ہمیں کیسے سیاسی راہنما کی ضرورت ہے؟

زرقا مفتی

محفلین
السلام علیکم
محفل میں ملکی سیاست پر بحث جاری ہے۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم کی مثال ایک ایسے گروہ کی مانند ہے جو اندھیری راہوں میں بھٹک رہا ہو اور نشانِ منزل گم کر چکا ہو ایسے میں جو شخص امید کا جگنو ہاتھ میں لئے نظر آتا ہے گروہ کے کچھ افراد اسے ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
ایک توقحط الرجال ہے اور دوسرے نا پُختہ سیاسی و سماجی شعور
تو کیا ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ ہمارے نجات دہندہ کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیئے
اپنی رائے دیجئے
 

الف نظامی

لائبریرین

یہی معاملہ فوجی قیادت کے بارے میں بھی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بادشاہ مقرر کیا تو اس کی وجہ یہ بتائی:
(اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو علمی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔۔۔ البقرہ:۲۴۷)۔

قیادت اور علم:
ہر قسم کی قیادت کے لیے علم شرط ہے، خواہ وہ سیاسی اور انتظامی قیادت ہو۔
جیسے حضرت یوسفؑ کی قیادت، کہ جب ان سے شاہِ مصر نے کہا:
اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌo
(اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔۔۔ یوسف:۵۴)۔
تو انہوں نے کہا:
اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌo
(ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔۔ یوسف:۵۵)

اس میں آپ علیہ السلام نے اپنی خاص اہلیتوں کے بارے میں بتایا جو آپؑ کو اس عظیم کام کا اہل ثابت کر رہی تھیں، جس میں اس دَور کے مطابق مالی اور اقتصادی امور، زراعت، منصوبہ بندی اور رسد کے انتظامات شامل تھے۔ ان اہلیتوں میں بنیادی حیثیت دو امور کی تھی۔ ایک حفاظت یعنی امانت، اور دوسرا علم۔یہاں علم سے مراد تجربہ بھی ہے اور کافی معلومات بھی۔

یہ دونوں صفات سورۂ قصص میں شیخ کبیر کی بیٹی کی زبان سے نکلی ہوئی صفات کے موافق ہیں جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم کے طور پر رکھنے کے لیے اپنے باپ کو بتائی تھیں۔ اس نے کہا تھا:
اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُo
(بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھ لیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔۔۔ القصص:۲۶)۔

یہی معاملہ فوجی قیادت کے بارے میں بھی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بادشاہ مقرر کیا تو اس کی وجہ یہ بتائی:
اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ۔۔۔
(اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو علمی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔۔۔ البقرہ:۲۴۷)۔

یہی معاملہ عدالتی امور کا بھی ہے۔ حتیٰ کہ قاضی کے لیے بھی وہی شرط لگائی ہے جو خلیفہ کے لیے مقرر ہے، اور وہ یہ کہ وہ مجتہد ہو۔ یہاں اس بات پر اکتفا نہیں کیا گیا کہ وہ محض دوسروں کا مقلد ایک عالم ہو۔ علم کی اصل حقیقت یہ ہے کہ آدمی حق کو دلیل کے ساتھ پہچانے، نہ کہ انسانوں میں سے کسی زید یا عمرو کے ساتھ موافقت کو اپنے اوپر لازم سمجھ لے۔ جس نے کسی دلیل کے بغیر یا کسی بھونڈی دلیل کے ساتھ اپنے جیسے ایک انسان کی پیروی کی، تو یہ علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔

مقلّد کی قضا کو ضرورتاً قبول کیا گیا ہے جیسا کہ اس شخص کی ولایت کو ضرورتاً قبول کیا گیا ہے جو فقاہت نہ رکھتا ہو۔ اس کے باوجود علم کی ایک حد مقرر ہے کہ کم ازکم اتنا علم اس میں ضرور ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ جہالت کے ساتھ فیصلے کرے گا اور آگ والوں میں سے بن جائے گا۔

حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قاضی تین قسم کے ہیں: ان میں سے دو آگ میں جائیں گے اور ایک جنت میں۔ ایک وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنت میں ہوگا۔ دوسرا وہ شخص جو جہالت کے ساتھ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے، یہ آگ میں ہوگا اور تیسرا وہ ہے جو حق کو پہچانے لیکن ظلم کرتے ہوئے غلط فیصلہ دے تو یہ بھی آگ میں ہوگا‘‘۔ (صحیح الجامع الصغیر)
 

متلاشی

محفلین
ہمیں ایسے سیاسی رہنما کی ضرورت ہے ہو جو سیاست کے ساتھ ساتھ دین کو بھی لے کر چلے ۔۔۔۔! کیونکہ اگر سیاست سے دین کو نکال دیا جائے تو پھر بقولِ اقبال صرف چنگیزی ہی رہ جاتی ہے ۔۔۔! اس لئے سیاسی رہنما کے اوصاف وہی ہونے چاہئں ۔۔۔ جو خلافتِ راشدہ کے زمانے میں ہوتے تھے ۔۔۔!
 

الف نظامی

لائبریرین
چند مزید اوصاف جو ایک لیڈر میں ہونا چاہیئں
  • دیانت و امانت کا ہونا
  • ٖقرآن و سنت کا مطالعہ ہونا، تاریخ و نظامِ سیاست و معیشتِ اقوام عالم کا درک اور قوانین مملکت بالخصوص آئین کا گہرا مطالعہ ہونا
  • بصیرت (حالات پر گہری نظر ہونا اور اس کے مطابق ملک و ملت کے مفاد میں فیصلے کرنا )
  • بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت
 

زرقا مفتی

محفلین
میری آپ سب سے درخواست ہے کہ طوالت سے گریز کرتے ہوئے پانچ سے دس اوصاف تحریر کیجئے۔ موجودہ دور کو تقاضوںکو بھی ملحوظِ خاطر رکھیئے
 
1-صادق۔۔۔ایک لیڈر بہترین integrity کا حامل ہوتا ہے اور اپنوں ، غیروں بلکہ اپنی ذات کے ساتھ بھی جھوٹ پر مبنی معاملہ نہیں کرتا
2-امین۔۔۔اس میں اتنی امانتداری ہوتی ہے کہ لوگ دل و جان کے ساتھ اس پر اعتماد کرسکتے ہوں۔
3-قوی۔۔۔ایک لیڈر کی طاقت اسکے Followers ہوتے ہیں۔ اور اسکا اپنا ذاتی عزم و حوصلہ ہوتا ہے۔
4-مکین۔۔۔اثر و رسوخ کا حامل ہوتا ہے۔ اور اسکا حلقہِ اثر بتدریج وسیع ہوتا جاتا ہے۔
5-حفیظ۔۔۔ذہنی طور پر بہت مضبوط ہوتا ہے اور جس معاملے میں ہاتھ ڈالتا ہے، اس کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہوتا ہے اور موضوع پر مناسب گرفت رکھتا ہے۔
6-علیم۔۔۔اپنے کام کا ماہر ہوتا ہے۔
7-روشن ضمیر۔۔۔اس میں ایک خاص بصیرت اور intuitive powerہوتی ہے۔ چنانچہ معاملہ فہمی اور حقیقی صورتحال کا اچھا ادراک رکھتا ہے۔
8-بلند اقدار سے وابستگی۔۔۔ایک اچھا لیڈر اخلاقی، روحانی اور سماجی اعتبار سے بلند اقدار کا حامل ہوتا ہے ۔
9-متوازن شخصیت۔۔۔آئیڈیلزم اور پریکٹیکل ازم کا ایک خوبصورت امتزاج اسکی ذات کے اند پایا جاتا ہے۔
 
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت کا ہے۔ غربت کا صرف ایک علاج ہے ۔ وہ ہے کہ آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے۔ پاکستان میں صرف گندم 25 ملین میگا ٹن پیدا ہوتا ہے، گندم کا بھاؤ 30000 روپے ٹن ہے، آپ حساب لگالیں کہ کتنے روپے کی آمدنی ہوتی ہے اور اس کا 20 فی صد ٹیکس کتنا بنے گا۔ اربوں روپے کی یہ آمدنی حکومت کو ملتی ہی نہیں ہے۔ جب آمدنی ہوگی تو نئے شہر بنیں گے اور پرانے شہروں کے سائز میں اضافہ ہوگا، نئی سڑکیں بنیں گی، نئے بینک بنیں گے، نئے سکول بنیں گے، نئے بجلی گھر لگیں گے، نئے پارک، نئے سکول، نئے پٹرول پمپ، اس سارے نئے کام سے لوگوں کو روزگار ملے گا، روپے کی گردش بڑھے گی اور اس طرح صنعتی منصوبوں کی پراڈکٹ کی مانگ بڑھے گی۔

پاکستان کی سول حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں وہ لوگ آتے ہیں جو وڈیرے ہیں جو اپنی آمدنی میں سے ٹیکس لگانا نہیں چاہتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح غریب ہو جائیں گے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر اس طرح ٹیکس ادا کیا جائے تو نئے منصوبے انہی لوگوں کے ہاتھ میں آئیں گے اور اس طرح یہ لوگ بین القوامی سطح پر امارت کا مقابلہ کر سکیں گے۔

پاکستان میں جب کوئی ایسا لیڈر آئے گا جو زرعی آمدنی پر ٹیکس لگائے ، تب ہی حالات تبدیل ہونگے، غربت ختم ہوگی اور دولت کی گردش میں اضافہ ہوگا۔

یہ وقت کی ضرورت ہے اور یہی دین کا پیغام ہے۔

سورۃ انفال آیت 41 ۔ کسی بھی شے سے منافع کا پانچواں حصہ اللہ کا حق ہے۔
8:41
اور جان لو کہ جو کچھ بھی منافع تم نے کسی بھی شئے سے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اورقرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

سورۃ الانعام، آیت 141 -- اللہ کا حق، فصل کی کٹائی پر ادا کردو
6:141
اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ (یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے) باغات پیدا فرمائے اور کھجور (کے درخت) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار (جو شکل میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (ذائقہ میں) جداگانہ ہیں (بھی پیدا کئے)۔ جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

جب تک پاکستان 20 فی صد ٹیکس ادا کرکے اپنے روپے کی گردش نہیں بڑھاتا، پاکستان کے مسائیل کم نہیں ہوں گے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
1-صادق۔۔۔ ایک لیڈر بہترین integrity کا حامل ہوتا ہے اور اپنوں ، غیروں بلکہ اپنی ذات کے ساتھ بھی جھوٹ پر مبنی معاملہ نہیں کرتا
2-امین۔۔۔ اس میں اتنی امانتداری ہوتی ہے کہ لوگ دل و جان کے ساتھ اس پر اعتماد کرسکتے ہوں۔
3-قوی۔۔۔ ایک لیڈر کی طاقت اسکے Followers ہوتے ہیں۔ اور اسکا اپنا ذاتی عزم و حوصلہ ہوتا ہے۔
4-مکین۔۔۔ اثر و رسوخ کا حامل ہوتا ہے۔ اور اسکا حلقہِ اثر بتدریج وسیع ہوتا جاتا ہے۔
5-حفیظ۔۔۔ ذہنی طور پر بہت مضبوط ہوتا ہے اور جس معاملے میں ہاتھ ڈالتا ہے، اس کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہوتا ہے اور موضوع پر مناسب گرفت رکھتا ہے۔
6-علیم۔۔۔ اپنے کام کا ماہر ہوتا ہے۔
7-روشن ضمیر۔۔۔ اس میں ایک خاص بصیرت اور intuitive powerہوتی ہے۔ چنانچہ معاملہ فہمی اور حقیقی صورتحال کا اچھا ادراک رکھتا ہے۔
8-بلند اقدار سے وابستگی۔۔۔ ایک اچھا لیڈر اخلاقی، روحانی اور سماجی اعتبار سے بلند اقدار کا حامل ہوتا ہے ۔
9-متوازن شخصیت۔۔۔ آئیڈیلزم اور پریکٹیکل ازم کا ایک خوبصورت امتزاج اسکی ذات کے اند پایا جاتا ہے۔
شکریہ غزنوی صاحب مزید جوابات کا انتظار ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
سیاست دان کا کام یہ ہے کہ وہ قوم کو لائحہ عمل دے۔ وہ عوام کو بتائے کہ ان کے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔
سیاست دان اپنے تجربات اور بصیرت سے وہ کچھ جانتا ہے جس کی خبر عام آدمی کونہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر وہ بتاسکتا ہے کہ
  • امریکی غلامی سے آزادی کیسے ممکن ہے؟
  • اسے معلوم ہے کہ قوموں کی تعمیر کیسے ہوتی ہے؟
  • وہ جانتا ہے کہ آج ہم بھارت سے ٹکرا سکتے ہیں یا نہیں؟
  • اسے خبر ہے کہ دنیا پر پاکستان کا انحصار کتنا اور کیسا ہے؟
  • وہ عوام کو سمجھا سکتا ہے کہ اس زمانے میں اپنا وجود کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
جناب شہباز شریف ہر روز ترکی کے گیت گاتے ہیں۔کیا انہوں نے اس قوم کو بتایا کہ ترکی یہاں تک کیسے پہنچا؟
عمران خان نے تو ایک عمر دیارِمغرب میں گزاری؟ کیا انہوں نے پاکستانی قوم کو بتایا کہ مغرب میں نوے دنوں کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی؟
سیاسی و فکری اشرافیہ از خورشید ندیم سے اقتباس
 

ساجد

محفلین
ہمارا جو بھی سیاسی رہنما ہو اس میں 5 یا 10 خوبیوں کی نہین صرف ایک خوبی کی ضرورت ہے کہ وہ خود پاکستان کے قانون پر عمل کرتا ہو اور عوام سے اس پر عمل کروانا جانتا ہو ، نرمی یا سختی سے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے
اقبال
 

زرقا مفتی

محفلین
ہمارا جو بھی سیاسی رہنما ہو اس میں 5 یا 10 خوبیوں کی نہین صرف ایک خوبی کی ضرورت ہے کہ وہ خود پاکستان کے قانون پر عمل کرتا ہو اور عوام سے اس پر عمل کروانا جانتا ہو ، نرمی یا سختی سے۔
کیا صرف قانون پر عمل کرنے سے ہم ترقی کر جائیں گے؟؟ قرضوں سے نجات مل جائے گی؟ غربت،بے روزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ اقوامِ عالم میں ہمارا رُتبہ بلند ہو جائے گا؟
 

نایاب

لائبریرین
ہمارا جو بھی سیاسی رہنما ہو اس میں 5 یا 10 خوبیوں کی نہین صرف ایک خوبی کی ضرورت ہے کہ وہ خود پاکستان کے قانون پر عمل کرتا ہو اور عوام سے اس پر عمل کروانا جانتا ہو ، نرمی یا سختی سے۔
سوفیصد درست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش کہ پاکستانی قوم کو ایسا سیاسی رہنما نصیب ہوجائے ۔ روشن ہو جائے گی یہ سوہنی دھرتی ۔
 

زرقا مفتی

محفلین
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت کا ہے۔ غربت کا صرف ایک علاج ہے ۔ وہ ہے کہ آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے۔ پاکستان میں صرف گندم 25 ملین میگا ٹن پیدا ہوتا ہے، گندم کا بھاؤ 30000 روپے ٹن ہے، آپ حساب لگالیں کہ کتنے روپے کی آمدنی ہوتی ہے اور اس کا 20 فی صد ٹیکس کتنا بنے گا۔ اربوں روپے کی یہ آمدنی حکومت کو ملتی ہی نہیں ہے۔ جب آمدنی ہوگی تو نئے شہر بنیں گے اور پرانے شہروں کے سائز میں اضافہ ہوگا، نئی سڑکیں بنیں گی، نئے بینک بنیں گے، نئے سکول بنیں گے، نئے بجلی گھر لگیں گے، نئے پارک، نئے سکول، نئے پٹرول پمپ، اس سارے نئے کام سے لوگوں کو روزگار ملے گا، روپے کی گردش بڑھے گی اور اس طرح صنعتی منصوبوں کی پراڈکٹ کی مانگ بڑھے گی۔

پاکستان کی سول حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں وہ لوگ آتے ہیں جو وڈیرے ہیں جو اپنی آمدنی میں سے ٹیکس لگانا نہیں چاہتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح غریب ہو جائیں گے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر اس طرح ٹیکس ادا کیا جائے تو نئے منصوبے انہی لوگوں کے ہاتھ میں آئیں گے اور اس طرح یہ لوگ بین القوامی سطح پر امارت کا مقابلہ کر سکیں گے۔

پاکستان میں جب کوئی ایسا لیڈر آئے گا جو زرعی آمدنی پر ٹیکس لگائے ، تب ہی حالات تبدیل ہونگے، غربت ختم ہوگی اور دولت کی گردش میں اضافہ ہوگا۔
فاروق صاحب آپ تو آئندہ حکومت کو ترقی کے لئے روڈ میپ بنا کر دے رہے ہیں۔ فی الحال تو یہ طے کرنا ہے کہ ہمیں پستی کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے ہمارے نجات دہندہ کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیئے
 

ساجد

محفلین
کیا صرف قانون پر عمل کرنے سے ہم ترقی کر جائیں گے؟؟ قرضوں سے نجات مل جائے گی؟ غربت،بے روزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ اقوامِ عالم میں ہمارا رُتبہ بلند ہو جائے گا؟
جی ہاں بالکل یہ سب تبھی ہو گا جب ہم قانون پر عمل کریں گے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ قانون پر عمل کئے بغیر ان میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔
 

زرقا مفتی

محفلین
جی ہاں بالکل یہ سب تبھی ہو گا جب ہم قانون پر عمل کریں گے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ قانون پر عمل کئے بغیر ان میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔
ساجد صاحب آپ عمل کی بات کر رہے ہیں مگر قانون پر عمل کرنے کے اوصاف ہر شخص میں نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ کہ قانون آپ کے لئے حدود بناتا ہے ۔ مستقبل کا لائحہ عمل نہیں
 
Top