دیکھئے -آتش " میں" سلگنے" کے بعد "خاک " نہیں بنتی " راکھ " بنتی ہے ...
جل بھی چُکے پروانے، ہو بھی چُکی رُسوائیدیکھئے -
سحر تک سب کا ہے انجام جل کر خاک ہو جانا
بنے محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے
بیدم شاہ وارثی
غزل آپ کی عمدہ ہے، داد قبول فرمائیے۔ہم سے یہ شمعِ شوق جلائی نہ جائے گی
اک بار جل اٹھی تو بجھائی نہ جائے گی
اے کاش روک لے کوئی صبحِ وصال کو
شامِ فراق ہم سے منائی نہ جائے گی
ہم آتشِ جفا میں سراپا سلگ چکے
اپنی ہی خاک آپ اڑائی نہ جائے گی
حرفِ غلط کی طرح ستم کو نہ سمجھیے
دل پر لگی لکیر مٹائی نہ جائے گی
یہ کیا کہ اہلِ درد کی آنکھیں بھی نم نہیں
اب داستانِ غم یہ سنائی نہ جائے گی
جس آہ کو ہو پاسِ ادب، ضبطِ گریہ کا
عرشِ بریں تلک وہ دہائی نہ جائے گی؟
سوچیں تو اس جہان میں مہرہ ہے آدمی
ایسی کہیں بساط بچھائی نہ جائے گی
ہم کو متاعِ عشق کے کھونے کا ڈر نہیں
اپنے کبھی یہ ہاتھ نہ آئی، نہ جائے گی
المٰی! حسیں ہیں یوں تو محبت کے دائرے
پھر گردشوں سے جان چھڑائی نہ جائے گی
اب تو استیاں بھی بہہ چکیںجل بھی چُکے پروانے، ہو بھی چُکی رُسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
شہزاد احمد مرحوم
بہت نوازش!غزل آپ کی عمدہ ہے، داد قبول فرمائیے۔
بہت شکریہ سر ۔۔۔۔ میری معلومات میں اضافہ ہواخاک راکھ کے معنوں میں بھی مستعمل ہے
واہ خوبصورت شعری مثال ۔۔۔۔۔ جزاک اللہدیکھئے -
سحر تک سب کا ہے انجام جل کر خاک ہو جانا
بنے محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے
بیدم شاہ وارثی
یہ آپ کا بڑا پن ہے وگرنہ میں تو ادب کی ایک ادنٰی سی طالبہ ہوں ۔ حوصلہ افزائی کے لئے انتہائی شکر گزار ہوں ۔ خوش رہیے۔میں مسحور سا ہوں اس غزل کو پڑھنے کے بعد اس غزل کا ہر ایک شعر ادبیت سے بھرپور اور اعلی معیار کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے میں نے اس غزل کے ہر ہر شعر کو بار بار پڑھا اور اپنی قسمت پر فاخر ہوں کہ اللہ تبارک و تعلی نے مجھے ایسی محفل سے جڑنے کا موقع دیا جس میں اتنے اعلیٰ معیار کے ادباء موجود ہیں