نظیر ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے رہے نہ رہے ۔ نظیر اکبر آبادی

فرخ منظور

لائبریرین
ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے رہے نہ رہے
مژہ پہ آن کے ٹک جم رہے رہے نہ رہے

رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے

مجھے ہے نزع، وہ آتا ہے دیکھنے اب آہ
کہ اس کے آنے تلک دم رہے رہے نہ رہے

بقا ہماری جو پوچھو تو جوں چراغِ مزار
ہوا کے بیچ کوئی دم رہے رہے نہ رہے

چلو جو ہم سے تومل لو کہ ہم بہ نوکِ گیاہ
مثالِ قطرۂ شبنم رہے رہے نہ رہے

یہی ہے عزم کہ دل بھر کے آج رو لیجے
کہ کل یہ دیدۂ پُرنم رہے رہے نہ رہے

یہی سمجھ لو ہمیں تم کہ اِک مسافر ہیں
جو چلتے چلتے کہیں تھم رہے رہے نہ رہے

نظیر آج ہی چل کر بتوں سے مل لیجے
پھر اشتیاق کا عالم رہے رہے نہ رہے

(نظیر اکبر آبادی)
 

محمداحمد

لائبریرین
رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے
سبحان اللہ ۔ خوبصورت غزل ہے۔​
خوش رہیے۔​
 
رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں​
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے​

بہت عمدہ ، میری نظر سے تو یہ آج ہی گزرا ہے شیزاد بھائی اسے اوپر لے آئے
برادران فرخ منظور و سید شہزاد ناصر کا شکریہ
اللہ اللہ میرے نام کی ٹانگ تو نہ توڑیں
شیزاد نہیں شہزاد :mad3:
 

فرخ منظور

لائبریرین

Tahir Shahzad

محفلین
رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے

اس شعر میں رہنمائی درکار ہے جیسا کہ شخص ایک واحد ہے جبکہ رہیں کا لفظ جمع کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
 
Top