ناعمہ عزیز
لائبریرین
”ہمارا معاشرہ برُے انسانوں سے بھرا پڑا ہے“ یہ وہ عام سا فقرہ ہے جو روز مرہ زندگی میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ انسان کبھی بھی بُرا پیدا نہیں ہوتا۔ وہ پاک وصاف اس دنیا میں آتا ہے۔
تو پھر کیا چیز ہے جو اسے بُرا بنا دیتی ہے؟
میرے خیال میں گھر کا ماحول، والدین کی عدم توجہ اور معاشرہ اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اور اس بات ثابت کرنے کے میں خود کو ایک مثال دیا کرتی ہوں کہ ایک مسلمان کا بچہ مسلمان ہی بنتا ہے،اسے نماز، روزے ،قرآن کی تربیت دی جاتی ہے۔اور ہندو کا بچہ ہندو ہی بنے گا اسے ہندو ازم کی تربیت دی جائے گی۔ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہندو کا بچہ ہندو ازم کو نا مانے اور ہمارے مذہب اسلام کا راستہ اختیار کرلے۔ یا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا کرے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ایسا نہیں ہوتا ۔ ہوتا ہے جس کو اللہ ہدایت کی توفیق دے اور جیسے سیدھے راستے کی طرف منتخب کرے وہ لوگ وہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔
اور تیسری بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جیسے شیکسپیئر نے نظم لکھی ”آل دی وڑلڈ از سٹیج“
اور اس میں وہ لکھتا ہے کہ انسان اس دنیا میں آتا ہے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ مطلب انسان کیا کردار ادا کے گا یہ لکھ دیا گیا ہے۔ مگر یہ بات میں اس قدر مانتی نہیں ہوں اور وہ اس لئے انسان کے پاس اپنا تو کچھ بھی نہیں سوائے اس کے ارادے کے ، تو اگر انسان ارادے کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے تو پھر وہ خود کو کیوں نہیں بدل سکتا؟
بات یہ ہے کہ ایک انسان جوہمیشہ اچھا ہی کام کرتا آیا ہے، اسے بُرا کام کرنا کیسا لگے گا؟
اور وہ انسان کہ جس نے دھوکے فریب کے سوا کچھ کیا ہی نہیں اس کے لیے بھی اچھا کام کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ عام حالات میں عام لوگوں کے خیالات،رویے،خواہشات اور ارادے بہت منتشر ہوتے ہیں اور یہ اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کی سوچ محدود ہے۔ ہم اپنی سوچ کولامحدود کر سکتے ہیں جب ہم اپنی ذات کو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ بات ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔
پھر ایک بُرا انسان اگر بُرائی کر کر کے تھک جائے اور سیدھے راستے کی طرف آنا چاہے تو ہمارا معاشرہ اسے ایک اچھےانسان کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کرتا۔مطلب ایک وہ انسان کہ جو لوگوں کی نظر میں معزز ہے ہمیشہ معزز ہی رہےگا چاہے وہ کتنے ہی غلط کام کرلے اور ایک بُرا انسان ہمیشہ بُرا ہی رہتا ہے چاہے وہ کتنے ہی اچھے کام کر لے۔
اب ایک ڈاکو اور چور کی مثال لے لیں جن کے نام پولیس والوں فہرست میں سب سے اوپر ہوتے ہیں۔ وہ چاہے یہ کام چھوڑ بھی دیں مگر جب بھی کوئی واردات ہوگی پولیس پہلے یہ پتا لگائے کہ فلاں ڈاکو اس دن کہاں تھا۔ یعنی جینے نہیں دینی عزت کی زندگی۔
اب اگر ایک چور مسجد میں نماز پڑھتا ہوا مل جائے تو لوگ کہتے ہیں ”نوسو چوہے کھو کے بلی
حج نوں چلی“
اور یہی لوگ ڈرتے ہیں اس بندے سے جب وہ اسلحے کے زور پہ لوٹتا ہے۔
یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم برداشت نہیں کرتے موقع نہیں دیتے کسی کو کہ سنور جائے۔ یہاں پولیس والے،بیوروکریٹ،اپوزیشن،حکومت سب ہی بہروپئے ہیں سب ہی بُرے ہیں مگر ایک وہ انسان جو کہ ہے ہی چور اس میں کوئی بہروب نہیں ہمارے لئے ایک وہ ہی بُراہے۔
لوگ بڑے آرام سے غلط کام کرتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ مگر اگر کو غلط بندہ اٹھ کے اچھا کام شروع کر سے تو سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ”آکی کر دا اے“؟
اللہ ہمیں برداشت کی توفیق دے۔
آمین
تو پھر کیا چیز ہے جو اسے بُرا بنا دیتی ہے؟
میرے خیال میں گھر کا ماحول، والدین کی عدم توجہ اور معاشرہ اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اور اس بات ثابت کرنے کے میں خود کو ایک مثال دیا کرتی ہوں کہ ایک مسلمان کا بچہ مسلمان ہی بنتا ہے،اسے نماز، روزے ،قرآن کی تربیت دی جاتی ہے۔اور ہندو کا بچہ ہندو ہی بنے گا اسے ہندو ازم کی تربیت دی جائے گی۔ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہندو کا بچہ ہندو ازم کو نا مانے اور ہمارے مذہب اسلام کا راستہ اختیار کرلے۔ یا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا کرے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ایسا نہیں ہوتا ۔ ہوتا ہے جس کو اللہ ہدایت کی توفیق دے اور جیسے سیدھے راستے کی طرف منتخب کرے وہ لوگ وہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔
اور تیسری بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جیسے شیکسپیئر نے نظم لکھی ”آل دی وڑلڈ از سٹیج“
اور اس میں وہ لکھتا ہے کہ انسان اس دنیا میں آتا ہے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ مطلب انسان کیا کردار ادا کے گا یہ لکھ دیا گیا ہے۔ مگر یہ بات میں اس قدر مانتی نہیں ہوں اور وہ اس لئے انسان کے پاس اپنا تو کچھ بھی نہیں سوائے اس کے ارادے کے ، تو اگر انسان ارادے کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے تو پھر وہ خود کو کیوں نہیں بدل سکتا؟
بات یہ ہے کہ ایک انسان جوہمیشہ اچھا ہی کام کرتا آیا ہے، اسے بُرا کام کرنا کیسا لگے گا؟
اور وہ انسان کہ جس نے دھوکے فریب کے سوا کچھ کیا ہی نہیں اس کے لیے بھی اچھا کام کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ عام حالات میں عام لوگوں کے خیالات،رویے،خواہشات اور ارادے بہت منتشر ہوتے ہیں اور یہ اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کی سوچ محدود ہے۔ ہم اپنی سوچ کولامحدود کر سکتے ہیں جب ہم اپنی ذات کو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ بات ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔
پھر ایک بُرا انسان اگر بُرائی کر کر کے تھک جائے اور سیدھے راستے کی طرف آنا چاہے تو ہمارا معاشرہ اسے ایک اچھےانسان کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کرتا۔مطلب ایک وہ انسان کہ جو لوگوں کی نظر میں معزز ہے ہمیشہ معزز ہی رہےگا چاہے وہ کتنے ہی غلط کام کرلے اور ایک بُرا انسان ہمیشہ بُرا ہی رہتا ہے چاہے وہ کتنے ہی اچھے کام کر لے۔
اب ایک ڈاکو اور چور کی مثال لے لیں جن کے نام پولیس والوں فہرست میں سب سے اوپر ہوتے ہیں۔ وہ چاہے یہ کام چھوڑ بھی دیں مگر جب بھی کوئی واردات ہوگی پولیس پہلے یہ پتا لگائے کہ فلاں ڈاکو اس دن کہاں تھا۔ یعنی جینے نہیں دینی عزت کی زندگی۔
اب اگر ایک چور مسجد میں نماز پڑھتا ہوا مل جائے تو لوگ کہتے ہیں ”نوسو چوہے کھو کے بلی
حج نوں چلی“
اور یہی لوگ ڈرتے ہیں اس بندے سے جب وہ اسلحے کے زور پہ لوٹتا ہے۔
یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم برداشت نہیں کرتے موقع نہیں دیتے کسی کو کہ سنور جائے۔ یہاں پولیس والے،بیوروکریٹ،اپوزیشن،حکومت سب ہی بہروپئے ہیں سب ہی بُرے ہیں مگر ایک وہ انسان جو کہ ہے ہی چور اس میں کوئی بہروب نہیں ہمارے لئے ایک وہ ہی بُراہے۔
لوگ بڑے آرام سے غلط کام کرتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ مگر اگر کو غلط بندہ اٹھ کے اچھا کام شروع کر سے تو سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ”آکی کر دا اے“؟
اللہ ہمیں برداشت کی توفیق دے۔
آمین