فرخ منظور
لائبریرین
ہمہ سکوت جو صہبا دکھائی دیتا ہے
غزل سنائے تو دریا دکھائی دیتا ہے
یہ مجھ کو کیا سرِ دنیا دکھائی دیتا ہے
تماشا ہوں کہ تماشا دکھائی دیتا ہے
یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی
چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے
جو ظلمتوں سے گزرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں
نظر نہ آئے تو کیا کیا دکھائی دیتا ہے
کہاں ہے تو، تری زلفوں کا آبشار مجھے
ہزار خواب برستا دکھائی دیتا ہے
صبا سے پھر ہوئیں باتیں جنابِ صہبا کی
پھر اس گلی کا ارادہ دکھائی دیتا ہے
(صہبا اختر)
غزل سنائے تو دریا دکھائی دیتا ہے
یہ مجھ کو کیا سرِ دنیا دکھائی دیتا ہے
تماشا ہوں کہ تماشا دکھائی دیتا ہے
یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی
چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے
جو ظلمتوں سے گزرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں
نظر نہ آئے تو کیا کیا دکھائی دیتا ہے
کہاں ہے تو، تری زلفوں کا آبشار مجھے
ہزار خواب برستا دکھائی دیتا ہے
صبا سے پھر ہوئیں باتیں جنابِ صہبا کی
پھر اس گلی کا ارادہ دکھائی دیتا ہے
(صہبا اختر)