Rashid Ashraf
محفلین
علی گڑھ یونیورسٹی کی شعبہ فارسی کی چئیر پرسن نے مارچ 2012 کے مہینے کی ایک صبح اپنے شہر سے اڑان بھری اور کراچی آکر دم لیا۔انٹرنیٹ نے باہمی رابطوں کو کس قدر آسان بنا دیا ہے اس کی ایک مثال تو خاتون کے شوہر کی راقم الحروف سے ملاقات ہے جو ہندوستان میں مقیم اردو کے ایک معروف بزرگ ادیب کی معرفت ہوئی تھی۔ خاتون کے شوہر پروفیسر صاحب دو عدد فارسی مخطوطات کی تلاش میں سرگرداں تھے، کسی نے ان کو آگاہ کیا کہ فلکیات کے موضوع پر لکھئے دونوں نسخے بابائے اردو کے قائم کردہ ادارے انجمن ترقی اردو میں محفوظ ہیں۔ پروفیسر صاحب کے لیے ان مخطوطات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگلے برس ان کا انگلستان میں پڑھا جانے والا مقالہ ان مخطوطات کی عدم دستیابی کی بنا پر ادھورا رہ جائے گا۔ پروفیسر صاحب پاکستان کے نظام کار سے شاید ناواقف تھے، مجھ سے ان مخطوطات کی سی ڈی کی فراہمی کی درخواست کرتے رہے۔
مخطوطات کے مصنفین دونوں ہندوستانی، لیکن اصلی نسخے سوائے انجمن کے،دنیا میں کہیں دستیاب نہیں ہیں۔ خدا جانے یہ بابائے اردو کا کمال تھا کہ کسی کا دیا ہوا تحفہ، مخطوطات اب انمجن کی ملکیت ہیں۔بظاہر آسان نظر آنے والا کام اتنا آسان نہ نکلا، گزشتہ ہفتے کے روز پروفیسر صاحبہ کو اپنے ہمراہ لے کر انجمن پہنچا ، ادھر سید معراج جامی صاحب کو اپنی مدد کے لیے پکارا تو وہ بھی انجمن چلے آئے۔ معلوم ہوا کہ مخطوطات کا ذخیرہ تو انجمن والے کب کے قومی عجائب گھر کے حوالے کر چکے ہیں گرچہ ان کی ملکیت کے حقوق تاحال انجمن ترقی اردو کے پاس ہی ہیں۔ یہ سن کر ہمارے چھکے چھوٹ گئے۔ قومی عجائب گھر جانے کا اتفاق کبھی نہ ہوا تھا، منزل قریب آتے آتے دور جاتی محسوس ہوئی۔ جامی صاحب نے جھٹ انجمن کی جانب سے ایک درخواست لکھوانے کا حکم صادر کیا ۔ واپسی پر کیا دیکھا کہ ایک کمرے میں پروفیسر سحر انصاری براجمان ہیں،پتہ چلا کہ ان دنوں انجمن کے اعزازی معتمد ہیں۔ لیجیے ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔پروفیسر صاحب نے حسب عادت تعاون کی یقین دہانی کرائی اور ہم اس روز انجمن سے خالی ہاتھ گھر چلے آئے ۔دن گزرتے گئے ، گزشتہ ہفتے کی صبح انجمن ترقی اردو کی جانب سے لکھی درخواست اس شان سے ملی کہ اس پر پروفیسر سحر انصاری کے دستخط اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ لکھا تھا:
” موصوفہ کو ان میں سے دو مخطوطات کی عکسی نقل بھی درکار ہے۔ اگر آپ کی رائے میں عکسی نقل کا لیا جانا مخطوطات کی ہیت پر اثر انداز نہ ہو تو ازراہ نوازش اس کی اجازت بھی مرحمت فرما دی جائے۔“
انجمن کے دفتر سے پروفیسر صاحبہ کو اپنے ہمرہ لے کر قومی عجائب گھر کا رخ کیا۔یہ عجائب گھر 17 اپریل 1950 کو قائم کیا گیا تھا جبکہ اسے 1970 میں موجود عمارت میں منتقل کیا گیا۔ یہ عمارت ڈاکٹر ضیاءالدین احمد روڈ پر واقع ہے۔قومی عجائب گھر میں موجود نوادرات کی کچھ تفصیل یہ ہے:
