ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

نور وجدان

لائبریرین
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

زندگی میں قافلہ میرِ کارواں کے بغیر چلتا ہے ۔ ۔ ۔ ؟ اگر ایسا ہوتا تو انسان سالار ہوتا ۔ انسانی کی سالاری دو چیزوں پر منحصر ہے ، ایک اس کی عقل اور دوسرا اس کا وجدان ۔ وجدان کا ردھم زندگی کی روح اور عقل فطرت کا تغیر ہے ۔ دونوں میں کا ساتھ متوازن چلنا مشکل ہے ۔ آسان الفاظ میں جوش و ہوش کو متوازن کرنے سے انسانیت کی تعمیر ہوجاتی ہے ۔ اور ہر دو انتہائیں انسان کی دوسری سالاری کے جزو کو کو مقفل کر دیتی ہیں ۔

انسان اگر عقل کی انتہا کو لے کر چل پڑے تو اس کے پاس ''شک'' رہ جاتا ہے ، اور یہی ''شک'' اس کو انکار کرنے کی طرف لے جاتا ہے ۔ '' عقل '' کا کام ہر وہ بات رد کرنا ہے جو اس کے اپنے حواسِ خمسہ ماننے سے انکار کردیں گوکہ چیز موجود رہتی ہے مگر فرق عقل والے کو پڑتا ہے کہ اس کی سالاری مفلوج ہوجاتی ہے ۔ ایسا سالار انسانیت کا نائب بن سکتا ہے ؟ اگر بن جائے تو انقلاب شیطان کا ہوگا۔۔۔۔۔۔ ؟ شاید اس کا وعدہ شیطان نے کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

افسوس ! انسان کی ''انتہا ''اس کو دھوکے میں مبتلا کر دیتے ہے کہ انتہا کا دوسرا نام'' دھوکہ'' ہے ۔ گو کہ انتہا میں جانے والی بہت ذہین ہوتے ہیں مگر ان کی فطانت ان کے لیے ، ان کا ہی بنا ''جال'' ب ان کے سامنے لا کر ان کو پریشان کر دیتی ہے اور وہ اس جال میں کھو کر کہیں کہ نہیں رہتے۔۔۔۔ ۔!!! دو کشتیوں کے سوار انسان کی زندگی کیسی ہوگی ؟ اور ایک وقت آتا ہے کہ پاسبانِ عقل اپنے اختیارات خود '' شک '' کو پکڑا دیتے ہیں ۔ یہی وہی ''شک ''ہے جس کا ''بیج '' آدم کو جنت سے نکالے جانے کا باعث بنا۔ انسان کی سرشت میں یہ مادہ گوندھ دیا گیا ہے ۔ وہ اس سے کیسے بچ سکتا ہے ؟

اقبالیات : عقل گو آستاں سے دور نہیں ۔
اس کی قسمت میں حضور نہیں

اس وجہ سے اکثر احباب کو میں نے ''اقبالیات'' کا منکر دیکھا ہے یہ وہ انسان تھا کہ جس نے عقل و وجدان کی پاسداری کرتے ہوئے انسان کے نائب ہونے کے فرائض کی کمی پوری کردی ۔ اس انسان کی عقل نے بھی ''شکوہ ، یعنی شک '' کیا ، جو اس کی عاقلیت کا ثبوت ہے مگر اس کی ضرب ِ کلیم نے وجدانی کیف کا حق پورا ادا کی،ان کا لکھا شعر، شاید لاشعوری طور پر ان کی تعبیر ہے ۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اس انسان کو بہت سے عاقل '' شرابی '' اور '' ملحد'' کہتے ہیں ۔ اس وقت جب میں لوگوں کے منہ سے یہ باتیں سنا کرتی تھی تو میرے دل میں شبہات جنم لیتے تھے کہ یہ انسان ''شرابی '' ہے کیا ؟ یہ انسان ملحد ہے کیا ۔۔۔۔؟ الحادِ فکر مغرب اور وجدانی شراب پینے والی شخص کی توقیر دنیا کے چند عاقل نہیں کر سکتے ہیں اور آج میرے سامنے دور ِ جدید کا اجتہادی نمونہ اقبال کی صورت میں ہے ، جس نے قران الحکیم کے حکمت کے گنجینہ اور پرا سرار الفاظ کو اپنے کلا م میں بند کر دیا اور پیغام دے دیا کہ لوگو '! ''عقل کے دروازے اور وجدان کے دروازے '' کھلے رکھنے سے پوری انسانیت کو فلاح مل جاتی ہے ۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقبال کی تقلید شروع کر دی جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے راستے کی تقلید کی جائے کہ یہ وہی راستہ ہے جو انبیاء کا راستہ ہے ۔ اس راستے میں فکر و غور بھی ہے اور وجدان بھی ہے اور اسی راستے پر ایک اور دور ِ حاضر کی شخصیت بھی چل کر اپنا نمونہ بن گئ، جس کو دنیا قدرت اللہ شہاب کے نام سے جانتی ہے ۔اس لیے یہ سلسلہ
چلتا رہے گا ، راستہ بھی کھلا رہے گا ۔ مگر کون راستے کے اوپر آتا ہے یہ انسان کی اپنی بساط و مرضی ہے ۔

