سید شہزاد ناصر
محفلین
نواب حافظ سرمحمد احمد خاں /عبدالمجید قریشی
…
(حصّہ اول)
متحدہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈریڈنگ 1926ء میں اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے اختتام پر انگلستان واپس جانے لگے تو انہوں نے اپنی الوداعی پارٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا: میں ہندوستان میں دو چیزیں ایسی چھوڑے جارہا ہوں جو مجھے انگلستان میں تازندگی نصیب نہ ہوں گی، ان میں سے پہلی چیز وائسرائے کی سفید رنگ کی خوبصورت اسپیشل ریلوے ٹرین ہے جس میںآ رام و آسائش کی جملہ سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ دوسری چیز والیانِ ریاست کی جانب سے کیا جانے والا شاہانہ استقبال اور ہمارے اعزاز میں دی جانے والی شاندار ضیافتیں جن میں شکار کی دلچسپ مہمات خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ شکار چھوٹا اور بڑا دونوں قسموں کا ہوتا تھا۔ اور والیانِ ریاست جن میں راجے، مہاراجے اور نواب شامل تھے، کی طرف سے یہ کوشش کی جاتی تھی کہ شکار کی یہ مہمات پوری پوری دلچسپی کی حامل ہوں تاکہ وائسرائے ہند اور دوسرے معزز مہمان ان سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکیں اور اُنہیں میزبانوں سے کسی قسم کا شکوہ شکایت نہ ہونے پائے۔
والیانِ ریاست کے مشاغل اپنی اپنی طبیعتوں کے لحاظ سے مختلف واقع ہوئے تھے، تاہم شکار واحد مشغلہ تھا جو ان سب صاحبان کا مشترکہ تھا۔ شکار کی دنیا سے ان سب کو گہری دلچسپی تھی اور وائسرائے ہند ہو یا کہ صوبے کا گورنر یا کوئی والیٔ ریاست یا کوئی معزز مہمان وہ ان سب کو شکار کی مہمات میں شریک کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ شکار گویا ان کی گھٹی میں پڑاہوا تھا۔ بچپن ہی سے ان کے ہاتھوں میں بندوقیں اور رائفلیں تھمادی جاتی تھیں۔ پھر وہ آہستہ آہستہ مشاق ہوجاتے تھے۔ میں نے کئی مواقع پر دیکھا کہ چونی یا اٹھنّی کا سکہ فضا میں اُچھالا جاتا تھا اور جب وہ نیچے کی طرف آتا تو اس پر چھوٹے بور کی رائفل سے نشانہ لگایا جاتا جو اکثر و بیشتر کامیاب رہتا۔ ہم شکار کی مختلف نوعیتوں اور شکاری مہمات کے متعلق آگے چل کر کچھ تفصیلی گفتگو کریں گے۔ سردست شکار کے موضوع کے علاوہ والیانِ ریاست کی بعض دوسری دلچسپیوں کے متعلق بھی بات چیت ہوجائے۔ والیانِ ریاست میں سے بعض حضرات گھڑ دوڑ کے زبردست شوقین تھے۔ مہاراجہ صاحب راج پیپلا بھی ان میں ایک تھے، ان کے ہاں ایک ایسا گھوڑا بھی موجود تھا جو ڈربی (انگلستان) کی مشہورِ زمانہ گھڑدوڑ میں جیتا ہوا تھا اور ’’ڈربی ونر‘‘ کہلاتا تھا۔ مہاراجہ صاحب بڑو دانے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے انگلستان سے خطیر رقمیں خرچ کرکے سال سال، دو دو سال کی عمر کے بہت سے بچھیرے خریدے ہوئے تھے اور ان کی اپنے اصطبل میں بڑے اہتمام کے ساتھ پرورش کرکے گھڑدوڑ کے لیے تیار کرتے تھے۔ میں کبھی کبھی بمبئی کے مشہور ریس کورس کے میدان مہالکشمی جاتا تو وہاں زعفرانی رنگ کی جھولوں سے مزین جو شاندار گھوڑے نظر آتے تھے، میں اُن کو فوراً پہچان لیتا کہ یہ گھوڑے مہاراجہ صاحبان کولھا پور، گوالیار اور کشمیر کے سوا اور کسی کے نہیں ہیں۔
یہ گھوڑے نہایت تیز طرار تھے اور ’’کنگ ایمپرزکپ‘‘ اور ایسی ہی دوسری باوقار ٹرافیوں کے حصول کی خاطر گھڑدوڑ کے میدان میں اُترتے تھے۔
