فیض ہم تو مجبورِ وفا ہیں ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
ہم تو مجبورِ وفا ہیں

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کرے
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں

تیرے ایوانوں میں پرزے ہوے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نہ آسودۂ اقرار ہوے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بدخواہوں کی
خواب کتنے تری شاہراہوں میں سنگسار ہوے

"بلاکشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
جو مجھ پہ گزری مت اس سے کہو، ہوا سو ہوا
مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا" ×

ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے، ہمارا کیا ہے


نوٹ: × یہ مصرعے مرزا رفیع سودا کے ہیں۔​
 

شیزان

لائبریرین
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے آباد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے، ہمارا کیا ہے
بہت عمدہ فرخ جی۔۔
ناگوارِ خاطرنہ ہوتو عرض ہے کہ آباد کی جگہ ابد ہو گا۔۔ براہ کرم چیک کر لیجئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے آباد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے، ہمارا کیا ہے
بہت عمدہ فرخ جی۔۔
ناگوارِ خاطرنہ ہوتو عرض ہے کہ آباد کی جگہ ابد ہو گا۔۔ براہ کرم چیک کر لیجئے

جی آپ درست فرما رہے ہیں۔ بہت شکریہ توجہ دلانے کے لئے ۔ یہ نظم تو مجھے زبانی یاد ہے لیکن ٹائپنگ میں یہ غلطی ہو گئی۔ کتاب دیکھے بغیر ہی درستی کر دی ہے۔ خوش رہیں! :)
 

وپل کمار

محفلین
واہ واہ
فیض صاحب کی بہت خوب صورت نزم پیش کی ہے آپنے۔۔۔
اسے ٹینا سانی جی نے بہت خھوب صورتی سے گایا بھی ہے۔۔۔۔
 
Top