برصغیر میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم پیشہ وارانہ گداگری اور اس کے نت نئے طریقے لوگوں کے "دردِ دل" ہی کے وجہ سے پھیلی ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا جو کچھ نہ دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم دلوں کے حال نہیں جانتے اور مستحق اور غیر مستحق کا فیصلہ کرنا بہت دشوار بھی ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے عقلِ شریف بھی اسی فیصلے اور سوچنے سمجھنے کے لیے عطا کی ہے۔ قرائن سے صاف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ کون پیشہ ور گداگر ہے۔
میرے خیال میں تو صرف مستحقین کو دینا چاہیئے۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اور صدا لگا دینا پیشہ ور گداگر کے لیے دنیا کا سب سے آسان کام ہے اور کسی سفید پوش مستحق کے لیے یہی کام دنیا کا سب سے مشکل کام۔
پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ پیشہ وارانہ گداگری ایک ناسور، ایک برائی ہے یا نہیں اور اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک برائی ہے تو اس صورت میں ان کو بھیک دینا ایک طرح سے برائی میں مدد کرنے کے مترادف ہے۔
اسلام میں صدقات اور خیرات کی بہت فضیلت ہے اور ہمارے آئمہ اور بزرگوں کی ایسی لاتعداد روایات بھی منقول ہیں کہ کسی سائل کو کبھی خالی ہاتھ نہیں بیجتے تھے چاہے اپنے پاس کچھ رہے نہ رہے، سب درست اور ہمارا ان سب باتوں پر صدق دل سے یقین اور ایمان بھی ہے اور ایسے واقعات ایمان افروز بھی ہوتے ہیں اور صدقات و خیرات کرنے کے لیے انسان کو متحرک بھی کرتے ہیں اور خیرات و صدقات دینے بھی چاہیئں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا ان زمانوں میں پیشہ ور گداگر بھی ہوتے تھے جیسے اب ہیں، ہر سڑک ہر چوراہے پر، ہر میلے ہر ٹھیلے پر، ہر ہسپتال کے باہر، ہر میدان کے اندر، واللہ میں اپنے گھر اور دفتر سے باہر کسی ایسی جگہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا جہاں یہ پیشہ ور گداگر موجود نہ ہوں۔ بلکہ اب تو ان کی پہنچ گھروں اور دفتروں کے اندر بھی ہے!
اِس معاملے میں میں آپ کا ہم خیال ہوں، وارث بھائی!
زمانہ بدل چکا۔
وہ فقیر رخصت ہو چکے (تقریباً)۔
عباس تابش صاحب کا ایک شعر ذہن میں آ رہا ہے،
اِس زمانے میں تو اِتنا بھی غنیمت ہے میاں
کوئی باہر سے بھی درویش اگر لگتا ہے