مہاراجہ صاحب نواں نگر نے جنہیں جام صاحب نواں نگر بھی کہتے تھے کرکٹ کے کھیل میں ’’رنجی‘‘ کے نام سے بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے عزیز دلیپ سنگھ اور نواب صاحب پاٹودی نے بھی کرکٹ میں بڑا نام پایا تھا۔ نواب صاحب نے کئی مرتبہ غیر ممالک میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں میں مہاراجہ صاحب پور بندر کا نام بھی آتا ہے۔ وہ بھی ایک مرتبہ اپنی کپتانی میںہندوستانی کرکٹ ٹیم لے کر انگلستان گئے تھے۔ مہاراجہ بھوپندرا سنگھ آف پٹیالہ اور ان کے صاحبزادے مہاراجہ یا دواندرسنگھ بھی مسلسل دونسلوں تک کرکٹ کے میدانوں میں اندرون اور بیرونِ ملک ناموری حاصل کرتے رہے تھے۔
والیانِ ریاست میں مجھے فٹ بال اور ہاکی کا کوئی بھی کھلاڑی نظر نہیں آتا البتہ وہ ان کھیلوں کی پوری پوری سرپرستی کرتے تھے اور ممتاز کھلاڑیوں کو اپنا ایڈی کانگ تک رکھ لیتے تھے یا پھر محکمۂ پولیس اور فوج میں اعلیٰ عہدوں سے نوازتے تھے۔ جام صاحب نواں نگر کرکٹ کے علاوہ لان ٹینس کے بھی اچھے کھلاڑی تھے، جبکہ مہاراجہ صاحب اوڑچھا اور نواب صاحب جاورہ کا محبوب کھیل گولف تھا۔ ریاست بھوپال اور ریاست جودھپور میں صاف شفاف پانی سے لبریز بڑی بڑی جھیلیں تھیں جن میں موقع بہ موقع چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی دوڑیں ہوتی تھیں اور جیتنے والوں کو بھاری بھرکم انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ مجھے بھی چاندی کا کپ ملتے ملتے رہ گیا لیکن وہ میرے سیکریٹری کے مقدر میں تھا اور وہ اسے لے اُڑا۔ ہوا یوں کہ بھوپال میں ایک دفعہ کشتیوں کی دوڑ کا ہفتہ منایا گیا۔ مقابلے میں شرکت کا دعوت نامہ مجھے بھی ملا لیکن میں نے اپنی ناتجربہ کاری اور نااہلیت کی بنا پر اس مقابلے میں حصہ لینے سے انکار کردیا البتہ میرے سکریٹری نے یہ دعوت نامہ قبول کرلیا اور مقابلے میں شریک ہوگیا سیکریٹری بھی اگرچہ میری طرح نا تجربہ کار اور اناڑی تھا جیسا کہ بعد ازاں معلوم ہوا۔ اُس کو کشتی چلانے سے کوئی سرورکار نہ تھا۔ کشتی چلانے والا تو ایک مقامی تجربہ کار ملاح تھا جس نے بڑی محنت سے کشتی دوڑائی اور مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہا۔ سکریٹری تو کشتی میں صرف بیٹھ جانے کا ذمہ دار تھا یا پھر سلور کیپ جیت لینے کا حق دار!بہرحال مجھے افسوس ضرور ہوا۔ ان جھیلوں پر مرغابیاں ہزاروں کی تعداد میں ملتی تھیں چنانچہ اُن کا شکار بھی اتنی کثیر تعداد میں کیا جاتا تھا کہ رکھنے کو جگہ نہ ملتی تھی اور اس طرح غریبوں اور ملازموں کے مزے ہوجاتے تھے۔ یہاں شکار کا لطف میں نے بھی بارہا اٹھایا۔پولو کے کھیل کے تو والیانِ ریاست ہمیشہ ہی شیدائی رہے۔انہوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں اس کھیل کے لیے وسیع و عریض میدان تیار کرائے ہوئے تھے اور اعلیٰ درجوں کے گھوڑوں کا انتخاب کیا ہوا تھا ۔ اگر چہ راجے، مہاراجے اور نواب صاحبان سب اپنی اپنی جگہ مہارت کی نمائش کرتے تھے تاہم اس کھیل کی تاریخ میں نواب صاحب بھوپال، مہاراجہ صاحب جے پور اور رتلام کے نام نامور کھلاڑیوں کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ مہاراجہ رتلام تو ایک مرتبہ برٹش پولوٹیم کے مشیر اعلیٰ بن کر اس ٹیم کے ہمراہ امریکہ بھی گئے تھے اور وہاں اُنہوں نے کمالِ فن کا جوشان دار مظاہرہ کیا اُسے اس کھیل کے امریکی ماہرین نے بھی تحسین و آفرین کے کلمات سے نوازا تھا۔
اپنی ریڈینسی کے زیر اہتمام دوچار ریاستوں میں مجھے نیزہ بازی کے کمالات بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طورپر ریاست جو دھپور کے سردار اس فن میں طاق دیکھے، لیکن جن صاحب کی مہارتِ فنّی نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا وہ مہاراجہ صاحب ریاست دیواس تھے۔ مہاراجہ صاحب انتہائی تیز رفتاری سے گھوڑا دوڑاتے ہوئے پھرتی اور صفائی کے ساتھ میخ نکال کر لے جاتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ ایسے موقعوں پر وہ مجھے خاص طور پر مدعو کرتے تھے اور میرے بیٹھنے کے لیے قریبی پہاڑی پر اہتمام کرتے تھے جہاں سے میں دوربین آنکھوںسے لگائے اُنہیں بے اختیار داد دیتا تھا۔
ایک مرتبہ والیٔ بھوپال نواب سرحمید اللہ خاں کا قیام بہ سلسلۂ شکار اپنی ریاست کے بہترین جنگل میں تعمیر شدہ ایک بنگلے میں تھا۔ میں ایک روز اُن کی ریاست میں سے پچاس میل دور ایک دوسری ریاست کا دورہ کرنے کی غرض سے گزررہا تھا۔ اُنہیں میرے پروگرام کا علم ہوا تو انہوں نے مجھے ایک خصوصی پیغام بھیجا کہ میں اُن کے ساتھ لنچ کیے بغیر وہاں سے نہ گزروں۔ میرے پاس اگرچہ وقت بہت ہی محدود تھا لیکن میں نواب صاحب کی محبت سے متاثر ہوکر اُن کی شکارگاہ پہنچا۔ ہم ابھی لنچ کی میز پر ہی تھے کہ نواب صاحب کو قریب ہی ایک شیر کی موجودگی کی خبر ملی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ بھی شکار کی اس مہم میں میرا ساتھ دیں۔ میں نے وقت کی قلت کے پیش نظر معذرت چاہی لیکن وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ وہ مجھے آدھ گھنٹے کے اندر اندر فارغ کردیں گے۔ مجھے یقین تو نہ تھا۔ مجھے شکار کی سابقہ مہمات کا تجربہ تھا کہ وہاں وقت کس طرح آہستہ آہستہ گزرتا جاتا ہے۔ تاہم میں نے اُن کے بے حداصرار پر سرجھکادیا۔ ہم ایک تیز رفتار موٹر کار میںد وچار منٹ میں ایک پہاڑی کے دامن میں پہنچ گئے۔ ہم نے اس عرصے میں کوئی چار سو گز کا فاصلہ طے کیا ہوگا۔ وہاں درختوں کے جھنڈ میں ایک مضبوط مچان بندھی ہوئی تھی۔ ہمارے پہنچتے ہی ہانکا شروع ہوگیا۔ نواب صاحب نے ایک رائفل مجھے بھی تھمادی اور کہا کہ پہل وہ کریں گے۔ ہانکا شروع ہوئے پندرہ منٹ گزر چکے تھے لیکن شیر کا انتظار ہی رہا۔ مایوسی کے ساتھ مجھے وقت گزرنے کا احساس بھی ہورہا تھا۔ اس پریشانی میں اچانک نواب صاحب نے آہستہ سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شیر ہمارے سامنے کی ایک سمت درختوں کی قطاروں کے ساتھ ساتھ ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ ایک لمحے کو ٹھیرتا اور دیکھتا اور سوچتا کہ کدھر جائوں لیکن پھر چل پڑتا۔ اب فاصلہ تیس گز کے قریب رہ گیا تھا۔ میں نے نشانہ لے کر فائر کردیا۔ نشانہ انتہائی کامیاب رہا۔ شیر کچھ دیر دھاڑتا رہا اور پھر دم توڑ گیا۔ ہم نے درندے کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ بڑی عمدہ کھال کامالک ہے۔ ناپا تو ساڑھے نو فٹ نکلا جو بہت معقول تھا۔ کیمرہ بھی موجود تھا۔ ہم نے تصویر کھنچوائی اور نواب صاحب کا شکریہ ادا کرکے رخصت ہوئے۔ گھڑی دیکھی تو اس پوری مہم میں صرف اکتیس (31) منٹ صرف ہوئے یعنی نواب صاحب کے مقرر کردہ وقت( تیس30) منٹ سے صرف ایک منٹ زیادہ!
شکار کی ایک دوسری مہم میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی کبھی ایک شیر دوسرے مردہ شیر کا گوشت بھی کھالیتا ہے۔ ہوا یوں کہ کچھ عرصے پہلے ہم نے ایک کٹڑاباندھا جو مارا گیا۔ شیر نے اُس کا کچھ حصہ کھایا اور باقی کو گھاس میںچھپا کر چلا گیا۔ ہمیں معلوم ہوا تو ہم نے قریب ہی مچان بندھوائی اور اُس پر بیٹھ گئے۔ شیر مغرب سے کچھ پہلے آگیا۔ ہمارے رفیقِ شکار نے گولی چلائی۔ نشانہ کامیاب رہا اور شیر گرگیا۔ ہم شیر کو چھوڑ کر چلے گئے۔ صبح آئے تو دیکھا کہ یہ شیر بھی نرتھا اور نوفٹ دس انچ ناک سے دم تک تھا۔ وہاں دوسرے شیر کے پائوں کے نشانات بھی تھے۔ یہ زندہ شیر رات کو مردہ شیر کو اُٹھاکر پرے لے گیا تھا۔ قیاس یہ ہے کہ رات کو کسی وقت دوسرا شیر آیا تو اوّل بھوک میں مردہ شیر کا گوشت کھایا اورجو کچھ بچا اُسے لے کر چل دیا۔انسان شیر سے ضرور ڈرتا ہے مگر شیر بھی انسان سے کچھ کم نہیں ڈرتا۔چنانچہ قریب سے آمنا سامنا ہوجائے تو برابر اُس کی طرف دیکھتے رہنا چاہیے پھر شیر کو حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی لیکن منہ موڑ کر بھاگنے سے اُسے ہمت ہوجاتی ہے کہ یہ ڈرگیا ہے، اور وہ حملہ کر بیٹھتا ہے۔ اس لیے اگرپیچھے ہٹ جانا ہی پڑجائے تو ایک ایک قدم آہستہ آہستہ ہٹنا چاہیے لیکن نظرشیر پر رہے۔ اگر شیر حملہ آور ہو تو جو چیز آپ کے پاس ہو اُس کی جانب پھینک دینی چاہیے مثلاً کوٹ، ٹوپی، چادر وغیرہ، تو شیر کا حملہ پہلے اُس پر ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بچانے یا گولی چلانے کے لیے موقع مل جاتا ہے۔ سوائے آدم خور شیر کے جم کاربٹ عام طور پر ہر شیر کو نہیں مارتے تھے البتہ سینماکے لیے تصویر ضرور لیتے رہتے تھے۔
اس سلسلے میں نواب صاحب نے کرنل جم کاربٹ کا ایک واقعہ اس طرح تحریر کیا ہے کہ کمایوں میں ایک شیر مردم خور ہوگیا۔ یہ اُس کی تلاش میں نکلے لیکن باوجود کئی شیر مارے جانے کے یہ موذی بچ جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ایک روز وہ اس کی تلاش میں سرگرداں تھے اور ایک خشک پہاڑی نالے سے اُتررہے تھے۔
(جاری ہے)
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/39994
…
(حصّہ اول)
متحدہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈریڈنگ 1926ء میں اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے اختتام پر انگلستان واپس جانے لگے تو انہوں نے اپنی الوداعی پارٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا: میں ہندوستان میں دو چیزیں ایسی چھوڑے جارہا ہوں جو مجھے انگلستان میں تازندگی نصیب نہ ہوں گی، ان میں سے پہلی چیز وائسرائے کی سفید رنگ کی خوبصورت اسپیشل ریلوے ٹرین ہے جس میںآ رام و آسائش کی جملہ سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ دوسری چیز والیانِ ریاست کی جانب سے کیا جانے والا شاہانہ استقبال اور ہمارے اعزاز میں دی جانے والی شاندار ضیافتیں جن میں شکار کی دلچسپ مہمات خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ شکار چھوٹا اور بڑا دونوں قسموں کا ہوتا تھا۔ اور والیانِ ریاست جن میں راجے، مہاراجے اور نواب شامل تھے، کی طرف سے یہ کوشش کی جاتی تھی کہ شکار کی یہ مہمات پوری پوری دلچسپی کی حامل ہوں تاکہ وائسرائے ہند اور دوسرے معزز مہمان ان سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکیں اور اُنہیں میزبانوں سے کسی قسم کا شکوہ شکایت نہ ہونے پائے۔
والیانِ ریاست کے مشاغل اپنی اپنی طبیعتوں کے لحاظ سے مختلف واقع ہوئے تھے، تاہم شکار واحد مشغلہ تھا جو ان سب صاحبان کا مشترکہ تھا۔ شکار کی دنیا سے ان سب کو گہری دلچسپی تھی اور وائسرائے ہند ہو یا کہ صوبے کا گورنر یا کوئی والیٔ ریاست یا کوئی معزز مہمان وہ ان سب کو شکار کی مہمات میں شریک کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ شکار گویا ان کی گھٹی میں پڑاہوا تھا۔ بچپن ہی سے ان کے ہاتھوں میں بندوقیں اور رائفلیں تھمادی جاتی تھیں۔ پھر وہ آہستہ آہستہ مشاق ہوجاتے تھے۔ میں نے کئی مواقع پر دیکھا کہ چونی یا اٹھنّی کا سکہ فضا میں اُچھالا جاتا تھا اور جب وہ نیچے کی طرف آتا تو اس پر چھوٹے بور کی رائفل سے نشانہ لگایا جاتا جو اکثر و بیشتر کامیاب رہتا۔ ہم شکار کی مختلف نوعیتوں اور شکاری مہمات کے متعلق آگے چل کر کچھ تفصیلی گفتگو کریں گے۔ سردست شکار کے موضوع کے علاوہ والیانِ ریاست کی بعض دوسری دلچسپیوں کے متعلق بھی بات چیت ہوجائے۔ والیانِ ریاست میں سے بعض حضرات گھڑ دوڑ کے زبردست شوقین تھے۔ مہاراجہ صاحب راج پیپلا بھی ان میں ایک تھے، ان کے ہاں ایک ایسا گھوڑا بھی موجود تھا جو ڈربی (انگلستان) کی مشہورِ زمانہ گھڑدوڑ میں جیتا ہوا تھا اور ’’ڈربی ونر‘‘ کہلاتا تھا۔ مہاراجہ صاحب بڑو دانے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے انگلستان سے خطیر رقمیں خرچ کرکے سال سال، دو دو سال کی عمر کے بہت سے بچھیرے خریدے ہوئے تھے اور ان کی اپنے اصطبل میں بڑے اہتمام کے ساتھ پرورش کرکے گھڑدوڑ کے لیے تیار کرتے تھے۔ میں کبھی کبھی بمبئی کے مشہور ریس کورس کے میدان مہالکشمی جاتا تو وہاں زعفرانی رنگ کی جھولوں سے مزین جو شاندار گھوڑے نظر آتے تھے، میں اُن کو فوراً پہچان لیتا کہ یہ گھوڑے مہاراجہ صاحبان کولھا پور، گوالیار اور کشمیر کے سوا اور کسی کے نہیں ہیں۔
یہ گھوڑے نہایت تیز طرار تھے اور ’’کنگ ایمپرزکپ‘‘ اور ایسی ہی دوسری باوقار ٹرافیوں کے حصول کی خاطر گھڑدوڑ کے میدان میں اُترتے تھے۔
مہاراجہ صاحب نواں نگر نے جنہیں جام صاحب نواں نگر بھی کہتے تھے کرکٹ کے کھیل میں ’’رنجی‘‘ کے نام سے بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے عزیز دلیپ سنگھ اور نواب صاحب پاٹودی نے بھی کرکٹ میں بڑا نام پایا تھا۔ نواب صاحب نے کئی مرتبہ غیر ممالک میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں میں مہاراجہ صاحب پور بندر کا نام بھی آتا ہے۔ وہ بھی ایک مرتبہ اپنی کپتانی میںہندوستانی کرکٹ ٹیم لے کر انگلستان گئے تھے۔ مہاراجہ بھوپندرا سنگھ آف پٹیالہ اور ان کے صاحبزادے مہاراجہ یا دواندرسنگھ بھی مسلسل دونسلوں تک کرکٹ کے میدانوں میں اندرون اور بیرونِ ملک ناموری حاصل کرتے رہے تھے۔
والیانِ ریاست میں مجھے فٹ بال اور ہاکی کا کوئی بھی کھلاڑی نظر نہیں آتا البتہ وہ ان کھیلوں کی پوری پوری سرپرستی کرتے تھے اور ممتاز کھلاڑیوں کو اپنا ایڈی کانگ تک رکھ لیتے تھے یا پھر محکمۂ پولیس اور فوج میں اعلیٰ عہدوں سے نوازتے تھے۔ جام صاحب نواں نگر کرکٹ کے علاوہ لان ٹینس کے بھی اچھے کھلاڑی تھے، جبکہ مہاراجہ صاحب اوڑچھا اور نواب صاحب جاورہ کا محبوب کھیل گولف تھا۔ ریاست بھوپال اور ریاست جودھپور میں صاف شفاف پانی سے لبریز بڑی بڑی جھیلیں تھیں جن میں موقع بہ موقع چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی دوڑیں ہوتی تھیں اور جیتنے والوں کو بھاری بھرکم انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ مجھے بھی چاندی کا کپ ملتے ملتے رہ گیا لیکن وہ میرے سیکریٹری کے مقدر میں تھا اور وہ اسے لے اُڑا۔ ہوا یوں کہ بھوپال میں ایک دفعہ کشتیوں کی دوڑ کا ہفتہ منایا گیا۔ مقابلے میں شرکت کا دعوت نامہ مجھے بھی ملا لیکن میں نے اپنی ناتجربہ کاری اور نااہلیت کی بنا پر اس مقابلے میں حصہ لینے سے انکار کردیا البتہ میرے سکریٹری نے یہ دعوت نامہ قبول کرلیا اور مقابلے میں شریک ہوگیا سیکریٹری بھی اگرچہ میری طرح نا تجربہ کار اور اناڑی تھا جیسا کہ بعد ازاں معلوم ہوا۔ اُس کو کشتی چلانے سے کوئی سرورکار نہ تھا۔ کشتی چلانے والا تو ایک مقامی تجربہ کار ملاح تھا جس نے بڑی محنت سے کشتی دوڑائی اور مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہا۔ سکریٹری تو کشتی میں صرف بیٹھ جانے کا ذمہ دار تھا یا پھر سلور کیپ جیت لینے کا حق دار!بہرحال مجھے افسوس ضرور ہوا۔ ان جھیلوں پر مرغابیاں ہزاروں کی تعداد میں ملتی تھیں چنانچہ اُن کا شکار بھی اتنی کثیر تعداد میں کیا جاتا تھا کہ رکھنے کو جگہ نہ ملتی تھی اور اس طرح غریبوں اور ملازموں کے مزے ہوجاتے تھے۔ یہاں شکار کا لطف میں نے بھی بارہا اٹھایا۔پولو کے کھیل کے تو والیانِ ریاست ہمیشہ ہی شیدائی رہے۔انہوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں اس کھیل کے لیے وسیع و عریض میدان تیار کرائے ہوئے تھے اور اعلیٰ درجوں کے گھوڑوں کا انتخاب کیا ہوا تھا ۔ اگر چہ راجے، مہاراجے اور نواب صاحبان سب اپنی اپنی جگہ مہارت کی نمائش کرتے تھے تاہم اس کھیل کی تاریخ میں نواب صاحب بھوپال، مہاراجہ صاحب جے پور اور رتلام کے نام نامور کھلاڑیوں کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ مہاراجہ رتلام تو ایک مرتبہ برٹش پولوٹیم کے مشیر اعلیٰ بن کر اس ٹیم کے ہمراہ امریکہ بھی گئے تھے اور وہاں اُنہوں نے کمالِ فن کا جوشان دار مظاہرہ کیا اُسے اس کھیل کے امریکی ماہرین نے بھی تحسین و آفرین کے کلمات سے نوازا تھا۔
اپنی ریڈینسی کے زیر اہتمام دوچار ریاستوں میں مجھے نیزہ بازی کے کمالات بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طورپر ریاست جو دھپور کے سردار اس فن میں طاق دیکھے، لیکن جن صاحب کی مہارتِ فنّی نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا وہ مہاراجہ صاحب ریاست دیواس تھے۔ مہاراجہ صاحب انتہائی تیز رفتاری سے گھوڑا دوڑاتے ہوئے پھرتی اور صفائی کے ساتھ میخ نکال کر لے جاتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ ایسے موقعوں پر وہ مجھے خاص طور پر مدعو کرتے تھے اور میرے بیٹھنے کے لیے قریبی پہاڑی پر اہتمام کرتے تھے جہاں سے میں دوربین آنکھوںسے لگائے اُنہیں بے اختیار داد دیتا تھا۔
ایک مرتبہ والیٔ بھوپال نواب سرحمید اللہ خاں کا قیام بہ سلسلۂ شکار اپنی ریاست کے بہترین جنگل میں تعمیر شدہ ایک بنگلے میں تھا۔ میں ایک روز اُن کی ریاست میں سے پچاس میل دور ایک دوسری ریاست کا دورہ کرنے کی غرض سے گزررہا تھا۔ اُنہیں میرے پروگرام کا علم ہوا تو انہوں نے مجھے ایک خصوصی پیغام بھیجا کہ میں اُن کے ساتھ لنچ کیے بغیر وہاں سے نہ گزروں۔ میرے پاس اگرچہ وقت بہت ہی محدود تھا لیکن میں نواب صاحب کی محبت سے متاثر ہوکر اُن کی شکارگاہ پہنچا۔ ہم ابھی لنچ کی میز پر ہی تھے کہ نواب صاحب کو قریب ہی ایک شیر کی موجودگی کی خبر ملی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ بھی شکار کی اس مہم میں میرا ساتھ دیں۔ میں نے وقت کی قلت کے پیش نظر معذرت چاہی لیکن وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ وہ مجھے آدھ گھنٹے کے اندر اندر فارغ کردیں گے۔ مجھے یقین تو نہ تھا۔ مجھے شکار کی سابقہ مہمات کا تجربہ تھا کہ وہاں وقت کس طرح آہستہ آہستہ گزرتا جاتا ہے۔ تاہم میں نے اُن کے بے حداصرار پر سرجھکادیا۔ ہم ایک تیز رفتار موٹر کار میںد وچار منٹ میں ایک پہاڑی کے دامن میں پہنچ گئے۔ ہم نے اس عرصے میں کوئی چار سو گز کا فاصلہ طے کیا ہوگا۔ وہاں درختوں کے جھنڈ میں ایک مضبوط مچان بندھی ہوئی تھی۔ ہمارے پہنچتے ہی ہانکا شروع ہوگیا۔ نواب صاحب نے ایک رائفل مجھے بھی تھمادی اور کہا کہ پہل وہ کریں گے۔ ہانکا شروع ہوئے پندرہ منٹ گزر چکے تھے لیکن شیر کا انتظار ہی رہا۔ مایوسی کے ساتھ مجھے وقت گزرنے کا احساس بھی ہورہا تھا۔ اس پریشانی میں اچانک نواب صاحب نے آہستہ سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شیر ہمارے سامنے کی ایک سمت درختوں کی قطاروں کے ساتھ ساتھ ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ ایک لمحے کو ٹھیرتا اور دیکھتا اور سوچتا کہ کدھر جائوں لیکن پھر چل پڑتا۔ اب فاصلہ تیس گز کے قریب رہ گیا تھا۔ میں نے نشانہ لے کر فائر کردیا۔ نشانہ انتہائی کامیاب رہا۔ شیر کچھ دیر دھاڑتا رہا اور پھر دم توڑ گیا۔ ہم نے درندے کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ بڑی عمدہ کھال کامالک ہے۔ ناپا تو ساڑھے نو فٹ نکلا جو بہت معقول تھا۔ کیمرہ بھی موجود تھا۔ ہم نے تصویر کھنچوائی اور نواب صاحب کا شکریہ ادا کرکے رخصت ہوئے۔ گھڑی دیکھی تو اس پوری مہم میں صرف اکتیس (31) منٹ صرف ہوئے یعنی نواب صاحب کے مقرر کردہ وقت( تیس30) منٹ سے صرف ایک منٹ زیادہ!
شکار کی ایک دوسری مہم میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی کبھی ایک شیر دوسرے مردہ شیر کا گوشت بھی کھالیتا ہے۔ ہوا یوں کہ کچھ عرصے پہلے ہم نے ایک کٹڑاباندھا جو مارا گیا۔ شیر نے اُس کا کچھ حصہ کھایا اور باقی کو گھاس میںچھپا کر چلا گیا۔ ہمیں معلوم ہوا تو ہم نے قریب ہی مچان بندھوائی اور اُس پر بیٹھ گئے۔ شیر مغرب سے کچھ پہلے آگیا۔ ہمارے رفیقِ شکار نے گولی چلائی۔ نشانہ کامیاب رہا اور شیر گرگیا۔ ہم شیر کو چھوڑ کر چلے گئے۔ صبح آئے تو دیکھا کہ یہ شیر بھی نرتھا اور نوفٹ دس انچ ناک سے دم تک تھا۔ وہاں دوسرے شیر کے پائوں کے نشانات بھی تھے۔ یہ زندہ شیر رات کو مردہ شیر کو اُٹھاکر پرے لے گیا تھا۔ قیاس یہ ہے کہ رات کو کسی وقت دوسرا شیر آیا تو اوّل بھوک میں مردہ شیر کا گوشت کھایا اورجو کچھ بچا اُسے لے کر چل دیا۔انسان شیر سے ضرور ڈرتا ہے مگر شیر بھی انسان سے کچھ کم نہیں ڈرتا۔چنانچہ قریب سے آمنا سامنا ہوجائے تو برابر اُس کی طرف دیکھتے رہنا چاہیے پھر شیر کو حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی لیکن منہ موڑ کر بھاگنے سے اُسے ہمت ہوجاتی ہے کہ یہ ڈرگیا ہے، اور وہ حملہ کر بیٹھتا ہے۔ اس لیے اگرپیچھے ہٹ جانا ہی پڑجائے تو ایک ایک قدم آہستہ آہستہ ہٹنا چاہیے لیکن نظرشیر پر رہے۔ اگر شیر حملہ آور ہو تو جو چیز آپ کے پاس ہو اُس کی جانب پھینک دینی چاہیے مثلاً کوٹ، ٹوپی، چادر وغیرہ، تو شیر کا حملہ پہلے اُس پر ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بچانے یا گولی چلانے کے لیے موقع مل جاتا ہے۔ سوائے آدم خور شیر کے جم کاربٹ عام طور پر ہر شیر کو نہیں مارتے تھے البتہ سینماکے لیے تصویر ضرور لیتے رہتے تھے۔
اس سلسلے میں نواب صاحب نے کرنل جم کاربٹ کا ایک واقعہ اس طرح تحریر کیا ہے کہ کمایوں میں ایک شیر مردم خور ہوگیا۔ یہ اُس کی تلاش میں نکلے لیکن باوجود کئی شیر مارے جانے کے یہ موذی بچ جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ایک روز وہ اس کی تلاش میں سرگرداں تھے اور ایک خشک پہاڑی نالے سے اُتررہے تھے۔
(جاری ہے)
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/39994