شام کے وقت گھنٹی بجی۔
میں نے دروازہ کھولا۔
سامنے ایک فربہ سی خاتون جلوہ افروز تھیں۔
یا تکلف برطرف، موٹی سی آنٹی کھڑی تھی۔
عمر پینتیس چالیس سال کے درمیان ہو گی۔
کہنے لگی،
”ہم آپ کے ہمسائے سے آئے ہیں۔ منت مانگی تھی۔ آج پوری ہو گئی ہے۔ آپ کچھ امداد کر سکتے ہیں تو کر دیں۔ ہم مانگنے والے نہیں ہیں۔“
میں نے کہا ہمسائے سے ہی آئی ہے تو مکان نمبر پوچھ لوں۔
”آپ کس گھر سے آئی ہیں؟“
اُس نے بائیں جانب اشارہ کیا اور ہاتھ خاصا اونچا اٹھایا جیسے کسی دور گھر سے آئی ہے۔
میں نے کہا،
”آپ وہاں سے آئی ہیں لیکن مکان نمبر کیا ہے؟“
کہنے لگی،
”مکان قریب ہی ہے۔ آپ بس امداد کر دیں۔ ہم مانگنے والے نہیں ہیں۔ منت مانگی تھی۔ اسے پورا کرنا ہے۔“
میں نے سوچا چلو نیکی کا کام ہے، مدد کر دوں لیکن پھر مجھے ایک خیال آیا۔
میں نے کہا،
”منت آپ نے مانگی ہے تو پوری بھی آپ کو ہی کرنی چاہیے۔
دوسروں سے مانگ کے اپنی منت پوری کرنی ہے تو یہ کیسی منت ہوئی؟
منت انسان اپنے لیے مانتا ہے یا دوسروں کے لیے؟“
اتنی دیر میں ایک اور آنٹی اس کے پیچھے سے نکل آئی۔
شاید وہ پہلے بھی وہیں کھڑی تھی لیکن پہلی آنٹی کا پہاڑ بیچ میں حائل تھا۔
یہ آنٹی قدرے کم موٹی تھی، شاید عمر بھی کم ہو۔
نمودار ہونے کے ساتھ اس نے بھی وہی ڈائیلاگ دہرایا جو میں اوپر دو دفعہ لکھ چکا ہوں۔
تیسری دفعہ سننے پہ میں نے سوچا یہ آنٹیاں بار بار کیوں کہہ رہی ہیں کہ ہم مانگنے والے نہیں ہیں؟
مجھے میرے بڑے بھائی کی نصیحت یاد آ گئی۔
اُس نے ایک بار بچپن میں مجھے کہا تھا،
”منیب! جب کوئی کہے نا کہ وہ کوئی چیز نہیں ہے تو سمجھ لینا کہ وہ وہی چیز ہے۔
چور کہے میں چور نہیں ہوں تو سمجھ لینا چور ہے۔“
یہ نصیحت معقول تھی یا غیرمعقول، اس سے بحث نہیں۔
لیکن میرے ذہن پہ نقش ہو گئی۔
میں نے سوچا یہ آنٹیاں بنٹیاں بار بار کہہ رہی ہیں ہم مانگنے والے نہیں ہیں،
لگتا ہے مانگنے والے ہی ہیں۔
پھر بھی تصدیق کے لیے میں نے اس نئی آنٹی سے پوچھا،
”آپ کا گھر قریب ہی ہے لیکن مکان نمبر کیا ہے؟“
اُس نے منہ سے کچھ کہنے کے بجائے ہاتھ سے دائیں جانب اشارہ کیا۔
میرا شک یقین میں تبدیل ہو گیا۔
اگر پہلی آنٹی نے بائیں طرف اشارہ کیا تو دوسری نے دائیں جانب کیوں کیا؟
میں نے سوچا،
”منیب میاں، معاملہ گڑبڑ ہے۔ ایک دائیں ایک بائیں۔ انھیں دائیں بائیں کرو۔
یہ تو فقیروں کا بھیس بنائے بغیر ہی تماشائے اہلِ کرم دیکھ رہی ہیں۔“
پھر بھی مؤبانہ میں نے اپنی بات دہرائی کہ آنٹی! منت تو انسان خود پوری کرتا ہے نہ کہ دوسروں سے کرواتا ہے۔
”ہمیں بحث میں نہیں پڑنا۔ آؤ چلیں۔“
یہ کہہ کر قدرے کم موٹی آنٹی پاس کھڑے ایک رکشے والے سے مانگنے لگی جبکہ زیادہ موٹی نے مجھے ایسے گھور کے دیکھا جیسے سموچا ہی نگل جائے گی۔
