حبیب جالب ہم نے سنا تھا صحن چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں ۔ حبیب جالب

F@rzana

محفلین
ہم نے سنا تھا صحن چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں
ہم بھی گئے تھے جی بہلانے اشک بہا کر آئے ہیں

پھول کھلے تو دل مرجھائے شمع جلے تو جان جلے
ایک تمہارا غم اپنا کر کتنے غم اپنائے ہیں

ایک سلگتی یاد چمکتا درد فروزاں تنہائی
پوچھو نہ اس کے شہر سے ہم کیا کیا سوغاتیں لائے ہیں

سوئے ہوئے جو درد تھے دل میں‌آنسو بن کر بہہ نکلے
رات ستاروں کی چھاؤں میں یاد وہ کیا کیا آئے ہیں

آج بھی سورج ڈوب گیا بے نور افق کے ساگر میں
آج بھی پھول چمن میں تجھ کو بن دیکھے مرجھائے ہیں

ایک قیامت کا سناٹا ایک بلا کی تاریکی
ان گلیوں سے دور نہ ہنستا چاند نہ روشن سائے ہیں

پیار کی بولی بول نہ جالب اس بستی کے لوگوں سے
ہم نے سکھ کی کلیاں کھو کر دکھ کے کانٹے پائے ہیں
حبیب جالب
 
Top