اکمل زیدی
محفلین
کیفیت نامے میں تو آپ لوگوں کو مطلع کر دیا تھا کہ آج کل کہاں ہوتے ہیں مختصر یہ کہ ایک بلاگ لکھنے کی کوشش کی گئی باوجود کوشش کے لنک نہ بھیج سکا پراپر طریقے سے یہاں من و عن چھاپ رہا ہوں بہت کچھ سیکھا ہے یہاں سے آپ سے سوچا اور بھی سیکھ لوں
احمد بھائی نے طریقہ بتایا مگر میں نہیں کرسکا کلاس کی ایک بتانے والی بات یہ تھی کہ جب سب سے پوچھا جا رہا تھا کہ آپ زیادہ تر کون سی سائٹ یوز کرتے ہیں سب نے اپنی اپنی سائٹ کا ذکر کیا ہماری باری آئی تو زبان پر خود ساختہ نہیں بے ساختہ اردو ویب آگیا جو اسی ٹائم بڑی سکرین پر کھولی گئی سب نے دیکھا اور اس سائٹ پر عش عش کرنے لگے کہ ہم یہاں کا حصہ ہیں خیر باقی باتیں بھی شئیر کرونگا ابھی وہ بلاگ جو کہ اردو میں ہی لکھا ذرا دیکھیں ---نہیں --بلکہ پورے طور پر دیکھیں ؛
====================================================================================================================
ہم بنے ڈیجیٹل مارکٹنگ ایکسپرٹ
وہ جس کی تلاش تھی -
جی ہاں بھانت بھانت بہت سن رہے تھے آس پاس کے لوگ نئی پود کے بچے پھر ہمارے خود کے بچے بھی اسی ڈگر پر اس پر ہمارا خود کا پروفیشن جس کی ڈیمانڈ بھی کچھ کچھ یہی تھی سوچنے پر مجبور ہوئے آخر یہ ڈیجیتل مارکٹنگ ہے کیا بلا جسے دیکھو اسی کی بات کر رہا ہے شادی بیاہ کے فنکشن میں کوئی گیدرنگ کی ٹائم پاس کرنے کی جگالی کا ٹاپک ہو یا آفس کے کولیگ ہوں ٹاپک یہی یا اس سے ملتا جلتا ہوتا تھا ۔۔۔ سوچا تو اکمل صاحب نے یہ تھا کے " چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو" مگر یہاں تو ہم زمانے سے ہم بہت پیچھے محسوس کر رہے تھے خود کو بہت جگہ گفتتو میں مس فٹ محسوس ہوئے بس پھر ٹھان لی کے زمانے کو ساتھ لے کے تو بعد میں چلیں گے پہلے زمانے کے ساتھ تو ہو جائیں –
یہ ساری تمہید تھی موجودہ دور کے طرز سوچ اور طرز حیات پر جو سب ڈیجیٹل ہوتا جا رہا ہے اور ہر چیز کسی نہ کسی مارکٹ سے جڑی تھی چاہے کوئی پراڈکٹ ہو یا کوئی سروسز ہوں تو مل کے بن گیا ڈیجیٹل ما ر کٹنگ بس پھر کچھ گوگلنگ شوغلنگ کی کچھ یو ٹیوب پر ویڈیوز دیکھیں تو ایک اوور آل پکچر تو سمجھ آگئی مگر اب باقائدہ کیسے کیا جائے باقی لوگ اتنے" مین "ہو گئے کے بغیر کسی بینیفٹ کے کچھ بتانے پر راضی نہ تھے کچھ چیزیں سب کچھ دیکھ کر بھی کلیئیر نہیں ہو پا رہیں تھیں اور لوگ بتانے میں کنجوسی کر رہے تھے شاید یہ بھی کوئی ان کی مارکٹنگ کا حصہ تھا – ہر جگہ مارکٹنگ مارکٹنگ لگتا تھا بس ہر کوئی مار کٹائی میں لگا ہوا ہے اور جدید دور چونکہ ڈیجیٹل ہے تو ہوگئی ڈیجیٹل مار کٹائی اب آپ اسے مارکٹنگ کہیں ہم نے تو جو سمجھا وہی کہینگے ۔
بہت مختصر کرتے ہوئے اور باقی تفصیلات چھوڑتے ہوئے حالانکہ یم میں لمبی کرنے کی بہت اہلیت ہے مگر اسے پھر کسی اور بلا گ کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ڈی – ایل – سی یعنی ڈیجیٹل مارکٹنگ سینٹر سے بینر کے ذریعے متعارف ہوئے دل میں دبی ہوئی خواہش نے سر ابھارا فورا اپلائی کیا باقی فارملیٹیز پوری کیں اور اقلیت میں ( اس آپ شارٹ لسٹڈ سمجھ لیں) شمار کرلیا گیا یعنی جن چُنیدہ لوگوں کو رابطہ کیا گیا ان میں ہم بھی شامل تھے –
زیرو سے ہیرہ تک کا سفر – ایک دن میں
4 مئی کو تعارفی کلاس تھی سر ریحان ہمارے ٹیچر کی حیثیت سے متعارف ہوئے فرسٹ امپریشن بہت متاثر کن تھا بہت اچھا لگا باقی سب شرکاء یعنی طلباء ہھی کمیٹڈ لگے واقعی کچھ کرنے کی لگن کے ساتھ .
6 مئی کو پہلی کلاس شروع ہوئی تعارفی کلاس میں سارے رولز ریگولیشن مشن ویزن پر بات ہوچکی تھی کورس آوٹ لائن بھی ڈسکس ہو چکا تھا پہلا دن تھا پہلی کلاس تھی سر ریحان کا جملہ کان سے ٹکرایا جس نے ہمیں زمین سے آسمان پر پہنچا دیا (کم از کم ہماری یہی فیلینگ تھی) سر نے کہا آپ یہاں ڈیجیٹل مارکٹ ایکسپرت بننے آئے ہیں بھول جائیں۔۔۔ کہ آپ بننے آئے ہیں بس سوچیں آپ بن گئے – آپ ایکسپرٹ ہو گئے بتا دو دنیا کو لگا دو اسٹیٹس ہماری گردن میں درد شروع ہو چکا تھا شاید اکڑاہٹ کی وجہ سے جو سر کی باتوں کا اثر تھا سوچا ابھی اذان ہونے میں پندرہ منٹ ہیں اس سے پہلے ہی نیچے جا کر مائیک پر اعلان کردیں اور نمازی حضرات سے کہیں مولانا صاحب سے بھی اعلان کروادیں مگر پھر کچھ عجیب سا لگا سوچا یہ زیادہ ہوجائے گا اور اطراف کے لوگ ویسے بھی واقف نہیں ہم سے تو کیوں نہ صرف واٹس اپ اور فیس بک پر بتا دیں کے اب ہم زیروہ نہیں ہیرو ہیں وہ بھی ایک دن میں ۔
ہوم ورک -
اگلے دن دوسری کلاس تھی پہلے سے زیادہ کمفرٹ ایبل فیل ہو رہا تھا حسب معمول کلاس شروع ہوئی پہلی کلاس پر کچھ مشاہدات پر پریزنٹیشن دینی تھی ہم نے بھی دی اختصار کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے مگر معنی کے حساب سے پورا مضمون دے دیا مگر کوئی زیادہ ریسپانس نہیں مل سکا سر نے بھی سراسر نہیں سراہا باقی سامنے والے بھی قسم کھائے بیٹھے تھے کے چوڑا نہیں ہونے دینگے اور ہم جو بھر پور ریسپانس کے عادی تھےاس وجہ اور اپنے زعم میں بہت پھولے ہوئے تھے اس میں سے تھوڑی سے ہوا نکل گئی وہ تو بھلا ہو کہ کوئی آواز نہیں آئی ورنہ شرمندگی الگ ہوتی اور سوالیہ نظروں کا سامنا الگ ہوتا –
ہوم ورک میں اسائنمنٹ تھا کہ ایک بلاگ لکھنا ہے اور اپنے تجربات مشاہدات اور احساسات کو رقم کرنا ہے جو ہم نے پہلی اور دوسری کلاس میں ایکسپرینس کیے ہم تو کر رہے ہیں اور پوسٹ بھی کر دینگے اب کہاں تک کامباب رہے یہ تو آپ کہ کمنٹس بتائیں گے اگر دیے گئے تو ۔
کڑی شرط آسان ہوگئی -
اپ کی عادت سچ بولنے کی ہو جھوٹ سے حتی الامکان پرہیز ہو بلکہ بالکل ممنوع ہو تو کہیں کہیں واقعی بہت مشکل ہو جتی ہے اب بلاگ لکھنے کا کہا گیا تو سر ریحان نے شرط لگا دی کہ ان کے لیے توصیفی کلمات ضرور شامل ہونے چاہیے سچ کہوں تو بڑی مشکل ہو جاتی اگر صورتحال موافق نہ ہوتی یعنی وہ کہنا پڑتا جوہماری عادت نہیں ہوتا اور ہماری زندگی میں ممنوع ہوتا مگر یہاں یہ کڑی شرط آسان ہوگئی کہ سچ میں بھی اسی حقیقت کا اعتراف شامل کرنا ہو گا جو ہے اب اتنی عمر میں اتنے اساتذہ سے واسطہ پڑا ہے اسکول، کالج، کوچنگ، یونیورسٹی کے سلسوں میں کہ اب واقعی سمجھ آجاتا ہے کہ سامنے والا "واقعی استاد ہے یا بہت استاد ہے" اور یہاں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ سر ریحان انتہا ئی پرخلوص اور پروفیشنل طریقے سے معلومات کی ترسیل کر رہے ہیں اور ہیں حرکت تیز تر اور سفر آہستہ والا محاورے یا مصرعے میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہاں حرکت بھی تیز تر ہے اور سفر بھی تیز تر محسوس ہوا ماشاءاللہ سے جس طرح ایک خشک مضمون کو مصالحے دار بنا کر پیش کر رہے ہیں اس سے سیکھنے کی اشتہا میں مزید اضافہ ہوتا ہوا محسوس ہوا ویسے ہم تو منہ در منہ کل سر کی تعریف کر چکے تھے شاید ریحان سر کو پسند نہیں آیا کہ - - - سر عام کہینے والی بات رازدارانہ کہی جائے شاید اسی سے انہوں نے آئیڈیا لیا ہو اب اسے آپ ہماری خوش فہمی سمجھ لیں لیکن ایک بات سمجھ آئی کے یہ دو مہینے ایسے کہنہ مشق استاد کے ساتھ گذارنا ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو ہماری انے والی بقیہ پیشہ ورانہ زندگی پر محیط ہونے والا ہے ۔
آخر میں کنکلوزن میں چونکہ نثر کے ساتھ کچھ نظم سے بھی واسطہ ہے تو کچھ عجیب سا لگ رہا ہے کہ کوئی تک بندی شامل نہیں کی ابھی ابھی کچھ آمد ہوئی ہے اسی کے ساتھ بات بھی مکمل ہو جا ئے گی بلاگ بھی اختتام پذیر ہو جائے گا اور ہمارا یہ فن بھی نظر میں آجائے گا تو ملاحظہ کیجے –
زاویہ تھا سوچ کا جو یکسر بدل گیا
نظر بدل گئی تو سارا منظر بدل گیا
منزل کا تعین جو تھاوہی رہا لیکن
رستہ صحیح ملا اکمل سفر بدل گیا
احمد بھائی نے طریقہ بتایا مگر میں نہیں کرسکا کلاس کی ایک بتانے والی بات یہ تھی کہ جب سب سے پوچھا جا رہا تھا کہ آپ زیادہ تر کون سی سائٹ یوز کرتے ہیں سب نے اپنی اپنی سائٹ کا ذکر کیا ہماری باری آئی تو زبان پر خود ساختہ نہیں بے ساختہ اردو ویب آگیا جو اسی ٹائم بڑی سکرین پر کھولی گئی سب نے دیکھا اور اس سائٹ پر عش عش کرنے لگے کہ ہم یہاں کا حصہ ہیں خیر باقی باتیں بھی شئیر کرونگا ابھی وہ بلاگ جو کہ اردو میں ہی لکھا ذرا دیکھیں ---نہیں --بلکہ پورے طور پر دیکھیں ؛
====================================================================================================================
ہم بنے ڈیجیٹل مارکٹنگ ایکسپرٹ
وہ جس کی تلاش تھی -
جی ہاں بھانت بھانت بہت سن رہے تھے آس پاس کے لوگ نئی پود کے بچے پھر ہمارے خود کے بچے بھی اسی ڈگر پر اس پر ہمارا خود کا پروفیشن جس کی ڈیمانڈ بھی کچھ کچھ یہی تھی سوچنے پر مجبور ہوئے آخر یہ ڈیجیتل مارکٹنگ ہے کیا بلا جسے دیکھو اسی کی بات کر رہا ہے شادی بیاہ کے فنکشن میں کوئی گیدرنگ کی ٹائم پاس کرنے کی جگالی کا ٹاپک ہو یا آفس کے کولیگ ہوں ٹاپک یہی یا اس سے ملتا جلتا ہوتا تھا ۔۔۔ سوچا تو اکمل صاحب نے یہ تھا کے " چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو" مگر یہاں تو ہم زمانے سے ہم بہت پیچھے محسوس کر رہے تھے خود کو بہت جگہ گفتتو میں مس فٹ محسوس ہوئے بس پھر ٹھان لی کے زمانے کو ساتھ لے کے تو بعد میں چلیں گے پہلے زمانے کے ساتھ تو ہو جائیں –
یہ ساری تمہید تھی موجودہ دور کے طرز سوچ اور طرز حیات پر جو سب ڈیجیٹل ہوتا جا رہا ہے اور ہر چیز کسی نہ کسی مارکٹ سے جڑی تھی چاہے کوئی پراڈکٹ ہو یا کوئی سروسز ہوں تو مل کے بن گیا ڈیجیٹل ما ر کٹنگ بس پھر کچھ گوگلنگ شوغلنگ کی کچھ یو ٹیوب پر ویڈیوز دیکھیں تو ایک اوور آل پکچر تو سمجھ آگئی مگر اب باقائدہ کیسے کیا جائے باقی لوگ اتنے" مین "ہو گئے کے بغیر کسی بینیفٹ کے کچھ بتانے پر راضی نہ تھے کچھ چیزیں سب کچھ دیکھ کر بھی کلیئیر نہیں ہو پا رہیں تھیں اور لوگ بتانے میں کنجوسی کر رہے تھے شاید یہ بھی کوئی ان کی مارکٹنگ کا حصہ تھا – ہر جگہ مارکٹنگ مارکٹنگ لگتا تھا بس ہر کوئی مار کٹائی میں لگا ہوا ہے اور جدید دور چونکہ ڈیجیٹل ہے تو ہوگئی ڈیجیٹل مار کٹائی اب آپ اسے مارکٹنگ کہیں ہم نے تو جو سمجھا وہی کہینگے ۔
بہت مختصر کرتے ہوئے اور باقی تفصیلات چھوڑتے ہوئے حالانکہ یم میں لمبی کرنے کی بہت اہلیت ہے مگر اسے پھر کسی اور بلا گ کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ڈی – ایل – سی یعنی ڈیجیٹل مارکٹنگ سینٹر سے بینر کے ذریعے متعارف ہوئے دل میں دبی ہوئی خواہش نے سر ابھارا فورا اپلائی کیا باقی فارملیٹیز پوری کیں اور اقلیت میں ( اس آپ شارٹ لسٹڈ سمجھ لیں) شمار کرلیا گیا یعنی جن چُنیدہ لوگوں کو رابطہ کیا گیا ان میں ہم بھی شامل تھے –
زیرو سے ہیرہ تک کا سفر – ایک دن میں
4 مئی کو تعارفی کلاس تھی سر ریحان ہمارے ٹیچر کی حیثیت سے متعارف ہوئے فرسٹ امپریشن بہت متاثر کن تھا بہت اچھا لگا باقی سب شرکاء یعنی طلباء ہھی کمیٹڈ لگے واقعی کچھ کرنے کی لگن کے ساتھ .
6 مئی کو پہلی کلاس شروع ہوئی تعارفی کلاس میں سارے رولز ریگولیشن مشن ویزن پر بات ہوچکی تھی کورس آوٹ لائن بھی ڈسکس ہو چکا تھا پہلا دن تھا پہلی کلاس تھی سر ریحان کا جملہ کان سے ٹکرایا جس نے ہمیں زمین سے آسمان پر پہنچا دیا (کم از کم ہماری یہی فیلینگ تھی) سر نے کہا آپ یہاں ڈیجیٹل مارکٹ ایکسپرت بننے آئے ہیں بھول جائیں۔۔۔ کہ آپ بننے آئے ہیں بس سوچیں آپ بن گئے – آپ ایکسپرٹ ہو گئے بتا دو دنیا کو لگا دو اسٹیٹس ہماری گردن میں درد شروع ہو چکا تھا شاید اکڑاہٹ کی وجہ سے جو سر کی باتوں کا اثر تھا سوچا ابھی اذان ہونے میں پندرہ منٹ ہیں اس سے پہلے ہی نیچے جا کر مائیک پر اعلان کردیں اور نمازی حضرات سے کہیں مولانا صاحب سے بھی اعلان کروادیں مگر پھر کچھ عجیب سا لگا سوچا یہ زیادہ ہوجائے گا اور اطراف کے لوگ ویسے بھی واقف نہیں ہم سے تو کیوں نہ صرف واٹس اپ اور فیس بک پر بتا دیں کے اب ہم زیروہ نہیں ہیرو ہیں وہ بھی ایک دن میں ۔
ہوم ورک -
اگلے دن دوسری کلاس تھی پہلے سے زیادہ کمفرٹ ایبل فیل ہو رہا تھا حسب معمول کلاس شروع ہوئی پہلی کلاس پر کچھ مشاہدات پر پریزنٹیشن دینی تھی ہم نے بھی دی اختصار کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے مگر معنی کے حساب سے پورا مضمون دے دیا مگر کوئی زیادہ ریسپانس نہیں مل سکا سر نے بھی سراسر نہیں سراہا باقی سامنے والے بھی قسم کھائے بیٹھے تھے کے چوڑا نہیں ہونے دینگے اور ہم جو بھر پور ریسپانس کے عادی تھےاس وجہ اور اپنے زعم میں بہت پھولے ہوئے تھے اس میں سے تھوڑی سے ہوا نکل گئی وہ تو بھلا ہو کہ کوئی آواز نہیں آئی ورنہ شرمندگی الگ ہوتی اور سوالیہ نظروں کا سامنا الگ ہوتا –
ہوم ورک میں اسائنمنٹ تھا کہ ایک بلاگ لکھنا ہے اور اپنے تجربات مشاہدات اور احساسات کو رقم کرنا ہے جو ہم نے پہلی اور دوسری کلاس میں ایکسپرینس کیے ہم تو کر رہے ہیں اور پوسٹ بھی کر دینگے اب کہاں تک کامباب رہے یہ تو آپ کہ کمنٹس بتائیں گے اگر دیے گئے تو ۔
کڑی شرط آسان ہوگئی -
اپ کی عادت سچ بولنے کی ہو جھوٹ سے حتی الامکان پرہیز ہو بلکہ بالکل ممنوع ہو تو کہیں کہیں واقعی بہت مشکل ہو جتی ہے اب بلاگ لکھنے کا کہا گیا تو سر ریحان نے شرط لگا دی کہ ان کے لیے توصیفی کلمات ضرور شامل ہونے چاہیے سچ کہوں تو بڑی مشکل ہو جاتی اگر صورتحال موافق نہ ہوتی یعنی وہ کہنا پڑتا جوہماری عادت نہیں ہوتا اور ہماری زندگی میں ممنوع ہوتا مگر یہاں یہ کڑی شرط آسان ہوگئی کہ سچ میں بھی اسی حقیقت کا اعتراف شامل کرنا ہو گا جو ہے اب اتنی عمر میں اتنے اساتذہ سے واسطہ پڑا ہے اسکول، کالج، کوچنگ، یونیورسٹی کے سلسوں میں کہ اب واقعی سمجھ آجاتا ہے کہ سامنے والا "واقعی استاد ہے یا بہت استاد ہے" اور یہاں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ سر ریحان انتہا ئی پرخلوص اور پروفیشنل طریقے سے معلومات کی ترسیل کر رہے ہیں اور ہیں حرکت تیز تر اور سفر آہستہ والا محاورے یا مصرعے میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہاں حرکت بھی تیز تر ہے اور سفر بھی تیز تر محسوس ہوا ماشاءاللہ سے جس طرح ایک خشک مضمون کو مصالحے دار بنا کر پیش کر رہے ہیں اس سے سیکھنے کی اشتہا میں مزید اضافہ ہوتا ہوا محسوس ہوا ویسے ہم تو منہ در منہ کل سر کی تعریف کر چکے تھے شاید ریحان سر کو پسند نہیں آیا کہ - - - سر عام کہینے والی بات رازدارانہ کہی جائے شاید اسی سے انہوں نے آئیڈیا لیا ہو اب اسے آپ ہماری خوش فہمی سمجھ لیں لیکن ایک بات سمجھ آئی کے یہ دو مہینے ایسے کہنہ مشق استاد کے ساتھ گذارنا ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو ہماری انے والی بقیہ پیشہ ورانہ زندگی پر محیط ہونے والا ہے ۔
آخر میں کنکلوزن میں چونکہ نثر کے ساتھ کچھ نظم سے بھی واسطہ ہے تو کچھ عجیب سا لگ رہا ہے کہ کوئی تک بندی شامل نہیں کی ابھی ابھی کچھ آمد ہوئی ہے اسی کے ساتھ بات بھی مکمل ہو جا ئے گی بلاگ بھی اختتام پذیر ہو جائے گا اور ہمارا یہ فن بھی نظر میں آجائے گا تو ملاحظہ کیجے –
زاویہ تھا سوچ کا جو یکسر بدل گیا
نظر بدل گئی تو سارا منظر بدل گیا
منزل کا تعین جو تھاوہی رہا لیکن
رستہ صحیح ملا اکمل سفر بدل گیا
آخری تدوین: