ہمیں کیوں دربدر رکھا گیا ہے- برائے اصلاح

صابرہ امین

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ
آداب
آپ سے اصلاح و رہنمائ کی درخواست ہے ۔ ۔


ہمیں کیوں دربدر رکھا گیا ہے
انہیں کیوں معتبررکھا گیا ہے

ہوئ ہے آبلہ پائ مقدر
لکیروں میں سفر رکھا گیا ہے

تمھاری ان کہی باتیں سمجھنا
ہمارا دردِ سر رکھا گیا ہے

تمھیں ہے ناز اپنی خوبیوں پر
ہمیں بھی خوب تر رکھا گیا ہے

محبت کیوں نہ ہم کو داغ دے گی
کہ مانندِ شرر رکھا گیا ہے

اگر ہم کو نہیں رکھا ہے دل میں
بتاؤ تو کدھر رکھا گیا ہے

کتابِ زیست کے ہر اک سبق کو
عقل سے بالا تر رکھا گیا ہے

کوئ بھی بات کب چھپتی ہے تم سے
تمہیں کیوں نامہ بر رکھا گیا ہے

تمھاری بےرخی کو جھیلنے کو
ہمارا ہی جگر رکھا گیا ہے

ڈبونا ہے ہمارے حوصلوں کو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

ہم اک دن چھین لیں گے تم سے تم کو
اداؤں میں ہنر رکھا گیا ہے
 
آخری تدوین:
ہمیں کیوں دربدر رکھا گیا ہے
انہیں کیوں معتبررکھا گیا ہے
مطلع یوں لگتا ہے جیسے کسی قطعے کے پہلے دو مصرعے ہوں، یعنی بات کچھ ادھوری سے لگتی ہے. اس کے ساتھ ایک شعر اور ملا کر آپ اسے قطعہ بند کرسکتی ہیں.

اگر ہم کو نہیں رکھا ہے دل میں
بتاؤ تو کدھر رکھا گیا ہے
اچھا کہا ہے، سہلِ ممتنع میں :)
اگرچہ دوسرے مصرعے میں کدھر کے بجائےشاید کہاں کہنا زیادہ قرین از روز مرہ ہوگا، مگر قافیہ کی مجبوری ہے.
میرے خیال میں دوسرے مصرعے میں بتاؤ تو کو بتاؤ پھر کر لیجیے.

کتابِ زیست کے ہر اک سبق کو
عقل سے بالا تر رکھا گیا ہے
دوسرا مصرعہ بحر میں نہیں ہے. عقل کا تلفظ غلط کیا گیا ہے. عقل میں ق ساکن ہوتی ہے.عَقْ+لْ

تمھاری بےرخی کو جھیلنے کو
ہمارا ہی جگر رکھا گیا ہے
بے رخی کے بعد کو زائد ہے.محض "بے رخی جھیلنے کو" کہنا چاہیے.
مگر وزن درست رکھنے کے لئے مصرعے کی بنت میں تبدیلی کرنا ہوگی.

ڈبونا ہے ہمارے حوصلوں کو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے
ڈبونے کے بجائے یہاں آزمانا استعمال کر کے دیکھیں.

ہم اک دن چھین لیں گے تم سے تم کو
اداؤں میں ہنر رکھا گیا ہے
کس کی اداؤں میں؟ دوسرا مصرعہ بہت الجھا ہوا لگتا ہے.

دعاگو،
راحل.
 

صابرہ امین

لائبریرین
مطلع یوں لگتا ہے جیسے کسی قطعے کے پہلے دو مصرعے ہوں، یعنی بات کچھ ادھوری سے لگتی ہے. اس کے ساتھ ایک شعر اور ملا کر آپ اسے قطعہ بند کرسکتی ہیں.
محترم راحل بھای
آداب
ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔

ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
سراسر دربدر رکھا گیا ہے

یا
ہمیں زیر و زبر رکھا گیا ہے
سراسر دربدر رکھا گیا ہے

یا

ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
ہمیں یوں دربدر رکھا گیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں برباد کرنے میں تھے شامل
جنہیں یوں معتبررکھا گیا ہے

یا

ہمیں برباد کرنے میں تھے شامل
انہیں کیوں معتبررکھا گیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا کہا ہے، سہلِ ممتنع میں :)
اگرچہ دوسرے مصرعے میں کدھر کے بجائےشاید کہاں کہنا زیادہ قرین از روز مرہ ہوگا، مگر قافیہ کی مجبوری ہے.
میرے خیال میں دوسرے مصرعے میں بتاؤ تو کو بتاؤ پھر کر لیجیے.

جی بہتر


اگر ہم کو نہیں رکھا ہے دل میں
بتاؤ پھر کدھر رکھا گیا ہے

دوسرا مصرعہ بحر میں نہیں ہے. عقل کا تلفظ غلط کیا گیا ہے. عقل میں ق ساکن ہوتی ہے.عَقْ+لْ
بجا فرمایا

کتابِ زیست کے ہر اک سبق کو
سمجھ سے بالا تر رکھا گیا ہے

بے رخی کے بعد کو زائد ہے.محض "بے رخی جھیلنے کو" کہنا چاہیے.
مگر وزن درست رکھنے کے لئے مصرعے کی بنت میں تبدیلی کرنا ہوگی.
دیکھیئے ۔ ۔

تمھاری کج ادائ جھیلنے کو
ہمارا ہی جگر رکھا گیا ہے


ڈبونے کے بجائے یہاں آزمانا استعمال کر کے دیکھیں.
ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔


ہے کوشش حوصلے کو آزمائش
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

ہے کوشش حوصلے کو آزمانا
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

ہمارے حوصلوں سے ڈر کے یارو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

ویسے ہم کوئ نئ جہت یا اصطلاح کیوں نہیں ایجاد کر سکتے ۔ ۔ کیا صرف مستعمل اصطلاح ہی معروف اور پسندیدہ ہے ۔ ۔ جیسے

ڈبونا ہے ہمارے حوصلوں کو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

یہ سراسر غلط ہو گا؟ راحل بھائ رہنمائ کیجیئے ۔ ۔

کس کی اداؤں میں؟ دوسرا مصرعہ بہت الجھا ہوا لگتا ہے.

تمہیں پا لیں گے اک دن، کہ ہماری
اداؤں میں ہنر رکھا گیا ہے

تمہیں ہم چھین ہی لیں گے، ہماری
اداؤں میں ہنر رکھا گیا ہے

امید کرتی بہتری آئ ہو گی ۔ ۔ ۔ شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو حوصلے ڈبونا بھی اچھی اور نئی ترکیب لگ رہی ہے، بہتر ہے کہ وہی رکھو۔
یہ بہتر ہے
ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
سراسر دربدر رکھا گیا ہے

ہمیں برباد کرنے میں تھے شامل
جنہیں یوں معتبررکھا گیا ہے

اور
تمہیں ہم چھین ہی لیں گے، ہماری
اداؤں میں ہنر رکھا گیا ہے

باقی تو درست ہو ہی گئے ہیں راحل کے مشوروں کے مطابق۔
 
ویسے ہم کوئ نئ جہت یا اصطلاح کیوں نہیں ایجاد کر سکتے ۔ ۔ کیا صرف مستعمل اصطلاح ہی معروف اور پسندیدہ ہے ۔ ۔ جیسے

ڈبونا ہے ہمارے حوصلوں کو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

یہ سراسر غلط ہو گا؟ راحل بھائ رہنمائ کیجیئے

صابرہ بہن، جدت طرازی پر کوئی پابندی یے نہ ہی میں نے آپ کے شعر کو غلط کہا تھا. بس ایک تجویز تھی، کہ میرے خیال اس مقام پر آزمائش زیادہ مناسب فعل محسوس ہو رہا تھا :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ بہن، جدت طرازی پر کوئی پابندی یے نہ ہی میں نے آپ کے شعر کو غلط کہا تھا. بس ایک تجویز تھی، کہ میرے خیال اس مقام پر آزمائش زیادہ مناسب فعل محسوس ہو رہا تھا :)
راحل بھائ
آداب
یہ میں اس لیئے پوچھ رہی تھی کہ کبھی کبھی کچھ نامانوس سی تشبیہات اور خیالات ذہن میں آ جاتے ہیں ۔ ۔ تو کیا ہمیں شاعری میں ایسا کرنا چاہیئے یا اس سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ ۔ میں آپ سے صرف یہ سمجھنا چاہتی تھی ۔ ۔ جیسے شروع میں اساتذہ سے اصرار کرتی رہی کہ قافیہ کے بغیر کچھ کام چل جائے ۔ ۔ عروض کی سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی ۔ ۔ مگر مجھے آخر کو قافیہ سیکھنا ہی پڑا ۔ ۔ بس اس لیئے ۔ ۔ کیونکہ قافیہ کی پابندی ہمیں کچھ اور الفاظ استعمال کرنے پر مجبور بھی کر دیتی ہے جو رائج نہ ہوں ۔ ۔ ۔ بس قافیہ کی وجہ سے فٹ نہیں ہوتے ۔ ۔ میرے کسی بھی شعر کی میری نظر میں کوئ اہمیت نہیں اگر آپ کے نزدیک وہ اچھا نہ ہو ۔ ۔ میں معذرت چاہتی ہوں اگر کچھ غلطی ہو گئ ہو۔۔۔ آپ سب سے ہی سیکھ کر تو آج میں یہاں ہوں ۔ ۔ صرف دعائیں ہی دے سکتی ہوں ۔ ۔ اللہ آپ سب کوہر طرح سے مالا مال کرے ۔ ۔ آمین
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
آداب
اصلاح و رہنمائ کے بعد آپ سب سے ایک نظرِ ثانی کی درخواست ہے ۔ ۔شکریہ


ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
سراسر دربدر رکھا گیا ہے

ہمیں برباد کرنے میں تھے شامل
جنہیں یوں معتبررکھا گیا ہے

ہوئ ہے آبلہ پائ مقدر
لکیروں میں سفر رکھا گیا ہے

تمھاری ان کہی باتیں سمجھنا
ہمارا دردِ سر رکھا گیا ہے

تمھیں ہے ناز اپنی خوبیوں پر
ہمیں بھی خوب تر رکھا گیا ہے

محبت کیوں نہ ہم کو داغ دے گی
کہ مانندِ شرر رکھا گیا ہے

اگر ہم کو نہیں رکھا ہے دل میں
بتاؤ پھر کدھر رکھا گیا ہے

کتابِ زیست کے ہر اک سبق کو
سمجھ سے بالا تر رکھا گیا ہے

کوئ بھی بات کب چھپتی ہے تم سے
تمہیں کیوں نامہ بر رکھا گیا ہے

تمھاری کج ادائ جھیلنے کو
ہمارا ہی جگر رکھا گیا ہے

ڈبونا ہے ہمارے حوصلوں کو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

تمہیں ہم چھین ہی لیں گے، ہماری
اداؤں میں ہنر رکھا گیا ہے
 
راحل بھائ
آداب
یہ میں اس لیئے پوچھ رہی تھی کہ کبھی کبھی کچھ نامانوس سی تشبیہات اور خیالات ذہن میں آ جاتے ہیں ۔ ۔ تو کیا ہمیں شاعری میں ایسا کرنا چاہیئے یا اس سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ ۔ میں آپ سے صرف یہ سمجھنا چاہتی تھی ۔ ۔ جیسے شروع میں اساتذہ سے اصرار کرتی رہی کہ قافیہ کے بغیر کچھ کام چل جائے ۔ ۔ عروض کی سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی ۔ ۔ مگر مجھے آخر کو قافیہ سیکھنا ہی پڑھا ۔ ۔ بس اس لیئے ۔ ۔ کیونکہ قافیہ کی پابندی ہمیں کچھ اور الفاظ استعمال کرنے پر مجبور بھی کر دیتی ہے جو رائج نہ ہوں ۔ ۔ ۔ بس قافیہ کی وجہ سے فٹ نہیں ہوتے ۔ ۔ میرے کسی بھی شعر کی میری نظر میں کوئ اہمیت نہیں اگر آپ کے نزدیک وہ اچھا نہ ہو ۔ ۔ میں معذرت چاہتی ہوں اگر کچھ غلطی ہو گئ ہو۔۔۔ آپ سب سے ہی سیکھ کر تو آج میں یہاں ہوں ۔ ۔ صرف دعائیں ہی دے سکتی ہوں ۔ ۔ اللہ آپ سب کوہر طرح سے مالا مال کرے ۔ ۔ آمین
صابرہ بہن، آداب.
آپ بلاجھجک سوال کیا کیجیے اور اگر میری کسی بات سے اتفاق نہ ہو تو برملا اظہار بھی کیجیے. اس میں میرے یا کسی اور کے لیے بھی برا ماننے والی کوئی بات نہیں. کم از کم میں تو ابھی اس مقام سے کوسوں دور ہوں کہ اختلاف رائے پر منہ بسور لوں :)