میں نے دروازہ کھولا۔
سامنے ایک فربہ سی خاتون جلوہ افروز تھیں۔
یا تکلف برطرف، موٹی سی آنٹی کھڑی تھی۔
عمر پینتیس چالیس سال کے درمیان ہو گی۔
کہنے لگی،
”ہم آپ کے ہمسائے سے آئے ہیں۔ منت مانگی تھی۔ آج پوری ہو گئی ہے۔ آپ کچھ امداد کر سکتے ہیں تو کر دیں۔ ہم مانگنے والے نہیں ہیں۔“
میں نے کہا ہمسائے سے ہی آئی ہے تو مکان نمبر پوچھ لوں۔
”آپ کس گھر سے آئی ہیں؟“
اُس نے بائیں جانب اشارہ کیا اور ہاتھ خاصا اونچا اٹھایا جیسے کسی دور گھر سے آئی ہے۔
میں نے کہا،
”آپ وہاں سے آئی ہیں لیکن مکان نمبر کیا ہے؟“
کہنے لگی،
”مکان قریب ہی ہے۔ آپ بس امداد کر دیں۔ ہم مانگنے والے نہیں ہیں۔ منت مانگی تھی۔ اسے پورا کرنا ہے۔“
میں نے سوچا چلو نیکی کا کام ہے، مدد کر دوں لیکن پھر مجھے ایک خیال آیا۔
میں نے کہا،
”منت آپ نے مانگی ہے تو پوری بھی آپ کو ہی کرنی چاہیے۔
دوسروں سے مانگ کے اپنی منت پوری کرنی ہے تو یہ کیسی منت ہوئی؟
منت انسان اپنے لیے مانتا ہے یا دوسروں کے لیے؟“
اتنی دیر میں ایک اور آنٹی اس کے پیچھے سے نکل آئی۔
شاید وہ پہلے بھی وہیں کھڑی تھی لیکن پہلی آنٹی کا پہاڑ بیچ میں حائل تھا۔
یہ آنٹی قدرے کم موٹی تھی، شاید عمر بھی کم ہو۔
نمودار ہونے کے ساتھ اس نے بھی وہی ڈائیلاگ دہرایا جو میں اوپر دو دفعہ لکھ چکا ہوں۔
تیسری دفعہ سننے پہ میں نے سوچا یہ آنٹیاں بار بار کیوں کہہ رہی ہیں کہ ہم مانگنے والے نہیں ہیں؟
مجھے میرے بڑے بھائی کی نصیحت یاد آ گئی۔
اُس نے ایک بار بچپن میں مجھے کہا تھا،
”منیب! جب کوئی کہے نا کہ وہ کوئی چیز نہیں ہے تو سمجھ لینا کہ وہ وہی چیز ہے۔
چور کہے میں چور نہیں ہوں تو سمجھ لینا چور ہے۔“
یہ نصیحت معقول تھی یا غیرمعقول، اس سے بحث نہیں۔
لیکن میرے ذہن پہ نقش ہو گئی۔
میں نے سوچا یہ آنٹیاں بنٹیاں بار بار کہہ رہی ہیں ہم مانگنے والے نہیں ہیں،
لگتا ہے مانگنے والے ہی ہیں۔
پھر بھی تصدیق کے لیے میں نے اس نئی آنٹی سے پوچھا،
”آپ کا گھر قریب ہی ہے لیکن مکان نمبر کیا ہے؟“
اُس نے منہ سے کچھ کہنے کے بجائے ہاتھ سے دائیں جانب اشارہ کیا۔
میرا شک یقین میں تبدیل ہو گیا۔
اگر پہلی آنٹی نے بائیں طرف اشارہ کیا تو دوسری نے دائیں جانب کیوں کیا؟
میں نے سوچا،
”منیب میاں، معاملہ گڑبڑ ہے۔ ایک دائیں ایک بائیں۔ انھیں دائیں بائیں کرو۔
یہ تو فقیروں کا بھیس بنائے بغیر ہی تماشائے اہلِ کرم دیکھ رہی ہیں۔“
پھر بھی مؤبانہ میں نے اپنی بات دہرائی کہ آنٹی! منت تو انسان خود پوری کرتا ہے نہ کہ دوسروں سے کرواتا ہے۔
”ہمیں بحث میں نہیں پڑنا۔ آؤ چلیں۔“
یہ کہہ کر قدرے کم موٹی آنٹی پاس کھڑے ایک رکشے والے سے مانگنے لگی جبکہ زیادہ موٹی نے مجھے ایسے گھور کے دیکھا جیسے سموچا ہی نگل جائے گی۔
آخری تدوین: