خرد اعوان
محفلین
ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا
سب سے اونچا تھا جو سر نوکِ سناں پر دیکھا
ہم سے مت پوچھ کہ کب چاند ابھرتا ہے یہاں
ہم نے سورج بھی تیرے شہر میں آکر دیکھا
پیاس یادوں کو اب اس موڑ پہ لے آئی ہے
ریت چمکی تو یہ سمجھے کہ سمندر دیکھا
ایسے لپٹے ہیں دروبام سے اب کہ جیسے
حادثوں نے بڑی مدت میں میرا گھر دیکھا
زندگی بھر نہ ہوا ختم قیامت کا عذاب
ہم نے ہر سانس میں برپا نیا محشر دیکھا
اتنا بے حس کہ پگھلتا ہی نہ تھا باتوں سے
آدمی تھا کہ تراشا ہوا پتھا دیکھا
دکھ ہی تھا ایسا کہ روی تیرا محسن ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا
سب سے اونچا تھا جو سر نوکِ سناں پر دیکھا
ہم سے مت پوچھ کہ کب چاند ابھرتا ہے یہاں
ہم نے سورج بھی تیرے شہر میں آکر دیکھا
پیاس یادوں کو اب اس موڑ پہ لے آئی ہے
ریت چمکی تو یہ سمجھے کہ سمندر دیکھا
ایسے لپٹے ہیں دروبام سے اب کہ جیسے
حادثوں نے بڑی مدت میں میرا گھر دیکھا
زندگی بھر نہ ہوا ختم قیامت کا عذاب
ہم نے ہر سانس میں برپا نیا محشر دیکھا
اتنا بے حس کہ پگھلتا ہی نہ تھا باتوں سے
آدمی تھا کہ تراشا ہوا پتھا دیکھا
دکھ ہی تھا ایسا کہ روی تیرا محسن ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا