عاطف بٹ
محفلین
ہم کو وحشت نے کردیا بےباک
ہے گریبان تا بہ دامن چاک
جو ہمارے غبار سے بھاگے
اس سے امید ہم رکھیں کیا خاک
باغ میں گل ہیں اور بھی، پر مست
تاک ہی پر لگا رہے ہیں تاک
نذر کر اس کے عقل و ہوش و حواس
سارے جھگڑوں سے ہوگئے بےباک
صفِ عشاق صاف کرتا ہے
کس کی سنتا ہے قاتلِ سفاک
مہرباں ہو چلا ہے وہ مہ رو
رنگ لائے نہ گردشِ افلاک
ہے خطا بخش وہ، ہمیں جس نے
آبِ ناپاک سے کیا ہے پاک
جو ہوا سامنے وہ قتل ہوا
میرے قاتل کی ہر طرف ہے دھاک
توسنِ عمر سے رہو ہشیار
دے نہ پٹکے، یہ رخش ہے چالاک
اب بھلا ہم سے آشنائی کیا
ان کا اعداء سے بڑھ رہا ہے تپاک
یہ بھی مجروح کوئی صورت ہے
مُو پریشان اور منہ پہ خاک