ابن رضا
لائبریرین
ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ مٹھی کھول دینی ہے
وہ گیلی ریت ہوتی ہے جسے مٹھی میں بھرنے سے
ہمیں لگتا ہے شاید اب اسے ہم روک پائیں گے
مگر ہم بھول جاتے ہیں سرکنا جس کی فطرت ہو
اسے اپنے ارادے سے کوئی کب روک سکتا ہے
ہم اکثر خود فریبی میں جسے اپنا سمجھتے ہیں
ضروری تو نہیں ہے وہ بھی ایسا ہی سمجھتا ہو
ہوائیں جب نمی اس کی دبے پاؤں چراتی ہیں
وہ ہر لحظہ مچلتی ہے وہ ہر لمحہ سرکتی ہے
عجب جنگ و جدل سی اک پھر اس کو روک لینے کی
بپا ہوتی ہے سینے میں، ہمیں بے چین کرتی ہے
ہم اس بے اختیاری پر لہو کے اشک پیتے ہیں
اسے کرتے ہوئے رخصت نہ مرتے ہیں نہ جیتے ہیں
ہماری سب توانائی وہ ایسے صرف کرتی ہے
پرایا مال ہو جیسے کہ ماہ و سال ہوں جیسے
ہمیں اس خرچ ہونے میں بہت تکلیف ہوتی ہے
جو مٹھی کھول دیتے ہیں تو ہم یہ مان لیتے ہیں
کہ جب جانا ٹھہر جائے تو پھر روکا نہیں جاتا
ہمیں یہ جاننا ہوگا کبھی تو سیکھنا ہوگا
کہ مٹھی کھول دینا ہی ہمیں آزاد کرتا ہے
تعلق ٹوٹ جانے سے کسی کے روٹھ جانے سے
کسی کے پاس آنے سے کسی کے دور جانے سے
کسی کو فرق پڑتا ہے نہ کوئی یاد رکھتا ہے
کسی امید مبہم پر نہ آنسو جھلملاتے ہیں
ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ مٹھی کھول دینی ہے
ابن رضا
آخری تدوین: