ہندوستانی کا پیغام ، پاکستانی کے نام ۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حیدرآبادی

محفلین
ہندوستانی کا پیغام ، پاکستانی کے نام
جاوید بدایونی (مسقط ، عمان)


ہمارے اور تمہارے جتنے غم ہیں سب ہی یکساں ہیں
اُدھر تم بھی پریشاں ہو اِدھر ہم بھی پریشاں ہیں

تمہارا لیڈروں اور جنرلوں نے دَم نکالا ہے
ہمیں بھی تو ہمارے لیڈروں نے مار ڈالا ہے

تمہارے لوگ جب دنیا کا کوئی رنج سہتے ہیں
ہمارے اشک بھی اکثر اُنہی کے غم میں بہتے ہیں

جو دشمن ہیں تمہارے بس وہی دشمن ہمارے ہیں
کہ ہم بھی بھوک ، بیکاری اور غربت کے مارے ہیں

تمہاری گلیوں کوچوں میں دھماکے ہوتے رہتے ہیں
ہمارے شہر بھی اس حادثوں کو روز سہتے ہیں

دھماکے بےقصوروں کو ہوا میں جب اُڑاتے ہیں
زمین کیا چیز ہے وہ آسمانوں کو ہلاتے ہیں

ہماری اور تمہاری روز وہ نیندیں اُڑاتے ہیں
وہ مہنگائی کہ جو شب کی طرح ہی بڑھتی جاتی ہے

تمہارا جو بھی غم ہے بس ہمارا بھی وہی غم ہے
امیدِ صبح سچ پوچھو تو ہم دونوں کو ہی کم ہے

جو دشمن ہے تمہارا بس وہی دشمن ہمارا ہے
خدائے پاک کا تم کو بھی ہم کو بھی سہارا ہے

تو اب یہ ہے ضروری اک دوجے کو سنبھالیں ہم
مسائل جو بھی ہیں حل ان کا مل جل کر نکالیں ہم

بہت جنگیں ہوئیں اب آؤ ہم تم دوست بن جائیں
ہمارے گھر تم آؤ اور تمہارے گھر پہ ہم آئیں

نمازیں پانچ پڑھ کے بس تمہاری ہی بقا مانگیں
تمہارے واسطے ہم روز "خالق" سے دعا مانگیں

جو ممکن ہو ہمارا دل سے تم بھی یہ بھلا کرنا
ہمارے واسطے تم بھی میرے بھائی دعا کرنا

ہمارے اور تمہارے گلستاں پہ یوں بہار آئے
کبھی مرجھا نہ پائیں ایسا پھولوں پر نکھار آئے
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب حیدر آبادی۔ ہماری بھی تو یہی دلی تمنا ہے۔ لیکن کہ ظالم سیاد ست دان اپنی اپنی دکان چمکانے کو بیچ میں آ جاتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انسان کے دکھ مشترکہ ہیں اور مداوا بھی، کاش ایسا ہر جگہ ہو جائے!

شکریہ حیدر آبادی شیئر کرنے کیلیئے!
 

الف نظامی

لائبریرین
یا اللہ کشمیر پنجہ ہنود سے آزاد ہو جائے۔ آمین
پاکستانی کی دعا۔
ہندوستانی بھائی یوں دوستی کے دعوے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت فوج کے ہاتھوں نہتے مظلوم کشمیریوں کے قتل عام پر اس قدر چشم پوشی چہ معنی دارد۔
 

حیدرآبادی

محفلین
یا اللہ کشمیر پنجہ ہنود سے آزاد ہو جائے۔ آمین
پاکستانی کی دعا۔
ہندوستانی بھائی یوں دوستی کے دعوے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت فوج کے ہاتھوں نہتے مظلوم کشمیریوں کے قتل عام پر اس قدر چشم پوشی چہ معنی دارد۔

تبصرے کا شکریہ الف نظامی بھائی۔
اگر آپ پسند فرمائیں تو میں ہندوستان کے تمام اردو اخبارات میں ایک مراسلہ شائع کرواؤں جس میں تمام ہندوستانی مسلمان شعراء سے درخواست کی جائے گی کہ جب تک ہندوستانی حکومت کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا جاتا تب تک اس قسم کے کلام کی تخلیق سے احتراز فرمائیں۔ یا پھر اس قسم کے دعائیہ دوستانہ جذبات کی "آمد" اتنی ہی ضروری ہو جائے تو سب سے پہلے کلام کے اولین بند میں کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کے متعق اظہار ہمدردی اور تعلقِ خاطر کے اضافہ کو لازمی سمجھا جائے !
ورنہ ہمارے پڑوس کے کچھ لوگ آپ کو غیرمسلموں کے طرفدار اور حکومت ہند کے خاص پٹھو سمجھنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ لہذا ضروری ہے کہ آپ یا تو خاموش رہیں یا پھر اپنے کلام میں اس تشویشناک سیاسی مسئلے پر احتجاجی مصرعے بھی لازماً رقم فرمائیں۔

برسبیل تذکرہ ۔۔۔۔ ہمارے ایک دوست کے والد صاحب ، جن کا شمار اپنے شہر کے قدآور شعراء میں ہوتا ہے ، فرماتے تھے کہ :
معیاری اور زندہ شاعری کے لوازمات میں یہ بھی شامل ہے کہ اس میں شخصیات و علاقہ جات کے نام راست لینے سے ہر ممکن احتراز کیا جائے۔ ورنہ کلام کا زماں و مکاں ایک محدود دائرے میں مقید ہو جائے گا۔

گجرات کے المیہ پر گجرات کا نام لے کر شاعری کی جائے تو پھر اس کو نہ ممبئی کے فسادات کے پس منظر میں پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ کشمیر کے قتل عام پر۔
لہذا اسی نکتہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے کیا ہم یہ حسن ظن نہیں رکھ سکتے کہ متذکرہ بالا کلام میں شاعر نے جن دھماکوں ، رنج و غم ، جنگوں اور مسائل کا ذکر کیا ہے ، اس میں گجرات ، ممبئی ، حیدرآباد کے ساتھ ساتھ عین ممکن ہے کہ کشمیر بھی شامل ہو؟؟
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ کلام کو زماں و مکاں کے محدود دائرے میں مقید ہو جانے کی بات بھی خوب کہی۔ آفاقیت کا یہ تقاضہ کب ہے کہ زمینی زندہ مسائل سے صرف نظر کرلی جائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میری آپ احباب سے درخواست ہے کہ زمرہ 'پسندیدہ کلام' کو سیاست کی نذر مت کریں، اور اس موضوع پر اس بحث کو یہاں ختم کر دیں، نوازش!
 

شمشاد

لائبریرین
نظامی صاحب مسلمان ہندوستانی ہو یا پاکستانی ان کی یہی خواہش ہے جو حیدر آبادی نے جاوید بدایونی کے کلام کو نظم کی صورت میں شریک محفل کیا ہے۔ اب کیا کشمیر کے مسئلے کو لیکر سب اخوت و محبت اور سب تعلقات کو پسِ پُشت ڈال دیا جائے اور کسی بھی موضوع پر بات نہ کی جائے کہ صاحب جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو جاتا ہم سے کوئی بات نہ کریں۔ اس طرح تو بات نہیں بنے گی۔
 

حیدرآبادی

محفلین
یہ کلام کو زماں و مکاں کے محدود دائرے میں مقید ہو جانے کی بات بھی خوب کہی۔ آفاقیت کا یہ تقاضہ کب ہے کہ زمینی زندہ مسائل سے صرف نظر کرلی جائے۔

آپ نے شائد ان شاعر محترم کا قول غور سے نہیں پڑھا۔ ایک بار پھر دہرا دیتا ہوں :
معیاری اور زندہ شاعری کے لوازمات میں یہ بھی شامل ہے کہ اس میں شخصیات و علاقہ جات کے نام راست لینے سے ہر ممکن احتراز کیا جائے۔اس قول میں یہ بات کہی ہی نہیں گئی ہے کہ "زمینی زندہ مسائل" سے صرف نظر کرنا چاہئے۔ بلکہ جس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ :
شخصیات و علاقہ جات کے نام راست لینے سے احتراز کیا جائے۔

کچھ ہمیں بھی قائل کریں کہ زندہ و پائیندہ شاعری میں شخصیات و علاقہ جات کے نام راست لینا کس طرح حق بجانب ہو سکتا ہے؟؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top