ڈاکٹر عباس
محفلین
ایک ہی رات میں قسمت کا ستارہ ڈوبا
ایک ہی رات میں سب خواب پریشان ہوئے
وہ جو فرعون تھے کل
آج وہ سسکیاں بھرتے ہوئے ہلکان ہوئے
تاج اور تخت کو جو اپنی وراثت سمجھے
گھر کی لونڈی کی طرح جیسے حکومت سمجھے
ووٹ دے کر جو انہیں لاتے تھے ایوانوں میں
ان کی تکریم نہ کی طوقِ ملامت سمجھے
خاک زادوں کو یہ شاہزادے بھی ذلت سمجھے
تخت اور اپنی حکومت کو بچانے کے لیئے
عصر حاضر کے یزیدوں سے بھی پیمان کیئے
سازشی ذہنوں سے کتنی ہی اہم جانوں کے نقصان کیئے
نوجواں کتنے ہی بم حملوں میں بے جان کیئے
عاقبت کی نہ کوئی فکر نہ فردا کا خیال
رات دن بُنتے رہے ذہنوں میں تخریب کے جال
مصلحت کے لیئے قرآں کو بنا لیتے تھے ڈھال
بھول بیٹھے تھے سزا کو تھی نہیں فکرِ زوال
عدل کو جیسے طوائف کے برابر سمجھا
اور عدالت کو کیا اپنی ہی خواہش کا اسیر
ایسے بد مستوں پہ طاقت کا نشہ طاری تھا
اور یہاں بھوک کی چکی میں پسے لوگوں پر
زیست اک قرض تھی
ہر سانس جوں بیزاری تھا
شہر در شہر قطاروں میں کھڑے لوگوں نے
دو کلو آٹے کی خاطر وہ اٹھائی ذلت
دیکھ کر جس کو ہواؤں کا بھی دن گھُٹنے لگا
اور یہاں اونچے محلات میں ان حاکموں کے کتوں کو
گھی میں گوندھی ہوئی روٹی کا ثمر ملتا تھا
ووٹ دے کے جو انہیں لائے تھے ایوانوں میں
اُن کے شہروں میں نہ بجلی نہ میسر پانی
اور یہاں رقص کی محفل تھی سجی حجروں میں
بے حیائی تھی لکھی جیسے جلی حرفوں میں
ایک نحوست تھی اُگی ایسے کریہہ چہروں میں
اور اک رات میں پھر جیسے یہ سب ڈوب گیا
رنگ لائی ہے غریبوں کی دہائی دیکھو
تاج اور تخت کی لٹتی ہے کمائی دیکھو
اک عجب طرح سے بدلا ہے نظامِ ہستی
جو بلندی ہی بلندی تھے ہوئے ہیں پستی
اور اب آئے ہیں جو وہ بھی یہ باور کر لیں
ووٹ میں فاقہ زدہ شخص کے یہ طاقت ہے
وہ اگر چاہے تو حاکم کو رعایا کر دے
ظلم کے ساتھ میں ظالم کا صفایا کر دے
ووٹ دے کر جو تمیں لائے ہیں ایوانوں میں
یہ ہی ہیں منبعء طاقت انہیں تسلیم کرؤ
یہ ہی ہیں رازِ حکومت انہیں تسلیم کرؤ
یہ ہی ہیں معدنِ جرآت انہیں تسلیم کرؤ
آخری یہ ہیں عدالت انہیں تسلیم کرؤ
یاد رکھنا کہ انہیں اب ہے شعورِ ہستی
سرکشوں کا وہ جو ہے سرغنہ باقی ہے ہنوز
اسکو بھی اپنے مظالم کا چکانا ہے حساب
اسکو بھی دینا ہے ان بھوک کے مارے ہوئے بچوں کو جواب
اسکا بھی آئے گا اس دنیا میں ہی روزِ حساب
یاد رکھو کہ کبھی اتنی سی مہلت بھی نہیں ملتی ہے
اور پھر سانس کا ہر تار بکھر جاتا ہے
یاد تو ہو گا کبھی ہم نے قلم سے اپنے
یہ بھی لکھا تھا کہ سر جھکنے کو تیار نہیں
اور اک رات میں جو قصہء پارینہ ہوئے
وہ بھی یہ یاد کریں
‘‘ہم نہ کہتے تھے کہ دستار میں سر ہوتا ہے‘‘
[
ایک ہی رات میں سب خواب پریشان ہوئے
وہ جو فرعون تھے کل
آج وہ سسکیاں بھرتے ہوئے ہلکان ہوئے
تاج اور تخت کو جو اپنی وراثت سمجھے
گھر کی لونڈی کی طرح جیسے حکومت سمجھے
ووٹ دے کر جو انہیں لاتے تھے ایوانوں میں
ان کی تکریم نہ کی طوقِ ملامت سمجھے
خاک زادوں کو یہ شاہزادے بھی ذلت سمجھے
تخت اور اپنی حکومت کو بچانے کے لیئے
عصر حاضر کے یزیدوں سے بھی پیمان کیئے
سازشی ذہنوں سے کتنی ہی اہم جانوں کے نقصان کیئے
نوجواں کتنے ہی بم حملوں میں بے جان کیئے
عاقبت کی نہ کوئی فکر نہ فردا کا خیال
رات دن بُنتے رہے ذہنوں میں تخریب کے جال
مصلحت کے لیئے قرآں کو بنا لیتے تھے ڈھال
بھول بیٹھے تھے سزا کو تھی نہیں فکرِ زوال
عدل کو جیسے طوائف کے برابر سمجھا
اور عدالت کو کیا اپنی ہی خواہش کا اسیر
ایسے بد مستوں پہ طاقت کا نشہ طاری تھا
اور یہاں بھوک کی چکی میں پسے لوگوں پر
زیست اک قرض تھی
ہر سانس جوں بیزاری تھا
شہر در شہر قطاروں میں کھڑے لوگوں نے
دو کلو آٹے کی خاطر وہ اٹھائی ذلت
دیکھ کر جس کو ہواؤں کا بھی دن گھُٹنے لگا
اور یہاں اونچے محلات میں ان حاکموں کے کتوں کو
گھی میں گوندھی ہوئی روٹی کا ثمر ملتا تھا
ووٹ دے کے جو انہیں لائے تھے ایوانوں میں
اُن کے شہروں میں نہ بجلی نہ میسر پانی
اور یہاں رقص کی محفل تھی سجی حجروں میں
بے حیائی تھی لکھی جیسے جلی حرفوں میں
ایک نحوست تھی اُگی ایسے کریہہ چہروں میں
اور اک رات میں پھر جیسے یہ سب ڈوب گیا
رنگ لائی ہے غریبوں کی دہائی دیکھو
تاج اور تخت کی لٹتی ہے کمائی دیکھو
اک عجب طرح سے بدلا ہے نظامِ ہستی
جو بلندی ہی بلندی تھے ہوئے ہیں پستی
اور اب آئے ہیں جو وہ بھی یہ باور کر لیں
ووٹ میں فاقہ زدہ شخص کے یہ طاقت ہے
وہ اگر چاہے تو حاکم کو رعایا کر دے
ظلم کے ساتھ میں ظالم کا صفایا کر دے
ووٹ دے کر جو تمیں لائے ہیں ایوانوں میں
یہ ہی ہیں منبعء طاقت انہیں تسلیم کرؤ
یہ ہی ہیں رازِ حکومت انہیں تسلیم کرؤ
یہ ہی ہیں معدنِ جرآت انہیں تسلیم کرؤ
آخری یہ ہیں عدالت انہیں تسلیم کرؤ
یاد رکھنا کہ انہیں اب ہے شعورِ ہستی
سرکشوں کا وہ جو ہے سرغنہ باقی ہے ہنوز
اسکو بھی اپنے مظالم کا چکانا ہے حساب
اسکو بھی دینا ہے ان بھوک کے مارے ہوئے بچوں کو جواب
اسکا بھی آئے گا اس دنیا میں ہی روزِ حساب
یاد رکھو کہ کبھی اتنی سی مہلت بھی نہیں ملتی ہے
اور پھر سانس کا ہر تار بکھر جاتا ہے
یاد تو ہو گا کبھی ہم نے قلم سے اپنے
یہ بھی لکھا تھا کہ سر جھکنے کو تیار نہیں
اور اک رات میں جو قصہء پارینہ ہوئے
وہ بھی یہ یاد کریں
‘‘ہم نہ کہتے تھے کہ دستار میں سر ہوتا ہے‘‘
[