ہم نےکاٹی ہیں ہجر کی راتیں

اساتذہء کِرام
محترم جناب الف عین صاحب
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
دیگر اسا تذہ اور احباب محفل :
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
ایک چھوٹی بحر کی سادہ سی غزل اصلاح کی درخواست کے ساتھ پیش ہے
بحر ہے:
فاعلن فاعلن فعولن فع

ہم نےکاٹی ہیں ہجر کی راتیں
ہم نےجلتا گلاب دیکھا ہے

ہم نےدیکھی ہیں عصمتیں لٹتی
ہم نےبکتا شباب دیکھا ہے

چشمِ قاتل کی یورشیں دیکھیں
اہل دل پرعتاب دیکھا ہے

ہم نے، کوشش کو رائیگاں کرتا
اک مسلسل عذاب، دیکھا ہے

ہم نے ناپائیدار رشتوں سے
گھر کو ہوتے خراب دیکھا ہے

لب پہ عالِم کے، بےبسی دیکھی
جاہلوں کا خطاب دیکھا ہے

دوستوں سے عداوتیں پائیں
دوستی کو سراب دیکھا ہے

چاند اک زرد رخ، ہے پہلو میں
ہم نے کاشف، یہ خواب دیکھا ہے

سید کاشف
 

loneliness4ever

محفلین
السلام علیکم

سید صاحب بندہ لاعلم ہے اور گفتگو کے آداب سے ناواقف ہے ۔۔۔ رب العزت کا کرم کہ
آپ جیسے احباب کی محافل تک رسائی نصیب ہوئی اور ایسی ہی ایک محفل میں ایک عزیز شاعر
نے اس حقیر کی کاوش پر یہ نقطہ اٹھایا کہ بندے نے اپنی کوشش میں شامل کئی اشعار کو
ایک ہی لفظ سے شروع کیا ہے ۔۔۔ اور یہ کچھ مناسب نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔۔ اور
خاکسار نے یہ بات ذہن نشین کر لی ۔۔۔ آج آپ کی اس تخلیق کو دیکھ کر وہ بات پھر
سے تازہ ہو گئی اور یہاں ذکر اس لئے کر دیا کہ کہیں مجھ سے کوئی غلطی یاد رکھنے میں
نہ ہو گئی ہو ۔۔۔۔۔ عزیزی آپ کی تخلیق میں آٹھ اشعار ہیں جن میں سے چار کی ابتدا
ہم نے سے ہو رہی ہے اور اگر یہ فقیر ماضی میں لیا ان محترم شاعر کا سبق صحیح طور سے
یاد اور سمجھ پایا ہے تو اس طرح ایک ہی لفظ سے ایک ہی غزل میں اتنی بار اشعار کی ابتدا
کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا ۔۔۔ اب میں اور آپ دونوں انتظار کرتے ہیں اس محفل کے
استادوں کی آمد کا ، دیکھتے ہیں وہ اس بابت کیا رائے رکھتے ہیں

اللہ آباد و کامران رکھے آپ کو ۔۔۔۔ آمین
 
آخری تدوین:
درمیانے درجے کی ایک مناسب سی غزل ہے، کوئی بہت زیاددہ قابلِ گرفت بات نہیں ہے، اور کوئی ایسی نمایاں بات بھی نہیں جو قاری کو چونکا دے۔
ایک آدھ مقام پر توجہ مبذول کراتا ہوں:
لب پہ عالِم کے، بےبسی دیکھی
جاہلوں کا خطاب دیکھا ہے
یہاں وحدت و جمع کا لحاظ رکھا جانا چاہئے تھا۔ "بے بسی دیکھی" بھی کچھ جچ نہیں رہا۔

چاند اک زرد رخ، ہے پہلو میں
ہم نے کاشف، یہ خواب دیکھا ہے
تعقیدِ لفظی سے جتنا بچ سکتے ہیں بچئے۔ تعقید فن یا ٹیکنیک کا درجہ بھی رکھتی ہے اور کبھی عیب بھی بن جاتی ہے، اس میں توازن بہت اہم ہے۔
 
ہم نےدیکھی ہیں عصمتیں لٹتی
ہم نےبکتا شباب دیکھا ہے
عزیزی آپ کی تخلیق میں آٹھ اشعار ہیں جن میں سے چار کی ابتدا
ہم نے سے ہو رہی ہے اور اگر یہ فقیر ماضی میں لیا ان محترم شاعر کا سبق صحیح طور سے
یاد اور سمجھ پایا ہے تو اس طرح ایک ہی لفظ سے ایک ہی غزل میں اتنی بار اشعار کی ابتدا
کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا
تعقیدِ لفظی کی طرح تکرار بھی ٹیکنیک ہے، اگر شاعر کچھ الفاظ مکرر لاتا ہے اور اپنے یا قاری کے جمالیاتی ذوق کا ساتھ نہیں دے پاتا تو یہ کمزوری ہے۔ تکرار سے کلام میں قوت پیدا ہو رہی ہے تو یہ حسن ہے۔ بات وہی ہے، توازن والی۔ بعض تکراریں شعر کا لازمی حصہ بن جاتی ہیں؛ اتنی کہ ان کے بغیر شعر شعر نہیں کہلاتا جیسے قافیہ ہے ردیف ہے، ان کو تو ہر شعر میں آنا ہے۔
 
صنعتِ تکرار کی بہت عمدہ مثالیں:

سراج اورنگ آبادی:
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا، کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم، جسے دل کہیں سو ہری رہی

اقبال:
دمِ زندگی، رمِ زندگی، غمِ زندگی، زمِ زندگی
غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا، کہ یہی ہے شانِ قلندری

۔۔۔
 
کوئی خوف تھا نہ امنگ تھی، وہ جو اپنے آپ سے جنگ تھی
دلِ مضطرب کی ترنگ تھی، دلِ مضطرب سے لگی رہی

یہ چراغِ جاں کا جو دُود ہے، سرِ سَر سپہرِ کبود ہے
یہ جمالِ بود و بنود ہے، یہاں روشنی سی ڈھکی رہی
 
یہاں راولپنڈی میں ایک شاعر ہو گزرے ہیں: آغا ضیا۔ یہ عبدالحمید عدم کے ہم عصر بلکہ "ہم چشم" تھے کہ دونوں میں چشمک رہتی تھی۔ آغا ضیا کی مثنوی میں (مصرعوں کے شروع میں) تکرار کی بہت خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔
پروفیسر امجد اقبال نے آغا ضیا پر تحقیقی کام کیا ہے اور اپنے مقالے کا نام رکھا ہے "گلِ صحرا ۔ آغا ضیا" کتاب کہیں رکھی ہے، مل گئی تو شیئر کروں گا۔
 
جزاک اللہ استاد محترم ۔۔۔
بہترین مثالیں دے کر نہایت آسانی سے بات سمجھا دی ہے آپ نے
آپ کا تہہ دل سے ممنون ہوں ۔
شکریہ ۔۔ :act-up:
 

الف عین

لائبریرین
آسی بھائی نے بہت مثالیں دے کر الفاظ کی تکرار کے حسن و قباحت بلکہ یہاں محض حسن کی نشان دہی کی ہے۔ مجھے بھی اس غزل میں ’ہم نے‘ کی تکرار میں قباحت محسوس نہیں ہوئی۔
البتہ اکثر الفاظ میں معنوی بے ربطی کی کیفیت ہے۔ جس طرح لٹتی عصمتیں اور بکتا شباب میں معنی خیز ربط ہے، ویسا ہجر کی رتیں اور جلتا گلاب میں، یا کوشش اور عذاب میں کوئی ربط نہیں۔ نہ ہم آہنگی نہ تضاد!! ایسی ہی صورت حال اکثر اشعار میں ہے جو اشعار کو معمولی بنا دیتے ہیں۔
 
آسی بھائی نے بہت مثالیں دے کر الفاظ کی تکرار کے حسن و قباحت بلکہ یہاں محض حسن کی نشان دہی کی ہے۔۔۔۔۔

بہت شکریہ محترم اعجاز عبید صاحب۔ قباحتوں کی نشان دہی نہ ہی ہو تو اچھا ہوتا ہے۔ ہاں، کبھی کبھی ایسا ناخوشگوار فریضہ دینا پڑ جائے تو اور بات ہے۔
 
اساتذہء کِرام
محترم جناب الف عین صاحب
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
۔السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
کچھ تبدیلیوں کے بعد غزل پیش ہے۔ ایک شعر حذف کر دیا ہے-
فاعلن فاعلن فعولن فع

ہم نےجھیلی ہے ہجر کی آندھی
ہم نے بکھرا گلاب دیکھا ہے

ہم نےدیکھی ہیں عصمتیں لٹتی
ہم نے بکتا شباب دیکھا ہے

چشمِ قاتل کی یورشیں دیکھیں
اہل دل پرعتاب دیکھا ہے

ہم نے، کوشش کی رائیگانی میں
خود پہ اترا عذاب، دیکھا ہے

ہم نے خود غرض، جھوٹے رشتوں سے
گھر کو ہوتے خراب دیکھا ہے

اک ملاقات کی لگی سے پھر
دل میں صد اضطراب دیکھا ہے

دوستوں سے عداوتیں پائیں
دوستی کو سراب دیکھا ہے

چاند اک زرد رخ، ہے پہلو میں
رات کاشف، یہ خواب دیکھا ہے

سید کاشف


شاید اب شکل کچھ بہتر ہوئی ہو۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
غالباً اس بحر میں فعولن کے بجائے مفاعیلن لکھا جاتا ہے۔
غرض کا وزن فعو ۔ غَرَض۔ باندھا جاتا ہے ۔ سو یہ مصرع بے وزن ہوگیا ۔
ہم نےدیکھی ہیں عصمتیں لٹتی ۔ اس کی بہتر ترتیب ہوسکتی ہے مثلاً ۔ عصمتیں لٹتی ہم نےدیکھی ہیں ۔
ملاقات کی لگی ۔ یہ کچھ اچھی ترکیب نہیں ۔اور صد اضطراب بھی ۔
دوستی کو سراب سے بہتر ہے کے دوستی میں سراب باندھا جائے۔
 
Top