محمد اجمل خان
محفلین
ہم جنتی ہیں یا جہنمی
اپنے بارے میں ہم یہ جان سکتے ہیں۔
ہم سب اپنے اعمال سے پہچانے جاتے ہیں۔
جو اچھا عمل کرتا ہے اس کی لوگ تعریف کرتے ہیں۔
جو برے کام کرتا ہے اسے لوگ برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔
اور لوگوں کا کسی کی تعریف کرنا یا اسے برا کہنا اُس شخص کے جنتی یا دوزخی ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جنتی وہ ہے جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی اچھی تعریف سے بھر دے، اور وہ اسے سنتا ہو، اور جہنمی وہ ہے جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی بری تعریف سے بھر دے، اور وہ اسے سنتا ہو“۔ (سنن ابن ماجه: 4224)
اس حدیث میں ایمان والوں کے لئے بڑی سبق ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنا محاسبہ کرکے اس دنیا ہی میں اپنے جنتی یا دوزخی ہونے کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ جب کوئی بندہ ایمان و اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے نیک کام کرتا ہے اور نیک عمل کی پابندی کرتا ہے، ہر میدان میں جہاں تک اسے موقع ملتا ہے وہ نیک کام سے پیچھے نہیں رہتا تو اللہ تعالٰی لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے محبت پیدا فرما دیاتا ہے جیسا کہ فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا ﴿٩٦﴾ سورة مريم
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو (خدائے) رحمان ان کے لئے (لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا، (96) سورة مريم
لہذا بندے کی نیک عمل کی وجہ سے اللہ تعالٰی لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے محبت پیدا فرما دیتا ہے اور جب لوگوں کے دلوں یں محبت پیدا ہوجاتی ہے تو لوگ اس کی تعریف و توصیف بیان کرنے لگتے ہیں، جہاں بھی اس کی نیک اعمال کا چرچا پہنچتا ہے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں، جس جگہ بھی وہ جاتا ہے سنتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کر رہے ہیں، جس جگہ سے بھی خبر آتی ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اسے اچھا کہہ رہے تھے۔ تو اگر کوئی شخص ایسا ہے تو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالٰی اس کی نیک اعمال کو قبول کر رہا ہے اور بڑی امید ہے کہ اللہ تعالٰی اسے جنت میں داخل کرے گا۔
سو یہ بڑی اہم چیز ہے۔ انسان یہ توجہ دے کہ جس ماحول میں وہ رہتا ہے اس کے پڑوسی، اس کے رشتہ دار، اس کے دوست احباب، اس کے ساتھی جن کے ساتھ وہ ملازمت، تجارت یا خرید و فروخت کرتا ہے یا جن کے ساتھ اس کے دیگر معاملات اور لین دین طے ہوتے ہیں وغیرہ کیا اس کے بارے میں اچھا تصور رکھتے ہیں، اس کی پیٹھ پیچھے اس کی تعریف کرتے ہیں یا یہ لوگ اس کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ اگر اس کے پیٹھ پیچھے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اور یہ تعریف کسی خوف سے نہیں بلکہ اس بندے کی تقویٰ، نیک اعمال، اس کی بھلائی و خیر خواہی کی بنیاد پر ہے تو اسے خوش ہونا چاہئے:
رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گيا کہ اس شخص کے بارے ميں آپ ﷺ کا کيا خيال ہے جو نيک عمل کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ مومن کے لیے پيشگی خوش خبری ہے“ ۔ (صحيح مسلم: 2642)
یعنی آخرت میں جو ثواب اور اجر ہے وہ تو الگ ہے یہ دنیا ہی میں خوشی ہے اس کے لیے کہ لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔
یہ تعریف پیٹھ پیچھے بھی ہو سکتی ہے اور منہ پر بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ حدیث میں اس بارے میں ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن بعض لوگ اپنی یا اپنے نیک اعمال تعریف سننا پسند نہیں کرتے لیکن شریعت میں اس کی اجازت ہے چہ جائیکہ کہ لوگ غلو یا چاپلوسی نہ کریں اور اپنی تعریف سن کر انسان تکبر میں نہ پڑے۔
اور جس حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ منہ پہ تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالدو، (صحیح مسلم: 3002، سنن ابي داود: 4804، سنن الترمذی: 2393)، تو اولاً یہ بے جا تعریف اور چاپلوسی کرنے والوں کے بارے میں ہے، ثانیاً تعریف سن کر مغرور نہ ہو بلکہ اپنی عاجزی و ذلت بیان کرے۔ جب مومنِ کامل کی تعریف کی جاتی ہے تو اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ چوںکہ اس کا ایمان کامل ہوتا ہے تو تعریف سے اس کے ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔ وہ اپنی تعریف کو اللہ کی تعریف سمجھتا ہے، اپنی تعریف نہیں سمجھتا جس سے اس میں عجز و انکساری پیدا ہوتی ہے اور اسے مزید نیک اعمال کرنے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔
لیکن جو برائی کی طرف راغب ہو، جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی بری تعریف سے بھر دے یعنی اس کے پیٹھ پیچھے اس کے عدم موجودگی میں لوگ اسے اچھا نہیں کہتے۔ جس مجلس میں بھی لوگ بیٹھتے ہیں چاہے عام لوگوں کی مجلس ہو یا نیک لوگوں کی مجلس ہو بس اس کی برائی ہی کرتے ہیں، اس کے ظلم و زیادتی اور عیوب کو بیان کرتے ہیں۔
ایسا شخص جس کا اخلاق و کردار برا ہوتا ہے، جس کے بیوی بچے، آس پاس کے لوگ اور ماتحت وغیرہ سب اس سے نالاں رہتے ہیں، جس کے معاملات اور لین دین شفاف نہیں ہوتے اور وہ کچھ اچھا نہیں کرتا، لوگ اس اصلاح کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کسی کی نصیحت نہیں سنتا، بس اپنے زعم باطل میں وہ سمجھتا ہے کہ وہ اچھا اور سب کچھ اچھا کر رہا ہے۔
جبکہ لوگ بس اس کے سامنے اس کے ڈر سے یا اس کے کسی شر سے بچنے کے لئے یا اس کا لحاظ کرتے ہوئے برا نہیں کہتے تو اس کا یہ معنیٰ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ اگر وہ اچھا ہے تو اسے دیکھنا یہ چاہئے کہ لوگ اس کے پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کی آنکھیں کھولنے کے لئے شاعر خواجہ حیدر علی آتش نے کیا خوب کہا ہے:
اگر اچھی رائے رکھتی ہے تو اسے خوش ہونا چاہئے
اور اگر بری رائے رکھتی تو اسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔
ہمارے بارے میں لوگوں کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ لہذا ہمیں سوچنا چاہئے کہ لوگ ہمارے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں یا بری رائے رکھتے ہیں جس کی بنا پر ہم اپنے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں جان سکتا ہے۔
ہم میں سے اگر کسی کے اندر یہ کمی ہے تو یہ حدیث ہمیں اس بات کا درس دے رہی ہے ہم میں سے ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور خاص طور پر جو لوگ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں جس کے بعد اب دنیا سے جانے کے علاوہ اور کوئی مرحلہ باقی نہیں رہ جاتا ہے، انہیں ایسے تمام لوگوں سے ملنا چاہئے جو ان کے بارے میں بری رائے رکھتے ہیں اور ان سے معافی تلافی کر لینی چاہئے تاکہ لوگ انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرنے لگیں تاکہ ان کا دنیا میں ہی اپنے جنتی ہونے کی امید ہوجائے اور ان کا بڑھاپا بابرکت و باسعادت بن جائے۔
نوٹ: یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی بیان کرنا تو غیبت میں شمار ہوتا ہے اور غیبت کرنا حرام ہے، تو عرض ہے کہ بعض افراد کی برائی اور عیوب بیان کرنا غیبت میں شمار نہیں ہوتی، مثلا (1) وہ فاسق و فاجر شخص جو کھلے عام اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرتا ہو، (2) ظالم و زیادتی کرنے والا بادشاہ، امیر یا کوئی بھی زبردست، (3) اس بدعتی شخص کی جو سرِعام بدعات میں مبتلا ہو اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا ہو، (4) دھوکے باز شخص کے بارے میں اپنے مسلمان بھائی کو نقصان سے بچانے کے لئے اس کے مکر و فریب سے آگاہ کرنا، (5) قرض خور جو قرض لینے کے بعد کبھی واپس نہیں کرتا، (6) بد دیانت تاجر، (7) فتویٰ لینے کے لئے کسی کے بارے میں مفتی کو بتانا جو ضروری ہو، ( ظالم شوہر جو مالدار ہونے کے باوجود نان نفقہ دینے میں کوتاہی کرے تو قاضی کے پاس اس کی شکایت کرنا (و اللہ اعلم)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی زبانوں پر وہ چیز نازل فرما دیتا ہے جو کسی بندے کی نیکی یا بدی ظاہر کرنے کے لئے ہوتی ہے اور وہ ان پر چھا جاتی ہے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
اپنے بارے میں ہم یہ جان سکتے ہیں۔
ہم سب اپنے اعمال سے پہچانے جاتے ہیں۔
جو اچھا عمل کرتا ہے اس کی لوگ تعریف کرتے ہیں۔
جو برے کام کرتا ہے اسے لوگ برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔
اور لوگوں کا کسی کی تعریف کرنا یا اسے برا کہنا اُس شخص کے جنتی یا دوزخی ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جنتی وہ ہے جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی اچھی تعریف سے بھر دے، اور وہ اسے سنتا ہو، اور جہنمی وہ ہے جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی بری تعریف سے بھر دے، اور وہ اسے سنتا ہو“۔ (سنن ابن ماجه: 4224)
اس حدیث میں ایمان والوں کے لئے بڑی سبق ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنا محاسبہ کرکے اس دنیا ہی میں اپنے جنتی یا دوزخی ہونے کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ جب کوئی بندہ ایمان و اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے نیک کام کرتا ہے اور نیک عمل کی پابندی کرتا ہے، ہر میدان میں جہاں تک اسے موقع ملتا ہے وہ نیک کام سے پیچھے نہیں رہتا تو اللہ تعالٰی لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے محبت پیدا فرما دیاتا ہے جیسا کہ فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا ﴿٩٦﴾ سورة مريم
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو (خدائے) رحمان ان کے لئے (لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا، (96) سورة مريم
لہذا بندے کی نیک عمل کی وجہ سے اللہ تعالٰی لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے محبت پیدا فرما دیتا ہے اور جب لوگوں کے دلوں یں محبت پیدا ہوجاتی ہے تو لوگ اس کی تعریف و توصیف بیان کرنے لگتے ہیں، جہاں بھی اس کی نیک اعمال کا چرچا پہنچتا ہے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں، جس جگہ بھی وہ جاتا ہے سنتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کر رہے ہیں، جس جگہ سے بھی خبر آتی ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اسے اچھا کہہ رہے تھے۔ تو اگر کوئی شخص ایسا ہے تو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالٰی اس کی نیک اعمال کو قبول کر رہا ہے اور بڑی امید ہے کہ اللہ تعالٰی اسے جنت میں داخل کرے گا۔
سو یہ بڑی اہم چیز ہے۔ انسان یہ توجہ دے کہ جس ماحول میں وہ رہتا ہے اس کے پڑوسی، اس کے رشتہ دار، اس کے دوست احباب، اس کے ساتھی جن کے ساتھ وہ ملازمت، تجارت یا خرید و فروخت کرتا ہے یا جن کے ساتھ اس کے دیگر معاملات اور لین دین طے ہوتے ہیں وغیرہ کیا اس کے بارے میں اچھا تصور رکھتے ہیں، اس کی پیٹھ پیچھے اس کی تعریف کرتے ہیں یا یہ لوگ اس کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ اگر اس کے پیٹھ پیچھے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اور یہ تعریف کسی خوف سے نہیں بلکہ اس بندے کی تقویٰ، نیک اعمال، اس کی بھلائی و خیر خواہی کی بنیاد پر ہے تو اسے خوش ہونا چاہئے:
رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گيا کہ اس شخص کے بارے ميں آپ ﷺ کا کيا خيال ہے جو نيک عمل کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ مومن کے لیے پيشگی خوش خبری ہے“ ۔ (صحيح مسلم: 2642)
یعنی آخرت میں جو ثواب اور اجر ہے وہ تو الگ ہے یہ دنیا ہی میں خوشی ہے اس کے لیے کہ لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔
یہ تعریف پیٹھ پیچھے بھی ہو سکتی ہے اور منہ پر بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ حدیث میں اس بارے میں ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن بعض لوگ اپنی یا اپنے نیک اعمال تعریف سننا پسند نہیں کرتے لیکن شریعت میں اس کی اجازت ہے چہ جائیکہ کہ لوگ غلو یا چاپلوسی نہ کریں اور اپنی تعریف سن کر انسان تکبر میں نہ پڑے۔
اور جس حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ منہ پہ تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالدو، (صحیح مسلم: 3002، سنن ابي داود: 4804، سنن الترمذی: 2393)، تو اولاً یہ بے جا تعریف اور چاپلوسی کرنے والوں کے بارے میں ہے، ثانیاً تعریف سن کر مغرور نہ ہو بلکہ اپنی عاجزی و ذلت بیان کرے۔ جب مومنِ کامل کی تعریف کی جاتی ہے تو اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ چوںکہ اس کا ایمان کامل ہوتا ہے تو تعریف سے اس کے ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔ وہ اپنی تعریف کو اللہ کی تعریف سمجھتا ہے، اپنی تعریف نہیں سمجھتا جس سے اس میں عجز و انکساری پیدا ہوتی ہے اور اسے مزید نیک اعمال کرنے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔
لیکن جو برائی کی طرف راغب ہو، جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی بری تعریف سے بھر دے یعنی اس کے پیٹھ پیچھے اس کے عدم موجودگی میں لوگ اسے اچھا نہیں کہتے۔ جس مجلس میں بھی لوگ بیٹھتے ہیں چاہے عام لوگوں کی مجلس ہو یا نیک لوگوں کی مجلس ہو بس اس کی برائی ہی کرتے ہیں، اس کے ظلم و زیادتی اور عیوب کو بیان کرتے ہیں۔
ایسا شخص جس کا اخلاق و کردار برا ہوتا ہے، جس کے بیوی بچے، آس پاس کے لوگ اور ماتحت وغیرہ سب اس سے نالاں رہتے ہیں، جس کے معاملات اور لین دین شفاف نہیں ہوتے اور وہ کچھ اچھا نہیں کرتا، لوگ اس اصلاح کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کسی کی نصیحت نہیں سنتا، بس اپنے زعم باطل میں وہ سمجھتا ہے کہ وہ اچھا اور سب کچھ اچھا کر رہا ہے۔
جبکہ لوگ بس اس کے سامنے اس کے ڈر سے یا اس کے کسی شر سے بچنے کے لئے یا اس کا لحاظ کرتے ہوئے برا نہیں کہتے تو اس کا یہ معنیٰ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ اگر وہ اچھا ہے تو اسے دیکھنا یہ چاہئے کہ لوگ اس کے پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کی آنکھیں کھولنے کے لئے شاعر خواجہ حیدر علی آتش نے کیا خوب کہا ہے:
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
اس شعر میں ایسے شخص کی طرف اشارہ ہے جو اس خوش فہمی میں ہے کہ جو وہ سوچتا ہے اور وہ جو کرتا ہے بجا ہے لیکن اسے معلوم نہیں کہ لوگ اس کے حوالے سے کیا سوچتے ہیں۔ دنیا میں جو کہانیاں اس کے متعلق بنی ہوئی ہیں وہ بھی اسے سننا چاہئے اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ مخلوق خدا اس کے پیٹھ پیچھے اس کو کیا کہتی ہے، اسے کس طرح یاد کرتی ہے۔کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
اگر اچھی رائے رکھتی ہے تو اسے خوش ہونا چاہئے
اور اگر بری رائے رکھتی تو اسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔
ہمارے بارے میں لوگوں کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ لہذا ہمیں سوچنا چاہئے کہ لوگ ہمارے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں یا بری رائے رکھتے ہیں جس کی بنا پر ہم اپنے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں جان سکتا ہے۔
ہم میں سے اگر کسی کے اندر یہ کمی ہے تو یہ حدیث ہمیں اس بات کا درس دے رہی ہے ہم میں سے ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور خاص طور پر جو لوگ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں جس کے بعد اب دنیا سے جانے کے علاوہ اور کوئی مرحلہ باقی نہیں رہ جاتا ہے، انہیں ایسے تمام لوگوں سے ملنا چاہئے جو ان کے بارے میں بری رائے رکھتے ہیں اور ان سے معافی تلافی کر لینی چاہئے تاکہ لوگ انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرنے لگیں تاکہ ان کا دنیا میں ہی اپنے جنتی ہونے کی امید ہوجائے اور ان کا بڑھاپا بابرکت و باسعادت بن جائے۔
نوٹ: یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی بیان کرنا تو غیبت میں شمار ہوتا ہے اور غیبت کرنا حرام ہے، تو عرض ہے کہ بعض افراد کی برائی اور عیوب بیان کرنا غیبت میں شمار نہیں ہوتی، مثلا (1) وہ فاسق و فاجر شخص جو کھلے عام اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرتا ہو، (2) ظالم و زیادتی کرنے والا بادشاہ، امیر یا کوئی بھی زبردست، (3) اس بدعتی شخص کی جو سرِعام بدعات میں مبتلا ہو اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا ہو، (4) دھوکے باز شخص کے بارے میں اپنے مسلمان بھائی کو نقصان سے بچانے کے لئے اس کے مکر و فریب سے آگاہ کرنا، (5) قرض خور جو قرض لینے کے بعد کبھی واپس نہیں کرتا، (6) بد دیانت تاجر، (7) فتویٰ لینے کے لئے کسی کے بارے میں مفتی کو بتانا جو ضروری ہو، ( ظالم شوہر جو مالدار ہونے کے باوجود نان نفقہ دینے میں کوتاہی کرے تو قاضی کے پاس اس کی شکایت کرنا (و اللہ اعلم)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی زبانوں پر وہ چیز نازل فرما دیتا ہے جو کسی بندے کی نیکی یا بدی ظاہر کرنے کے لئے ہوتی ہے اور وہ ان پر چھا جاتی ہے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