغانستان میں شفاف صدارتی انتخابات کے لئے اسے اہم کردار ادا کرناہے ۔ہم مل کر اس جمہوری نظام کی مدد کریں گے جس کے ذریعے عوام اپنے نئے لیڈر کا انتخاب کریں گے۔ امریکہ کے بھارت نواز رویے سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ماضی میں افغانستان کے اندر ایک درجن کے لگ بھگ بھارتی قونصلیٹ دفاتر کے قیام کے معاملے میں بھی اس نے اہم کردار ادا کیاتھا وہ شروع سے ہی کابل میں پاکستان کے مقابلے میں بھارتی اثرو رسوخ کے اضافے کے لئے کوششیں کر رہاہے۔ کابل میں سفارت خانہ کے علاوہ قندھار، جلال آباد، مزار شریف اور ہرات میں قونصل خانے ہیں۔ یہ قونصل خانے پاکستان کے خلاف بھارتی خفیہ کارروائیوں کے بڑے مراکز ہیں۔ جہاں افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔بھارت کی افغانستان سے تجارت اور بھارتیوں کی آمدورفت جلال آباد کے راستے سے ہوتی ہے۔ قندھار کے راستے نہ تو تجارت ہوتی ہے اور نہ ہی بھارتی سفارتکاروںاور عام شہریوں کی آمدورفت۔ بھارتی قونصل خانوں سے پاکستان بالخصوص بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں منفی سرگرمیوں کے لئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ بھارتی ایجنسی را نے افغانستان کے مختلف علاقوں خواجہ گڑھ، خوست، پکتیا، جلال آباد ، دارگون، دانگ وغیرہ میں بعض این جی اوز اور تعمیراتی کمپنیوں کے نام سے بھرتی آفس بھی کھول رکھے ہیں جہاں مقامی لوگوں کوبھرتی کر کے ان کو بھی تربیت دےکر پاک افغان سرحد اور بلوچستان میںتخریب کاری کے لئے بھیجا جاتا ہے ۔
امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں بم دھماکے اور دہشت گردی کی وارداتیں امریکی اور بھارتی سازش ہیں۔ امریکہ اورا س کے اتحادی افغانستان میں اپنی آخری گیم کھیل رہے ہیں۔بھارت کو خطہ کا تھانیدار بنانے کی کوششیں کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گی۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ دہشت گردی سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دہشت گردی کا قومی سطح پر مقابلہ ناگزیر ہے۔ امریکہ کی جنگ سے علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے۔ڈرون حملہ امریکہ کرتا ہے، لیکن قیمت پاکستان کو چکانا پڑتی ہے۔ جب تک ہم امریکی جنگ سے نہیں نکلیں اور ڈرون حملے نہیں روکیں گے دہشتگردی بھی نہیں رکے گی۔
امریکہ خود تو قطر میں طالبان کا دفتر کھلوا کر مذاکرات کر رہا ہے اور ہمیں مزید لڑنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ جب یہاں مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو امریکہ ڈرون حملے کر کے یہ عمل سبوتاژ کر دیتا ہے۔ وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ نے پشاور ہائی کورٹ میں رپورٹ دی کہ پانچ سال میں ڈرون حملوں میں صرف47دہشتگرد مارئے گئے، جبکہ 1500بیگناہ افراد مارے گئے ،کئی ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے۔
اب جبکہ امسال امریکہ افغانستان سے رخصت ہو رہاہے افغان عوام کسی امریکی کٹھ پتلی کو کسی صورت صدارتی محل میں قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے بھارتی اثرو رسوخ میں اضافے کی امریکی خواہش کے نتیجے میں طالبان اور بھارت کے درمیان محاذ آرائی اور تصادم کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوحہ کے دفتر پر صدر حامد کرزئی کا اعتراض تھا کہ اسے کسی صورت سفارتی مرتبہ نہیں دیاجاناچاہیے چنانچہ بھارت کے احتجاج پر قطر کی حکومت کے ایماء پر طالبان نے دفتر سے جھنڈا اتار دیا۔

یہ حقیقت ہے کہ بھارت اس وقت تک افغانستان میں ہے جب تک امریکہ ہے۔ گویا امریکہ کے کندھوں پر سوارہو کر بھارتی افغانستان تک پہنچے ہیں اور امریکہ کے ساتھ ہی نکل جائیں گے۔ افغانستان میں بھارت کا کوئی کردار نہیں۔ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگانے اور جنوبی ایشیاءپر حکمرانی کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اس منصوبے میں امریکہ بھارت کی بھرپور معاونت کر رہا ہے۔ افغانستان میں بھارتی موجودگی کی وجہ بھی یہی ہے۔ امریکہ کے بعد افغان عوام بھارت کو کسی صورت میںبھی اپنے اندر برداشت نہیں کریں گے۔لہذابھارت افغانستان میں رہنے کے لئے مختلف بہانے بنا رہا ہے۔ اصل میں وہ افغانستان میں بیٹھ کر ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے چکر میں ہے۔ ٭
 

جمال خان

محفلین
story1.gif
 

Fawad -

محفلین
امریکہ خود تو قطر میں طالبان کا دفتر کھلوا کر مذاکرات کر رہا ہے اور ہمیں مزید لڑنے کی ترغیب دے رہا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آج کل جب کسی سينير امريکی اہلکار کی جانب سے طالبان کی قيادت کے ساتھ کسی امن معاہدے کے امکانات کے بارے ميں کوئ بيان سامنے آتا ہے تو بعض تجزيہ نگار اور رائے دہندگان چٹی پٹی شہ سرخياں اور طويل کالم لکھنا شروع کر ديتے ہيں۔ جو تجزيہ نگار سياسی مفاہمت اور بات چيت کے آپشن کو افغانستان ميں امريکی شکست قرار ديتے ہيں ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکام کی جانب سے تو اس آپشن کا استعمال افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل کيا گيا تھا۔

حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے 911 کے واقعات کے بعد طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا اور دہشت گردوں کو پناہ دينے کی پاليسی کا اعادہ کيا۔

امريکی صدر اوبامہ نےطالبان کے حوالے سے جو بيان ديا ہے وہ کوئ نئ پاليسی نہيں ہے۔ ان کا حاليہ بيان ہمارے اس ديرينہ موقف کی توثيق تھا کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔ اور يہ پاليسی افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کے گروپوں کے ليے يکساں ہے۔

يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ يہ امريکی حکومت کی جانب سے کوئ نئ حکمت عملی نہيں ہے۔ جولائ 2010 ميں بھی 5 طالبان کے نام اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی اس لسٹ سے حذف کيے گئے تھے جن پر پہلے پابندياں عائد کی جا چکی تھيں۔

امریکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہم ہر اس عمل اور کوشش کی حمايت کريں گے جو دہشت گردی سے جنم لينے والے تشدد کے خاتمے کی جانب پيش رفت کرنے ميں مدد گار ثابت ہو۔ اگر گفت وشنيد کا مقصد يہ ہو کہ مسلح افراد کو قانونی اور سياسی دائرہ عمل ميں لايا جا سکے اور اس کے نتيجے ميں افغانستان اور اس کے اداروں کی ترقی اور استحکام کے عمل کو آگے بڑھايا جا سکے تو يقينی طور پر اس کا فائدہ تمام فریقين کو ہو گا۔

بنيادی نقطہ يہ ہے کہ کسی بھی طے پانے والے معاہدے کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے موجود تحفظات اور ان کے خاتمے سے متعلق ہونا چاہیے۔

امريکی حکومت کبھی بھی افغانستان پر قبضے کی خواہاں نہيں رہی۔ ساری دنيا جانتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی اور فوجی کاروائ ہماری جانب سے کسی ابتدائ حملے کے نتيجے ميں نہيں بلکہ ہماری سرزمين پر براہراست حملے کا شاخسانہ ہے۔ يہ ايک ايسی کاروائ تھی جس کی ہميں خواہش نہيں تھی ليکن حتمی تجزيے ميں دنيا بھر ميں انسانی جانوں کو محفوظ کرنے کے لیے يہ ايک ناگزير ردعمل تھا جس کا مقصد محض امريکی زندگيوں کو ہی تحفظ دينا نہيں تھا بلکہ عمومی طور پر انسانيت کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔

ہمارے مقاصد اور خطے ميں اپنے تمام اتحاديوں کے ساتھ ہمارے روابط کا مقصد يہ يقينی بنانا ہے کہ دہشت گردوں کی وہ پناہگاہیں جو پاکستان سميت تمام مہذب دنيا کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، ان کا خاتمہ کيا جائے اور بن لادن کی خونی سوچ کو عملی جامہ پہنانے والے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔

ہماری ہميشہ سے يہی سوچ رہی ہے کہ علاقائ سيکورٹی اور حکومت سازی سے متعلق ذمہ دارياں افغانستان کے عوام اور ان کی منتخب کردہ سياسی قيادت کے حوالے کی جائيں۔ ہم اب بھی اسی منصوبے پر کاربند ہیں۔ ليکن چند رائے دہندگان اور ميڈيا کے تجزيہ نگاروں کی غلط سوچ کے برخلاف ہم نہ تو خطے سے بھاگ رہے ہيں اور نہ ہی افراتفری کے عالم ميں اپنا ناطہ توڑ رہے ہیں۔ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ طويل المدت بنيادوں پر تعلقات استوار کرنے کے اپنے ارادے اور اپنی حمايت کو برقرار رکھيں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top