دوسری طرف وجدان کی بات کرتے ہوئے مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ انتہا ہے جس میں بقا تو ہے ، جس میں فلاح تو ہے مگر یہ فلاح و بقا صرف اور صرف انسان کی اپنی ذات کی ہے ۔ اس صورت میں غذا کی حق دار صرف اور صرف روح ہوتی ہے ۔ اور یہ وہ سلسلہ ہے جس پر بکھشو و سادھو چلتے ہیں ۔ گوکہ اسلامی تصوف کے بہت سے سلسلے اس راستے پر آئے مگر ایک سلسلہ ایسا بھی ہے جس نے دین و دنیا دونوں کا ساتھ نبھایا ۔ سلسہ سہروردیہ کے برزگ حضرت بہا الدین زکریا ملتانی رح بہت بڑی اراضی کے مالک تھے ، وہ شاہ ِ وقت کی عنایات بھی رکھتے اور امراٰء سے ملنے والوں تحفوں کو وصول بھی کرتے ،اور اس کے ساتھ بادشاہوں کی محافل میں شریک بھی ہوتے مگر دنیا کا لباس پہن کر ، اس لباس کی '' لیروں '' سے دنیا والوں کو دیتے ، اور نوازتے رہے اور ساتھ میں عقل کے تمام اجزا کو مجتمع کرکے اپنے من کے گیان میں کھو کر وجدان سے روح کو لذتوں سے سرشار بھی کرتے رہے ۔ مگر ایسا ہے کہ دنیا میں روح کی انتہا پر چلنے والی مجنون بن کر بار گاہ خد میں مقبول و منظور ہوجاتے ہیں مگر وہ انسانیت کی فلاح کے لیے کم کم کر پاتے ہیں ۔

اسلام میں اس کی جانب اشارہ ہے کہ شک و شبہ میں نہ پڑو مگر اسلام نے غورو فکر کو سلاسل میں قید نہیں کیا ہے۔ اسلام متوازن سطحوں پرچلتا ہے ۔ اور جو لوگ درمیانی راہوں پر چلتے ہیں ، تاریخ ان کے ناموں کو متوازن شخصیت قرار دے کر دنیا والوں کو راستہ دکھاتی ہے کہ دنیا میں رہ کر فقیری اختیار کر ، دنیا کو دوسروں کے لیے سمجھو ، اپنے لیے نہ سمجھو ۔ اس لیے قرانِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ دین میں میانہ روی یا اعتدال اختیار کرو۔ یہی راستہ بھلائی و بہار کا ہے ، ہر دو انتہائیں زندگی میں خزاں بن کا روپ اختیار کرلیتی ہیں ۔ اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی لے ڈوبتی ہیں ۔ پتا نہیں ! پتا نہیں ۔۔۔ ہم میں سے کتنے ڈوبیں گے اور ساتھ کتنوں کو لے ڈوبیں گے ۔

افسوس ! آج عقل نے انتہائے عقل کردی ، اور شعور ہی شعور رہ گیا ، اور اللہ کا خلیفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! شاید کہیں گم ہے ، شاید وہ موجود ہے ، شاید ہمیں اس کی سمت نہیں مل رہی ہے ، شاید ہمارے ''قطب نما ''نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ، شاید مرکز سے رشتہ ریختہ ہوگیا ہے ۔اور پھر سب کی نظروں میں عاقل کا چہرہ سما جاتا ہے ۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
بلا شک " انسان " کے لیئے " اسوہ حسنہ " کی صورت زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ موجود ہے ۔
حق تعالی ہم سب کو زندگی کے ہر مرحلے پر " اعتدال " کا دامن تھامنے کی توفیق سے نوازے ۔ آمین
یہ حقیقت تو کسی سے بھی چھپی نہیں کہ
علامہ اقبال صاحب ۔ قدرت اللہ شہاب صاحب اپنے " افعال و اعمال " کے باعث متنازغہ ہستیاں ہیں ۔
لیکن سمجھدار وہی کہلاتا ہے جو " صدا " سے غرض رکھے ۔۔۔۔۔۔۔
اک اچھی قابل گفتگو تحریر
بہت سی دعاؤں بھری داد
 
علامہ اقبال صاحب ۔ قدرت اللہ شہاب صاحب اپنے " افعال و اعمال " کے باعث متنازغہ ہستیاں ہیں ۔
علامہ اقبال کی ذاتی زندگی پر بعض لوگ اعتراضات اٹھاتے رہتے ہیں مگر ہم تو علامہ کی تعلیمات کی وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم تک وہی پہنچی ہیں۔
جیسا کہ
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(صلی اللہ علیہ وسلم)​
اور
تم تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو​
 

نور وجدان

لائبریرین
بلا شک " انسان " کے لیئے " اسوہ حسنہ " کی صورت زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ موجود ہے ۔
حق تعالی ہم سب کو زندگی کے ہر مرحلے پر " اعتدال " کا دامن تھامنے کی توفیق سے نوازے ۔ آمین
یہ حقیقت تو کسی سے بھی چھپی نہیں کہ
علامہ اقبال صاحب ۔ قدرت اللہ شہاب صاحب اپنے " افعال و اعمال " کے باعث متنازغہ ہستیاں ہیں ۔
لیکن سمجھدار وہی کہلاتا ہے جو " صدا " سے غرض رکھے ۔۔۔۔۔۔۔
اک اچھی قابل گفتگو تحریر
بہت سی دعاؤں بھری داد

پہلے پہل تو شکریہ ۔ اس بات پر کہ آپ کا تبصرہ ، اصل میں ایک ایسا تبصرہ ہے جس میں بہت کچھ چھپا ہوتا ہے ۔ گفتگو کو آغاز آپ کے کہنے سے میں کیے دیتی ہوں ، باقی لوگ اپنا حصہ خود ڈال لیں ۔

''متنازع '' شعور و لاشعور ۔۔ دونوں کو اپنانے والے متنازع ہوجاتے ہیں ۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟

ایک بات یاد آتی ہے ۔۔ متنازعہ سی ہے : مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا: میں ایسی تقسیم کو نہیں مانتا جس کے کچھ حصوں کو '' پاک '' اور کچھ حصوں کو '' ناپاک'' تصور کیا جائے ۔
دوسری طرف اگر قائد کو دیکھوں : تو سننے کو ملتا ہے ، پاکستان ، آج کا پاکستان اسلامی اجتہاد کی بنیاد ہے ، جس کی فکر کی بنیاد ''اقبال'' نے رکھی ۔۔۔۔ اور اسلام تو '' ٹکروں '' کے تصور کو مانتا ہی نہیں ہے ۔۔۔ ! اسلام کی اپروچ تو '' پان ازم '' ہے کہ جہاں جہاں مسلمان ہیں ، وہاں وہاں اسلام ہے ۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین

نایاب

لائبریرین
''متنازع '' شعور و لاشعور ۔۔ دونوں کو اپنانے والے متنازع ہوجاتے ہیں ۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟
علامہ اقبال رح صاحب کی شاعری کی ابتدا اور انتہا تک بدلتی صدا کو دیکھ لیں ۔۔
آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
یہ " لاشعور " سے اٹھتی صدا ہے جب آپ جوانی میں قدم رکھ چکے تھے ۔ اور شعور پختگی کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
پھر آپ نے اک اور صدا بلند کی ۔۔جو شعور کی پختگی سے ابھری ۔

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

اور اسی بات کو مولانا ابوالکلام آزاد نے بیان کیا ۔۔۔۔
لیکن ان کی صدا قائد اعظم اور مسلم لیگ کے منشور کے خلاف گئی ۔
بہت دعائیں
 
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
میرا خیال ہے کہ علامہ کے دو قومی نظریے اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا میں تضاد نہیں۔
ایک اچھا مسلمان ہمیشہ محب وطن ہوتا ہے۔ چاہے حکومت کسی کی ہو!
لیکن حب الوطنی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان اپنے حقوق کے لئے جدوجہد نہ کرے۔ یعنی توازن قائم رکھ کر آگے بڑھا جاسکتا ہے :)
 

نور وجدان

لائبریرین
علامہ اقبال رح صاحب کی شاعری کی ابتدا اور انتہا تک بدلتی صدا کو دیکھ لیں ۔۔
آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
یہ " لاشعور " سے اٹھتی صدا ہے جب آپ جوانی میں قدم رکھ چکے تھے ۔ اور شعور پختگی کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
پھر آپ نے اک اور صدا بلند کی ۔۔جو شعور کی پختگی سے ابھری ۔

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

اور اسی بات کو مولانا ابوالکلام آزاد نے بیان کیا ۔۔۔۔
لیکن ان کی صدا قائد اعظم اور مسلم لیگ کے منشور کے خلاف گئی ۔
بہت دعائیں
جب میں نے اسی طرز پر سوچا تھا مجھے یہ بات یاد بھی اس لیے رہی کہ ابولکلام مجھے اچھے لگتے ..۔۔! اس لیے میں شروع میں اقبال کے مخالف ہوگئ تھی ..۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ بھید کھلا کہ شکوہ، جواب شکوہ سے سفر کرتا ہوا یہ بندہ ارمغان حجازی بھی لکھے گا اور ایک وقت ایسا آیا اقبال پر ..۔۔۔ انہوں نے خطبہ الہٰ باد کا دعوٰی واپس لے لیا وہ دعوٰی جس پر انہوں نے خود اصرار کیا اور مجھے ادراک ہوا 'کہ ہر کانگریسی برا نہیں ہوتا اور ہر مولانا برا نہیں ہوتا کچھ اپنا دکھ لکھ جاتے ہیں ۔۔۔ مولانا بھی لکھ گئے ..۔!
 
آخری تدوین:
'' ادب '' کے '' دوست '' ۔۔۔۔۔!!
محترم بھائی ۔۔۔۔ کیا کروں ۔۔۔ عادت سی لگنے لگی ہے ، چھڑانا چاہتی ہوں ، مگر کوشش کے باوجود نہیں چھوٹ رہی ۔۔ برداشت کرلیں ۔۔۔ :)

نہیں نہیں ، آپ شائد غلط سمجھیں ،
میں نے تو تعریف میں کہا ہے ۔
آپ لکھتی رہیں ماشاءاللہ بہت اچھا لکھ رہی ہیں ۔ برداست نہیں ہم تو بہت شوق سے پڑھ رہے ہیں آپ کی تحاریر
 
جب میں نے اسی طرز پر سوچا تھا مجھے یہ بات یاد بھی اس لیے رہی کہ ابولکلام مجھے اچھے لگتے ..۔۔! اس لیے میں شروع میں اقبال کے مخالف ہوگئ تھی ..۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ بھید کھلا کہ شکوہ، جواب شکوہ سے سفر کرتا ہوا یہ بندہ ارمغان حجازی بھی لکھے گا اور ایک وقت ایسا آیا اقبال پر ..۔۔۔ انہوں نے خطبہ الہٰ باد کا دعوٰی واپس لے لیا وہ دعوٰی جس پر انہوں نے خود اصرار کیا اور مجھے ادراک ہوا 'کہ ہر کانگریسی برا نہیں ہوتا اور ہر مولانا برا نہیں ہوتا کچھ اپنا دکھ لکھ جاتے ہیں ۔۔۔ مولانا بھی لکھ گئے ..۔!
اپنے اس زہنی سفر پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالئے۔۔
کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے کون سے نظریات اچھے لگے اور علامہ اقبال کا نظریاتی سفر آپ کو کیسا لگا۔ تھوڑی تفصیل ہو جائے
 

نور وجدان

لائبریرین
اپنے اس زہنی سفر پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالئے۔۔
کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے کون سے نظریات اچھے لگے اور علامہ اقبال کا نظریاتی سفر آپ کو کیسا لگا۔ تھوڑی تفصیل ہو جائے
تھوڑا تحمل بھائی ..

مجھے دونوں۔اچھے لگتے ہیں ..۔ کون زیادہ اچھا لگتا یہ پوچھ لیتے آپ:)
نہیں نہیں ، آپ شائد غلط سمجھیں ،
میں نے تو تعریف میں کہا ہے ۔
آپ لکھتی رہیں ماشاءاللہ بہت اچھا لکھ رہی ہیں ۔ برداست نہیں ہم تو بہت شوق سے پڑھ رہے ہیں آپ کی تحاریر
بہت شکریہ .. نوازش پسند آوری کے لیے ..
 

نور وجدان

لائبریرین
ابوالکلام آزاد اور علامہ اقبال دونوں
اس تحریر میں کہیں بھی ابولاکلام آزاد نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔!!!

اس تحریر میں اقبال بھی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

اس تحریر میں صرف ''عقل '' اور ''لا شعور'' کی بات ہوئی ۔۔۔۔ !! غور کرنے میں حرج ہی کیا ہے ۔۔۔۔ انسان جب سوچ پر انجماد کا پردہ چڑھا لیتا ہے ، تب وہ غور نہیں کر پاتا ہے ۔۔۔۔!!!

اصل میں ''ہم سب '' کا المیہ یہی ہے ۔۔۔!!

مجھے کسی کا نظریہ متاثر نہیں کرتا ، مجھے بدلتا دن اور بدلتی راتیں ، بدلتے موسم، بدلتے چہرے ، بدلتی شامیں ، سکوت و شور ، تنہائی و محفل متاثر کرتی ہیں ۔۔۔ جب ہم کسی نظریے کے قیدی ہوجاتے ہیں تب ہم ''اندھے '' ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ ! ہم تب غور بھی نہیں کرتے اور تب ہمارے غور نہ کرنے سے '' فکر'' ہم میں تبدیلیاں نہیں لاتی ۔۔۔۔ اور فطرتِ انسان '' بدلاؤ'' کو بہت چاہتی ہے ۔۔۔اگر گرمیاں ہوتی ہیں تب ہم سردیوں کے خواہش مند ہوتے ہیں اور جب سردیاں ہوتی ہیں تب گرمیوں کے مگر ایک وقت ایسا آتا ہے ، ہمیں '' بہار '' اچھی لگنی لگتی ہے ۔۔۔!!!

کہنے کو اس جواب میں ، آپ کو '' جواب '' مل سکتا ہے اور اگر نہیں تو نا سہی ۔۔۔!!!
 

شزہ مغل

محفلین
'' ادب '' کے '' دوست '' ۔۔۔۔۔!!
محترم بھائی ۔۔۔۔ کیا کروں ۔۔۔ عادت سی لگنے لگی ہے ، چھڑانا چاہتی ہوں ، مگر کوشش کے باوجود نہیں چھوٹ رہی ۔۔ برداشت کرلیں ۔۔۔ :)
اس عادت کو فطرت بننے دیجیئے۔ چھوڑنے کی کوشش مت کیجیئے۔ اظہار کی عادت چھوٹ جائے تو اوہام، شکوک اور شبہات 'یقین' کا روپ دھار کر سکون غارت کرنے چلے آتے ہیں۔
 
Top