کاشفی
محفلین
غزل
(رزّاق اثر شاہ آبادی - شاہ آباد ، ہندوستان)
ہمیشہ جیت مقدر میں غیر کے آئی
مرے خلاف کھڑے تھے کئی مرے بھائی
میں اس کی جھیل سی آنکھوں میں ڈوبتا ہی گیا
سمندروں سے زیادہ تھی جن کی گہرائی
غمِ حیات کی چادر میں اُڑھ کر سویا
تمام رات رُلاتی رہی ہے تنہائی
ہر ایک شخص کو انسان میں سمجھتا تھا
بہت ہی مہنگی پڑی ہے مجھے یہ سچائی
میں بچ کے کیسے نکلتا حصارِ دشمن سے
اِدھر تھے آگ کے شعلے اُدھر تھے بلوائی
دھواں نکلتا کسی آنکھ نے نہیں دیکھا
ہمیشہ اس نے یوں نفرت کی آگ بھڑکائی
کئی دنوں سے اثر چپ ہے دشمنِ جاں بھی
سنا ہے شرم گزشتہ کیے پہ ہے آئی