ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ۔۔۔۔۔ایک سوا ل۔۔۔۔۔ ایک تاثر

زین

لائبریرین
ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ۔۔۔۔۔ایک سوا ل۔۔۔۔۔ ایک تاثر!
زیارت ہرنائی اور پشین خانوزئی کے علاقوں میں 29اکتوبر کو آنے والے تباہ کن زلزلے سے جڑے جہاں تباہی بربادی دکھ اور حسرت ویاس کے واقعات ہیں وہاں اس نے ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں در آئی سفاکی اور غیر انسانی پہلوٶں کوبھی افشا کیا ہے۔ یہ تباہی کچھ اور کان بنگلہ سے لیکرکواس تک دس کلو میٹر کے رقبے پر جنوباً شمالاً آئی ہے اور اس کے آس پاس گو کہ زلزلے سے زبردست جھٹکے محسوس ہوئے لیکن وہاں وہ تباہی دیکھنے میں نہ آئی جو وام، ورچوم، کان بنگلہ ، احمدون گوگئی اور دیگر علاقوں میں نظر آئی ۔اس زلزلے سے زندرہ اور زیارت کے قصبے اور شہر بالکل محفوظ رہے ۔ ان علاقوں میں مکانات میں دراڑیں تو ضرور پڑیں لیکن وہ نقصان سے محفوظ رہے۔ وزےراعلیٰ نے جب دوسری مرتبہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تو زندرہ کے لوگوں نے امداد کے لیے احتجاج کیا اور سڑک بند کردی۔ وہ بھی شاید تھوڑے بہت امداد کے مستحق تھے لیکن اگر ان کے نقصان کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے تو ان علاقوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے جہاں گھروں کے گھر، خاندانوں کے خاندان تباہ ہوئے، جو بچ گئے تھے ان کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ کچھ خاندانوں کے لیے رونے والے بھی نہیں رہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ آس پاس کے لوگ مل کر اپنے ان بے خانماں بھائےوں کی مدد کرتے جو بالکل برباد ہوگئے تھے لیکن وہ اپنی امداد کے لیے تگ و دو میں مصروف تھے ۔ حکومت اور غیر حکومتی ادارے علاقے میں متاثرین کو خوراک اور دیگر ریلیف کا سامان دینے میںمصروف تھے لیکن امداد لینے والوں میں ایسے غیر مستحق لوگ بھی موجود تھے جن کو امداد کی ضرورت نہ تھی۔ ایک اطلاع کے مطابق کچلاک سرانان اور دیگر علاقوں سے لوگ صرف امداد کا مال ہڑپ کرے کے لیے وہاں پہنچے تھے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی لا تعلقی اور احساس بیگانگی کے مظاہر بھی واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر امدادی سامان سے بھرے ہوئے ٹرکوں کو لوٹنے کی اطلاعات بھی آئیں جو ہمارے اندر پیدا ہونے والے اخلاقی انحطاط اور کسی حد تک حےوانگی کا مظہر ہیں’ ہمارے احساسات اس حد تک ابتزال کا شکار ہیں کہ ہم نہ صرف یہ کہ دکھی اور آفت کا شکار لوگوں کی مدد کو نہیں پہنچتے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دوسرے ذرائع سے انہیں ملنے والی مدد پر ہاتھ صاف کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس سے قبل 2005 میں شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں زلزلہ آیا اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی بھی ہوئی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اس صورتحال سے کچھ نہیں سیکھا اور ہمارے اندرآنے والی اخلاقی ابتری میں کوئی کمی نہیں آئی۔ زلزلہ زدگان سے سندھ، پنجاب صوبہ سرحد یہ اں تک کے بےرون ملک سے لوگوں کی ہمدردی نظر آئی۔ عالمی امدادی ادارے بھی سرگرم ہوئے اور مختلف ذرائع سے امداد بھی آئی لیکن متاثرین کی آہ و بکا ہمارے اپنے صوبہ میں اپنے بھائےوں کو متاثر نہ کرسکی۔ بلوچستان کے کسی شہر میں امداد کے حوالے سے کوئی بڑی مہم نظر نہیں آئی۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بعض سیا سی جماعتوں نے امدادی کیمپ ضرو ر لگائے لیکن عوامی سطح پر ایسی کوئی بڑی سرگرمی یہ اں بھی دیکھنے میں نہ آئی۔ جبکہ دیگر شہروں میں سرے سے زلزلہ زدگان کی امداد پر کوئی توجہ ہی نہ دی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ بے حس لوگوں کا معاشرہ بن گیا ہے ہمیں اپنے ذاتی نفع نقصان سے الگ کوئی حقیقت شائد نظر بھی نہیں آتی۔ بھائی چارہ، انسانی دوستی اور ایک دوسرے کے غم میں شریک ہونے کی مستحکم روایا ت کا حامل معاشرہ آج جس طرح بے جان اور کسی حد تک سفاک نظر آتا ہے اس کے حقےقی اسباب تلاش کرنے اور اس کا علاج دریا فت کرنے کی ضرورت ہے۔
 

زین

لائبریرین
وہ کیا کہتے ہیں نا
شاید کے دل میں اتر جائے بات
یا شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات

اسی طرح ہے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

الف نظامی

لائبریرین
مجھے وہ فقیر نہیں بھولتا جس نے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے لگائے گئے کیمپ پر آ کر پانچ روپے کا سکہ دیا تھا اور وہ امراء بھی جنہوں نے امداد کے نام پر پرانے چیتھڑوں کو گھر سے نکالا تھا۔
 

زین

لائبریرین
یہی کچھ بلوچستان میں بھی ہوا۔بعض لوگوں نے تو اخبار میں نام آنے اور دکھاوے کے لیے امداد کی اور ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے لاکھوں روپے کی امداد کی لیکن اپنا نام تک ظاہر نہیں کیا
 

محمد نعمان

محفلین
ہم نے بھی اپنی یونیورسٹی میں‌ کیمپ لگایا تھا جہاں‌ ہمارے وائس چانسلر نے آ کے صرف سو روپے دیے تھے جب کہ ٹو ڈی گاڑی میں‌تشریف لائے تھے اور سائیکل پر آنے والے طلبا نے اپنی جیبیں خالی کر دی تھیں۔۔۔۔
 

طالوت

محفلین
نعمان ! اگر وائس چانسلر بھی اپنی جیب خالی کر دیتے تو طلباء اور ان میں کیا فرق رہ جاتا ؟ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں میں فرق رہنا ضروری ہے۔۔
وسلام
 

محمد نعمان

محفلین
طالوت بھائی بات صرف فرق کی بھی نہیں ہے اُس جذبے کی ہے یہ بات جو اپنوں کیلیئے دلوں‌ میں ہوتا ہے۔ کم از کم اپنی اوقات کے مطابق امداد کرنا صرف اور صرف امداد نہیں بلکہ اخلاقی، ملی اور سب سے بڑھ کر مذہبی فریضہ ہے۔۔۔۔۔
ہم بہت کمزور ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
یہ جذبہ جو قوم کیلئے ہوتا ہے۔ اونچے عہدے پر پہنچ کر اپنے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جو حقیقی حب الوطن ہو گا۔ وہ اتنا اوپر تو نہیں چڑ سکتا !
 

شمشاد

لائبریرین
ان دونوں میں تو پھر ایک ہی چیز پروان چڑھ سکتی ہے، یا عہدہ چڑھا لو یا جذبہ حب الوطنی۔
 

طالوت

محفلین
ایسا بھی نہیں آٹے میں نمک ہی سہی مگر اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو عملا حب الوطنی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ نالائقی یہ ہے کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا ۔ اور عموما یہ لوگ خود بھی اسے پسند نہیں کرتے ۔
وسلام
 
Top