صابرہ امین
لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی ، یاسر شاہ ، محمد احسن سمیع راحلؔ
السلام علیکم،
آپ سب کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے ۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
خیر و شر ہم نے زمانے میں برابر دیکھے
ہم نہ بھولیں گے کبھی ہم نے جو منظر دیکھے
جن کی باتوں میں مسیحائی کے دفتر دیکھے
ان کے سینے میں دھڑکتے ہوئے پتھر دیکھے
منصفی ہوتے ہوئے خواب میں دیکھی ہم نے
کیسے دل نے بڑی حسرت سے یہ منظر دیکھے
وہ جو رکھتے تھے زمانے کو کبھی ٹھوکر پر
ہم نے وہ بے بس و لاچار سکندر دیکھے
جاہ و حشمت کا جنہیں زعم تھا ایک دن سب نے
ہاتھ پھیلائے زما نے میں وہ در در دیکھے
جن کو لگتا ہے صبا چلتی ہے دن رات یہاں
وہ کبھی آ کے مرے شہر میں صر صر دیکھے
ہم کو قسمت کی خرابی کا یقیں ہے اتنا
تارے دیکھے نہ کبھی ان میں مقدر دیکھے
اپنی سوچوں کی اڑانوں پہ بہت ناز تھا، پھر
ہم نے حیرت سے بہت اپنے کٹے پر دیکھے
آنکھیں خیرہ ہیں کسی کی تجھے دیکھا جب سے
دیکھ کے تجھ کو کسی اور کو کیوں کر دیکھے
صرف قسمت ہی نہیں ہم سے گریزاں نکلی
خواب بھی ہم نے جو دیکھے تو ستمگر دیکھے
السلام علیکم،
آپ سب کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے ۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
خیر و شر ہم نے زمانے میں برابر دیکھے
ہم نہ بھولیں گے کبھی ہم نے جو منظر دیکھے
جن کی باتوں میں مسیحائی کے دفتر دیکھے
ان کے سینے میں دھڑکتے ہوئے پتھر دیکھے
منصفی ہوتے ہوئے خواب میں دیکھی ہم نے
کیسے دل نے بڑی حسرت سے یہ منظر دیکھے
وہ جو رکھتے تھے زمانے کو کبھی ٹھوکر پر
ہم نے وہ بے بس و لاچار سکندر دیکھے
جاہ و حشمت کا جنہیں زعم تھا ایک دن سب نے
ہاتھ پھیلائے زما نے میں وہ در در دیکھے
جن کو لگتا ہے صبا چلتی ہے دن رات یہاں
وہ کبھی آ کے مرے شہر میں صر صر دیکھے
ہم کو قسمت کی خرابی کا یقیں ہے اتنا
تارے دیکھے نہ کبھی ان میں مقدر دیکھے
اپنی سوچوں کی اڑانوں پہ بہت ناز تھا، پھر
ہم نے حیرت سے بہت اپنے کٹے پر دیکھے
آنکھیں خیرہ ہیں کسی کی تجھے دیکھا جب سے
دیکھ کے تجھ کو کسی اور کو کیوں کر دیکھے
صرف قسمت ہی نہیں ہم سے گریزاں نکلی
خواب بھی ہم نے جو دیکھے تو ستمگر دیکھے
آخری تدوین: