سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 27 اپریل 2013
از طرف: سید انور محمودنوٹ: یہ مضمون جنوری 2013 میں لکھا تھا، بہت ساری تبدیلیاں آچکی ہیں ، 11 مئی کو الیکشن ہونے جارہے۔ اس مضمون کو پڑہیے اور موقعہ پرستوں کے بارے میں جانیے، اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہمارئے سیاست داں کیا کیا کرتے ہیں۔ اپنی رائے ضرور لکھیے گا۔
ہم ان لوٹوں سے بہت پریشان ہوچکےہیں
گھر کے کچن میں جو صاحب ٹائیل لگانے آئے تھے چلتے وقت یہ نادر شاہی حکم فرماگئےکہ بارہ گھٹے بعد انکو پانی دے دیجیے گا ورنہ یہ مضبوط نہ ہونگے ۔ دوسری صبح جب ہم نے اپنی بیٹی سے ٹائیلوں کو پانی دینے کے لیے لوٹا مانگا تو اس نے سوال کیا کہ آپکو لوٹا چاہیے یا لوٹی؟ یا خدا یہ لوٹا اور لوٹی کب سے ہونے لگے ہم نے تو ہمیشہ لوٹا ہی کہا ہے۔ ابو لوٹا اورلوٹی تو ہمیشہ سے ہیں بس آپ نے لوٹا کہنے کی عادت ڈالی ہوئی ہے۔ابھی آپ اس ڈونگے سے پانی ڈالیں کیونکہ اسکا پیندہ بھی ہوتا ہے اور ہینڈل بھی۔ کیا کرتے ڈونگے سے پانی ڈالنا شروع کیا اور بیٹی سے پوچھا کہ چلو اب بتاو یہ لوٹا لوٹی کیا ہیں ۔ اس نے کہنا شروع کیا ،آسان سی بات ہے لوٹا مذکر ہے اور لوٹی مونث۔ اس کی مثال یوں لے لیں کہ منظووٹو جو کبھی مسلم لیگی تھےاور جناع مسلم لیگ بھی بناچکے ہیں آجکل پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر ہیں اور ماروی میمن جو پرویزمشرف کی بہت قریبی ساتھی تھیں وہ اب مسلم لیگ ن میں شامل ہوگیں ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں منظور وٹو لوٹا ہیں تو ماروی میمن لوٹی ہیں۔ مگر آپ انہیں لوٹا یا لوٹی کیوں کہہ رہی ہیں، وہ سیاست دان ہیں کسی بھی پارٹی میں جاسکتے ہیں تاکہ عوام کی خدمت کرسکیں آپ کو کیوں اعتراض ہے؟میری بیٹی مسکرائی اور بولی آپکو ذرا تفصیل سے بتانا پڑے گا، تو سنیے:ہمارا ملک پاکستان 1947 میں آزاد ہوا، کافی ممالک ہمارے بعدمیں آزاد ہوئے مگرسب نے ترقی کی لیکن نہ ہی ہمارے ملک میں ترقی ہوئی اور نہ ہی جمہورت آسکی جبکہ اس ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں، زراعت ، معدینات، ہنر اور محنت کشوں سے یہ ملک مالا مال ہے اور ہم نے یہ ملک بھی جمہوری طریقے سے ہی حاصل کیا ہے، مگرموقع پرستوں جن میں جاگیرداروں، سرداروں، خانوں، وڈیروں اور سرمایہ دار سیاستدانوں کی اکثریت ہے انہوں نے خود کو اقتدار کی کرسی سے کبھی دور نہ ہونے دیا۔ مسلم لیگ جب اقتدار سے آوٹ ہوئی توسازش کے زریعے ری پبلکن کو لایا گیا اور ان ہی موقع پرستوں نے جنہیں آج کی زبان میں آپ لوٹا بھی کہہ سکتے ہیں ڈاکٹر خان جیسے کانگریسی لیڈر کو جس نے پاکستانی پرچم کو سلامی دینے سے انکار کیا تھا اپنا لیڈر منتخب کیا۔محترمہ فاطمہ جناع کو ایوب خان کے ہاتھوں شکست دلانے والے بھی یہ ہی موقع پرست لوٹے تھے لیکن جب ایوب خان کا سورج غروب ہوا تو 1970 کے الیکشن میں کنویشن مسلم لیگ کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے امیدوار نہیں تھے۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر جب بھٹو نے 1970 کا الیکشن لڑا تو بعض مقامات پر انکو امیدوار نہیں مل رہے تھے کیونکہ موقع پرست لوٹے ابھی پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آتا نہیں دیکھ رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی پیپلز پارٹی اقتدارمیں آئی لوٹوں کی یلغار ہوگی اور پھر1977 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں میں اکثریت لوٹوں کی ہی تھی۔ آغا شورش کاشمیری مرحوم نے کوثر نیازی کے بارئے میں کہا تھا کہ یہ شخص موقعہ پرست ہے جو پہلے جماعت اسلامی میں رہا اوربعد میں کنونشن لیگ میں اور اب پیپلزپارٹی میں وہ بھٹو سے کیا وفا کرے گااور ایسا ہی ہوا جب ضیاءالحق نے مارشل لاءنافذ کیا تومولانہ کوثر نیازی اور غلام مصطفی جتوئی نے سب سے پہلےاس کے دربار میں حاضری دی۔ ان سیاستدانوں نے فوراً اپنا الگ پارٹی دھڑا بنا لیا یعنی جب مصیبت کا وقت آیا تو اپنی پارٹی سے یوں منہ پھیر لیا، گویا کبھی اس کے ساتھ نہ تھے۔ ضیاءالحق کے بعد اس کے دربار کےلوٹے اپنے اپنے مفاد کی تلاش میں نکلے۔ نواز شریف جو جونیجو کو اپنا عظیم قائد اور خود کو ضیاء الحق کا بیٹا قرار دیتے تھے سب سے پہلے لوٹا بنکر غلام اسحق خان کے ساتھ ملکرجونیجو کا پتہ صاف کیا اور 1990 میں ملک کے وزیر اعظم بنے۔
حکومتیں بدلتی رہیں مگر لوٹوں نے اپنا کھیل جاری رکھا،جدید دور کے مفاد پرست لوٹا منظور وٹو ہیں جنہوں نےغلام اسحاق سے مل کر پنجاب اسمبلی میں لوٹا کریسی کی فیکٹری بنا ڈالی اور راتوں رات مفادپرست عناصر کو قومی خزانے سے اربوں روپے دے کر وفاداریاں تبدیل کروا لیں۔ وہی جو ایک دن قبل نوازشریف کے ساتھ تھے ، وہ منظور وٹو کے حامی بن گئے۔ جنرل مشرف کے دور میں تو لوٹوں کے کاروبارمیں ایسی ترقی ہوئی کہ اب نہ صرف مفاد پرست بلکہ سیاسی جماعتوں تک نے لوٹوں کا کردار ادا کیا۔ نواز شریف نے جونیجو سے جو مسلم لیگ چھینی تھی مشرف کے آنے بعد اس میں سے ق لیگ نے جنم لیا اور ری پبلکن پارٹی کی یاد تازہ کر دی اور پوری ق لیگ لوٹا بنکر مشرف کو اتنی مرتبہ وردی میں صدر بنانا چاہتی تھی جس کی خود مشرف کو بھی شاید تمنا نہ ہو۔ دوسری طرف جولائی 2001 میں پاکستان کی چھ مذہبی سیاسی جماعتوں نے ایک نئے اتحاد ”متحدہ مجلس عمل“کے قیام کی منظوری دی تھی،جس کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے اسلامی نظام کے قیام اور لادینی عناصر کی یلغار کا مقابلہ کرنا تھا مگر کچھ عرصے بعد متحدہ مجلس عمل نے بھرپور لوٹے کا کردار ادا کیا یعنی 19دسمبر 2003 کو حکومت سے ایل ایف او پر تمام معاملات طے کرکے سودے بازی کرلی۔28دسمبر 2003کوقاضی حسین احمد ،مولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا ، اس زمانے میں ایم ایم اے کی جگہ ملاملٹری اتحاد بہت مشہور ہوا تھا۔ 2001 میں بنے والا اتحاد ایم ایم اے بہت پہلے ہی مشرف سے ساز باز کرچکا تھا اسلیے 2002کے الیکشن میں ایم ایم اے نے قومی اسمبلی کی 68 اور سینٹ میں 20 نشستیں حاصل کیں،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی ایم ایم اے کی حمایت یافتہ حکومتیں قائم ہوئیں اوراگرایم ایم اے نے لوٹے کا کردار ادا نہیں کیا تھا تو پھر 2008 میں کیا ہوا۔ آجکل مولانا فضل الرحمن پھر اپنا بھاوُ بڑھانے کیے لیے دوبارہ ایم ایم اے کی دوکان کھول چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے موجودہ دور میں سابق وزیراعظم گیلانی بھی مفاد پرست لوٹا ہیں، موصوف ضیاء الحق کی کابینہ میں تھے۔ عمران خان کی تحریک انصاف کے جلسے کامیاب ہوتے دیکھکرنہ صرف مشرف دور کے مفاد پرست لوٹے بلکہ پیپلز پارٹی، ق لیگ اور نواز لیگ کے لوٹے بھی جوق در جوق تحریک انصاف میں جا پہنچے مگر ان لوٹوں کی وجہ سے تحریک انصاف کا گراف نیچے آنے لگا تو اکثر لوٹے واپس اپنی پرانی جماعت میں پہنچ گے۔
نواز شریف جب سے جدہ سے واپس آئے تھے تومشرف فوبیا کا شکار تھے، ان سے کوئی بھی سوال کیا جاتا یا وہ کہیں بھی تقریر کرتے بغیر مشرف کو برا بھلا کہے ان کو چین نہیں آتا تھا۔ آصف زرداری کی مکاریوں کا اسقدر شکار ہوئے کہ آج بھی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ نواز شریف جو اپنی باری کا گذشتہ پانچ سال سے انتظار کررہے ہیں، عمران خان کے حملوں اور آصف زرداری کی چالاکیوں کی زد میں ہیں لہذا الیکشن جیتنے کے لیے اپنے اس انکار سے منکر ہوگے جس میں انہوں نے لوٹوں کو پارٹی میں شامل کرنے سے انکار کیا تھا لیکن الیکشن کے قریب آنے پر نوازشریف نے اپنی پارٹی کادروازہ مفاد پرست لوٹوں کےلیے کھول دیا ہے اور اب لوٹوں کی آمدہر وقت جاری ہے۔ ان مفاد پرست لوٹوں میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب، انکے بیٹے عمر ایوب ، ماروی میمن، طارق عظیم، زاہد حامدسلیم سیف اللہ، ہمایوں اختر، حامد ناصر چٹھہ، امیر مقام، کشمالہ طارق اور سمیرا ملک نے بھی مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور نواز شریف اسقدر خوش ہیں کہ جب ماروی میمن نواز شریف سے ملیں اور اپنے مفاد پرست لوٹی ہونے کا اعلان کیا تو ان کی واپسی پرنواز شریف بصداحترام انکی کار تک انکو چھوڑنے بھی گے۔ آپ ان مفاد پرست لوٹوں کا کمال دیکھیے آجکل چوہدری پرویز الٰہی اور میاں منظور وٹو آصف زرداری کے سب سے بڑے وکیل بنکر پیپلز پارٹی کی غلط پالیسیوں اورکرپشن کا دفاع کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی نواز شریف کی طرح لوٹوں کی آمد پر خوش ہے۔ حال ہی میں مخدوم احمد محمود پنجاب کے گورنر مقررہوئے ہیں جبکہ ان کے تین صابزادے جن میں دو رکن اسمبلی ہیں پیپلزپارٹی میں شامل ہوگے ہیں جبکہ ان سب کا تعلق مسلم لیگ فنکشنل سے تھا، اسکے علاوہ پنجاب کے ضلع جہلم سے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر قومی رکن اسمبلی بننے والے دو بھائیوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ان موقع پرستوں یا لوٹوں کو نہ کسی نظریے سے دلچسپی ہوتی اور نہ ہی انکا کوئی اصول ہوتا ہے۔ انہیں اقتدارتک پہنچ کراپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے۔ چونکہ الیکشن کے موقع پر ہر پارٹی کولوٹوں کی تلاش میں رہتی ہے لہذا ہرمفاد پرست لوٹا یا لوٹی ایسی جماعت کی تلاش میں ہوتے ہیں جہاں انکے زیادہ سے زیادہ مفادات پورے ہوسکیں ۔
یہ سب کہہ کر میری بیٹی نے سوال کیا کہ پاکستان بنانے کی جدوجہد میرئے دادا اور انکی نسل نے کی ، پاکستان بن گیا اور گذشتہ 65 سال سے صرف پانچ فیصد مفاد پرست اس ملک کو لوٹ رہے ہیں، میرے دادا اور آپکی نسل نے کیو ں ایساہونے دیا ، آپ دو نسلوں کی اس کرپٹ سسٹم پر خاموشی ان مفاد پرستوں کے حوصلے بڑھاتے رہے اور آج پاکستان دہشت گردی، بھتہ خوری، رشوت خوری اورلاقانونیت کا بدترین شکار ہے، تعصب پوری قوم میں سرایت کرچکا ہے۔ مگر میری نسل اب خاموش نہیں بیٹھے گی، میری نسل کو سب سے پہلے ان لوٹوں سے چھٹکارا حاصل کرنا، آنے والے الیکشن سے پہلے ہم ہر سیاسی جماعت کے لیڈر کو یہ باور کرانا چاھتے ہیں کہ اب اگر وہ لوٹوں کے ساتھ انتخابات میں اترے تو عوام ان کو ووٹ نہیں دینگے۔ ہم کوئی ایسا کام نہیں کرینگے جس کی وجہ سے جمہوریت کو خطرہ ہو، ہم کسی کو پتھر نہیں مارینگے، کسی کے خلاف ہم کوئی نعرئے بازی نہیں کرینگے۔ لیکن ہم جدید سائنس کا استمال ضرور کرینگے، آج سوشل میڈیا کا دور ہے اسلیے ہم نہ تو الیکٹرنک میڈیا اور نہ ہی پرنٹ میڈیا کے محتاج ہیں۔ ہمارئے پاس لاکھوں فورم ویب سایٹس پر موجود ہیں جہاں ہم اپنی بات بغیر وقت ضایع کیے ایک دوسرئے کو پہنچاسکتے ہیں ، ہم آنے والے امیدواروں کے متعلق انٹرنیٹ کے زریعے ساری چھان بین کرینگے اور تمام معلومات پورے پاکستان میں شیر کرینگے اور اسکی اطلاع الیکشن کمیشن کے علاوہ پارٹی کے سربراہ کو بھی دینگے۔ اللہ کرئے میری بیٹی جو سوچ رہی ہے اس میں وہ کامیاب ہو، مگر اس میں میری نسل کے لوگوں کو بھی آگے بڑھکر اپنے بچوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنا ہوگا۔ بہت ہوچکا، ہمارئے بزرگ اور ہم ان لوٹوں سے بہت پریشان ہوچکےہیں۔