جاسمن

لائبریرین
ظہیراحمدظہیر کی غزل کے چند اشعار کا تیاپانچہ کرنے کی اپنی سی کوشش:
پوری غزل پڑھتے ہوئے ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ جو بھی شاعر اپنے تئیں سمجھتا تھا، ویسا تھا نہیں۔ یعنی وہ سمجھتا کچھ اور تھا، ہوتا کچھ اور تھا۔ آئیے ہم سمجھتے ہیں کہ شاعر کیا سمجھتا تھا، لوگ اس بات کو کیا سمجھتے تھے اور حقیقت کیا ہوا کرتی تھی۔
ہم جسے اَن کہی سمجھتے تھے
بات وہ تو سبھی سمجھتے تھے

دیکھا! ہم نے کہا تھا ناں کہ شاعر کی سمجھ کا پھیر تھا سارے کا سارا۔ شاعر نے جس بات کو راز سمجھا، اپنے تئیں کسی کو نہیں بتایا۔ شاید کسی قیمتی خزانے کا پتہ تھا یا کوئی قومی راز تھا، جسے اپنے تائیں چھپاتے رہے اور کسی کو نہیں دسیا۔ لیکن شاوا بھئی شاوا! وہ بات سارے لوکاں کو پتہ تھی۔ سارے لوکاں سمجھتے تھے اس بات کو۔ ایویں چھپاتے رہے، ہلکان ہوتے رہے اتنے لمبے عرصے۔ لگتا ہے کہ شاعر زیادہ پرانے نہیں ہیں۔ ان کے زمانے میں سوشل میڈیا شروع ہو چکا تھا اور یہ بات بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ سوشل میڈیا ماسی پھاپھے کٹنی کا کردار ادا کرتا ہے۔
شاعر نے اصل میں میر تقی میر کے ایک شعر کی نقل ماری ہے اور اپنا نیا شعر بنانے کی کوشش کی ہے۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
یہاں باغ کا اشارہ بھی سوشل میڈیا کی طرف ہے۔
حالانکہ میر تقی میر کے شعر کا دوسرا مصرع پہلے مصرع سے بڑا ہے۔ جتنا بڑا شاعر، اتنی بڑی غلطی۔

جیت کر ہم اُنہیں زمانے سے
جنگ جیتی ہوئی سمجھتے تھے
لو جی جس بندہ کو زمانے سے جیت کے شاعر سمجھتا تھا کہ وہ ساری کی ساری جنگ جیت گیا، زمانہ کسی اور میدان میں اترا ہوا تھا۔ اپنے تئیں شاعر خود کو جیت کا حقدار سمجھتا رہا۔ پر ایسا ہوا نہیں۔ شاعر ویسے بھی کشتی، کبڈی وغیرہ کے مقابلے دیکھتا ہے اور لڈو، کوکلا چھپاکی اور کوا اڑا، چڑیا اڑی کھیلتا ہے سو اسے جیتنا بڑا آسان لگتا ہے۔ لیکن شاعر کو یہ پتہ نہیں کہ "انھیں" جیتنا بابا جی کا کھیل یا لڈو یا کوا چڑیا اڑی اور کوکلا چھپاکی جیسا کھیل نہیں ہے۔

کتنے سادہ تھے ہم بچھڑتے وقت
ہجر کو عارضی سمجھتے تھے
ویسے بندے کو اتنا بھی سادہ نہیں ہونا چاہیے جتنا کہ شاعر ہے۔ اب پتہ نہیں کہ واقعی سادہ ہے یا بس خالی خولی دعویٰ ہے سادہ ہونے کا۔ آج کل کے دور میں جب بندہ بڑے آرام سے سوشل میڈیا پہ وقت گزار سکتا ہے تو ہجر کاٹنا بالکل بھی دشوار نہیں ہے۔
چلیں مان لیا کہ شاعر سادہ بندہ ہے تو یہ اس کی اپنی غلطی ہے۔ ہجر کو عارضی سمجھنا بھی اس کی اپنی خطا ہے، اپنی سمجھ کا پھیر ہے۔ اب محبوب نے تو کہیں نہیں بتایا تھا کہ ہجر عارضی ہو گا۔ وہ تو بس ٹاٹا بائے بائے کر کے چلا گیا۔

لفظ و معنی پہ لڑ رہے تھے ہم
علم کو آگہی سمجھتے تھے
شاعر کہتا ہے کہ بندہ لڑے تو کسی بڑی چیز پہ تو لڑے جیسے زمینیں، جائیداد، مربے، سیٹیں(وزیر شزیر والی)۔ ویسے چونکہ شاعر، شاعر ہے، زمیندار یا سیاستدان نہیں ہے سو وہ لفظ اور لفظ کے معنی پہ ہی لڑنا پسند کرتا ہے۔

وقت الجھا گیا ہمیں ورنہ
ہم بھی خود کو کبھی سمجھتے تھے
شاعر بھی اون کے گولے کی طرح الجھ گیا ہے۔ اور یہ سارا قصور وقت کا ہے۔ ورنہ شاعر پہلے خود کو بڑا سمجھتا تھا۔
تم سمجھتے ہو سادگی کو سہل
ہم بھی پہلے یہی سمجھتے تھے
آج کل سادہ رہنے کے لیے بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔بڑے سے برانڈ کے مہنگے ترین کپڑے پہننا پڑتے ہیں۔ شاعر یہی بتانے کی کوشش میں ہے۔ شاعر جب پچھلے زمانے میں تھا تو پنڈ دیہات میں سادہ رہنے کے لیے دیہی کپڑے آرام سے چل جاتے تھے۔ لیکن امپریشن سادہ کی بجائے کچھ اور سا پڑتا ہے سو اب جدید دور میں باہرلے ملک رہنے کی وجہ سے سادہ رہنے، دکھائی دینے کے لیے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ اب سادہ دکھائی دینے کی کوشش کرنے والے محفلین شاعر سے رجوع کریں کہ وہ کون سے برانڈ کے کپڑے لیتے ہیں۔
بس جی باقی اشعار بھی بس سمجھ کے پھیر پہ مشتمل ہیں سو سب کا بس ایک ہی مطلب سمجھیں۔ شاعر جو سمجھتا تھا، وہ تھا نہیں، جو تھا وہ شاعر سمجھتا نہیں تھا۔ جو لوگ سمجھتے تھے، وہ تھا اور جو لوگ نہیں سمجھتے تھے، وہ نہیں تھا۔ سو آپ سمجھ لیں کہ شاعر کو کسی اور فزیشن سے وقت لے کے سمجھ کا علاج ضرور کرانا چاہیے۔ اب اس سے زیادہ ہم بھلا کیا سمجھا سکتے ہیں!!!
 

یاسر شاہ

محفلین
:D
عنوان میں (تیا پانچا) کی جگہ (کچومر) کر دیں -

بہن اب آپ کو چاہیے کہ جن غزلوں پر مزاحیہ تبصرے کیے ہیں ان کی سنجیدہ تشریح بھی کریں تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ عقل نہیں تے موجاں ہی موجاں - :)
 

جاسمن

لائبریرین
:D
عنوان میں (تیا پانچا) کی جگہ (کچومر) کر دیں -

بہن اب آپ کو چاہیے کہ جن غزلوں پر مزاحیہ تبصرے کیے ہیں ان کی سنجیدہ تشریح بھی کریں تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ عقل نہیں تے موجاں ہی موجاں - :)
لو جی آج کل ملک کے جو حالات چل رہے ہیں، عقل سے عاری بندہ ہی جاری رہ سکتا ہے یہاں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شاعر نے اصل میں میر تقی میر کے ایک شعر کی نقل ماری ہے اور اپنا نیا شعر بنانے کی کوشش کی ہے۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
اب آپ نے چوری پکڑ ہی لی ہے تو ساری بات بتا دوں ۔ قصور میرا نہیں ہے ۔ نیرنگ خیال نے کام صحیح نہیں کیا اس بار۔ بڑی بحر کے پیسے لے کر یہ ننھی منی غزلیہ سی بھیج دی مجھے۔ میں نے کہا بھی کہ بھئی پورا تولو ، ڈنڈی مت مارو۔ یہ کیاچھوٹی چھوٹی مصرعیاں سی بھیجی ہیں اس بار ۔ کہنے لگے کہ آج کل کام زیادہ ہے ۔ ایک ہاتھ سے شاعری لکھتا ہوں دوسرے سے نثر۔ بعض دفعہ ہاتھ بدل جاتا ہے ۔ خلط ملط سا ہوجاتا ہے ۔ اس دفعہ رکھ لو۔ اگلی دفعہ دو رباعیاں مفت میں بھیج دوں گا۔ اب میں بیچارہ کیا کرتا ۔ چپ ہورہا۔ یونہی پوسٹ کردی یہاں ۔ بس یہ خیال نہیں رہا کہ آپ بھی یہیں ہوتی ہیں ، فوراً پکڑ لیں گی۔ وہی ہوا جس کا ڈر نہیں تھا ۔

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
حالانکہ میر تقی میر کے شعر کا دوسرا مصرع پہلے مصرع سے بڑا ہے۔ جتنا بڑا شاعر، اتنی بڑی غلطی۔
یہ بھی بالکل ٹھیک پکڑا آپ نے ۔ اگر آپ پولیس میں نہیں ہیں تو یقیناً استاد ہوں گی۔ پہلا مصرع واقعی بہت چھوٹا ہے ۔ اسے برابر کردیتے ہیں:
پتا پتا ، بوٹا بوٹا ، تنکا وِنکا ، کانٹا وانٹا حال ہمار اجانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اب آپ نے چوری پکڑ ہی لی ہے تو ساری بات بتا دوں ۔ قصور میرا نہیں ہے ۔ نیرنگ خیال نے کام صحیح نہیں کیا اس بار۔ بڑی بحر کے پیسے لے کر یہ ننھی منی غزلیہ سی بھیج دی مجھے۔ میں نے کہا بھی کہ بھئی پورا تولو ، ڈنڈی مت مارو۔ یہ کیاچھوٹی چھوٹی مصرعیاں سی بھیجی ہیں اس بار ۔ کہنے لگے کہ آج کل کام زیادہ ہے ۔ ایک ہاتھ سے شاعری لکھتا ہوں دوسرے سے نثر۔ بعض دفعہ ہاتھ بدل جاتا ہے ۔ خلط ملط سا ہوجاتا ہے ۔ اس دفعہ رکھ لو۔ اگلی دفعہ دو رباعیاں مفت میں بھیج دوں گا۔ اب میں بیچارہ کیا کرتا ۔ چپ ہورہا۔ یونہی پوسٹ کردی یہاں ۔ بس یہ خیال نہیں رہا کہ آپ بھی یہیں ہوتی ہیں ، فوراً پکڑ لیں گی۔ وہی ہوا جس کا ڈر نہیں تھا ۔


یہ بھی بالکل ٹھیک پکڑا آپ نے ۔ اگر آپ پولیس میں نہیں ہیں تو یقیناً استاد ہوں گی۔ پہلا مصرع واقعی بہت چھوٹا ہے ۔ اسے برابر کردیتے ہیں:
پتا پتا ، بوٹا بوٹا ، تنکا وِنکا ، کانٹا وانٹا حال ہمار اجانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
اب آپ چونکہ سرعام اپنی شاعری کے راز افشا کر رہے ہیں۔۔۔ تو آپ کامیرا اکاروبار بند۔۔۔ بھئی آپ کی اس دھڑلے بازے سے میرے باقی گاہک شاعر بھی بھاگ سکتے ہیں۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ظہیراحمدظہیر کی غزل کے چند اشعار کا تیاپانچہ کرنے کی اپنی سی کوشش:
پوری غزل پڑھتے ہوئے ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ جو بھی شاعر اپنے تئیں سمجھتا تھا، ویسا تھا نہیں۔ یعنی وہ سمجھتا کچھ اور تھا، ہوتا کچھ اور تھا۔ آئیے ہم سمجھتے ہیں کہ شاعر کیا سمجھتا تھا، لوگ اس بات کو کیا سمجھتے تھے اور حقیقت کیا ہوا کرتی تھی۔
ہم جسے اَن کہی سمجھتے تھے
بات وہ تو سبھی سمجھتے تھے

دیکھا! ہم نے کہا تھا ناں کہ شاعر کی سمجھ کا پھیر تھا سارے کا سارا۔ شاعر نے جس بات کو راز سمجھا، اپنے تئیں کسی کو نہیں بتایا۔ شاید کسی قیمتی خزانے کا پتہ تھا یا کوئی قومی راز تھا، جسے اپنے تائیں چھپاتے رہے اور کسی کو نہیں دسیا۔ لیکن شاوا بھئی شاوا! وہ بات سارے لوکاں کو پتہ تھی۔ سارے لوکاں سمجھتے تھے اس بات کو۔ ایویں چھپاتے رہے، ہلکان ہوتے رہے اتنے لمبے عرصے۔ لگتا ہے کہ شاعر زیادہ پرانے نہیں ہیں۔ ان کے زمانے میں سوشل میڈیا شروع ہو چکا تھا اور یہ بات بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ سوشل میڈیا ماسی پھاپھے کٹنی کا کردار ادا کرتا ہے۔
شاعر نے اصل میں میر تقی میر کے ایک شعر کی نقل ماری ہے اور اپنا نیا شعر بنانے کی کوشش کی ہے۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
یہاں باغ کا اشارہ بھی سوشل میڈیا کی طرف ہے۔
حالانکہ میر تقی میر کے شعر کا دوسرا مصرع پہلے مصرع سے بڑا ہے۔ جتنا بڑا شاعر، اتنی بڑی غلطی۔

جیت کر ہم اُنہیں زمانے سے
جنگ جیتی ہوئی سمجھتے تھے
لو جی جس بندہ کو زمانے سے جیت کے شاعر سمجھتا تھا کہ وہ ساری کی ساری جنگ جیت گیا، زمانہ کسی اور میدان میں اترا ہوا تھا۔ اپنے تئیں شاعر خود کو جیت کا حقدار سمجھتا رہا۔ پر ایسا ہوا نہیں۔ شاعر ویسے بھی کشتی، کبڈی وغیرہ کے مقابلے دیکھتا ہے اور لڈو، کوکلا چھپاکی اور کوا اڑا، چڑیا اڑی کھیلتا ہے سو اسے جیتنا بڑا آسان لگتا ہے۔ لیکن شاعر کو یہ پتہ نہیں کہ "انھیں" جیتنا بابا جی کا کھیل یا لڈو یا کوا چڑیا اڑی اور کوکلا چھپاکی جیسا کھیل نہیں ہے۔

کتنے سادہ تھے ہم بچھڑتے وقت
ہجر کو عارضی سمجھتے تھے
ویسے بندے کو اتنا بھی سادہ نہیں ہونا چاہیے جتنا کہ شاعر ہے۔ اب پتہ نہیں کہ واقعی سادہ ہے یا بس خالی خولی دعویٰ ہے سادہ ہونے کا۔ آج کل کے دور میں جب بندہ بڑے آرام سے سوشل میڈیا پہ وقت گزار سکتا ہے تو ہجر کاٹنا بالکل بھی دشوار نہیں ہے۔
چلیں مان لیا کہ شاعر سادہ بندہ ہے تو یہ اس کی اپنی غلطی ہے۔ ہجر کو عارضی سمجھنا بھی اس کی اپنی خطا ہے، اپنی سمجھ کا پھیر ہے۔ اب محبوب نے تو کہیں نہیں بتایا تھا کہ ہجر عارضی ہو گا۔ وہ تو بس ٹاٹا بائے بائے کر کے چلا گیا۔

لفظ و معنی پہ لڑ رہے تھے ہم
علم کو آگہی سمجھتے تھے
شاعر کہتا ہے کہ بندہ لڑے تو کسی بڑی چیز پہ تو لڑے جیسے زمینیں، جائیداد، مربے، سیٹیں(وزیر شزیر والی)۔ ویسے چونکہ شاعر، شاعر ہے، زمیندار یا سیاستدان نہیں ہے سو وہ لفظ اور لفظ کے معنی پہ ہی لڑنا پسند کرتا ہے۔

وقت الجھا گیا ہمیں ورنہ
ہم بھی خود کو کبھی سمجھتے تھے
شاعر بھی اون کے گولے کی طرح الجھ گیا ہے۔ اور یہ سارا قصور وقت کا ہے۔ ورنہ شاعر پہلے خود کو بڑا سمجھتا تھا۔
تم سمجھتے ہو سادگی کو سہل
ہم بھی پہلے یہی سمجھتے تھے
آج کل سادہ رہنے کے لیے بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔بڑے سے برانڈ کے مہنگے ترین کپڑے پہننا پڑتے ہیں۔ شاعر یہی بتانے کی کوشش میں ہے۔ شاعر جب پچھلے زمانے میں تھا تو پنڈ دیہات میں سادہ رہنے کے لیے دیہی کپڑے آرام سے چل جاتے تھے۔ لیکن امپریشن سادہ کی بجائے کچھ اور سا پڑتا ہے سو اب جدید دور میں باہرلے ملک رہنے کی وجہ سے سادہ رہنے، دکھائی دینے کے لیے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ اب سادہ دکھائی دینے کی کوشش کرنے والے محفلین شاعر سے رجوع کریں کہ وہ کون سے برانڈ کے کپڑے لیتے ہیں۔
بس جی باقی اشعار بھی بس سمجھ کے پھیر پہ مشتمل ہیں سو سب کا بس ایک ہی مطلب سمجھیں۔ شاعر جو سمجھتا تھا، وہ تھا نہیں، جو تھا وہ شاعر سمجھتا نہیں تھا۔ جو لوگ سمجھتے تھے، وہ تھا اور جو لوگ نہیں سمجھتے تھے، وہ نہیں تھا۔ سو آپ سمجھ لیں کہ شاعر کو کسی اور فزیشن سے وقت لے کے سمجھ کا علاج ضرور کرانا چاہیے۔ اب اس سے زیادہ ہم بھلا کیا سمجھا سکتے ہیں!!!
جاسمن صاحبہ آج کل عروج پر ہیں۔۔۔ میرا خیال ہے کہ محفل میں بزم سخن کچھ عرصہ ویران رہنے والا ہے۔
 
Top