سارہ خان
محفلین
دوستو پھر وہی ساعت وہی رُت آئی ہے
ہم نے جب اپنے ارادوں کا علَم کھولا تھا
دل نے جب اپنے ارادوں کی قسم کھائی تھی
شوق نے جب رگِ دَوراں میں لہُو گھولا تھا
پھر وہی ساعتِ صد رنگ وہی صُبحِ جُنوں
اپنے ہاتھوں میں نئے دور کی سوغات لیے
محملِ شامِ غریباں سے اُتر آئی ہے
خشک ہونٹوں پہ بکھرتے ہوئے جذبات لیے
آؤ، پھر ریت پہ بکھرے ہوئے ہیرے چُن لیں
پھر یہ صحرا کی سخاوت بھی رہے یا نہ رہے
آؤ کچھ دیر جراحت پہ چھڑک لیں شبنم!!
کیا خبر پھر یہ روایت بھی رہے یا نہ رہے?
آؤ پھر حلق میں ٹوٹا ہُوا نشتر کھینچیں
دِل سے مکن ہے کوئی حرف، زباں تک پہنچے
آؤ پھر غور کریں ہم کہ سرِ مقتلِ جاں
شوق دلداری جاناں میں کہاں تک پہنچے?
دوستو آؤ کہ سر جوڑ کے بیٹھیں کچھ دیر،
احتسابِ غمِ دوراں سے نمٹ کر دیکھیں
کچھ تو ماضی کے جھروکوں سے اُدھر بھی ہو گا
اپنے ماحول سے کچھ دیر تو ہٹ کر دیکھیں
ہم نے چاہا تھا کہ یوں اب کے چراغاں کیجیے
روشنی ہو تو گُلستاں سے قفس تک جائے
اب کے اِس طرح دِل زار سے شعلے پھوٹیں
آنچ یخ بستگیِ قلب و نفس تک جائے
اپنی مٹّی سے محبت کی گواہی کے لیے
ہم نے زرداب نظر کو بھی شفق لکھا تھا
اپنی تاریخ کے سینے پہ سجا ہے اب تک
ہم نے خونِ رگِ جاں سے جو وَرق لکھا تھا
دوستو آؤ کہ تجدیدِ وفا کا دن ہے
ساعتِ عہدِ محبت کو حِنا رنگ کریں
خُونِ دِل غازہء رُخسارِ وطن ہو جائے
اپنے اشکوں کو ستاروں سے ہم آہنگ کریں
آؤ سرنامہء رُودادِ سفر لکھ ڈالیں
اشک پیوندِ کفِ خاکِ جگر ہونے تک
ہم نے کیا کیا نہ خلاؤں پہ کمندیں ڈالیں
شوق تسخیرِ مہ و مہرِ ہُنر ہونے تک
آؤ لکھیں کہ ہمیں اپنی اَماں میں رکھنا
احتسابِ عملِ دیدہء تر ہونے تک
ہم تو مر جائیں گے اے ارضِ وطن پھر بھی تجھے
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
( محسن نقوی )
ہم نے جب اپنے ارادوں کا علَم کھولا تھا
دل نے جب اپنے ارادوں کی قسم کھائی تھی
شوق نے جب رگِ دَوراں میں لہُو گھولا تھا
پھر وہی ساعتِ صد رنگ وہی صُبحِ جُنوں
اپنے ہاتھوں میں نئے دور کی سوغات لیے
محملِ شامِ غریباں سے اُتر آئی ہے
خشک ہونٹوں پہ بکھرتے ہوئے جذبات لیے
آؤ، پھر ریت پہ بکھرے ہوئے ہیرے چُن لیں
پھر یہ صحرا کی سخاوت بھی رہے یا نہ رہے
آؤ کچھ دیر جراحت پہ چھڑک لیں شبنم!!
کیا خبر پھر یہ روایت بھی رہے یا نہ رہے?
آؤ پھر حلق میں ٹوٹا ہُوا نشتر کھینچیں
دِل سے مکن ہے کوئی حرف، زباں تک پہنچے
آؤ پھر غور کریں ہم کہ سرِ مقتلِ جاں
شوق دلداری جاناں میں کہاں تک پہنچے?
دوستو آؤ کہ سر جوڑ کے بیٹھیں کچھ دیر،
احتسابِ غمِ دوراں سے نمٹ کر دیکھیں
کچھ تو ماضی کے جھروکوں سے اُدھر بھی ہو گا
اپنے ماحول سے کچھ دیر تو ہٹ کر دیکھیں
ہم نے چاہا تھا کہ یوں اب کے چراغاں کیجیے
روشنی ہو تو گُلستاں سے قفس تک جائے
اب کے اِس طرح دِل زار سے شعلے پھوٹیں
آنچ یخ بستگیِ قلب و نفس تک جائے
اپنی مٹّی سے محبت کی گواہی کے لیے
ہم نے زرداب نظر کو بھی شفق لکھا تھا
اپنی تاریخ کے سینے پہ سجا ہے اب تک
ہم نے خونِ رگِ جاں سے جو وَرق لکھا تھا
دوستو آؤ کہ تجدیدِ وفا کا دن ہے
ساعتِ عہدِ محبت کو حِنا رنگ کریں
خُونِ دِل غازہء رُخسارِ وطن ہو جائے
اپنے اشکوں کو ستاروں سے ہم آہنگ کریں
آؤ سرنامہء رُودادِ سفر لکھ ڈالیں
اشک پیوندِ کفِ خاکِ جگر ہونے تک
ہم نے کیا کیا نہ خلاؤں پہ کمندیں ڈالیں
شوق تسخیرِ مہ و مہرِ ہُنر ہونے تک
آؤ لکھیں کہ ہمیں اپنی اَماں میں رکھنا
احتسابِ عملِ دیدہء تر ہونے تک
ہم تو مر جائیں گے اے ارضِ وطن پھر بھی تجھے
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
( محسن نقوی )