یوسف-2
محفلین
ہر چند کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے چار دہائیاں گذرچکیں لیکن آگ اور خون کے جس دریا کو عبور کرکے یہ علیحدگی عمل میں آئی، اس کی تلخ اور ڈراؤنی یادیں تاحال انفرادی اور اجتماعی حافظے میں محفوظ ہیں۔ فیض صاحب نے ڈھاکہ سے واپسی پر کہا تھا:
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
اسلام آباد میں جی ایٹ کانفرنس میں شرکت کے لیے شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی اور موجودہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے شرط عائد کی کہ پاکستان 1971ء کے ملٹری آپریشن اور کشت و خوں پر معافی مانگے، چونکہ پاکستان نے ایسا نہیں کیا، لہٰذا حسینہ واجد بھی جی ایٹ کانفرنس میں شریک نہیں ہوئیں۔ اگلے روز ممتاز کالم نگار نذیر ناجی نے حسینہ واجد کے مطالبے کے حق میں ایک کالم باندھا اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ و ہ بنگلہ دیش سے معافی مانگ کر اس معاملے کو رفت گزشت کرے۔
پاکستان اور حکومت پاکستان کی مثال اب غریب کی بیوی جیسی ہوگئی ہے ، جو سب کی ’بھابھی‘ ہوتی ہے۔ امریکا ہو یا بھارت، افغانستان ہو یا بنگلہ دیش، جس ملک کا جی چاہتا ہے، اٹھ کر پاکستان پر کوئی نہ کوئی الزام عائد کرکے اس سے طرح طرح کے مطالبے شروع کردیتاہے۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور نامسعود سے پاکستان نے خارجہ محاذ پر جو پسپائی کی پالیسی اختیار کررکھی ہے، اس نے یہ دن دکھائے ہیں کہ جس ملک کا جی چاہتاہے ، راشن پانی لے کر پاکستان پر چڑھ دوڑتا ہے اور ہماری حکومت کو خاموشی اختیار کرنے یا گھگھیانے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا جرم کیا ہے؟ ہم نے ایسا کیا کیا ہے کہ ہر معاملے میں احساس جرم کا شکار ہوں اور دنیا سے منہ چھپاتے پھریں۔ بھارت ساٹھ ہزار کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگ کر اور ہزارہا باعصمت کشمیری مسلم خواتین کی آبروریزی کرکے تو دنیا سے شرمندہ نہیں ہے۔ اسرائیل ڈھٹائی سے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور آئے دن فلسطینیوں کو پرندوں کی طرح نشانہ بناتا رہتا ہے لیکن اسے تو کوئی احساس جرم نہیں ہے۔ امریکا اپنے ڈرون حملوں اور دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت بے جا کرکے ایک عالمی غنڈے کے روپ میں ابھرا ہے لیکن اسے تو کوئی حجاب نہیں آتا، وہ ساری دنیا میں اس طرح دندناتا پھرتا ہے جیسے خدا کی سرزمین اس نے پٹے پر لے رکھی ہے۔ تو پھر ہم پر ایسی کیا مار پڑی ہے کہ ہم ہر ایک کے آگے جا کر گھگھیائیں اور بنگلہ دیش جیسے ملک سے بھی معافی مانگیں، جس کی آزادی بھی ہماری حماقتوں کی رہین منت ہے۔
بنگالیوں کے نجات دہندہ المعروف بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان نے جو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بنگالی فوجوں کے ہاتھوں نہایت بے رحمی و سفاکی سے قتل ہوئے ، یہاں تک کہ ان کی خون میں نہائی ہوئی لاش بے گور و کفن پڑی رہی ،بنگلہ دیش بننے کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں ببانگ دہل یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ پچھلے پچیس سال سے بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے کام کررہے تھے۔ چنانچہ دور ایوبی میں پکڑا جانے والا اگرتلہ سازش کیس بھی صحیح تھا اور یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں اپنے امیدوار کیوں کھڑے نہیں کیے۔ اور جب انتخابات جیت کر عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن گئی تو شیخ مجیب الرحمن نے یہ اعلان کیوں کیا کہ وہ فوجی ٹولے سے مذاکرات کرنے اسلام آباد نہیں جائیں گے۔ اور وہ فوجی ٹولے تو چھوڑیے مغربی پاکستان کے عوام سے رابطے کے لیے بھی نہیں آئے، اس وقت بھی نہیں ، جب جنرل یحییٰ خان نے انھیں ملک کا آئندہ وزیر اعظم بنانے کا اعلان کردیا۔ واقعات کی درست ترتیب یہ ہے کہ فوجی آپریشن سے بہت پہلے عوامی لیگ کی نیم فوجی تنظیم مکتی باہنی نے خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کردی تھی ۔مکتی باہنی نے غیر بنگالیوں کا قتل عام اور ان کے املاک کو تباہ و برباد کرکے پورے صوبے میں امن و امان کو تہس نہس کرکے غنڈ ہ راج قائم کردیا تھا۔ ملٹری آپریشن سے پہلے ہی خود شیخ مجیب الرحمن نے اپنے گھر پر آزاد بنگلہ دیش کا پرچم لہرادیا تھا۔ بڑی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ 25مارچ1971کے ملٹری آپریشن کے گناہ عظیم کی مذمت کرتے ہوئے ہم ان حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔فوج نے سرکش بنگالیوں کو کچلنے کے لیے جو ظلم کیا ، وہ تو ہمیں یاد ہے اور اس پر ہماری زبانیں فوج کو لعن طعن کرتے ہوئے نہیں تھکتیں لیکن عوامی لیگ کی مکتی باہنی نے ملٹری آپریشن سے قبل، اس کے دوران اور سقوط ڈھاکہ کے بعد غیر بنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں کے ساتھ جو بہیمانہ اور درندگی کا سلوک کیا، وہ ہمیں بھول جاتا ہے اور کوئی یاد دلائے تو اسے ہم عمل کا رد عمل کہہ کر ٹال جاتے ہیں۔ فوج نے جو کچھ کیا، اسے عوامی لیگ مبالغے کے ساتھ بیان کرتی ہے حالانکہ عوامی لیگ کے پاس اپنے دعوے کے ٹھوس شواہد بھی نہیں ہیں۔ مکتی باہنی کے غیر انسانی برتاؤ کی تو تصویری شہادتیں دستیاب ہیں۔ مکتی باہنی کا کمانڈر ٹائیگر عبدالقادر بھرے مجمع میں محب وطن پاکستانی بنگالیوں کو گرا کر ان کے سینوں میں سنگینیں بھونک رہا ہے یا پاکستان کے عشق میں سرشار ایک صاحب ایمان بنگالی کو چاروں طرف سے مکتی باہنی کے دہشت گرد وں نے گھیررکھا ہے اور اس پر رائفلیں تان رکھی ہیں اور ان دہشت گردوں کے چہروں پر فتحیابی کی مکروہ ہنسی ہے، جبکہ بے خوف بنگالی کے چہرے پریقین و ایمان کی ایک ایسی کیفیت ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا یہ اور ایسی کتنی ہی تصویریں ہیں جو مکتی باہنی کے ظلم و درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن عوامی لیگ اور بھارت کے پروپیگنڈے کے سحر میں ہم اس درجہ گرفتار ہوچکے ہیں کہ ہمیں مکتی باہنی کی درندگی ، درندگی محسوس نہیں ہوتی اور اس ظلم کی مذمت کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی۔
اصل بات یہ ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب و محرکات کے ایک غیر جانب دارانہ اور معروضی جائزے اور تجزیئے کی ضرورت ہے اس کے لیے ہمیں اس نوع کے پروپیگنڈے کے سحر سے نکلنا پڑے گا کہ سقوط مشرقی پاکستان دراصل پچیس سال تک مغربی پاکستان کے ہاتھوں بنگالیوں کے استحصال کا منطقی نتیجہ تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بنگالیوں کو شریک اقتدار نہ کرکے بہت اچھا کیا گیا یا ملٹری آپریشن جنرل یحییٰ کا ایک درست اقدام تھا ۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ بنگالیوں پر کیے گئے مظالم اور ناانصافی کی مبالغہ آمیز تصویر کشی، دراصل تصویر کا ایک رخ ہے۔ قارئین کو اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا ہو تو انھیں ڈھاکہ یونیورسٹی اور راج شاہی یونیورسٹی کے بنگالی وائس چانسلر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی کتاب “The Wastes of Time”کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ حال ہی میں “شکست آرزو”(جب پاکستان دو لخت ہوا) کے عنوان سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی ، کراچی نے شایع کیا ہے۔ڈاکٹر سید سجاد حسین خالص بنگالی اور محب وطن پاکستانی تھے، جنہوں نے تحریک پاکستان میں پر جوش حصہ لیا اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی سچے اور کھرے پاکستانی رہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی مخالفت او ر متحدہ پاکستان سے والہانہ عشق کرنے کے جرم میں مکتی باہنی کے دہشت گردوں نے انھیں گرفتار کیا، انھیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا، چاقو کے کاری وار سے اپنے خیال میں انھیں قتل کرکے ان کی لاش چوراہے پر پھینک کر چلے گئے۔ خدا نے انھیں شاید پاکستان کی محبت میں مہکتی دمکتی یہ کتاب لکھنے کے لیے زندہ رکھا۔ یہ کتاب ان بہت سے سوالوں کے جواب فراہم کرتی ہے ، جو سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ سوال کہ بنگالی جو تحریک پاکستان میں سرگرمی سے شریک رہے تھے، آخر کیوں پاکستان سے برگشتہ ہوگئے؟ یا یہ کہ عوامی لیگ کے اس پروپیگنڈے کی کیا حقیقت ہے کہ فوج نے 1971ء میں تیس لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا۔
میں اگلے کالم میں اس کتاب کے مندرجات کی روشنی میں ا ن سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
(طاہر مسعود کا کالم۔ مطبوعہ نئی بات 27 نومبر 2012 ء)
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
اسلام آباد میں جی ایٹ کانفرنس میں شرکت کے لیے شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی اور موجودہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے شرط عائد کی کہ پاکستان 1971ء کے ملٹری آپریشن اور کشت و خوں پر معافی مانگے، چونکہ پاکستان نے ایسا نہیں کیا، لہٰذا حسینہ واجد بھی جی ایٹ کانفرنس میں شریک نہیں ہوئیں۔ اگلے روز ممتاز کالم نگار نذیر ناجی نے حسینہ واجد کے مطالبے کے حق میں ایک کالم باندھا اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ و ہ بنگلہ دیش سے معافی مانگ کر اس معاملے کو رفت گزشت کرے۔
پاکستان اور حکومت پاکستان کی مثال اب غریب کی بیوی جیسی ہوگئی ہے ، جو سب کی ’بھابھی‘ ہوتی ہے۔ امریکا ہو یا بھارت، افغانستان ہو یا بنگلہ دیش، جس ملک کا جی چاہتا ہے، اٹھ کر پاکستان پر کوئی نہ کوئی الزام عائد کرکے اس سے طرح طرح کے مطالبے شروع کردیتاہے۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور نامسعود سے پاکستان نے خارجہ محاذ پر جو پسپائی کی پالیسی اختیار کررکھی ہے، اس نے یہ دن دکھائے ہیں کہ جس ملک کا جی چاہتاہے ، راشن پانی لے کر پاکستان پر چڑھ دوڑتا ہے اور ہماری حکومت کو خاموشی اختیار کرنے یا گھگھیانے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا جرم کیا ہے؟ ہم نے ایسا کیا کیا ہے کہ ہر معاملے میں احساس جرم کا شکار ہوں اور دنیا سے منہ چھپاتے پھریں۔ بھارت ساٹھ ہزار کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگ کر اور ہزارہا باعصمت کشمیری مسلم خواتین کی آبروریزی کرکے تو دنیا سے شرمندہ نہیں ہے۔ اسرائیل ڈھٹائی سے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور آئے دن فلسطینیوں کو پرندوں کی طرح نشانہ بناتا رہتا ہے لیکن اسے تو کوئی احساس جرم نہیں ہے۔ امریکا اپنے ڈرون حملوں اور دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت بے جا کرکے ایک عالمی غنڈے کے روپ میں ابھرا ہے لیکن اسے تو کوئی حجاب نہیں آتا، وہ ساری دنیا میں اس طرح دندناتا پھرتا ہے جیسے خدا کی سرزمین اس نے پٹے پر لے رکھی ہے۔ تو پھر ہم پر ایسی کیا مار پڑی ہے کہ ہم ہر ایک کے آگے جا کر گھگھیائیں اور بنگلہ دیش جیسے ملک سے بھی معافی مانگیں، جس کی آزادی بھی ہماری حماقتوں کی رہین منت ہے۔
بنگالیوں کے نجات دہندہ المعروف بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان نے جو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بنگالی فوجوں کے ہاتھوں نہایت بے رحمی و سفاکی سے قتل ہوئے ، یہاں تک کہ ان کی خون میں نہائی ہوئی لاش بے گور و کفن پڑی رہی ،بنگلہ دیش بننے کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں ببانگ دہل یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ پچھلے پچیس سال سے بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے کام کررہے تھے۔ چنانچہ دور ایوبی میں پکڑا جانے والا اگرتلہ سازش کیس بھی صحیح تھا اور یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں اپنے امیدوار کیوں کھڑے نہیں کیے۔ اور جب انتخابات جیت کر عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن گئی تو شیخ مجیب الرحمن نے یہ اعلان کیوں کیا کہ وہ فوجی ٹولے سے مذاکرات کرنے اسلام آباد نہیں جائیں گے۔ اور وہ فوجی ٹولے تو چھوڑیے مغربی پاکستان کے عوام سے رابطے کے لیے بھی نہیں آئے، اس وقت بھی نہیں ، جب جنرل یحییٰ خان نے انھیں ملک کا آئندہ وزیر اعظم بنانے کا اعلان کردیا۔ واقعات کی درست ترتیب یہ ہے کہ فوجی آپریشن سے بہت پہلے عوامی لیگ کی نیم فوجی تنظیم مکتی باہنی نے خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کردی تھی ۔مکتی باہنی نے غیر بنگالیوں کا قتل عام اور ان کے املاک کو تباہ و برباد کرکے پورے صوبے میں امن و امان کو تہس نہس کرکے غنڈ ہ راج قائم کردیا تھا۔ ملٹری آپریشن سے پہلے ہی خود شیخ مجیب الرحمن نے اپنے گھر پر آزاد بنگلہ دیش کا پرچم لہرادیا تھا۔ بڑی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ 25مارچ1971کے ملٹری آپریشن کے گناہ عظیم کی مذمت کرتے ہوئے ہم ان حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔فوج نے سرکش بنگالیوں کو کچلنے کے لیے جو ظلم کیا ، وہ تو ہمیں یاد ہے اور اس پر ہماری زبانیں فوج کو لعن طعن کرتے ہوئے نہیں تھکتیں لیکن عوامی لیگ کی مکتی باہنی نے ملٹری آپریشن سے قبل، اس کے دوران اور سقوط ڈھاکہ کے بعد غیر بنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں کے ساتھ جو بہیمانہ اور درندگی کا سلوک کیا، وہ ہمیں بھول جاتا ہے اور کوئی یاد دلائے تو اسے ہم عمل کا رد عمل کہہ کر ٹال جاتے ہیں۔ فوج نے جو کچھ کیا، اسے عوامی لیگ مبالغے کے ساتھ بیان کرتی ہے حالانکہ عوامی لیگ کے پاس اپنے دعوے کے ٹھوس شواہد بھی نہیں ہیں۔ مکتی باہنی کے غیر انسانی برتاؤ کی تو تصویری شہادتیں دستیاب ہیں۔ مکتی باہنی کا کمانڈر ٹائیگر عبدالقادر بھرے مجمع میں محب وطن پاکستانی بنگالیوں کو گرا کر ان کے سینوں میں سنگینیں بھونک رہا ہے یا پاکستان کے عشق میں سرشار ایک صاحب ایمان بنگالی کو چاروں طرف سے مکتی باہنی کے دہشت گرد وں نے گھیررکھا ہے اور اس پر رائفلیں تان رکھی ہیں اور ان دہشت گردوں کے چہروں پر فتحیابی کی مکروہ ہنسی ہے، جبکہ بے خوف بنگالی کے چہرے پریقین و ایمان کی ایک ایسی کیفیت ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا یہ اور ایسی کتنی ہی تصویریں ہیں جو مکتی باہنی کے ظلم و درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن عوامی لیگ اور بھارت کے پروپیگنڈے کے سحر میں ہم اس درجہ گرفتار ہوچکے ہیں کہ ہمیں مکتی باہنی کی درندگی ، درندگی محسوس نہیں ہوتی اور اس ظلم کی مذمت کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی۔
اصل بات یہ ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب و محرکات کے ایک غیر جانب دارانہ اور معروضی جائزے اور تجزیئے کی ضرورت ہے اس کے لیے ہمیں اس نوع کے پروپیگنڈے کے سحر سے نکلنا پڑے گا کہ سقوط مشرقی پاکستان دراصل پچیس سال تک مغربی پاکستان کے ہاتھوں بنگالیوں کے استحصال کا منطقی نتیجہ تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بنگالیوں کو شریک اقتدار نہ کرکے بہت اچھا کیا گیا یا ملٹری آپریشن جنرل یحییٰ کا ایک درست اقدام تھا ۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ بنگالیوں پر کیے گئے مظالم اور ناانصافی کی مبالغہ آمیز تصویر کشی، دراصل تصویر کا ایک رخ ہے۔ قارئین کو اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا ہو تو انھیں ڈھاکہ یونیورسٹی اور راج شاہی یونیورسٹی کے بنگالی وائس چانسلر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی کتاب “The Wastes of Time”کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ حال ہی میں “شکست آرزو”(جب پاکستان دو لخت ہوا) کے عنوان سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی ، کراچی نے شایع کیا ہے۔ڈاکٹر سید سجاد حسین خالص بنگالی اور محب وطن پاکستانی تھے، جنہوں نے تحریک پاکستان میں پر جوش حصہ لیا اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی سچے اور کھرے پاکستانی رہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی مخالفت او ر متحدہ پاکستان سے والہانہ عشق کرنے کے جرم میں مکتی باہنی کے دہشت گردوں نے انھیں گرفتار کیا، انھیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا، چاقو کے کاری وار سے اپنے خیال میں انھیں قتل کرکے ان کی لاش چوراہے پر پھینک کر چلے گئے۔ خدا نے انھیں شاید پاکستان کی محبت میں مہکتی دمکتی یہ کتاب لکھنے کے لیے زندہ رکھا۔ یہ کتاب ان بہت سے سوالوں کے جواب فراہم کرتی ہے ، جو سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ سوال کہ بنگالی جو تحریک پاکستان میں سرگرمی سے شریک رہے تھے، آخر کیوں پاکستان سے برگشتہ ہوگئے؟ یا یہ کہ عوامی لیگ کے اس پروپیگنڈے کی کیا حقیقت ہے کہ فوج نے 1971ء میں تیس لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا۔
میں اگلے کالم میں اس کتاب کے مندرجات کی روشنی میں ا ن سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
(طاہر مسعود کا کالم۔ مطبوعہ نئی بات 27 نومبر 2012 ء)