کئی مرتبہ افغانستان سے مسلح لشکروں نے پاکستانی فوج پر حملہ کیا ان کو امریکہ نے کیوں نہیں روکا؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
افغانستان اور پاکستان کے مابين تعاون پر مبنی تعلقات دونوں ممالک کے مستقبل کے ليے اہميت کے حامل ہيں اور امريکہ اس تعاون کو قائم رکھنے ميں ہر روز کوشاں ہے۔ ہم سب کو انھی متشدد دشمنوں کا سامنا ہے۔ ليکن ميرے ليے يہ امر حيران کن ہے کہ آپ صدر کرزئ کی زير قيادت حکومت کے ليے امريکہ کو ہدف تنقيد بنا کر سوال کر رہے ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکی حکومت پاکستان اور افغانستان کو اسٹريجک اتحادی تصور کرتی ہے اور ہم دونوں حکومتوں کے ساتھ مل کر تندہی سے دہشت گردی کی جاری کاروائيوں سميت باہم مفادات پر مبنی معاملات پر توجہ مرکوز کيے ہوئے ہيں۔
تاہم ہم اس پوزيشن میں نہيں ہيں کہ خطے ميں اپنے اتحاديوں پر پاليسی ساز فيصلے مسلط کرسکيں۔ يقینی طور پر خطے ميں کسی بھی فريق کی ناکامی يا کاوشوں ميں کمی بيشی پر مبنی تاثر کے ليے ہميں ذمہ دار ٹھہرايا نہيں جا سکتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی طرح بہت سے جاری معاملات کے ضمن ميں ہمارے بھی خدشات اور تحفظات ہيں۔ ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ سرحدی علاقوں ميں دراندازی کے واقعات کے تسلسل ميں اضافہ ہماری آشيرباد کے سبب ہو رہا ہے۔ اس قسم کی کسی بھی پاليسی کی حمايت سے ہميں کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا ہے۔
امريکی حکومت پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر دراندازی کے واقعات سے پوری طرح آگاہ بھی ہے اور اس پر تشويش کا اظہار بھی کرتی ہے، جن کے نتيجے ميں دونوں طرف اموات ہوئ ہيں۔ ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی حکومت اس بات پر مکمل يقين بھی رکھتی ہے اور اسے تسليم بھی کرتی ہے کہ دہشت گردی کا عفريت سرحدوں کی دونوں جانب معصوم افراد کے لیے مشترکہ خطرہ ہے جس سے نبردآزما ہونے کے لیے دونوں ممالک کو مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر ميں ہمارے ليے يہ غير منطقی اور نقصان دہ امر ہو گا کہ ہم کسی ايک فريق کا ساتھ ديں يا بے مقصد الزام تراشی کريں جس کا واحد فائدہ ہمارے مشترکہ دشمنوں کو ہو گا۔ ہماری پوری توقع اور اميد ہے کہ دونوں ممالک مل کر اس بات کو يقینی بنائيں گے کہ مستقبل ميں اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوں۔
ميں ياد دہانی کروا دوں کہ سال 2011 ميں امريکہ نے افغانستان اور پاکستان کی جانب سے سرحدوں پر واقعات کی جانچ کے لیے ایک مشترکہ عسکری ورکنگ گروپ کی تشکيل کے فيصلے کی بھرپور حمايت کی تھی۔
group-news-international-lhmlEmbffjb.html
يہ کوئ خفيہ امر نہيں ہے کہ امريکہ، پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے خلاف لڑائ ميں باہمی شراکت دار ہيں اور اس ضمن ميں معاشی امداد کی منتقلی اور عسکری سازوسامان تک رسائ اس تعاون کا لازمی جزو ہے۔
پاکستان کی فوج اور حکومت نے بارہا اس بات کا اعادہ کيا ہے کہ سرحدوں کے آر پار دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے ليے امريکہ، پاکستان اور افغانستان کے مابين باہم کاوشيں اور جدوجہد جاری رہے گی۔ اگر آپ کی بيان کردہ سوچ پر من وعن يقين کر ليا جاتا تو پھر يقینی طور پر دراندازی کے واقعات کے ضمن ميں حکومت پاکستان کا موقف يہ نا ہوتا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu