واہ کیا خوب غزل ہے۔ بہت شکریہ!
ذیل میں رئیس اختر کی اس غزل کے اشعار بھی درج کیے دے رہا ہوں:
ہم کو دشمن کی نگاہوں سے نہ دیکھا کیجیے
پیار ہی پیار ہیں ہم، ہم پہ بھروسا کیجیے
چند یادوں کے سوا ہاتھ نہ کچھ آئے گا
اس طرح عمرِ گریزاں کا نہ پیچھا کیجیے
روشنی اوروں کے آنگن میں گوارا نہ سہی
کم سے کم اپنے ہی گھر میں تو اجالا کیجیے
کیا خبر کب وہ چلے آئیں گے ملنے کے لیے
روز پلکوں پہ نئی شمعیں جلایا کیجیے
(رئیس اختر)