The Museum has a collection of 58,000 old coins (some dating from 74 Al-Hijra), and hundreds of well preserved sculptures. Some 70,000 publications, books and other reading material of the Archeology and Museums Department were also shifted to the National Museum so that general public could see them. For the preservation of the collection, a conservation laboratory is also a part of the Museum. Every year National Museum holds around a dozen exhibitions on National Days and other occasions. The Museum premises also has an auditorium with 250 seating capacity
لوگوں کی آمد آمد تھی، جناب حمزہ فاروقی کے الفاظ میں پہلا طبقہ مراعت یافتگان ، دوسرا ایستادگان اور تیسرا افتادگان کا تھا۔ عجائب گھر میں قدم رکھنے سے قبل ہم خود کو تیسرے طبقے کا فرد محسوس کررہے تھے لیکن ہمارے حق میں بات تیسرے سے پہلے طبقے میں جا ٹھہری۔ وہ ایسے کہ داخلی دروازے پر ملے ایک ایسے صاحب جن کی وضع قطع انتہائی سادہ تھی، قمیص شلوار میں ملبوس، سر پو ٹوپی۔ہم نے مدعا بیان کیا اور انہوں نے انتظار گاہ میں بیٹھے کا کہا، اندر ایک فرینچ خاتون اردو اور فارسی کے مخطوطات میں گم، دنیا و مافیہا سے بے خبربیٹھی تھی ۔قصہ مختصر ، کچھ ہی دیر بعد سادہ مزاج والے حضرت مطلوبہ مخطوطات ہاتھ میں تھامے اندر داخل ہوئے اور ہمارے حوالے کر یہ جا وہ جا۔
مخطوطات کی نقل بنوانے کی اجازت نہیں تھی، یوں بھی دونوں نسخوں کی نقل بنوانے کی بات کرکے ’ خود بھی شرمسار ہو ۔مجھ کو بھی شرمسار کر“ پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہتا تھا کہ ان کی حالت یہ تھی ادھر ہاتھ لگاو، ادھر مٹی ہونا شروع، ایک نسخے کے درمیانی صفحات پر دیمک ہم کو آنکھیں دکھاتی ہوئی نظر آئی۔۔۔۔۔ شاید میں ان مخطوطات سے استفادہ کرنے والا آخری آدمی کہلاوں۔ ایک مخطوطہ رتن سنگھ زخمی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا جو اس کے مصنف کے نام کے لاحقے کی تعریف پر پورا اترتا تھا۔ پروفیسر صاحب کی سی ڈی بنوانے کی خواہش تو ایک طرف، مخطوطات کی نقل بھی بنوانا ناممکن نکلا۔
مجھے اندازہ تھا کہ کیا کرنا ہے۔ میں ایک طاقتور ڈیجیٹل کیمرہ اپنے ہمراہ لے کر گیا تھا، ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر میں نے تصاویر محفوظ کرنے کا کام شروع کردیا۔ ڈیڑھ گھنٹہ دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیا، بالترتیب 162 اور 62 صفحات پر مشتمل دونوں مخطوطات محفوظ کرکے اطمینان کا سانس لیا، اب ان امیج فائلز کویکجا کرکے اور خوب ’بھینچ‘ کر پی ڈی ایف (Portable Document Format )کی شکل میں محفوظ کیا جائے گا اور علی گڑھ میں بیٹھے پروفیسر صاحب کی طلب پوری ہوگی۔
واپسی پر میں انتظار گاہ میں موجود ایک شخص سے ،جو ہمار ی موجودگی میں سہولت کار کے فرائض انجام دیتا رہا تھا، سادہ وضع قطع والے صاحب کے بارے میں دریافت کربیٹھا۔ اس نے جواب دیا اور ہمارے چھکے جو انجمن میں چھوٹ چکے تھے، ایک مرتبہ پھر چھوٹے۔ وہ صاحب تو قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر نکلے۔ بے اختیار ان کی تلاش میں نکلا۔ رستے میں اپنے پسندیدہ فلمساز گلزار کی پسندیدہ فلم’ لیکن ‘ یاد آئی جس کے مرکزی کردار کو اس کا باس تازہ اسائنمنٹ کو سونپتے وقت ریل کا ٹکٹ بھی تھما دیتا ہے اور وہ بے اختیار کہتا ہے: اگر سب آپ کی طرح کام کرنے لگیں تو یہ حکومت سچ مچ چلنے لگے گی۔
ڈائریکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ ہم نے ان کے ساتھ تصویر بھی بنوائی!
مخطوطات کے مصنفین دونوں ہندوستانی، لیکن اصلی نسخے سوائے انجمن کے،دنیا میں کہیں دستیاب نہیں ہیں۔ خدا جانے یہ بابائے اردو کا کمال تھا کہ کسی کا دیا ہوا تحفہ، مخطوطات اب انمجن کی ملکیت ہیں۔بظاہر آسان نظر آنے والا کام اتنا آسان نہ نکلا، گزشتہ ہفتے کے روز پروفیسر صاحبہ کو اپنے ہمراہ لے کر انجمن پہنچا ، ادھر سید معراج جامی صاحب کو اپنی مدد کے لیے پکارا تو وہ بھی انجمن چلے آئے۔ معلوم ہوا کہ مخطوطات کا ذخیرہ تو انجمن والے کب کے قومی عجائب گھر کے حوالے کر چکے ہیں گرچہ ان کی ملکیت کے حقوق تاحال انجمن ترقی اردو کے پاس ہی ہیں۔ یہ سن کر ہمارے چھکے چھوٹ گئے۔ قومی عجائب گھر جانے کا اتفاق کبھی نہ ہوا تھا، منزل قریب آتے آتے دور جاتی محسوس ہوئی۔ جامی صاحب نے جھٹ انجمن کی جانب سے ایک درخواست لکھوانے کا حکم صادر کیا ۔ واپسی پر کیا دیکھا کہ ایک کمرے میں پروفیسر سحر انصاری براجمان ہیں،پتہ چلا کہ ان دنوں انجمن کے اعزازی معتمد ہیں۔ لیجیے ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔پروفیسر صاحب نے حسب عادت تعاون کی یقین دہانی کرائی اور ہم اس روز انجمن سے خالی ہاتھ گھر چلے آئے ۔دن گزرتے گئے ، گزشتہ ہفتے کی صبح انجمن ترقی اردو کی جانب سے لکھی درخواست اس شان سے ملی کہ اس پر پروفیسر سحر انصاری کے دستخط اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ لکھا تھا:
” موصوفہ کو ان میں سے دو مخطوطات کی عکسی نقل بھی درکار ہے۔ اگر آپ کی رائے میں عکسی نقل کا لیا جانا مخطوطات کی ہیت پر اثر انداز نہ ہو تو ازراہ نوازش اس کی اجازت بھی مرحمت فرما دی جائے۔“
انجمن کے دفتر سے پروفیسر صاحبہ کو اپنے ہمرہ لے کر قومی عجائب گھر کا رخ کیا۔یہ عجائب گھر 17 اپریل 1950 کو قائم کیا گیا تھا جبکہ اسے 1970 میں موجود عمارت میں منتقل کیا گیا۔ یہ عمارت ڈاکٹر ضیاءالدین احمد روڈ پر واقع ہے۔قومی عجائب گھر میں موجود نوادرات کی کچھ تفصیل یہ ہے:
The Museum has a collection of 58,000 old coins (some dating from 74 Al-Hijra), and hundreds of well preserved sculptures. Some 70,000 publications, books and other reading material of the Archeology and Museums Department were also shifted to the National Museum so that general public could see them. For the preservation of the collection, a conservation laboratory is also a part of the Museum. Every year National Museum holds around a dozen exhibitions on National Days and other occasions. The Museum premises also has an auditorium with 250 seating capacity
لوگوں کی آمد آمد تھی، جناب حمزہ فاروقی کے الفاظ میں پہلا طبقہ مراعت یافتگان ، دوسرا ایستادگان اور تیسرا افتادگان کا تھا۔ عجائب گھر میں قدم رکھنے سے قبل ہم خود کو تیسرے طبقے کا فرد محسوس کررہے تھے لیکن ہمارے حق میں بات تیسرے سے پہلے طبقے میں جا ٹھہری۔ وہ ایسے کہ داخلی دروازے پر ملے ایک ایسے صاحب جن کی وضع قطع انتہائی سادہ تھی، قمیص شلوار میں ملبوس، سر پو ٹوپی۔ہم نے مدعا بیان کیا اور انہوں نے انتظار گاہ میں بیٹھے کا کہا، اندر ایک فرینچ خاتون اردو اور فارسی کے مخطوطات میں گم، دنیا و مافیہا سے بے خبربیٹھی تھی ۔قصہ مختصر ، کچھ ہی دیر بعد سادہ مزاج والے حضرت مطلوبہ مخطوطات ہاتھ میں تھامے اندر داخل ہوئے اور ہمارے حوالے کر یہ جا وہ جا۔
مخطوطات کی نقل بنوانے کی اجازت نہیں تھی، یوں بھی دونوں نسخوں کی نقل بنوانے کی بات کرکے ’ خود بھی شرمسار ہو ۔مجھ کو بھی شرمسار کر“ پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہتا تھا کہ ان کی حالت یہ تھی ادھر ہاتھ لگاو، ادھر مٹی ہونا شروع، ایک نسخے کے درمیانی صفحات پر دیمک ہم کو آنکھیں دکھاتی ہوئی نظر آئی۔۔۔۔۔ شاید میں ان مخطوطات سے استفادہ کرنے والا آخری آدمی کہلاوں۔ ایک مخطوطہ رتن سنگھ زخمی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا جو اس کے مصنف کے نام کے لاحقے کی تعریف پر پورا اترتا تھا۔ پروفیسر صاحب کی سی ڈی بنوانے کی خواہش تو ایک طرف، مخطوطات کی نقل بھی بنوانا ناممکن نکلا۔
مجھے اندازہ تھا کہ کیا کرنا ہے۔ میں ایک طاقتور ڈیجیٹل کیمرہ اپنے ہمراہ لے کر گیا تھا، ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر میں نے تصاویر محفوظ کرنے کا کام شروع کردیا۔ ڈیڑھ گھنٹہ دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیا، بالترتیب 162 اور 62 صفحات پر مشتمل دونوں مخطوطات محفوظ کرکے اطمینان کا سانس لیا، اب ان امیج فائلز کویکجا کرکے اور خوب ’بھینچ‘ کر پی ڈی ایف (Portable Document Format )کی شکل میں محفوظ کیا جائے گا اور علی گڑھ میں بیٹھے پروفیسر صاحب کی طلب پوری ہوگی۔
واپسی پر میں انتظار گاہ میں موجود ایک شخص سے ،جو ہمار ی موجودگی میں سہولت کار کے فرائض انجام دیتا رہا تھا، سادہ وضع قطع والے صاحب کے بارے میں دریافت کربیٹھا۔ اس نے جواب دیا اور ہمارے چھکے جو انجمن میں چھوٹ چکے تھے، ایک مرتبہ پھر چھوٹے۔ وہ صاحب تو قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر نکلے۔ بے اختیار ان کی تلاش میں نکلا۔ رستے میں اپنے پسندیدہ فلمساز گلزار کی پسندیدہ فلم’ لیکن ‘ یاد آئی جس کے مرکزی کردار کو اس کا باس تازہ اسائنمنٹ کو سونپتے وقت ریل کا ٹکٹ بھی تھما دیتا ہے اور وہ بے اختیار کہتا ہے: اگر سب آپ کی طرح کام کرنے لگیں تو یہ حکومت سچ مچ چلنے لگے گی۔
ڈائریکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ ہم نے ان کے ساتھ تصویر بھی بنوائی!