ممنون ہوں کہ آپ نے ادھر نگاہ کی۔۔۔آخری شعر کے مصرع ثانی کے پہلے حصے میں وزن مجروح ہوا ہے، مکرر دیکھ لیجیے۔ یہ بحر ہزج ہے۔ ارکان ہیں: فاعلن مفاعیل (مربع اشتر)
مجوزہ طور پر: مدتوں پرانی ہے، سالہا پرانی ہے، ہاں! بہت پرانی ہے، میری جاں! پرانی ہے وغیرہ ٹھیک مصرعے ہو سکتے ہیں۔
جی بہت شکریہ!غزل اچھی ہے، خیالات پختہ ہیں، اور مصرعوں میں ربط قائم ہے
بہت شکریہ سر،اچھی غزل ہے۔ بس آخری شعر میں ترمیم کر دو۔ اور
یوں نہیں ہوئے برباد
ہم نے دل کی مانی ہے
پہلے مصرع میں اگر ’ہی‘ کا اضافہ کر سکو تو زیادہ معنی خیز ہو جائے۔ جیسے
یوں ہی ہم نہیں برباد