دیکھیں، قواعد انشا کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی بھی ترکیب تراشی جاسکتی ہے، اس پر تو کوئی قدغن نہیں لگاتا نہ لگا سکتا ہے ... لیکن میرے خیال میں اس کام کو بھرپور اور بدرجہ اتم کرنے کے لئے خداداد صلاحیت کے ساتھ ساتھ وسیع مطالعہ بھی درکار ہوتا ہے. پھر ضروری نہیں کہ ہر نئی ترکیب کو قبول عام بھی نصیب ہو. میرا مقصد ہرگز کسی کی بھی حوصلہ شکنی کرنا نہیں ہے. یہ کوئی مذہبی معاملہ تو ہے نہیں کہ روایت سے ہٹنے میں سلبِ ایمان کا اندیشہ ہو :)
کہنے کا مقصد بس یہ ہے کہ اگر آپ کے ذہن میں کوئی ترکیب آتی ہے تو بالکل اسے استعمال کیجیے ... ہاں، مگر پہلے یہ ضرور جانچ لیجیے کہ اس میں کوئی محاوراتی، معنوی یا منطقی جھول تو نہیں!
آج کل اکثر شعرا مشکل نویسی کے شوق میں عجیب عجیب تراکیب تراشتے ہیں، اور انہیں فیس بک وغیرہ پر ان بے سروپا "اشعار" پر تعریف کے ڈونگرے برسانے والے چمچے بھی خوب میسر ہو جاتے ہیں.
ایک دفعہ کہیں سمپورن سنگھ گلزار صاحب کی ایک غزل پوسٹ ہوئی دیکھی جس کو آنجہانی جگجیت سنگھ نے گایا بھی تھا.
آنکھوں میں جل رہا ہے کیوں، بجھتا نہیں دھواں
اٹھتا تو ہے گھٹا سا، برستا نہیں دھواں

چھوٹا منہ بڑی بات والا معاملہ ہے، گلزار صاحب بڑے آدمی ہیں اور ان کی اردو سے محبت بلاشبہ لائق تحسین ہے... تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ میں نے پہلی دفعہ یہ غزل شاید 1998 یا 99 میں سنی تھی، مگر آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ دھواں جل، بجھ اور برس کیسے سکتا ہے؟؟؟ ایسی ہی نرالی تراکیب اور محاورے ان کے فلمی گیتوں میں بھی نظر آتے ہیں، جہاں کبھی آنکھیں سریلی ہوجاتی ہیں تو کبھی ان سے نیندیں بہنے لگتی ہیں :)
العرض یہ بڑا مشکل فن ہے، جس کو کوئی کوئی ہی کما حقہ نبھا پاتا ہے. ہمارے ظہیر بھائی بلاشبہ اس فن کے آئمہ میں سے ہیں. سو اگر آپ کے ذہن میں کوئی ترکیب آئے جس کے بارے میں آپ متردد ہوں تو ظہیر بھائی سے رہنمائی حاصل کرسکتی ہیں.

رہی بات اس غزل میں حوصلہ ڈبونے والی ترکیب کی، تو جیسا میں نے پہلے کہا کہ میں نے اسے غلط نہیں کہا تھا، نہ ہی مجھے اس میں کوئی معنوی سقم محسوس ہوا. میرا خیال بس یہ تھا کہ حوصلے کی آزمائش، کنارے پر بھنور رکھنے کی زیادہ بہتر علت معلوم ہوتی ہے.
مگر استاد محترم کی رائے اس کے برعکس ہے ... ظاہر ہے کہ وہ مجھ سے اعلم بھی ہیں اور اقدم بھی، اس لیے میری رائے پر ان کی رائے کو یقینا فوقیت حاصل ہے.

باقی، غزل اب میرے خیال میں تو درست ہے.

دعاگو،
راحل.
 

