شام کے وقت گھنٹی بجی۔
میں نے دروازہ کھولا۔
سامنے ایک خاتون اپنی دس بارہ سالہ بچی کے ساتھ موجود تھی۔
مجھے دیکھ کر کہنے لگی،
”بھائی! ہم بڑی دور سے آئے ہیں۔ مانگنے والے نہیں ہیں، مسافر ہیں۔
یہ میری بیٹی ہے۔
چل چل کے تھک گئی ہے اور میرا پاؤں بھی زخمی ہو گیا ہے۔
کہتے ہیں تو جراب اتار کر دکھا سکتی ہوں۔۔“
میں نے کہا،
”ضرورت نہیں! آپ چاہتی کیا ہیں؟“
”ہم نے رات گزارنی ہے۔ اگر کوئی بسترہ وغیرہ مل جائے۔۔“
مجھے یاسر بھائی کی بات یاد آ گئی:
”منیب! دلوں کا بھید اللہ ہی جانے۔
امی سے پوچھ لیتا ہوں کوئی اضافی بستر ہے کہ نہیں۔“
یہ سوچتے ہوئے میں اندر امی کے پاس پہنچا اور انھیں ساری بات بتائی۔
انھوں نے کہا کہ ایک گدا اور چادر پڑی ہے، وہ اسے دے دو۔
دونوں چیزیں اٹھائے میں باہر آیا اور اس خاتون کو تھماتے ہوئے بولا،
”لیں، یہ گدا اور چادر ہے۔ شاید آپ کا کام بن جائے۔“
اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی جیسے اسے کچھ ملنے کی امید نہیں تھی۔
مسکراتے ہوئے کہنے لگی،
”اللہ آپ کو بہت دے۔ اس سے تو بہت اچھا گزارہ ہو جائے گا۔“
دونوں چیزیں سمیٹ کر ماں بیٹی روانہ ہو گئیں اور ان کی دعائیں سمیٹ کر میں اندر آ گیا۔
یہ تحریر لکھتے ہوئے مجھے ان کی آنکھوں کی چمک یاد آ رہی ہے
اور دل کہہ رہا ہے،
”منیب! ہو نہ ہو۔ تھے وہ مانگنے والے ہی!“
میں نے دروازہ کھولا۔
سامنے ایک خاتون اپنی دس بارہ سالہ بچی کے ساتھ موجود تھی۔
مجھے دیکھ کر کہنے لگی،
”بھائی! ہم بڑی دور سے آئے ہیں۔ مانگنے والے نہیں ہیں، مسافر ہیں۔
یہ میری بیٹی ہے۔
چل چل کے تھک گئی ہے اور میرا پاؤں بھی زخمی ہو گیا ہے۔
کہتے ہیں تو جراب اتار کر دکھا سکتی ہوں۔۔“
میں نے کہا،
”ضرورت نہیں! آپ چاہتی کیا ہیں؟“
”ہم نے رات گزارنی ہے۔ اگر کوئی بسترہ وغیرہ مل جائے۔۔“
مجھے یاسر بھائی کی بات یاد آ گئی:
میں نے سوچا:بھائی منیب اب چوتھی قسط ایسی نکالو کہ جس میں کسی کو کچھ دے بھی دو -
”منیب! دلوں کا بھید اللہ ہی جانے۔
امی سے پوچھ لیتا ہوں کوئی اضافی بستر ہے کہ نہیں۔“
یہ سوچتے ہوئے میں اندر امی کے پاس پہنچا اور انھیں ساری بات بتائی۔
انھوں نے کہا کہ ایک گدا اور چادر پڑی ہے، وہ اسے دے دو۔
دونوں چیزیں اٹھائے میں باہر آیا اور اس خاتون کو تھماتے ہوئے بولا،
”لیں، یہ گدا اور چادر ہے۔ شاید آپ کا کام بن جائے۔“
اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی جیسے اسے کچھ ملنے کی امید نہیں تھی۔
مسکراتے ہوئے کہنے لگی،
”اللہ آپ کو بہت دے۔ اس سے تو بہت اچھا گزارہ ہو جائے گا۔“
دونوں چیزیں سمیٹ کر ماں بیٹی روانہ ہو گئیں اور ان کی دعائیں سمیٹ کر میں اندر آ گیا۔
یہ تحریر لکھتے ہوئے مجھے ان کی آنکھوں کی چمک یاد آ رہی ہے
اور دل کہہ رہا ہے،
”منیب! ہو نہ ہو۔ تھے وہ مانگنے والے ہی!“
آخری تدوین: