ہم ترے خط، پیام بھول گئے

La Alma

لائبریرین

ہم ترے خط، پیام بھول گئے
قصّہءِ نا تمام بھول گئے

درد ہم نے سبھی خرید لیے
کیا لگائے تھے دام بھول گئے

راس کب تھا ہمیں یہ جوشِ جنوں
ہوش کا تھا مقام بھول گئے

عارضی ہر خوشی ہے، یاد رہا
حسرتوں کا دوام بھول گئے

اب وہ ہنگامہءِ حیات کہاں
شورشِ روز و شام بھول گئے

آج محفل میں بولتی رہی چُپ
سب سُخن ور کلام بھول گئے​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلے تو خوش آمدید محفل میں

ماشاء اللہ اچھی غزل کہی ہے۔ اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، صرف مطلع میں وضاحت کی کمی ہے۔ خط کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ وہ تو مادی وجودرکھتا ہے!!
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت خوب ہے
بہت عمدہ۔

بولتی بند ہونا تو سنا ہے۔ بولتی چپ رہنا پہلی بار پڑھا ہے۔ :)

بولتی بند ہونا الگ محاورہ ہے اور کسی جگہ پر چپ یا خاموشی بول رہی ہو تو اس بولنے کا مطلب سناٹا، ویرانی، بیابانی کیفیت لیا جاسکتا ہے۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
پہلے تو خوش آمدید محفل میں

ماشاء اللہ اچھی غزل کہی ہے۔ اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، صرف مطلع میں وضاحت کی کمی ہے۔ خط کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ وہ تو مادی وجودرکھتا ہے!!
سر کسی الماری وغیرہ میں رکھ دیئے ہوں گےاور پھر بھول گئے ہونگے :p
 
بہت خوب ہے


بولتی بند ہونا الگ محاورہ ہے اور کسی جگہ پر چپ یا خاموشی بول رہی ہو تو اس بولنے کا مطلب سناٹا، ویرانی، بیابانی کیفیت لیا جاسکتا ہے۔ :)
واہ۔ اب مفہوم سمجھ آیا ہے تو شعر کا مزہ بھی دوبالا ہو گیا ہے۔ جزاک اللہ
 
اچھی غزل ہے ۔
ایک بات کی وضاحت کر دیں۔ جب آپ نے کہا کہ:
عارضی ہر خوشی ہے، یاد رہا
حسرتوں کا دوام بھول گئے
جب معلوم تھا کہ خوشی عارضی ہے تو حسرتوں کا دوام کیسے بھول سکتے ہیں۔ خوشی نہیں تو پھر اس کی حسرت ہی باقی رہتی ہے۔
یا شاید میری سمجھ کا قصور ہے۔:)
 

ابن رضا

لائبریرین
اچھی غزل ہے ۔
ایک بات کی وضاحت کر دیں۔ جب آپ نے کہا کہ:
عارضی ہر خوشی ہے، یاد رہا
حسرتوں کا دوام بھول گئے
جب معلوم تھا کہ خوشی عارضی ہے تو حسرتوں کا دوام کیسے بھول سکتے ہیں۔ خوشی نہیں تو پھر اس کی حسرت ہی باقی رہتی ہے۔
یا شاید میری سمجھ کا قصور ہے۔:)
وہ اس لیے بھول گئے کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ خوشیاں عارضی ہوتی ہیں تو ان عارضی لمحات کو جی جان سے بسر کرنے میں ایسے منہمک ہوئے کہ حسرتوں کے دیرپا ہونے کا یاد نہیں رہا تاہم دوام یہاں قافیے کی بندش نے لازمی کردیا ورنہ محل دیرپا کا ہی ہے۔ کیوں کہ دوام تو کسی چیز کو نہیں سوائے اللہ کی ذات کے (محاکات میں قوتِ ممیزہ کو تقویت دیں)
 

La Alma

لائبریرین
پہلے تو خوش آمدید محفل میں

ماشاء اللہ اچھی غزل کہی ہے۔ اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، صرف مطلع میں وضاحت کی کمی ہے۔ خط کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ وہ تو مادی وجودرکھتا ہے!!

سر آپ کی توجہ اور رہنمائی کے لیے انتہائی مشکور ہوں .آپ کا مزید قیمتی وقت درکار ہو گا
کیا اس طرح قابل قبول ہے؟

ہم ترےوہ پیام بھول گئے
قصّہءِ ںا تمام بھول گئے

یا

ہم وہ روداد ِ عام بھول گئے
قصّہءِ ںا تمام بھول گئے


ویسے تو داستان ِ عام زیادہ مستعمل ہے اگر یہ ترکیب زیادہ نہ کھٹکے تو ۔۔۔
 

La Alma

لائبریرین
سر کسی الماری وغیرہ میں رکھ دیئے ہوں گےاور پھر بھول گئے ہونگے :p

اوہ ..تو خط الماری میں تھے ..اب یاد آیا ...تو پھر پیام پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
اب بھولے رہنے میں ہی عافیت ہے. یہ نہ ہو دھیرے دھیرے سب یاد آ جائے اور سا ری غزل ہاتھ سے جاتی رہے۔
 

La Alma

لائبریرین
اچھی غزل ہے ۔
ایک بات کی وضاحت کر دیں۔ جب آپ نے کہا کہ:
عارضی ہر خوشی ہے، یاد رہا
حسرتوں کا دوام بھول گئے
جب معلوم تھا کہ خوشی عارضی ہے تو حسرتوں کا دوام کیسے بھول سکتے ہیں۔ خوشی نہیں تو پھر اس کی حسرت ہی باقی رہتی ہے۔
یا شاید میری سمجھ کا قصور ہے۔:)
اس کی مثال یوں لے لیں ، گوکہ اس کا تعلق شعر کے مفہوم سے نہیں ہے . ہم جانتے ہیں کہ یہ زندگی چند روزہ ہے پھر بھی آخرت کو بھولے رہتے ہیں. یاد اور بھول بعض اوقات متوازی بھی چل سکتی ہے ۔
 

La Alma

لائبریرین
راز و شب ۔ اور صبح و شام مقبول تراکیب ہیں ۔ ایسے میں روز و شام کی ترکیب وضع کر نے کا تکلف بوجھل لگ رہا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
البتہ غزل اچھی ہے ۔۔۔

چلیں پھر یہ تکلف بر طرف۔
صبح شام کہنے میں بھی کچھ حرج نہیں۔

"اب وہ ہنگامہءِ حیات کہاں
شورشِ صبح و شام بھول گئے "
 
Top