فیض ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے،، فیض احمد فیض

علی فاروقی

محفلین
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلےآئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم
اپناغم تھا گواہی تیرے حُسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے

قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
 

شاہ حسین

محفلین
بہت اچھی نظم ہے شامل محفل کرنے کا بہت شکریہ ۔

نارسایئ اگر اپنی تقدیر تھی

نارسائی سے بدل لیں ٹائپنگ کی غلطی ہے
شکریہ
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے علی فاروقی صاحب ،و اہ ، جی خوش کردیا ، ماشاا للہ کیا خوب انتخاب ہے واہ ، سلامت رہیں صاحب
 

فرخ منظور

لائبریرین
اگر میری یادداشت دھوکا نہیں دے رہی تو نظم کا عنوان شائد " وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے" ہے۔۔ ۔ ۔ ؟؟؟؟

فیض کی کتاب "زنداں نامہ" کے صفحہ 76 پر یہ نظم موجود ہے اور اس نظم کا عنوان "ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے" ہی ہے۔ یہ نظم "ایتھل، اور جولیس روزنبرگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی"
منٹگمری جیل
15 مئی 1954
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس نظم سے مجھے ایک پرانی بات یاد آگئی کہ فیض کی کئی نظمیں مجھے زبانی یاد ہیں۔ آج سے 15-16 سال پہلے میں اپنے دوستوں کو یہ نظم اکثر سنایا کرتا تھا۔ ایک دوست نے اس نظم کا عنوان بدل کر رکھ دیا "ہم جو روشن خیالی میں مارے گئے" :) اور مجھے اکثر کہتا یار وہ نظم سناؤ "ہم جو روشن خیالی میں مارے گئے" :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپکے پبلک پروفائل پر آپکی تاریخِ پیدائش 5 اکتوبر 1992 درج ہے۔۔ ۔ ۔ گویا شاعری آپ کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔;)

ہا ہا یہ میں نے بھی دیکھا تھا۔ دراصل یہ محفل کے سافٹ ویر کی کارستانی ہے۔ میں نے اسے سن کو اخفا رکھنے کو کہا تھا لیکن وہ راز راز نہ رکھ سکا لیکن بدحواسی میں ایک غلط سال اگل دیا۔ ;)
 

قیصر خلیل

محفلین
مجھے فیض صاحب کی یہ نظم چاہیئے تھی۔ شکریہ کہ آپ نے ۲۰۰۹ کا ریکارڈ رکھا ہوا ہے، جب یہ پوسٹ ہوئی۔
بہت نوازش
 

فاخر رضا

محفلین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پس دوبارہ ثابت ہوا کہ:
جس رنگ کے شیشے کی ہو عینک راکبؔ
ہر شے میں وہی رنگ نظر آتا ہے

فیض نے دو غداروں کی حمایت اور مدح میں یہ نظم اس لیے لکھی کہ ان دونوں نے غداری امریکا سے کی تھی اور فیض کے ممدوح اور" مثالی" ملک روس کو راز فراہم کیے تھے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو پھر شاید ان دونوں کی سزائے موت کی حمایت میں نظم لکھی جاتی اور وطن سے غداری کو ایک سنگین جرم قرار دیا جاتا۔
بیشک شاعری میں سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کردکھایا جاسکتا ہے ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
پس دوبارہ ثابت ہوا کہ:
جس رنگ کے شیشے کی ہو عینک راکبؔ
ہر شے میں وہی رنگ نظر آتا ہے

فیض نے دو غداروں کی حمایت اور مدح میں یہ نظم اس لیے لکھی کہ ان دونوں نے غداری امریکا سے کی تھی اور فیض کے ممدوح اور" مثالی" ملک روس کو راز فراہم کیے تھے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو پھر شاید ان دونوں کی سزائے موت کی حمایت میں نظم لکھی جاتی اور وطن سے غداری کو ایک سنگین جرم قرار دیا جاتا۔
بیشک شاعری میں سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کردکھایا جاسکتا ہے ۔
محترم ظہیر بھائی،
بھئی فیض نے اپنے خیالات کے ساتھ انصاف کیا۔ جو کہ بری بات نہیں۔
ایک ملک کے فریڈم فائٹرز اسی ملک کے دوسرے کئی لوگوں کے لیے آتنگ وادی ہوتے ہیں!
ایک گھبرو نوجوان کی محبوبہ اسی محترم کی والدہ کو کلموہی معلوم ہوتی ہے۔ :LOL: اور یہی وجہ ہے کہ اگر محترم نوجوان اور والدہ محترمہ دونوں شاعر ہوں تو دو مختلف طرح کی شاعری پڑھنے کو ملے گی۔
اگر مزید وضاحت درکار ہو تو مزید مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ :grin::biggrin:
 
آخری تدوین:
Top