ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ وقت گزرنے کے بعد کیا ایسی نظم اپنے محرک سے جدا سمجھی جا سکتی ہے؟
اس سوال کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ یعنی جواب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اس نظم کو کس رنگ کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔اس پر تبصرہ ضرور کیجیے
تفنن برطرف ، شاعری عجیب چیز ہے۔ قاری کے پاس پہنچ جائے تو پھر شاعر کی نہیں رہتی ، قاری کی ہوجاتی ہے ۔ شاعر نے کوئی نظم یا شعر خواہ کسی بھی پس منظر یا کسی بھی فکر و فلسفے کے تحت کہا ہو قاری اس کو اپنی صورتحال پر جب چاہے اور جیسے چاہے منطبق کرسکتا ہے۔ سیدھے سیدھے لیلیٰ مجنوں ٹائپ کے عشقیہ اشعار پر بھی عشقِ حقیقی والے علما سر دھنتے پائے جاتے ہیں۔ شراب و میخانے کی نشہ اور بدمستی والی شاعری میں سے بھی لوگ تصوف کشید کرلیتے ہیں ۔ وغیرہ۔
اگر آپ اس نظم کا پس منظر نہیں جانتے تو بس یہ ایک رومانوی نظم ہے جس میں حد درجہ ابہام ہے ۔ اکثر مصرعوں کی غایت اور مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ شعریت اور غنائیت کا لطف تو لیا جاسکتا ہے لیکن مفہوم تک رسائی بہت مشکل ہے ۔یعنی یہ نظم دوبارہ پڑھے جانے کے لائق نہیں ۔
اس نظم کو سمجھنے اور پورا لطف لینے کے لیے اس کا مکمل پس منظر جاننا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فیض کو نظم کےشروع ہی میں یہ تمہیدی جملہ قوسین میں لکھنا پڑا کہ: " ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی" ۔
ایتھل اور جولیس سزائے موت سے پہلے دو الگ الگ جیلوں میں قید تھے اور وہاں سے ایک دوسرے کو محبت نامے لکھتے تھے ۔ یہ واقعہ ان دنوں پوری دنیا میں مشہور تھا اور ادبی حلقوں کا موضوعِ گفتگو تھا ، بالخصوص اشتراکیت پسندوں میں۔ جب یہ روزنبرگ خطوط دنیا بھر میں شائع ہوئے تو فیض تک بھی پہنچے ۔ فیض ان دنوں خود بھی راولپنڈی سازش یا غداری کے کیس میں جیل میں بند تھے۔ چنانچہ ان خطوط کا فیض کے دل پر گہرا اثر ہونا یقینی تھا۔ نتیجتاً یہ نظم وجود میں آئی کہ جس میں دو مجبور و مظلوم و محبوس محبت کرنے والوں پر "ظلم و ستم ، نا انصافی اور جبر و استبداد" کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ فیض نے اس نظم میں صیغۂ متکلم یعنی "ہم" استعمال کیا جو مزید معنی خیز بن جاتا ہے کہ وہ خود بھی غداری کے الزام میں داخلِ زنداں تھے ۔ روزنبرگ خطوط میں باہمی محبت اور رومان کے تذکرے کے علاوہ معصومیت کے دعوے ، بلند ہمتی اور مستقبل کے بارے میں مثبت خیالی کے عناصر بہت نمایاں تھے اور یہی تمام باتیں فیض نے اپنی نظم میں سمودی ہیں ۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے نظم کو پڑھا جائے تو نہ صرف ہر ہر مصرع بلکہ ہر ہر لفظ گہرے معنی رکھتا ہے۔ پوری نظم بہت خوبصورتی کے ساتھ اس سوچ اور جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے کہ جس سے محبت کرنے والے ، انقلابی سوچ رکھنے والے ،آزادی کے طالب محبوس اور مجبور لوگ گزرتے ہیں ۔ چنانچہ فیض کی یہ نظم اپنی نوعیت میں رومانوی ہونے کے باوجود استعمار اور ظلم و نا انصافی کے خلاف ایک آواز بن گئی اور اشتراکیت پسند حلقوں نے اسے اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا ۔
ویسے روزنبرگ واقعے سے متاثر ہوکر دنیا کی بہت ساری زبانوں میں شعر و ادب تخلیق ہوا ہے۔