اشرف علی بستوی
محفلین
ہندوستان میں اردوزبان کی ترویج کیوں اور کیسے؟
اشرف علی بستوی،نئی دہلی
واضح ہو کہ چیف جسٹس آر ایم لودھا کی قیادت والی سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے اتر پردیش کی ہندی ساہتیہ سمیلن کی داخل کردہ ایک عرضی کو رد کر دیا جس میں اس تنظیم نے اتر پردیش کی سرکاری زبان کے قانون مجریہ 1951 میں ریاستی اسمبلی کی طرف سے کی گئی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔اتر پردیش کی ریاستی اسمبلی نے اس ترمیم کے ذریعے ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی ریاست کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس بینچ نے اردو کی ریاست کی سرکاری زبان کی حیثیت برقرار رکھی ہے۔
بینچ نے اس قانونی نقطے پر توجہ مرکوز کی کہ کسی ریاستی اسمبلی پر کسی مقامی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت دینے پر کوئی قانونی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ۔آئین کی شق 345 کے مطابق ریاست کی قانون ساز اسمبلی قانون کے ذریعے کسی ایک یا ایک سے زیادہ مقامی سطح پر بولی جانے والی زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اختیار رکھتی ہے۔ غور طلب ہے کہ اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اتر پردیش نے ساہتیہ سمیلن کی اس عرضی کو چیلنج کیا تھا ۔
خیر فیصلہ اب اردو کے حق میں آیا ہے تو خوش ہونے کی بات تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ہمیں اپنا محاسبہ بھی کرنا ہوگا۔اس سلسلے میں ایک توجہ طلب امر یہ ہے کہ بھارت کی بیشتر ملی و سماجی تنظیموں نے اپنے دستور میں تو کام کاج کی زبان اردو کو طے کر رکھا ہے لیکن اہم مواقع پر تیار ہونے والے ان کے پریس نوٹ پہلے انگریزی میں جاری ہوتے ہیں بلکہ بسااوقات صرف انگریزی ہی میں تیار کیے جاتے ہیں بعد میں اس کاترجمہ اردو یا دیگر زبانوں میں ہوتاہے،ا ن کے پروگراموں کے پوسٹر اور بینر پر بیس فیصد سے زائد جگہ اردو کو نصیب نہیں ہوتی اور اپنی ویب سائٹس خالص انگریزی میں تیار کراتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک آن لائن سروے سے معلوم ہوا کہ ملک کی معتبر ملی و سماجی تنظیموں، مسلم اقلیتی یونیورسٹیوں حتٰی کہ جنوب ہند میں قائم ملک کی واحد اردو یونیورسٹی کی ویب سائٹ بھی صرف انگریزی میں پائی گئی ، بعض ویب سا ئٹس کے صفحہ اول پر اردو بٹن تو درج ہے جو صرف سجاوٹ کیلئے ہے، اس بٹن کو ’کلک‘ کیجئے تو اندر کچھ نہ ملے گا۔ یہ صورتحال اردو سے محبت کی حقیقت خود ہی بیان کر رہی ہے۔
حالانکہ اردو دوستی کاتقاضا تو یہ ہے کہ اس کا عملی ثبوت پیش کیاجائے۔ اس سے بھی زیادہ تشویناک بات یہ ہے کہ گزشتہ 90برس سے جاری مسلم اقلیتی یو نیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو میڈیم اسکول کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری اردو دوستی محض مشاعروں اور اردو ادب پر ہونے والے سیمیناروں تک ہی محدود ہے ، ہماری نام نہاد اردو دوستی کی ایک مثال یہ بھی ہے گزشتہ دنوں مارچ 2014 کے وسط میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میںاردو اسکولوں کے اساتذہکی صلاحیت سازی کےلئے۔’’ اسکولوں میں اردو کی تدریس کیسے‘‘ کے عنوان پر ایک سہ روزہ سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں تین دن تک یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات نے انتہائی عالمانہ مقالے پیش کیے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ سامعین کی نشستوں پر یو نیورسٹی کے چند ریسرچ اسکالرس کے علاوہ اسکول کا ایک بھی معلم موجود نہیں تھا جبکہ یہ سیمینار اسکولوں کے اساتذہ کی صلاحیت سازی کیلئے مخصوص تھا ۔ بالاخر ایک خاتوں پروفیسر جو ایک نشست کی صدارت فرما رہی تھیں اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے یہ پوچھ ہی لیاآخر کیا بات ہے ، یہاں تو اسکولوں کے اساتذہ نظر نہیں آرہے ہیں ؟ ان کے اس سوال پر انتطامیہ کے ارکان معذرت خواہانہ انداز میں باہم شر گوشیاں کرتے نظر آئے ۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جو اردو کے تئیں وفاداری کا عملی ثبوت نہ پیش کرنے سے اردو دوستی کے ہمارے تمام تر دعوں کو کھوکھلا ثابت کرتے ہیں۔ اسے اردو کے ساتھ زیادتی نہیں تو اور کیا کہیں۔ اسی لیے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ملک 1947میں انگریزوں کی غلامی سے توآزاد ہوگیا تھا لیکن انگریزی کی غلامی بدستور جاری رہی۔
گزشتہ چند دہائیوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتاہے کہ2001کی مردم شماری کے مطابق ملک میں پانچ کروڑ پندرہ لاکھ اردو بولنے والے تھے جو ملک کی کل آبادی کاپانچ اعشاریہ صفر ایک فیصد ہوتے ہیں۔ کسی زبان کو بولنے والوں کا یہ چھٹا سب سے بڑا گروپ ہے،ملک کی صرف۵ریاستوں اْترپردیش، بہار، مہاراشٹر، آندھرا پردیش اور کرناٹک میں4کروڑ15لاکھ سے زائد اْردو بولنے والے پائے جاتے ہیں اور اگر ان میں جھارکھنڈ ، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش ، تملناڈو اور دہلی کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ 1981 اور 1991کی مردم شماری میں اْردو بولنے والوں کا فیصد علی الترتیب پانچ اعشاریہ دو پانچ اور پانچ اعشاریہ ایک تھا۔ ان اعداد وشمار سے اشارہ ملتا ہے کہ اْردو والے مخصوص طریقے سے کم ہورہے ہیں۔ ایساکیوں ہے؟ اس پر وسیع تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بارے میں ایک مغربی مفکر ابراہم ڈی سوان نے زبان کی ترویج واشاعت میں پیش آنے والی عملی دشواریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ " اپنی مادری زبان کو ترک کرنے والے ایسا یا تو نقل مکانی کی وجہ سے کرتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے کسی اور چیز کو اختیار کرلیا ہے۔ اور کسی دیگر زبان سے ان کی توقعات زیادہ وابستہ ہو جاتی ہیں یاوہ اپنی مادری زبان کواس لئے نظر انداز کرتے ہیں کہ اسکولوں، سرکاری محکموں یا عدالتوں میں کسی دیگر زبان کو ترجیحی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور ان کی مادری زبان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یا انہیں اس کا استعمال اس لئے ترک کرنا پڑتاہے کہ ان پر کسی دوسری قوم کی حکمرانی ہوتی ہے جو اپنی زبان ان پر تھوپ دیتی ہے اور دلبرداشتہ ہوکر وہ اپنی زبان کا تحفظ کرنا ترک کردیتے ہیں۔‘‘ اب بڑا سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملی اقدامات کے لیے اردو حلقے خود اپنے طورپر اردو کے فروغ کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں اردو کو روز مرہ کے کام کاج میں برتنے کا عمل شروع کیے بغیر حکومت سے ہماری توقع ثمر آور ثابت نہیں ہو سکتی ، اْردو کو اپنی مادری زبان کہنے والوں کو اپنا جائزہ پروفیسر ابراہم ڈی سوان کے اس تجزیے کی روشنی میں لینے کی ضرورت ہےورنہ محض خواہشات سے نتائج برآمد نہیں ہونگے۔