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ بہن، آداب.
آپ بلاجھجک سوال کیا کیجیے اور اگر میری کسی بات سے اتفاق نہ ہو تو برملا اظہار بھی کیجیے. اس میں میرے یا کسی اور کے لیے بھی برا ماننے والی کوئی بات نہیں. کم از کم میں تو ابھی اس مقام سے کوسوں دور ہوں کہ اختلاف رائے پر منہ بسور لوں :)

دیکھیں، قواعد انشا کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی بھی ترکیب تراشی جاسکتی ہے، اس پر تو کوئی قدغن نہیں لگاتا نہ لگا سکتا ہے ... لیکن میرے خیال میں اس کام کو بھرپور اور بدرجہ اتم کرنے کے لئے خداداد صلاحیت کے ساتھ ساتھ وسیع مطالعہ بھی درکار ہوتا ہے. پھر ضروری نہیں کہ ہر نئی ترکیب کو قبول عام بھی نصیب ہو. میرا مقصد ہرگز کسی کی بھی حوصلہ شکنی کرنا نہیں ہے. یہ کوئی مذہبی معاملہ تو ہے نہیں کہ روایت سے ہٹنے میں سلبِ ایمان کا اندیشہ ہو :)
کہنے کا مقصد بس یہ ہے کہ اگر آپ کے ذہن میں کوئی ترکیب آتی ہے تو بالکل اسے استعمال کیجیے ... ہاں، مگر پہلے یہ ضرور جانچ لیجیے کہ اس میں کوئی محاوراتی، معنوی یا منطقی جھول تو نہیں!
آج کل اکثر شعرا مشکل نویسی کے شوق میں عجیب عجیب تراکیب تراشتے ہیں، اور انہیں فیس بک وغیرہ پر ان بے سروپا "اشعار" پر تعریف کے ڈونگرے برسانے والے چمچے بھی خوب میسر ہو جاتے ہیں.
ایک دفعہ کہیں سمپورن سنگھ گلزار صاحب کی ایک غزل پوسٹ ہوئی دیکھی جس کو آنجہانی جگجیت سنگھ نے گایا بھی تھا.
آنکھوں میں جل رہا ہے کیوں، بجھتا نہیں دھواں
اٹھتا تو ہے گھٹا سا، برستا نہیں دھواں

چھوٹا منہ بڑی بات والا معاملہ ہے، گلزار صاحب بڑے آدمی ہیں اور ان کی اردو سے محبت بلاشبہ لائق تحسین ہے... تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ میں نے پہلی دفعہ یہ غزل شاید 1998 یا 99 میں سنی تھی، مگر آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ دھواں جل، بجھ اور برس کیسے سکتا ہے؟؟؟ ایسی ہی نرالی تراکیب اور محاورے ان کے فلمی گیتوں میں بھی نظر آتے ہیں، جہاں کبھی آنکھیں سریلی ہوجاتی ہیں تو کبھی ان سے نیندیں بہنے لگتی ہیں :)
العرض یہ بڑا مشکل فن ہے، جس کو کوئی کوئی ہی کما حقہ نبھا پاتا ہے. ہمارے ظہیر بھائی بلاشبہ اس فن کے آئمہ میں سے ہیں. سو اگر آپ کے ذہن میں کوئی ترکیب آئے جس کے بارے میں آپ متردد ہوں تو ظہیر بھائی سے رہنمائی حاصل کرسکتی ہیں.

رہی بات اس غزل میں حوصلہ ڈبونے والی ترکیب کی، تو جیسا میں نے پہلے کہا کہ میں نے اسے غلط نہیں کہا تھا، نہ ہی مجھے اس میں کوئی معنوی سقم محسوس ہوا. میرا خیال بس یہ تھا کہ حوصلے کی آزمائش، کنارے پر بھنور رکھنے کی زیادہ بہتر علت معلوم ہوتی ہے.
مگر استاد محترم کی رائے اس کے برعکس ہے ... ظاہر ہے کہ وہ مجھ سے اعلم بھی ہیں اور اقدم بھی، اس لیے میری رائے پر ان کی رائے کو یقینا فوقیت حاصل ہے.

باقی، غزل اب میرے خیال میں تو درست ہے.

دعاگو،
راحل.

راحل بھائ ، راہنمائ کا بے حد شکریہ ۔ ۔ جزاک اللہ :)
 

الف عین

لائبریرین
محبت کیوں نہ ہم کو داغ دے گی
کہ مانندِ شرر رکھا گیا ہے
پر شاید پہلے غور نہیں کیا گیا۔ کسے رکھا گیا ہے، یہ واضح نہیں ۔ لیکن سیاق سے محبت ہی کو رکھے جانے کی بات ہو سکتی ہے۔ لیکن وہ مونث ہوتی ہے، اور 'رکھی گئی ہے' کا محل تھا۔ میرے خیال میں اسے یوں کر دیں
نہ کیوں یہ عشق ہم کو داغ دے گا
اسے مثل شرر.....
باقی درست ہیں اشعار
 

صابرہ امین

لائبریرین
محبت کیوں نہ ہم کو داغ دے گی
کہ مانندِ شرر رکھا گیا ہے
پر شاید پہلے غور نہیں کیا گیا۔ کسے رکھا گیا ہے، یہ واضح نہیں ۔ لیکن سیاق سے محبت ہی کو رکھے جانے کی بات ہو سکتی ہے۔ لیکن وہ مونث ہوتی ہے، اور 'رکھی گئی ہے' کا محل تھا۔ میرے خیال میں اسے یوں کر دیں
نہ کیوں یہ عشق ہم کو داغ دے گا
اسے مثل شرر.....
باقی درست ہیں اشعار
استادِ محترم
آداب
جی بہتر ۔ ۔ بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ راہنمائ کے بعد اب یہ صورت ہے ۔ ۔


ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
سراسر دربدر رکھا گیا ہے

ہمیں برباد کرنے میں تھے شامل
جنہیں یوں معتبررکھا گیا ہے

ہوئ ہے آبلہ پائ مقدر
لکیروں میں سفر رکھا گیا ہے

تمھاری ان کہی باتیں سمجھنا
ہمارا دردِ سر رکھا گیا ہے

تمھیں ہے ناز اپنی خوبیوں پر
ہمیں بھی خوب تر رکھا گیا ہے

نہ کیوں یہ عشق ہم کو داغ دے گا
اسے مثلِ شرررکھا گیا ہے

اگر ہم کو نہیں رکھا ہے دل میں
بتاؤ پھر کدھر رکھا گیا ہے

کتابِ زیست کے ہر اک سبق کو
سمجھ سے بالا تر رکھا گیا ہے

کوئ بھی بات کب چھپتی ہے تم سے
تمہیں کیوں نامہ بر رکھا گیا ہے

تمھاری کج ادائ جھیلنے کو
ہمارا ہی جگر رکھا گیا ہے

ڈبونا ہے ہمارے حوصلوں کو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

تمہیں ہم چھین ہی لیں گے، ہماری
اداؤں میں ہنر رکھا گیا ہے
 

صابرہ امین

لائبریرین
در بدر ہونا، در بدر پھرنا، وغیرہ تو مستعمل ہے لیکن "در بدر رکھنا" کا استعمال کیسا ہے؟
وارث صاحب
آداب
اصلاح و راہنمائ کا شکریہ ۔ ۔
ملاحظہ کیجیئے کیا بہتر رہے گا ۔ ۔

ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
یونہی دستِ نگر رکھا گیا ہے
یا

ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
صدائے بے اثر رکھا گیا ہے
یا

ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
گدائے چشمِ تر رکھا گیا ہے

یا

ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
فقیرِ دیدہ تر رکھا گیا ہے
یا

ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
فقیرِ دربدر رکھا گیا ہے

یا

ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
فقیرِ بےہنر رکھا گیا ہے

یا
ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
وفاؤں کا ثمر رکھا گیا ہے

یا
ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
وہیں ہیں ہم جدھر رکھا گیا ہے

امید کرتی ہوں کوئ مصرعہ تو ٹھیک ہو گا ورنہ دوبارہ آپ کی ہدایت پر کوشش کی جائے گی ۔ ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
میں نے تو قبول کرلیا کہ خود در بدر پھرنے کی بات نہیں ہے، کوئی مجبور کر رہا ہے اس عمل کے لئے!

استادِ محترم
آداب
جی بہتر ۔ ۔ بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ راہنمائ کے بعد اب یہ صورت ہے ۔ ۔



ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
سراسر دربدر رکھا گیا ہے

ہمیں برباد کرنے میں تھے شامل
جنہیں یوں معتبررکھا گیا ہے

ہوئی ہے آبلہ پائی مقدر
لکیروں میں سفر رکھا گیا ہے

تمھاری اَن کہی باتیں سمجھنا
ہمارا دردِ سر رکھا گیا ہے

تمھیں ہے ناز اپنی خوبیوں پر
ہمیں بھی خوب تَر رکھا گیا ہے

نہ کیوں یہ عشق ہم کو داغ دے گا
اسے مثلِ شرر رکھا گیا ہے

اگر ہم کو نہیں رکھا ہے دل میں
بتاؤ پھر کدھر رکھا گیا ہے

کتابِ زیست کے ہر اک سبق کو
سمجھ سے بالا تر رکھا گیا ہے

کوئی بھی بات کب چھپتی ہے تم سے
تمہیں کیوں نامہ بر رکھا گیا ہے

تمھاری کج ادائی جھیلنے کو
ہمارا ہی جگر رکھا گیا ہے

ڈبونا ہے ہمارے حوصلوں کو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

تمہیں ہم چھین ہی لیں گے، ہماری
اداؤں میں ہنر رکھا گیا ہے​
 
آخری تدوین:
ستادِ محترم
آداب
جی بہتر ۔ ۔ بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ راہنمائ کے بعد اب یہ صورت ہے ۔ ۔



ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
سراسر دربدر رکھا گیا ہے

ہمیں برباد کرنے میں تھے شامل
جنہیں یوں معتبررکھا گیا ہے

ہوئی ہے آبلہ پائی مقدر
لکیروں میں سفر رکھا گیا ہے

تمھاری اَن کہی باتیں سمجھنا
ہمارا دردِ سر رکھا گیا ہے

تمھیں ہے ناز اپنی خوبیوں پر
ہمیں بھی خوب تَر رکھا گیا ہے

نہ کیوں یہ عشق ہم کو داغ دے گا
اسے مثلِ شرر رکھا گیا ہے

اگر ہم کو نہیں رکھا ہے دل میں
بتاؤ پھر کدھر رکھا گیا ہے

کتابِ زیست کے ہر اک سبق کو
سمجھ سے بالا تر رکھا گیا ہے

کوئی بھی بات کب چھپتی ہے تم سے
تمہیں کیوں نامہ بر رکھا گیا ہے

تمھاری کج ادائی جھیلنے کو
ہمارا ہی جگر رکھا گیا ہے

ڈبونا ہے ہمارے حوصلوں کو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

تمہیں ہم چھین ہی لیں گے، ہماری
اداؤں میں ہنر رکھا گیا ہے​
بہت خوبصورت! اوریجنل!
 

نور وجدان

لائبریرین
ہوئی ہے آبلہ پائی مقدر
لکیروں میں سفر رکھا گیا ہے


نہ کیوں یہ عشق ہم کو داغ دے گا
اسے مثلِ شرر رکھا گیا ہے


کتابِ زیست کے ہر اک سبق کو
سمجھ سے بالا تر رکھا گیا ہے



ڈبونا ہے ہمارے حوصلوں کو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے



بہت خوب
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ہمیں بےبال و پر رکھا گیا ہے
سراسر دربدر رکھا گیا ہے

ہمیں برباد کرنے میں تھے شامل
جنہیں یوں معتبررکھا گیا ہے

ہوئی ہے آبلہ پائی مقدر
لکیروں میں سفر رکھا گیا ہے

تمھاری اَن کہی باتیں سمجھنا
ہمارا دردِ سر رکھا گیا ہے

تمھیں ہے ناز اپنی خوبیوں پر
ہمیں بھی خوب تَر رکھا گیا ہے

نہ کیوں یہ عشق ہم کو داغ دے گا
اسے مثلِ شرر رکھا گیا ہے

اگر ہم کو نہیں رکھا ہے دل میں
بتاؤ پھر کدھر رکھا گیا ہے

کتابِ زیست کے ہر اک سبق کو
سمجھ سے بالا تر رکھا گیا ہے

کوئی بھی بات کب چھپتی ہے تم سے
تمہیں کیوں نامہ بر رکھا گیا ہے

تمھاری کج ادائی جھیلنے کو
ہمارا ہی جگر رکھا گیا ہے

ڈبونا ہے ہمارے حوصلوں کو
کنارے پر بھنور رکھا گیا ہے

تمہیں ہم چھین ہی لیں گے، ہماری
اداؤں میں ہنر رکھا گیا ہے
بہت خوبصورت غزل۔ بہت خوب۔
 
Top