اشرف علی بستوی
محفلین
۔
دوستو آج شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش یعنی یو م اردو کے موقع پر غالب اکیڈمی میں یو۔نائٹیڈ مسلم آف انڈیا اور اردو ڈیولپمینٹ ارگنائزیشن کی جانب سےایکا پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں کثیر تعداد میں اردو دوستوں نے شرکت کی ۔
ہندوستان میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش یوم اردو کے طور پر متعارف کرانے والے حکیم سید احمد خان کی کاوشیں اب رنگ لا رہی ہیں ۔
پروگرام بحسن خوبی روان دواں تھا کی اسی درمیان ایک اردو دوست ، اردو اکیڈمی کی خدمات کا ذکر خیر سن کر انتہائی جذباتی ہو گئے اور اکیڈمی کے خلاف بولنا شروع کیا ، خیر مجلس کے سنجیدہ افراد کی بر وقت مداخلت سے معاملہ فوری طور پر سنبھل تو گیا لیکن جب باری اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیر مین کی آئی تو پھر کیا تھا پروفیسر اختر الواسع صاحب نے ان کی جم کر خبر لی ۔۔۔۔۔
موصوف کی گفتگو بڑی نصیحت آموز رہی ۔۔۔۔۔۔۔
اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیر مین پروگرام کے مہمان خصوصی پروفیسر اختر الواسع کی پر سوز، پرمغز اور پر خلوص تقریر نے ہندوستان میں اردو کے روشن مستقبل کے لیے کوشاں متفکر حلقوں کو خود احتسابی کی دعوت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی ترغیب شامل تھی ۔پروفیسر صاحب نے موقع کا خوب فادہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کے اردو دوستوں کا کچا چٹھا ۔ سب سامنے رکھ دیا جو اردو زبان کے تئیں لو گوں کی بے حسی ،لاپروائی ،سست روی ،پر آنسوبہا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
پروگرام کی صدارت ہندوستان کے معروف ماہر اقبالیات دہلی یو نیورسٹی کے سابق پروفیسر عبدالحق، آل انڈیا کانگریس کے ترجمان سابق سفیر برائے ترکمانستان میم افضل، وائس امریکہ اردو کے دہلی نمائندے سہیل انجم ، ۔ ضلع کی سرزمین سے تشریف لائے بزرگ شاعر جناب مجیب بستوی نے اردو زبان کے عنوان سے ایک انتہائی دلچسپ نظم پیش کی سینئر صحافی معصوم مرادآبادی، گلزار زتشی دہلوی، سمیت یو نیورسٹیوں سے وابستہ خضرات شریک ہوئے ۔
آج کی گفتگو کا موضوع تھا اردو کا سیاسی کردار ۔ اور قومی زمہ داریاں عنوان کی وضاحت کرتے ہوئے سہیل انجم نے کہا کہ دراصل عنوان آزاد ہندوستان میں اردو کا سیاسی استحصال ہو نا چاہے تھا ۔ اردو کے چاہنے والوں کی یہ مجلس اردو کو دل سے چمٹائے رکھنے کی ہزار قسمیں کھاتے ہوئے عملی اقدامات کے بلند دعووں اور عزائم کے ساتھ چکن بریانی پر اختتام پذیر ہوئی اس وعدے کے ساتھ کہ آئندہ برس پھر ملیں گے کچھ اور نئے عزائم اور شکوے شکایات کے ساتھ ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجیے ۔
اللہ حافظ
دوستو آج شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش یعنی یو م اردو کے موقع پر غالب اکیڈمی میں یو۔نائٹیڈ مسلم آف انڈیا اور اردو ڈیولپمینٹ ارگنائزیشن کی جانب سےایکا پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں کثیر تعداد میں اردو دوستوں نے شرکت کی ۔
ہندوستان میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش یوم اردو کے طور پر متعارف کرانے والے حکیم سید احمد خان کی کاوشیں اب رنگ لا رہی ہیں ۔
پروگرام بحسن خوبی روان دواں تھا کی اسی درمیان ایک اردو دوست ، اردو اکیڈمی کی خدمات کا ذکر خیر سن کر انتہائی جذباتی ہو گئے اور اکیڈمی کے خلاف بولنا شروع کیا ، خیر مجلس کے سنجیدہ افراد کی بر وقت مداخلت سے معاملہ فوری طور پر سنبھل تو گیا لیکن جب باری اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیر مین کی آئی تو پھر کیا تھا پروفیسر اختر الواسع صاحب نے ان کی جم کر خبر لی ۔۔۔۔۔
موصوف کی گفتگو بڑی نصیحت آموز رہی ۔۔۔۔۔۔۔
اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیر مین پروگرام کے مہمان خصوصی پروفیسر اختر الواسع کی پر سوز، پرمغز اور پر خلوص تقریر نے ہندوستان میں اردو کے روشن مستقبل کے لیے کوشاں متفکر حلقوں کو خود احتسابی کی دعوت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی ترغیب شامل تھی ۔پروفیسر صاحب نے موقع کا خوب فادہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کے اردو دوستوں کا کچا چٹھا ۔ سب سامنے رکھ دیا جو اردو زبان کے تئیں لو گوں کی بے حسی ،لاپروائی ،سست روی ،پر آنسوبہا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
پروگرام کی صدارت ہندوستان کے معروف ماہر اقبالیات دہلی یو نیورسٹی کے سابق پروفیسر عبدالحق، آل انڈیا کانگریس کے ترجمان سابق سفیر برائے ترکمانستان میم افضل، وائس امریکہ اردو کے دہلی نمائندے سہیل انجم ، ۔ ضلع کی سرزمین سے تشریف لائے بزرگ شاعر جناب مجیب بستوی نے اردو زبان کے عنوان سے ایک انتہائی دلچسپ نظم پیش کی سینئر صحافی معصوم مرادآبادی، گلزار زتشی دہلوی، سمیت یو نیورسٹیوں سے وابستہ خضرات شریک ہوئے ۔
آج کی گفتگو کا موضوع تھا اردو کا سیاسی کردار ۔ اور قومی زمہ داریاں عنوان کی وضاحت کرتے ہوئے سہیل انجم نے کہا کہ دراصل عنوان آزاد ہندوستان میں اردو کا سیاسی استحصال ہو نا چاہے تھا ۔ اردو کے چاہنے والوں کی یہ مجلس اردو کو دل سے چمٹائے رکھنے کی ہزار قسمیں کھاتے ہوئے عملی اقدامات کے بلند دعووں اور عزائم کے ساتھ چکن بریانی پر اختتام پذیر ہوئی اس وعدے کے ساتھ کہ آئندہ برس پھر ملیں گے کچھ اور نئے عزائم اور شکوے شکایات کے ساتھ ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجیے ۔
اللہ حافظ
آخری تدوین: