ہندوستانی جنگلوں کی کہانیاں

خرم

محفلین
ابتدائیہ

درخت کے تنے سے ٹیک لگائے ایک آدمی بیٹھا ہے۔ سامنے جلتی ہوئی لکڑیوں کی آگ کبھی بھڑک کر اردگرد کے ماحول کو روشن کرتے ہوئے اسے فرحت بخشتی ہے تو اگلے ہی لمحے ماند پڑ کے اس کے اردگرد کو تاریکی اور پراسراریت میں دھکیل دیتی ہے۔ اسی درخت کے تنے کے ساتھ اعشاریہ چارسو پانچ کی ایک پُرانی ونچسٹر رائفل ٹیک لگا ئے کھڑی کی ہوئی ہے۔
جب کبھی آگ میں تازہ لکڑی ڈلتی ہے تو لپکنے والے شعلے کیمپ پر چھترائے ہوئے درخت کی شاخوں کو روشن کردیتے ہیں۔ اس ایک لمحہ میں اس شخص کی ہیئت بھی واضح نظر آتی ہے۔ ایک چھوٹی داڑھی اور مونچھوں والا چہرہ جس کے ہونٹوں کے ایک کونے میں ایک پرانا پائپ دبا ہوا ہے جو مدت ہوئی بجھ چکا ہے۔ اس کے سر پر ایک پُرانا گورکھا ہیٹ جس کے بائیں کنارے اوپری جانب کو اُٹھے ہوئے ہیں ایسے جیسے ٹنگا ہوا ہے۔

یہ آدمی بول رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی داستان سُنا رہا ہے اور اس میں وہ اس قدر محو ہے کہ اپنے پائپ اور اردگرد کے ماحول سے قطعاً لاتعلق ہو چکا ہے۔ شعلے مدھم پڑتے ہیں اور پھر بھڑک اٹھتے ہیں اور اسی لمحے اس کی خوابناک آنکھیں ایسے دکھتی ہیں جیسے کہ وہ پھر سے ان دنوں کو بیتا رہا ہے جن کی وہ کہانی سُنا رہا ہے۔ یاد ماضی نے اسے اس طرح اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے کہ اسے آگ کے گرد اکڑوں بیٹھے، حلقہ جمائے اپنے ان ساتھیوں کی بھی کوئی خبر نہیں ہے جو اس کے ہر لفظ کو دھیان سے سُن رہے ہیں۔
لپکتے شعلے اوپر کو اْٹھتے ہیں، مدھم پڑتے ہیں اور پھر اس اُٹھتے دھوئیں کے ان مرغولوں میں گم ہوجاتے ہیں جو اوپر درختوں کی چھتریوں کی اندھیریوں میں گم ہوکر جنگل کی رات کو مزید تاریک بنارہے ہیں۔

لکڑیوں کے چٹخنے اور اس آدمی کی آواز کے خمار کے سوا جنگل میں سناٹا طاری ہے۔ ایک ایسا بوجھل اور غیر حقیقی سناٹا کہ اس کا عنقریب اختتام یقینی لگتا ہے۔ اچانک اندھیرے کو چیرتی ہوئی شیر کی دھاڑ اور اس کے جواب میں ایک مشتعل ہاتھی کی چنگھاڑ سنائی دیتی ہیں۔ "آآ۔اوونہہ---اوونہ ---اوونہہ---اوونہہ" کی رعب دار آواز جو اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ شیر جنگل کی پگڈنڈیوں پر محو خرام ہے جب کہ دور ہاتھی کی "ٹری آآں۔۔۔۔۔۔ٹری آآآں" اعلان کرتی ہے کہ اسے شیر کی دھاڑ کی کوئی پرواہ نہیں۔

لیکن اس آدمی پر بظاہر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ بدستور اس کہانی میں گُم ہے جو وہ بیان کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ بھی جنگل کا ہی ایک حصہ ہے۔ جیسے یہی جنگل اس کا گھر ہیں، یہیں وہ پیدا ہوا اور یہیں مرنا چاہے گا کہ یہی اس کی جنت ہیں۔ اس لئے آئیں اس کی باتوں کو دھیان سے سُنیں۔ ان کہانیوں کو جن میں جنگل کی پراسراریت، حوادث و واقعات اور اس کے اپنے ماضی کی پرچھائیاں موجود ہیں۔ ہمارے توجہ دینے پر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کی باتوں میں ایک جوش سا پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ جنگل اور اس کے باشندوں کے عشق میں مبتلا ہے۔

اس بات کو مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ میں ہی تو وہ آدمی ہوں۔
 

خرم

محفلین
صبح کی سیر

۔ "صاحب، صاحب اُٹھ جائیے۔ چار بج چکے ہیں" ہماری آنکھ پجاری کی مدھم سرگوشیوں سے کھُلی جو وہ باری باری میرے اور آپکے کانوں میں کر رہا ہے ۔ سرگوشیاں اس لئے کہ ہم میں سے کسی کو بھی اس کا چھونا انتہائی گستاخی سمجھی جائے گی۔ اس میں ایسا اچنبھا بھی کیا؟ کیا پجاری قرن ہا قرن سے اچھوت نہیں سمجھے جاتے؟ اور ان کا کسی عام آدمی کے قریب ہونا ہی انتہائی کراہیت کا سبب گردانا جاتا ہے چہ جائیکہ ان کا چھونا۔ ہم فوراً ہی اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ جنگل میں ہوشیار ہونے میں سُستی کرنا موت اور زندگی کا فرق بن سکتا ہے۔ اُٹھتے ہی سب سے پہلے ہمیں وہ انگارے دکھائی دیتے ہیں جن کی روشنی بمشکل ان درختوں کے تنوں تک پہنچ رہی ہے جو ہماری تین اطراف سے ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ ہماری چوتھی جانب پانی کی ایک لکیر ستاروں کی روشنی میں جگمگا رہی ہے جو دریائے کاویری ہے۔ پانی میں اٹھتے ہوئے ایک بھنور کی آواز ہم تک پہنچتی ہے جو اگلے ہی لمحے پانی کے بہاؤ میں آگے گزر گیا ہے۔
ہمارا پڑاؤ دریا کے کنارے سے کچھ دور جنگل اور دریا کے درمیان واقع کھلی زمین پر ہے۔ پجاری تمام رات جاگ کر آگ میں لکڑیاں ڈالتا رہا ہے جن کی وجہ سے ہم کسی پیاسے ہاتھی یا کسی منچلے مگرمچھ کی ناخوشگوار آمد کے خطرہ سے محفوظ رہے ہیں۔ دریا کے کنارے پھیلی ہوئی ریت جس پر ہم سو رہے تھے ہمارے نسبتاً چھوٹے لیکن اتنے ہی خطرناک دشمنوں یعنی سانپوں اور بچھوؤں سے ہماری محافظ بنی رہی جو ایسی سطح پر رینگنا پسند نہیں کرتے۔اردگرد کے نسبتاً گرم ماحول کی وجہ سے ہم نے اپنی ہلکی پھلکی اوڑھنیاں اتار پھینکی ہیں۔ انگاروں سے اٹھنے والی حرارت کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہم رات کو گرنے والی اوس سے محفوظ رہے ہیں۔ میں ایک چھوٹی پتیلی میں پانی بھر کر اسے چائے کے لئے انگاروں کے اوپر رکھتا ہوں۔ چائے ہمیشہ ایسے شخص کے لئے جو جنگلی علاقوں میں آوارہ گردی کرتا ہے، ایک من بھاتا مشروب ہے۔
ہمارے دریا کے پانی سے منہ ہاتھ دھو کر اور دانت مانجھ کر واپس آنے تک چائے کا پانی اُبل چکا ہے کچھ ہی دیر بعد اپنے اپنے ہاتھوں میں بھاپ اڑاتی چائے کا کپ پکڑے ہم ٹھنڈی چُپڑی روٹیوں اور کیلوں کا ناشتہ کر رہے ہیں۔ ایسا ناشتہ شاید بادشاہوں کے مزاج کو تو نہ بھائے لیکن غذائیت کے اعتبار سے یہ لاثانی ہے۔ اس مختصر سے ناشتے سے فارغ ہو کر اپنی رائفلوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جنہیں اس صبح کی سیر میں ہمارا ساتھ دینا ہے۔ ہمارا ارادہ چوتھائی میل سے بھی کم فاصلے پر یہ جو پہاڑیاں شروع ہور ہی ہیں ان پر چہل قدمی کا ہے۔ یہ پہاڑیاں بلند ہوتی ہوئی پانچ ہزار فٹ بلند چوٹی "پوناچھی ملائی" پر ختم ہوتی ہیں جو ہم سے چھ میل کی افقی دوری پر ہے۔
میری کئی برسوں کی رفیق نسبتاً عمر رسیدہ اعشاریہ چار سو پانچ بور کی ونچسٹر رائفل جس نے کئی مہمات میں میرا ساتھ دیا ہے اور اب ہر کس و ناکس کے مذاق کا نشانہ بنتی ہے کسی خاص توجہ کی محتاج نہیں ہے۔ میری ہی طرح یہ بھی گزرے وقتوں کی چیز ہے اور اب تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ اپنا خیال بھی خود ہی رکھ لیتی ہے۔ آپکی دس گولیوں والی امریکی سپرنگ فیلڈ 3006 سے یہ بہرحال کمتر ہے جو آپکی بجا طور پر انتہائی لاڈلی ہے ۔
منہ اندھیرے ہی ہم کیمپ سے روانہ ہوں گے۔ ہمارا پجاری ساتھی ہمارے ہمراہ آنے کا مشتاق ہے لیکن کیونکہ ہمارا مقصد صرف چہل قدمی کرنے کا ہے جس کے دوران میں آپکو کچھ دلچسپ چیزیں دکھانا چاہنا ہوں اس لئے اسے ان چند چیزوں کی دیکھ بھال کے لئے جو ہم اپنے ہمراہ لائے تھے یہیں رہنے دینا مناسب ہوگا۔ بیرا، ہمارا پجاری دوست ایک مخلص اور سادہ دل شکاری ہے۔ وہ اس بات پر بہت ناراض ہوتا جب میں ایک شاندار سانبھر مارنے کی بجائے اسے صرف آپکو دکھانے میں دلچسپی رکھتا۔ اسی طرح جب ایک مادہ چیتل اپنے بچے کو تیندوے سے بچانے کے لئے اپنے آپ کو اس کی ڈھال بناتی تو وہ مجھ سے بہت خفا ہوتا کہ میں نے ماں اور بچے دونوں کو شکار کیوں نہیں کیا۔
پڑاؤ سے سو گز دور جاتے ہی ہوا خنک ہو گئی ہے اور جوں جوں ہم اوپر کی طرف چڑھ رہے ہیں اس کی خنکی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی اندھیرا ہے اور ہمیں احتیاط سے آگے بڑھنا ہے کیونکہ ہمارے قدموں سے پتھروں کا لڑھکنا یا ہمارے کپڑوں کا جھاڑیوں میں الجھ کر سرسراہٹ پیدا کرنا یقینی طور پر ہماری سیر کے ابتدائی حصہ کو ناکام بنا دے گا۔ اس کی وجہ یہ کہ اس موسم میں جامن پکتے ہیں اور یہ کھٹا میٹھا پھل بھالوؤں کی کمزوری ہے جو اسے کھانے کے لئے میلوں دور سے جامن کے درخت تک آتے ہیں۔ابھی کل ہی میں نے کیمپ سے بمشکل دو فرلانگ دور جامن کے درختوں کا ایک جھنڈ اور اس کے اردگرد بھالوؤں کے پیروں کے نشان اور لید دریافت کی تھی۔ یہ بھالوگزشتہ روز جامن کا پھل کھانے وہاں آئے تھے۔
ہم جس پہاڑی پر چڑھ رہے ہیں وہ اس جھنڈ سے متصل ہے اور ان ریچھوں کے واپسی کے راستہ میں ہے جو اس وقت مصروفِ طعام ہوں گے۔ جیسا کہ بھالوؤں کا دستور ہے وہ صبح کاذب کے طلوع ہوتے ہی اوپر چڑھنا شروع کردیں گے۔ یہ وقت قریب ہے اور آسمان پر ہلکی سی روشنی اس تعجب خیز عمل کا پتا دے رہی ہے۔ لیکن چند منٹوں کے اندر ہی ایک دفعہ پھر تاریکی پھیل جاتی ہے۔ آخر قریباً بیس منٹ بعد مشرقی افق پر پھیلتا ہوا وسیع اجالا صبح صادق اور ایک نئے دن کے آغاز کا پیغام لاتا ہے۔
صبح کاذب ایک نوآموز شکاری کو ہی نہیں جنگل کے باسیوں کو بھی دھوکہ دیتی ہے۔ اس کے دھوکے میں آکر جنگلی مرغ بانگیں دینا شروع کر دیتے ہیں، مور اپنی بیٹھی ہوئی آواز میں بولنا شروع کر دیتے ہیں، درندے اپنی اپنی آرام گاہوں کی طرف واپس پلٹنے لگتے ہیں۔ لگڑ بگڑ اور گیدڑ جو ان کے بچے کھچے شکار سے پیٹ پوجا کرنے کا موقع تلاش کر رہے ہوتے ہیں بقیہ دن گزارنے کے لئے زیرِ زمین یا کسی چٹان کے نیچے موجود اپنی اپنی کھوہ کی جانب چلتے ہیں۔
بدمزاج اور لالچی بھالو جو اب تک اپنی تمام تر توجہ گرے ہوئے جامن کھانے پر مرکوز کئے ہوئے تھے وہ بھی صبح کاذب سے دھوکا کھا جائیں گے۔ نیم دلی سے وہ چند پھل چھوڑتے ہوئے جنہیں وہ ہڑپ نہ کرسکے ہوں گے وہ پہاڑیوں پر موجود کسی کھوہ، کسی سرسبز قطعہ گھاس میں موجود کھڈ میں یا کسی گھنے بوڑھے درخت کی چھاؤں میں سوکر دن گزارنے کیلئے چل پڑیں گے۔
لیکن ہمیں دھوکا نہیں کھانا اور جلد از جلد اپنا مقام سنبھالنا ہے قبل اس کے کہ یہ مختصر روشنی قبل از صبح کے اندھیروں میں چھپ جائے۔ اگر ہمیں بھالو کی آمد کو سُننا یا صبح صادق کے قریب اس کی جھلک دیکھنی ہے تو ہمیں ابھی چھپنا ہوگا۔ اس بیس منٹ کے وقفہ میں بے خبر رہنا بالکل بھی مناسب نہیں۔ ہندوستانی بھالو اپنے تمام رشتہ داروں کی طرح، جو اس کرۂ زمین پر کہیں بھی بستے ہیں، بدمزاج، بدخو، جھگڑالو اور جارح مزاج ہونے کی شہرت رکھتا ہے۔ خاص طور پر جب کوئی اسے اس کی بے خبری میں جا لے۔ ہندوستان کے بے شمار جنگلی باشندے ان خوفناک زخموں کے نشانوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جو انہیں اس وقت لگے جب اچانک ایک موڑ پر ان کا بھالو سے سامنا ہو گیا یا جب وہ بے خبری میں ایک سوتے ہوئے بھالو کے قریب جا پہنچے۔ ان میں سے اکثریت کی ناک یا آنکھ بھالو کے تیز دھار پنجوں سے ضائع ہو گئی ہوتی ہے۔
یہ جو سامنے چٹان ہے، ہمارے مقصد کے لئے بہت خوب رہے گی۔ یہ قریباً چار فٹ چوڑی اور چھ فٹ اونچی ہے اور ہم دونوں اس کے پیچھے اکڑوں بیٹھ کر بھالو کی آمد کا انتظار کر سکتے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ قطعاً قسمت کا کھیل ہے جو کوئی بھی رنگ دکھا سکتی ہے۔ آخر بھالوؤں کے گھومنے کے لئے تمام جنگل پڑا ہے اور اس راستے کے سوا کئی اور راستے بھی ہوں گے جہاں سے وہ پہاڑی پر واپس جا سکتے ہیں۔ اب بہرحال ہمیں کہیں تو بیٹھ کر اپنی قسمت آزمانا ہے لہٰذا آئیے اپنی قسمت پر بھروسہ کر کے ادھر ہی کچھ منٹ خاموش بیٹھتے ہیں ۔ کچھ عرصہ ہمیں صرف اپنی سانسوں کی ہی آواز سنائی دیتی ہے۔ پھر پہاڑی کے قدموں میں تھڈ سے پتھر کے گرنے کی ہلکی سے آواز آتی ہے جو ہماری امیدوں کو بڑھا دیتی ہے۔ صرف ایک ایسا جانور جو اوٹ پٹانگ حرکات کا مالک ہو یا جو پتھروں کے نیچے چھپے کیڑے مکوڑے کھانا چاہتا ہو وہی اس طریقہ سے پتھر لڑھکا کر اپنی آمد کا اعلان کرے گا۔ یقیناً یہ جانور ہرن نہیں ہے کیونکہ وہ تو ایسی آواز سے ڈرتا ہے، اور قطعی طور پر ایک شیر یا تیندوا اس انداز میں اپنی آمد کا اعلان نہیں کرتے۔ اب یہ جانور یا تو بھالو ہے یا پھر ہاتھی اور اس بات کا ابھی کچھ دیر میں پتہ چل جائے گا۔
اب ہمیں پھولے ہوئے بھاری سانسوں کی آواز سنائی دے رہی ہے، ایسے جیسے کوئی بوڑھا آدمی بدقت تمام پہاڑی چڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس آواز سے رہا سہا شک بھی دور ہو گیا ہے کہ بھالو کیڑوں اور سنڈیوں کو پتھروں کے نیچے چھپے سوراخوں اور جھاڑیوں کی جڑوں میں سونگھتا ڈھونڈتا اوپر آ رہا ہے۔ مشرقی افق پر صبح صادق کا اجالا پھیل رہا ہے لیکن پتھر کے پیچھے جہاں ہم چھپے ہوئے ہیں وہاں ابھی اندھیرا ہی ہے۔ بالآخر بھالو ہمارے قریب آ پہنچا ہے۔ آپ میری دائیں جانب ہیں اور بھالو آپ کی دائیں جانب قریباً دس فٹ کے فاصلہ پر ہے۔ میں آپ کا بازو زور سے دباتا ہوں اور آپ میرا خاموش اشارہ سمجھ جاتے ہیں کہ اب حرکت بالکل نہیں کرنی۔ بھالو شاید ہمیں دیکھ اور سُن نہ سکے کیونکہ اس کی بصارت اور سماعت دونوں حسیات کافی کمزور ہوتی ہیں۔ لیکن اگر ہم نے اپنی موجودی کا راز فاش کیا تو یہ ہم پر حملہ آور ہو سکتا ہے جو یقیناً کوئی پسندیدہ اقدام نہیں ہوگا کیونکہ ہم اسے مارنا نہیں چاہتے کہ بصورت دیگر ایک عام بھالو بے ضرر ہوتا ہے۔
ہانپنے اور سونگھنے کی آوازیں ہمارے پاس سے ہوتی ہوئی آگے گزر گئیں اور ہم صرف ایک کالے رنگ کا گیند سا ہی دیکھ پائے ہیں جو جھاڑیوں کے ساتھ الجھتا ہوا جا رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی آوازیں بھی مدھم پڑتی گئیں۔
صبح تیزی سے پھیل رہی ہے اور مشرقی افق بدلتے رنگوں سے سجا ہوا ہے جس میں سرمئی، گہرا جامنی جو قرمزی رنگ میں بدل رہا ہے ،سبز، نیلا، زرد اور بے شمار رنگ بھرے ہوئے ہیں یہاں تک کہ پہاڑیوں کے اونچی نیچی چوٹیوں پر سے سورج کا پیلا تھال نمودار ہوتا ہے۔ اس کی نسبتاً مدھم روشنی ہمیں اس عظیم الشان روشن گولے کو براہِ راست دیکھنے سے باز نہیں رکھ سکتی جس کے استقبال میں دور و نزدیک کے چھوٹے بڑے تمام پرندے نغمہ سرا ہو گئے ہیں۔ سینکڑوں بلبلوں کے زمزمے، سرخ و سیاہ مرغ زریں کی پکاریں اور پپیہے کی" پی۔۔۔پی۔۔۔ پی او" کی آوازیں پہاڑی کی جانب سے آ رہی ہیں۔ دریا کے سامنے والے جنگل سے کسی جنگلی مرغ کی ککڑوں کڑوں اور مور کی "می آؤ۔۔۔۔می آؤ" سنائی دے رہی ہیں۔ ہم اپنے چشمِ تصور سے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مور اپنی مورچھل پھیلائے اپنے حرم کی ماداؤں کے سامنے محو رقص ہے۔
اچانک "کررر۔۔۔کریک" کی مدھم لیکن واضح آواز سُنائی دیتی ہے۔ کوئی بڑا جانور پہاڑی کی چوٹی کی جانب آ رہا ہے۔ شاید ایک اور بھالو؟ لیکن ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ بھالو تو شور مچاتے ہوئے آتا ہے جبکہ اس جانور نے اس پہلی اتفاقیہ آواز کے سوا اب تک کوئی آواز نہیں نکالی ہے۔ ہم اپنے سر اور آنکھیں چٹان کی اوٹ سے باہر نکالتے ہوئے اس کے پیچھے دبک جاتے ہیں۔ مکمل بے حس و حرکت رہنا جنگل میں پوشیدہ رہنے کا پہلا اصول ہے۔ جانور اگرچہ آپ کو دیکھ بھی لے گا لیکن پہچان اس وقت تک نہیں پائے گا جب تک آپ کوئی حرکت نہیں کریں گے۔ جنگل میں پوشیدگی کا دوسرا اہم اصول ہوا کا رخ پہچاننا ہوتا ہے۔ جنگل میں بسنے والے اکثر جانور بالخصوص ہرن کی اقسام کے جانور انتہائی حساس قوت شامہ کے مالک ہوتے ہیں جو ان کی قوت بصارت کی نسبت کافی تیز ہوتی ہے۔ اگر ہوا آپ کی جانب سے ان کی طرف نہیں چل رہی اور آپ مکمل بے حس و حرکت بیٹھے رہتے ہیں تو آپ کی گھات کی کامیابی تقریباً یقینی ہوتی ہے۔
چند ہی لمحوں میں ان اصولوں کی سچائی کا اندازہ ہو جاتا ہے جب ایک ہلکی سی سرسراہٹ کے ساتھ ہمارے سامنے والی جھاڑیاں پھٹتی ہیں اور ان میں ایک شاندار سانبھر کا سر اور سینگ نمودار ہوتے ہیں۔ اس کے شاندار سینگ دائیں بائیں برابر پھیلے ہوئے ہیں اور وہ ہمارے اتنے قریب ہے کہ ہم اس کے سینگوں کی جڑیں تک دیکھ سکتے ہیں جو آپ کے بازوؤں جتنی موٹی ہیں۔ یہ سانبھر پہلے والے بھالو کی نسبت ہم سے زیادہ قریب ہے پھر بھی ہمیں پہچاننے سے قاصر ہے۔ چند لمحے کی جھجک کے بعد وہ ہماری چٹان کے سامنے والی کھلی جگہ پر نکل آتا ہے۔ پھر ایک قدم اور اور اب اس کا مکمل وجود ہمارے سامنے ہے۔ اس کی گہری بھوری رنگت، اس کی گردن کے گرد چھدری ایال اور شانوں پر لٹکتے ہوئے لمبے بال جو اس کے شانوں کو پوری طرح ڈھکنے سے قاصر ہیں، اس کی دراز عمر کا پتہ دے رہے ہیں۔ یہ تمام اشارے اور اس کے بھاری بھرکم سینگ اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ایک پختہ عمر کا جانور ہے۔
اب میں آپ کو دکھاتا ہوں کہ ایک سانبھر کتنا متجسس ہوتا ہے۔ اپنی اطراف سے گھاس کی ایک پتی توڑتے ہوئے میں اسے اپنے انگوٹھے اور انگلیوں کے پوروں میں پکڑے ہوئے چٹان سے باہر نکالتا ہوں اور اسے گول گول گھمانا شروع کرتا ہوں۔ اتنی معمولی سی حرکت کا بھی ہرن کو فوراً پتہ چل جاتا ہے۔ وہ ایکدم رُک جاتا ہے اور اپنے بڑے بڑے کان پہلے آگے، پھر پیچھے اور پھر آگے کو ہلاتا ہے۔ پھر اپنی دائیں ٹانگ کو گھٹنوں تک اٹھا کر بے چینی سے زمین پر زور سے مارتا ہے۔ اس کے اس عمل سے زمین سے ایسی آواز آتی ہے جیسے پتھر سے کوئی دھاتی چیز ٹکرا رہی ہے۔ ہرن گھاس کی پتی کو غور سے دیکھتے ہوئے اس عمل کو دہرائے جارہا ہے اور میں گھاس کی پتی کو گھمائے جاتا ہوں۔اس وقت اس کی تمام تر حسیات بیدار ہیں اور اس کی جبلت اسے بتا رہی ہے کہ کوئی خلاف معمول بات وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ اس نے بارہا گھاس کی پتیوں کو ہوا سے ہلتا دیکھا ہے لیکن ایسی کوئی گھاس کی پتی اس کی نظر سے نہیں گزری جو گول گول گھوم رہی ہو۔
ہم ان گھورتی آنکھوں کے پیچھے اس کے دماغ کو پڑھ سکتے ہیں۔ جبلت اسے پکار پکار کر بھاگ لینے کو کہہ رہی ہے لیکن اس کا تجسس اسے مجبور کر رہا ہے وہ اس انوکھی گھاس کی پتی کے متعلق مزید کرید کرے جو اتنے عجب انداز میں گول گول گھوم رہی ہے۔ سانبھر ایک قدم آگے بڑھاتا ہے اور پھر ایک منٹ کے مکمل توقف کے بعد ایک اور قدم۔ اس کے بدن کے تمام رگ پٹھے مکمل کھنچے ہوئے ہیں اور وہ لمحہ بھر میں ہوا ہونے کے لئے تیار ہے پھر بھی وہ اپنے تجسس پر قابو نہیں پاسکتا۔ ہرنوں اور بارہ سنگھوں کا یہی تجسس ان کی ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ناجائز شکاریوں کے ہاتھوں ہلاکت کا سبب بنتا ہے جو بالکل میری ہی طرح یا اس سے ملتے جلتے ہتھکنڈوں سے انہیں متجسس کرکے ہلاک کرتے ہیں۔ یہ ہرن ہمارے اتنے قریب ہے کہ اسے با آسانی نیزہ گھونپا جاسکتا ہے اور وہ ہمارے مزید قریب آرہا ہے۔ میرے خیال میں اس احمق کو ایسا سبق سکھانے کی ضرورت ہے جو اسے تمام عمر یاد رہے۔
چٹان کے پیچھے سے چھلانگ لگا کر کھڑے ہوتے ہوئے میں زور سے چلاتا ہوں "ووف ۔۔۔۔۔ ووف۔۔۔۔۔وووف" ۔ یہ کہنا کہ سانبھر چٹان کے پیچھے سے ایک آدمی کو شیر کی آواز میں دھاڑتا دیکھ کر بوکھلا گیا اصل کیفیت کی عکاسی نہیں کرسکتا۔ مارے حیرت کے سانبھر اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا اور اس عمل کے دوران ایک پتھر سے پھسل کرگھٹنوں کے بل زمین پر گرا۔ پھر وہ ہڑبڑا کر اٹھتا ہے اور زور سے خطرہ کا اعلان کرتا ہے "اووووو۔۔۔نک"۔
پھر اپنے سینگوں کو درختوں کی شاخوں سے الجھنے سے بچانے کیلئے انہیں اپنے شانوں سے ملاتا ہوا وہ پہاڑی کی اترائی کی طرف بھاگ لیا ہے۔ وہ اسقدر تیز بھاگ رہا ہے کہ ہمیں آپس میں ٹکراتے پتھروں سے اس کی حرکات کا اندازہ ہورہا ہے۔ دریا کے کنارے والے جنگل میں پہنچ کر وہ سُن گُن لینے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں اس کا پیچھا تو نہیں کیا جا رہا اور پھر جنگل کو خبردار کرتا ہے کہ پہاڑی پر خطرہ اور موت منڈلا رہی ہے۔ "اووونک۔۔۔۔۔دھا۔۔آآنک" وہ بار بار چلاتا ہے۔
یہ تمام شورو غوغا لنگوروں کے چوکیدار سے مخفی نہیں رہ سکتا جن کا غول جامن کے درختوں کے جھنڈ میں پیٹ پوجا کر رہا ہے۔ اپنی جگہ پر چھپے ہوئے ہم اس کی صرف ایک جھلک ہی دیکھ پاتے ہیں۔ ایک درخت کی چوٹی پر اپنی ٹانگوں کے بل کھڑا وہ اس خطرے کو دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے جس سے سانبھر نے خبردار کیا ہے تاہم اپنی تمام تر کوشش کے باوجود وہ ہمیں دیکھنے سے قاصر ہے۔ اس بات سے یقینی طور پر وہ ابہام کا شکار ہے کیونکہ وہ خطرہ کا تعین نہیں کرسکتا اور فیصلہ نہیں کر پارہا کہ آیا خطرہ کی آواز لگائی جائے یا نہ۔ کچھ عرصہ متذبذب رہنے کے بعد اس عمر رسیدہ لنگور نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے اپنے غول اور جنگل کے دوسرے مکینوں کی حفاظت کے لئے اپنے فرض کو ادا کردینا چاہئے۔
"خاررر" وہ حلق کے بل چیختا ہے اور پھر ایک لمحہ کے توقف کے بعد "خارررر۔۔۔۔خارررر۔۔۔۔خارررر"۔ اب جنگل کا سکون درہم برہم ہوگیا ہے۔ دریا کے دوسرے کنارے ایک جنگلی مینڈھا جو اپنی پیاس بجھانے آیا تھا ڈر کے مارے بھاگ لیتا ہے اور ساتھ ساتھ "کھاررر ۔۔۔۔کھارررر۔۔۔کھاررر" کی آوازیں بھی نکالتا جاتا ہے۔ چیتلوں کا ایک گروہ جو ہماری پہاڑی کے دوسری جانب چر رہا تھا وہ بھی اس شوروغل کو سُن لیتا ہے۔ مادائیں "اے ۔۔آؤ اے ۔۔۔آؤ" کی آوازوں سے ایکدوسرے کو خطرہ سے خبردار کرتی ہیں۔ دور کہیں سے ایک ہاتھی کی چنگھاڑ سُنائی دیتی ہے۔ اب اس سارے ہنگامے کو فرو ہونے میں کچھ دیر لگے گی۔ آئیں ہم اپنی چہل قدمی کو دوبارہ جاری رکھیں کیونکہ اب مزید چھپے رہنا بے مقصد ہے۔ سانبھر نے اسقدر غُل مچایا ہے کہ اب کوئی چیز اس طرف آنے کی نہیں۔
یہ جو تکونی سی پتیوں والی جھاڑی ہے جس کی پتیاں چائے کی پتیوں سے ملتی ہیں یہ صرف بلند مقامات پر ہی پائی جاتی ہے اور یہاں یہ جھاڑی کافی تعداد میں ہے۔ جوڑوں کے درد اور سوجن کے لئے اس کے پتے اکسیر ہیں۔ ان پتیوں کو پیس کر درد یا سوجن والی جگہ پر لگانے سے یا کس کر باندھ دینے سے افاقہ ہوجاتا ہے۔ اور یہ جو دورنگے پتوں والا بڑا سا درخت ہے جس کے پتے اوپر سے سبز اور نیچےسے نقرئی ہیں اگر اس کے پانچ پتوں کو کسی کٹ یا زخم پر اس طرح لگایا جائے کہ پتوں کا نقرئی حصہ زخم کے اوپر ہو تو بہت جلد آرام آ جاتا ہے۔ اور یہ جو پتھریلی زمین پر آپ کو بمشکل ایک فٹ اونچا پودا نظر آرہا ہے۔ یہ جس کے پتے نوکیلے ہیں۔ زہریلے سانپ کے کاٹے کا تریاق ہے۔ اور یہ جو سفید پھولوں والی بوٹی ہے، اس کی پتیوں کا رس زخم پر نچوڑنے سے خون بہنا بند ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بلند فشارِ خون کے علاج میں بھی اتنی ہی مؤثر ہے جتنا ڈاکٹر کی دی ہوئی کوئی بھی دوا۔

بلاشبہ جنگل انواع و اقسام کی ایسی جڑی بوٹیوں اور پودوں سے بھرا پڑا ہے جن کے پتے، پھول، بیج، ڈالیاں حتٰی کہ جڑیں تک نسلِ انسانی کو درپیش اکثر بیماریوں کا علاج ہیں۔ یہ جڑی بوٹیاں، جنگلوں، آبادیوں حتٰی کہ ریل کی پٹڑیوں تک میں اُگتی ہیں۔ اکثر آپ نے سفید اور گلابی پھولوں والی بوٹی دیکھی ہوگی جس کے پتے سبز ہوتے ہیں۔ عموماً یہ ریل کی پٹڑیوں کے قریب خوب پھلتی پھولتی ہے۔ اس کے چالیس پتے اگر جوش دیکر چائے کی طرح پانی یا دودھ کے ساتھ پی لئے جائیں تو اس سے پِتے کو انسولین خارج کرنے کے لئے تحریک ہوتی ہے۔ اس لئے یہ بوٹی ذیابیطس کے علاج میں استعمال ہوتی ہے۔ ذیابیطس پر قابو پانے کے لئے اور بھی جڑی بوٹیاں ہیں جو اس کے علاج میں کافی مؤثر ہیں۔ ایک خاص قسم کی بیل جسے "شکر مار" بھی کہتے ہیں، اگر اس کا ایک پتہ چبایا جائے تو اس کے بعد شکر آپ کے منہ میں ایسا ذائقہ دے گی جیسے آپ ریت چبا رہے ہیں۔ اس کا یہ اثر تقریباً تین گھنٹے تک رہتا ہے۔
ہم اصل موضوع سے ہٹ رہے ہیں اور اسی اثناء میں ہم نے پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ کر نیچے اترنا شروع کر دیا ہے۔ اب ہمیں محتاط ہو کر پیش قدمی کرنا ہوگی کیونکہ بعض جگہ ڈھلوان زیادہ ہے اور اگر ہمارے قدموں سے کوئی بھی پتھر لڑھکا یا کسی بھی قسم کی کوئی آواز نکلی تو چیتل کا وہ گروہ جو اب خاموش ہو چکا ہے یقیناً خبردار ہو جائے گا۔ خوش قسمتی سے ہوا ان کی جانب سے ہماری طرف چل رہی ہے اس لئے وہ ہماری بُو نہیں پاسکیں گے۔
پہاڑی سے اتر کر لینٹینا جھاڑی کے کانٹوں سے بچتے بچاتے پنجوں کے بل چلتے ہم ایک سرسبز و شاداب قطعہ زمین کے قریپ بہنچے ہیں جہاں چالیس کے قریب چیتل اطمینان سے گھاس چرنے میں مشغول ہیں۔ انہی کی ہمیں تلاش تھی۔ یہ خوش قسمتی رہی کہ ہماری آمد ماداؤں کی نظر سے اوجھل رہی اور ہم بروقت درختوں کے ایک چھوٹے سے جھنڈ کے قریب رُک گئے ہیں۔
ایک دلفریب منظر ہمارے سامنے ہے۔ اپنے پھیلے ہوئے نوکدار سینگ اٹھائے نر چیتل غول کے درمیان موجود ہیں۔ گھاس کا ہر لقمہ چَرنے سے پہلے وہ اپنا سر اُٹھا کر کسی ممکنہ خطرے کی بُو لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے چاروں اطراف ہرنیاں اور ان کے میمنے پھیلے ہوئے ہیں۔ اول الذکر ہمہ وقت چوکنی اور خبردار۔ کان آگے کی طرف کئے ہوئے ہلکی سے ہلکی آہٹ پا لینے کے لئے تیار۔ یہاں وہاں کہیں ایک سر اور گردن سُرعت کے ساتھ گھاس کا لقمہ لینے کے لئے زمین کی جانب غوطہ لگاتا ہے اور فوراً اوپر اُبھر آتا ہے۔
میمنے ایسی کسی بھی ذمہ داری سے مبراء ہیں اور نتیجتاً ان میں اکثر اچانک موت کے بے رحم ہاتھوں میں چلے جائیں گے تآنکہ بچ رہنے والوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے گی کہ ہمہ وقت ہوشیار اور چوکنا رہنا ہی جنگل میں بقا کا واحد اصول ہے۔ اس وقت میمنے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے گول گول بھاگنے میں مصروف ہیں۔ چند ایک انتہائی کمسن میمنے موقع غنیمت جان کر اپنی ماؤں کے تھنوں سے دودھ پی رہے ہیں اور ان کی مائیں کبھی کبھار گھاس چرنا چھوڑ کر اپنے بچوں کو لاڈ سے چاٹتی ہیں۔ لیکن اس پیار کے لمحہ کے دوران بھی وہ اپنے اردگرد سے غافل نہیں ہوتیں۔ ان کی آنکھیں تمام اطراف کا جائزہ لیتی ہوئیں، کان مدھم ترین آہٹ کو پالینے کو تیار اور نتھنے پھولے ہوئے کہ دشمن کی بُو کو پالیں۔
ان ہرنوں کے عین اوپر ایک درخت پر لنگوروں کا ایک غول موجود ہے۔ ان میں سے دو زمین پر اُتر کر میمنوں کے ساتھ پکڑن پکڑائی کھیلنے میں مشغول ہو گئے ہیں۔ پھر ایک لنگور چھلانگ لگا کر ایک جھُکی ہوئی شاخ پر چڑھ گیا ہے اور اپنی ٹانگوں سے لٹکتے ہوئے ایک میمنے کی دُم پکڑ کر اسے زمین سے قریباً آدھا اوپر اٹھا لیتا ہے۔ میمنے کو یہ کھیل پسند ہے لیکن اس کی ماں اس کھیل پر خوش نہیں دکھتی۔ الغرض ایک ایسا ماحول جس میں صرف خوبصورتی، امن اور سکون ہے۔
لیکن بائیں جانب اپنی آنکھوں کے کونوں سے ہمیں ایک انتہائی خفیف سی حرکت محسوس ہوتی ہے۔ یہ حرکت ایک بڑی جھاڑی کے نیچے ہوئی ہے۔ ہم دوبارہ غور سے اس طرف دیکھتے ہیں لیکن وہ حرکت اب معدوم ہو چکی ہے۔ یہ خفیف سی حرکت اس ہرنی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکی جو اپنے میمنے کے ساتھ اس جھاڑی کے قریب گھاس چر رہی ہے۔ اپنے سر کو فوراً اوپر اٹھاتے ہوئے وہ اس جھاڑی کو غور سے دیکھتی ہے۔ اس کے کان مکمل طور پر آگے کی طرف ہیں اور اس کے نتھنے پھڑپھڑا رہے ہیں۔ پھر اپنا دایاں پاؤں زمین پر مارتے ہوئے اس نے خطرے کی آواز نکالی "اے آؤ"۔ لیکن اب بہت دیر ہو جکی ہے۔ اول صبح کے اجالے میں اس جھاڑی کے نیچے سے ایک چمکتا ہوا سُنہرا لمبوترا جسم، جس پر سیاہ دھبے ہیں، نمودار ہوا اور دہ ہی چھلانگوں میں تیندوے نے میمنے کو جا لیا۔
اور پھر ہمیں ایک خوبصورت اور دل کو چھولینے والا مشاہدہ ہوا۔ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ہرنی اپنے بچے کو بچانے کے لئے دیوانہ وار آگے بڑھی۔ تیندوے نے بچے کو چھوڑ کر ماں پر جست لگائی اور اس کی شہہ رگ میں دانت گاڑ کر اسے زمین پر گرا دیا۔ جان کنی کے کرب میں ہرنی اپنے کھُر زور زور سے زمین پر مار رہی ہے اور اس کے حلق سے نکلنے والا خون گھاس کو رنگین کرتا جارہا ہے۔ اسی اثناء میں آپ نے اپنی دس گولیوں والی سپرنگ فیلڈ رائفل اٹھا کر تیندوے پر شست باندھ لی ہے تاکہ آپ اس سے اس جرم کا حساب لے سکیں جو آپ کے تئیں اس سے سرزد ہوا ہے۔ میں ہاتھ بڑھا کر آپ کی رائفل کی نال پرے کر دیتا ہوں۔ "جان!! گولی مت چلائیے۔ یہ جنگل کا قانون ہے۔ تیندوے نے ضرورتاً شکار کیا ہے تفریحاً نہیں۔" تیندوا پہلے میری آواز سُنتا ہے اور پھر اس نے ہمیں دیکھ بھی لیا ہے اور اگلے ہی لمحے وہ یہ جا وہ جا۔ لیکن وہ واپس آئے گا۔۔۔۔۔۔
 

خرم

محفلین
بیلندھر کا عفریت
بیلندھر ریاست میسور کے ضلع شموگا میں تگراٹھی سے قریباً تین میل دور ایک پہاڑی کی ڈھلوان پر واقع ہے۔ ریاست میسور کا یہ حصہ صدیوں سے شیروں کی آماجگاہ رہا ہے اور ایک وقت میں تو ان کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے تیندووں کو جو ان سے نسبتاً کمزور ہوتے ہیں، شکار کرکر کے ان کا قریباً صفایا کر دیا تھا حالانکہ اس سے قبل تیندوے بھی یہاں کافی تعداد میں پائے جاتے تھے اور اپنے عروج کے ایام میں انہوں نے بھی اس علاقے میں کافی اودھم مچایا تھا۔ تیندوا ایک چالاک اور نڈر شکاری ہوتا ہے اور شیر کی نسبت چھوٹی جسامت کا حامل ہونے کی وجہ سے نسبتاً چھوٹی سی جگہ میں بھی بخوبی چھُپ جاتا ہے اور اس وجہ سے انہیں ڈھونڈ نکالنا یا شکار کرنا مشکل ہوتا ہے۔ گزرے وقتوں میں راتوں کو یہ تیندوے گاؤں پر یلغار کرتے اور مرغی، کتے، بکری، بھیڑ، بچھڑے غرضیکہ جو ہاتھ لگتا لے اُڑتے۔ البتہ ان چند استثنیات کے سوا جب کوئی تیندوا زخمی ہو انسانوں کو کبھی ان تیندووں سے نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اور جب کبھی ایسا ہوتا بھی تو مون سون کے پروردہ گھنے جنگلات میں ایسے تیندوے کو شکار کرنا کافی مشکل ہوتا تھا۔
میری کہانی کا تعلق اس دور سے ہے جب اس علاقے میں شیروں کی حکمرانی تھی۔ ان دنوں بیلندھر میں ایک جادوگر رہا کرتا تھا جو ہر قسم کے جادو ٹونے کے لئے مشہور تھا۔ اس کی اصل وجہ شہرت تو وہ سفوف تھا جو محبوب کو آپ کے قدموں میں لانے کے لئے یا کسی ناپسندید شخص کو آپ سے دور بھگانے میں اکسیر سمجھا جاتا تھا لیکن نوکری کے حصول یا عدالتی مقدمہ میں کامیابی کے لئے بھی اس کے ٹونے اور منتر مؤثر سمجھے جاتے تھے۔ دیگر عملیات کے علاوہ وہ جنگل پر اپنا سحر طاری کرنے میں بھی مشہور تھا جس کے نتیجے میں ناکامی کسی بھی شکاری کا مقدر بنتی تھی۔ اول تو شکاری کو شکار ہی نہیں دکھائی دیتا اور اگر دکھائی دے بھی جاتا تو رائفل دغا دے جاتی اور اگر گولی بھی چل جاتی تو نشانہ خطا ہوجاتا۔ میں اس سے چند برس قبل ملا تھا اور اپنی کسی پہلی کہانی میں میں نے اس کا تذکرہ بھی کیا ہے (پڑھئے نو آدم خور اور ایک پاگل ہاتھی)۔ اپنی قبیل کے دوسرے افراد کی طرح بیلندھر کا ساحر بھی خوشامد پسند ہے۔ میرے تئیں تو وہ کافی خوش مزاج ہے اور اس کا خوشامد پسند ہونا مجھے بالکل نہیں کھُلتا اور ایسا ہو بھی کیوں؟ آخر ہم سب ہی کسی نہ کسی حد تک خوشامد پسند ہوتے ہیں۔
بیلندھر کے عفریت نے جس کے متعلق میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں، اپنی کاروائیوں کا آغاز ایک معمولی اور بے ضرر شیر کے طور پر کیا۔ بظاہر اس نے اپنی توجہ ہرن، جنگلی سؤر اور سانبھر کے شکار تک ہی محدود رکھی جو ان دنوں اس علاقے میں بکثرت پائے جاتے تھے۔ پھر ہوا یہ کہ حکومت نے دیہاتیوں کو مویشیوں کی افزائش کی ترغیب دینا شروع کی کیونکہ اس علاقے میں ہری بھری چراگاہوں کی بہتات تھی۔ تھوڑے ہی عرصہ میں مویشیوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی جس کا جنگلی ہرن، اور سؤر کی آبادی پر بُرا اثر پڑا جو پہلے ان چراگاہوں کے اکیلے مالک تھے۔ یہ حالات تھے جب عفریت نے، جیسا کہ اسے بعد میں پکارا گیا، اکا دکا مویشیوں کو شکار کرکے اپنی موجودی کا احساس دلانا شروع کیا۔ بیلندھر کے مویشیوں کا صحت مند اور نرم گوشت اسے اسقدر بھایا کہ بالآخر وہ جنگلی جانوروں کا شکار بالکل موقوف کرکے کل وقتی مویشی خور بن گیا۔ اس عفریت نے بیلندھر والوں سے اسقدر مہمان نوازی کروائی کہ بالآخر گاؤں والوں نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا سوچنا شروع کردیا۔
یہاں یہ بتانا نامناسب نہ ہوگا کہ ہندوستان کا دیہانی انتہائی صابر اور متحمل مزاج ہوتا ہے اور ہر مصیبت کو اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔ اب جب میں یہ کہوں کہ بیلندھر کے باشندوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تھا تو یقین کیجئے کہ عفریت نے واقعی حد کردی ہوگی۔ گاؤں والوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ عفریت کو ایک پھندا لگا کر قابو کیا جائے اور پھر مار دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے جانوروں کی گزرگاہ کے عین بیچ ایک چوکور گڑھا کھود کر اس کے دھانے کو لکڑیوں اور پتوں سے ڈھانپا اور گڑھے کے دوسرے کنارے کے قریب گاؤں کے سب سے مریل بچھڑے کو کھونٹے سے بطور چارہ باندھ دیا۔ شیر کی کسی اور طرف سے آمد کے امکان کو معدوم کرنے کے لئے باقی اطراف میں کانٹوں کی باڑ لگا کر ایسا بندوبست کیا گیا کہ شیر کے پاس بچھڑے کو شکار کرنے کا صرف ایک ہی راستہ بچے۔ ہر چیز گاؤں والوں کی توقع کے عین مطابق وقوع پذیر ہوئی اور قریباً ایک تہائی رات گزری تھی کہ شیر پھندے میں گر گیا۔
اگلی صبح بیلندھر کے تمام مکین ایک اندازِ فاتحانہ میں اپنے قابلِ نفرین دشمن کی خبر لینے جائے وقوعہ پہنچے۔ ان کا ارادہ تھا کہ پہلے تو شیر پر جلتی مشعلیں پھینک کر اسے اس کی حرکتوں کا مزا چکھائیں گے اور پھر اوپر سے نیزے گھونپ کر اسے ہلاک کردیں گے۔ شیر کو مارنے کا یہ طریقہ سُست تو تھا لیکن بظاہر بیلندھر کے باسیوں کے پاس کوئی بندوق دستیاب نہیں تھی اور رہی بات اس سب کچھ کے ظالمانہ ہونے کی تو اس کا انہیں خیال بھی نہ تھا کہ آخر یہ وہی شیر تو تھا جس نے ان کے بے شمار جانور ہڑپ کئے تھے۔
اب ناصرف یہ کہ بیلندھر کے باسیوں کے پاس کوئی بندوق نہ تھی نیزوں کے معاملے میں بھی ان کا حال کافی پتلا تھا۔ مجھے بعد میں علم ہوا کہ صرف دو اشخاص کے پاس نیزے یا یوں کہئے کہ نیزے سے ملتے جُلتے اوزار تھے جنہیں رعایتی طور پر نیزہ شمار کیا جا سکتا تھا۔ ان میں سے ایک نمونہ تو قریباً چار فٹ لمبا تھا اور اس کی دھار بھی مکمل طور پر کُند ہو چُکی تھی۔ دوسرا البتہ ایک باقاعدہ نیزہ تھا اور مقامی مندر کی ملکیت تھا۔ اس کی وجہ شہرت یہ تھی کہ کوئی اڑھائی صدی قبل اسے کسی جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔ البتہ موجودہ ایام میں اس کا واحد استعمال زمین سے شکر قندیاں کھود کر نکالنا تھا اور اس وجہ سے اس کی دھار بھی مکمل کُند تھی۔ ان دونوں ہتھیاروں کی دستیاں بھی اتنی طویل نہ تھیں کہ گڑھے کے کنارے سے شیر تک پہنچ سکیں لیکن کسی کو بھی اس بات کی پرواہ نہ تھی اور ان ہتھیاروں کے مالکان پُر یقین تھے کہ ان ہتھیار کے ایک ہی وار سے شیر کا کام تمام ہو جائے گا۔
ایک خاصی دھواں دھار بحث کے بعد، نجانے کس بنیاد پر، لیکن فیصلہ یہ قرار پایا کہ چھوٹی لاٹھ والے صاحب شیر پر پہلا وار کریں گے۔ احتیاط سے نشانہ باندھتے ہوئے انہوں نے اپنا ہتھیار شیر کی جانب پھینکا لیکن ہتھیار کا رُخ ہاتھ سے نکلتے ہی بدل گیا اور بجائے اس کی انی کے شیر سے ٹکرانے کے، اس کا ڈنڈا شیر کے پہلو سے جا ٹکرایا۔ قدرتی طور پر شیر نے اس سلوک کو اپنے شایانِ شان نہیں سمجھا اور جواباً ایک زوردار دھاڑ لگائی اور اپنے حملہ آوروں کو قہر آلود نظروں سے گھورا۔ بھانت بھانت کی بولیوں کے درمیان اب دوسرے ہتھیار کے مالک نے اپنے شکست خوردہ رقیب کی طرف استہزائیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے شیر پر وار کرنے کی تیاری پکڑی۔ اڑھائی سو برس پُرانا نیزہ ہوا میں اُڑتا ہوا کامیابی کے ساتھ شیر کی ران میں پیوست ہوگیا۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی اب بیلندھر مکمل طور پر غیر مسلح تھا اور عفریت کی قوت برداشت جواب دے چُکی تھی۔ ناقابلِ یقین توانائی کے ساتھ اس نے گڑھے سے باہر نکلنے کے لئے جست کی اور اس کے آگے کو پھیلے ہوئے پنجوں نے گڑھے کے کناروں کی مٹی کو جا لیا۔ ناصرف یہ کہ اس کے پنجے کنارے تک پہنچ گئے بلکہ کامیابی کے ساتھ زمین میں گڑ بھی گئے۔ دپچھلی ٹانگوں کو دیوانہ وار ہوا میں چلاتے ہوئے اس کی ٹانگیں گڑھے کی دیوار سے ٹکرائیں اور اس کا سہارا لیتے ہوئے اگلی ہی چھلانگ میں شیر گڑھے سے باہر تھا۔
اب وہ تمام شیردل جو کچھ دیر پہلے تک شیر کو تڑپا تڑپا کر مارنے کے درپے تھے، حالات کی اس تبدیلی پر جدھر جس کا مُنہ اٹھا بھاگ لئے۔ تمام ماسوائے ایک شخص کے جو مارے خوف کے حرکت کرنے سے قاصر ہوگیا تھا۔ اپنی آزادی میں صرف ایک شخص کو حائل دیکھ کر عفریت نے ایک جست لگائی اور اس آدمی کے اوپر سے ہوتا ہوا جنگل میں یہ جا وہ جا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس آخری جست کے دوران شیر کی پچھلی ٹانگوں پنجے اس آدمی کی کھوپڑی کے پچھلے حصے سے ٹکرائے اور شیر کی طاقت اور وزن نے باقی کا کام کر دیا۔ اس عمل کے نتیجہ میں اس آدمی کی کھوپڑی انتہائی صفائی کے ساتھ ہڈی سے علیحدہ ہو کر اس کی آنکھوں کے سامنے آ لٹکی۔ اس کے لمبے بال اس کی کمر کی بجائے اس کی آنکھوں کے سامنے لہرا رہے تھے۔ اس سارے عمل کے دوران یہ آدمی زمین پر گر گیا تھا لیکن زندہ تھا۔ اپنی زندگی کے آخری تین روز اس آدمی نے ہر لحظہ اس امید میں گزارے کہ اس کی کھوپڑی اپنی جگہ پر واپس رکھ دی جائے گی۔ اس طرح حادثاتی طور پر بیلندھر کے عفریت نے اپنا پہلا انسانی شکار کیا۔
 
Top