محمد وارث
لائبریرین
میر حسن دہلوی کی ایک خوبصورت غزل پیشِ خدمت ہے، میر حسن اپنی مثنوی "سحر البیان" اور سودا کے ساتھ چشمکوں اور ہجویات کیلیئے مشہور ہیں لیکن زیادہ وجۂ شہرت شاید یہ ہے کہ بے مثال شاعر میر انیس کے دادا ہیں۔ میر حسن کے والد، میر غلام حسین ضاحک بھی شاعر تھے اور اسی لیئے میر انیس نے کہا تھا کہ
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
یہ غزل میں نے نقوش کے "غزل نمبر" سے لی ہے، اسے میڈم نورجہاں نے گایا بھی ہے جس میں کچھ اشعار کے الفاظ فرق ہیں۔
ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں
آگ کی طرح جدھر جاویں، دہکتے جاویں
اے خوشامست کہ تابوت کے آگے جس کے
آب پاشی کے بدل، مے کو چھڑکتے جاویں
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جاویں
غیر کو راہ ہو گھر میں ترے، سبحان اللہ
اور ہم دور سے در کو ترے تکتے جاویں
وقت اب وہ ہے کہ ایک ایک حسن ہو کے بتنگ
صبر و تاب و خرد و ہوش کھسکتے جاویں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
یہ غزل میں نے نقوش کے "غزل نمبر" سے لی ہے، اسے میڈم نورجہاں نے گایا بھی ہے جس میں کچھ اشعار کے الفاظ فرق ہیں۔
ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں
آگ کی طرح جدھر جاویں، دہکتے جاویں
اے خوشامست کہ تابوت کے آگے جس کے
آب پاشی کے بدل، مے کو چھڑکتے جاویں
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جاویں
غیر کو راہ ہو گھر میں ترے، سبحان اللہ
اور ہم دور سے در کو ترے تکتے جاویں
وقت اب وہ ہے کہ ایک ایک حسن ہو کے بتنگ
صبر و تاب و خرد و ہوش کھسکتے جاویں