arifkarim
معطل
اردو زبان كی ترقی و ترویج كا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور یہ زبان جلد ہی ترقی كی منزلیں طے كرتی ہوئی ہندوستان كے ہندوؤں اور مسلمانوں کی زبان بن گئی۔ اردو كی ترقی میں مسلمانوں كے ساتھ ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت كام كیا ہے۔ اس کی آب یاری اور ترویج و ترقی میں شمالی ہند کے تمام علاقوں نے حصہ لیا ۔ یہیں کے لوگ اسے دکن میں لے گئے اور یہ وہاں دکنی اور گجراتی زبان کہلائی۔ اس کے فروغ میں حیدرآباد دکن اور پنجاب کی خدمات اتنی ہی اہم ہیں جتنی دہلی اور یوپی کی ۔ خصوصاً پنجاب نےاس کے علمی و ادبی خزانوں میں بیش بہا اضافہ کیا ۔ برصغیر پر قبضے کے بعد انگریزوں نے جلد ہی بھانپ لیا تھا کہ اس ملک میں آئندہ اگر کوئی زبان مشترکہ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ اردو ہے اسی لئے فورٹ ولیم کالج میں نووارد انگریزوں کو اردو کی ابتدائی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا اور یوں اردو کی بالواسطہ طور پر ترویج بھی ہونے لگی۔ مگر انگریزی اقتدار آنے کے بعد 1867میں ہندوؤں نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی۔ اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے سے اردو ہندی تنازعہ شروع ہوا۔
1867ءمیں بنارس كے چیدہ چیدہ ہندو رہنماؤں نے مطالبہ كیا كہ سرکاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم كر دیا جائے اور اس كی جگہ ہندی كو سركاری زبان كے طور پر رائج كیا جائے۔ ہندوؤں نے برطانوی بل بوتے پر زور پکڑتے ہی سب سے پہلا حملہ اردو زبان پر کیا اور ایک شعوری تحریک شروع کی جس کے تحت اُردو زبان سے اسلامی و مسلمان لفظیات کو نکال کر اس میں زبردستی سنسکرت الفاظ شامل کرکے ہندی کے نام سے ایک نئی زبان بنائی ۔ یہ کہا گیا كہ اردو قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اس کی جگہ ہندی یا دیوناگری رسم الخط جاری کیا جائے۔ اس لسانی تحریک کا صدر دفتر آلہ آباد میں قائم کیاگیا جبکہ پورے ملک میں ہندوؤں نے کئی ایک ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دیں، تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کیا جائے اور اس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔ سر سید احمد خان نے حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے بنارس کے شہر میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اگر ہندوؤں کی تنگ نظری اور تعصب کا یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا میں تقسیم ہو جائے گا۔
ایک علیحدہ زبان کے طور پر ہندی کی تشکیل کے سیاسی لائحۂ عمل سے قبل ہندی اردو ہی کا پرانا نام تھا۔ فطری طور پر فارسی کا اقتدار ہونے کے سبب مسلم دورِ اقتدار کے اکثر متون فارسی رسمِ خط میں ہیں اور ایسا اس لیے بھی ہے کہ فارسی رسم خط کو اختیار کرنے کی آزادی ہر فرد کو حاصل تھی جب کہ سنسکرت اور ناگری لپی پر برہمنوں کی اجارہ داری تھی اور عام ہندو اس میں مداخلت کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن اگر کچھ متون دیوناگری لپی میں بھی ہیں تو اس سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ دیوناگری لپی میں موجود متون اس سیاسی جدید ہندی کے ماضی کا حصہ ہیں جس کی تشکیل کے عزائم میں انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں شدت آئی۔ محض دیوناگری لپی میں موجود متون کو جدید ہندی میں شامل کرنے کا لائحۂعمل ہندی تاریخ کے نظریہ سازوں کے لیئے بڑی مصیبتوں کا سبب بنا۔
اس کے اسباب لسانی سے زیادہ فرقہ وارانہ (Sectarian) تھے جن کی جڑیں ہندو احیاء پرستی میں پیوست تھیں۔ بعد میں انھیں عوامل نے ’’ہندی، ہندو، ہندوستان‘‘ کے نعرے کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں کے مذہبی اکثریتی طبقے نے دیوناگری رسمِ خط کی شکل میں اس نئی زبان کو تقویت دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں اردو چشم زدن میں محض ایک اقلیتی طبقے کی زبان بن کر رہ گئی، اسی زمانے سے دو قومی نظریے کی باقاعدہ بنیاد پڑنی شروع ہوئی ۔ اور ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم وجود میں آئی۔
سرسید احمد خان
اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے پر سرسید احمد خان جیسا روشن خیال‘ ترقی پسند مسلمان دانشور و ادیب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ اور انہیں ہندو مسلم اتحاد كے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے اس موقع پر آپ نے فرمایا كہ:
’’مجھے یقین ہو گیا ہے كہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایك قوم كے كبھی نہیں ایك دوسرے كے ساتھ مل كر نہیں رہ سكتے۔‘‘
سرسید احمد خان نے ہندوؤں كی اردو زبان كی مخالفت كے پیش نظر اردو كے تحفظ كے لئے اقدامات كرنیكا ارادہ كیا1867ء میں آپ نے حكومت سے مطالبہ كیا كہ ایك ٫٫ دار الترجمہ٬٬ قائم كیا جائے تاكہ یونیورسٹی كے طلبائ كیلئے كتابوں كا اردو ترجمہ كیا جا سكے ہندوؤں نے سرسید احمد خان كے اس مطالبے كی شدت سے مخالفت كی لیكن آپ نے تحفظ اردو كے لئے ہندوؤں كا خوب مقابلہ كیا۔ آپ نے الٰہ آباد میں ایك تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم كی اورسائنٹفک سوسائٹی كے ذریعے اردو كی حفاظت كا بخوبی بندوبست كیا۔
یہ مسئلہ انیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے سر اٹھا رہا تھا۔ شمال مغربی صوبوں میں سرکاری کام کاج کی زبان کے طور پر اردو کے رواج کے فوراً بعد ہندو تعلیم یافتہ اعلا طبقے نے احتجاج کیا اور اگست 1840 میں حکومت نے آسان زبان استعمال کرنے کی ہدایت متعلقہ محکموں کو دی اور1856 میں revenue کے جونیر افسران کو ناگری رسم الخط سےکھنے کی ہدایت دی گئی۔ اور یہاں سے شعبۂ مال گزاری میں ہندی کو داخلہ ملا۔
سرسیّد نے یکم اگست1867 کو وائسرائے اور گورنر جنرل کو ایک میمورنڈم دیا جس میں موجودہ نظامِ تعلیم کو ناقص بتایا گیا، جس کی بنیاد انگریزی ذریعۂ تعلیم پر تھی۔ سرسیّد کے خیال میں ”یوروپین علوم و فنون اور سائنس کی روشنی“ کو عام کیا جانا ضروری تھا اور اس کے لیئے انگریزی نہیں بلکہ دیسی زبان زیادہ موزوں تھی۔ اس میمورنڈم پر دس افراد کے دستخط تھے جن میں سے چار یعنی اسرچند مکرجی، بدری پرساد، منولال اور راجا جے کشن داس غیر مسلم تھے۔
اس منصوبے کو برطانوی حکومت نے رد کر دیا، جس کی اطلاع5ستمبر 1867 کو بیلی نے برٹش انڈین ایسوی ایشن کے صدر اور اراکین کو ایک خط کے ذریعے دی۔ حکومت نے اس تجویز کو اگرچہ رد کر دیا لیکن اس نے کلکتہ یونیورسٹی، بنارس انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری اور کئی دوسرے افراد سے اس سلسلے میں ان کی رائے بھی مانگی اور17فروری1868 کو بنارس انسٹی ٹیوٹ کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا گیا جس میں سیّد احمد خاں اور بابو شیوپرساد بھی شریک تھے اور اس اجلاس میں بابو شیو پرساد نے بھی خاموشی اختیار کرلی اور صدر نے محسوس کیا کہ کوئی اس موضوع پر گفتگو کرنا نہیں چاہتا اور اس اجلاس کو برخاست کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے بھی اپنی کتاب ”ہندی اردو تنازع“ میں سرسیّد کے یکم اگست 1867 کے میمورنڈم کا ذکر کیا اور لکھا ہے:
”اس درخواست پر حکومت نے خاصی توجہ دی تھی، لیکن بعض دوسری باتوں کے ساتھ بڑی رکاوٹ یہ پیدا ہو گئی کہ بنارس کے ہندوؤں کی طرف سے اس کی مخالفت شروع ہو گئی۔ اردو کے مخالفین نے اخبارات میں اس بات کا مطالبہ کر دیا کہ اس مجوزہ یونیورسٹی میں مسلمانوں کے لیئے اردو زبان اور ہندوؤں کے لیئے ہندی زبان مخصوص کی جائے۔‘‘
1868میں راجا شیوپرساد نے ایک کتابچہ ’میمورنڈم آن کورٹ کیریکٹرس‘ شائع کیا، جس میں فارسی اور اردو تعلیم کی سرکاری سرپرستی کو ہندی کی ترقی میں سدِراہ بتایا اور فارسی رسم الخط کی جگہ ہندی رسم الخط کو عدالت میں رائج کرنے کا مطالبہ کیا اور یہ لے یہاں تک پہنچی کہ راجا جے کشن داس (جو سرسیّد کے خاص دوستوں میں تھے) نے برطانوی حکومت کو ہندوؤں کے حق میں مسلمانوں کی حکومت سے بہتر قرار دیا اور لکھا:
”جب سے ہندوستان میں مسلمانوں کا تسلط ہوا اس وقت سے ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں ایسی سختی برتی گئی جس کے سبب سے ان کے دل نہایت افسردہ و پژمردہ ہو گئے اور اےسے سخت موانع پیش آئے کہ ان کا سلسلۂ مذہبی تمام درہم برہم ہو گیا اور رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ سنسکرت کا قدیمی علم صرف براے نام رہ گیا اور اس پر طرہ یہ ہوا کہ کاروبارِ عدالت بھی فارسی میں دفعتاً شروع ہو گئے، چنانچہ رفتہ رفتہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم سنسکرت ہندوستان میں کالعدم ہو گیا الغرض ایسی ایسی وجوہ سے بجائے روشن ضمیری و استعداد علمی کے ہندوستان میں تاریکی، جہالت طاری ہو گئی۔“
حالانکہ سنسکرت کا سمٹنا مسلمان حکمرانوں کے جابرانہ رویئے کی وجہ سے نہ تھا بلکہ برہمنوں کی اجارہ داری کے سبب سے تھا جس کا اندازہ مشہور فرانسیسی سیاح برنیئر کے سفرنامے سے کیا جاسکتا ہے جس میں اس نے لکھا ہے:
”یہ کتابیں جو مجھے بنارس میں دکھائی گئی تھیں اگر وہ بید ہی تھے تو بڑی ضخامت کی ہوتی ہیں اور یہ ایسی نایاب ہیں کہ میرے آقا کو باوجود بڑی تلاش اور شوق خریداری کے ایک کتاب بھی نہیں ملی۔ ہندو ان کو بڑی ہوشیاری سے چھپائے رکھتے ہیں کہ مبادا مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں۔“
یہاں برنیئر نے آقا کے لقب سے نواب دانشمند خاں کو یاد کیا ہے، جس کی محفل میں برنیئر کے بقول اےسے ہندو پنڈت بھی آتے تھے جو داراشکوہ کی خدمت میں رہ چکے تھے اور دانشمند خاں ان سے ہندو فلسفے اور ان کی مذہبی کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتا تھا۔ محمود غزنوی کے زمانے میں البیرونی، اکبر کے زمانے میں فیضی اور بعد میں شہزادہ داراشکوہ نے ہندوؤں کے مذہبی صحیفوں کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا، لیکن برہمنوں نے جیساکہ برنیئر کے بیان سے ظاہر ہے، اپنی مذہبی کتابوں کو چھپا کے رکھا۔ لیکن راجا جے کشن نے برہمنوں کے اس خوف کی جگہ مسلمان حکمرانوں کے جبر اور اردو زبان کو اس کا ذمہ دار بتایا اور بقول ڈاکٹر مظہر مہدی:
”راجا جے کشن داس نے کہا کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے قیام کے بعد وہ جبر و تشدد تو ختم ہو گیا جو صدیوں تک ہندوؤں پر روا رکھا گیا تھا اور ان کے لیئے سازگار حالات بھی پیدا ہوئے لیکن وہ پورے طور پر ان سے مستفیض نہ ہوسکے جس کی بنیادی وجہ اس حکومت کا اردو اور فارسی رسم الخط کو قبول کرنا اور حکومت کے دفاتر میں ان کا اجرا کرنا تھا، کیوں کہ اس زبان اور رسم الخط کو صرف روزگار پیشہ لوگوں نے اسی قدر سیکھا جتنی ان کو ضرورت تھی لیکن تاجروں اور کسانوں نے ’اس کو محض لغو و فضول‘ جانا کیوں کہ وہ اس اجنبی زبان میں علم حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے جو ان کے مزاج اور فطرت کے خلاف ہو۔“
اس سے ظاہر ہے کہ1869تک زبان کا مسئلہ ہندو اور مسلم شناخت کا مسئلہ بن چکا تھا گویا کہ پوری طرح کمیونلائز ہو چکا تھا۔ ہندی کے نام نہاد علم بردار اردو کی مخالفت میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انھوں نے انگریزی حکومت کو اپنے حق میں مسلمانوں کی حکومت سے بہتر بتایا۔ ’نینی تال انسٹی ٹیوٹ‘کا قیام1869 میں عمل میں آیا جس کی بنیاد ہی ہندی کی حمایت اور اردو کی مخالفت کے خیال سے رکھی گئی تھی۔ 28اگست 1869 کو اس کا ایک جلسہ ہوا جس میں بابو بودھی بلبھ پنت نے اردو اور فارسی رسم الخط کی مخالفت میں تقریر کی۔ اس جلسے کی صدارت گنگا دت پنت نے کی اور اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ اس ملک میں ”اردو کا چلن مسلمانوں کی فتح کے بعد ہوا اور مسلم فاتحین نے اسے اپنی سہولت کے لیئے رواج دیا۔ لیکن اب اس ملک کے حاکم انگریز ہیں جو نہ اردو بولتے ہیں اور نہ ہندی، اس لیئے یہاں اس ملک کی فطری زبان ہندی رائج ہونی چاہیے۔“
اس جلسے کی کارروائی کماؤں کے کمشنر کو بھی بھیجی گئی کہ وہ اس کو حکومت کے سامنے پیش کر دیں۔ اس جلسے میں تمام مسلمان اردو کی حمایت کر رہے تھے اور تمام ہندو ہندی کی۔ گویا کہ زبان کا مسئلہ پوری طرح فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر چکا تھا۔
اس سلسلے میں مذہبی اور اصلاحی تنظیموں کی مداخلت نے مزید پیچیدگی پیدا کر دی۔ آریہ سماج نے بھی ہندی کی حمایت کے لیئے کام کرنا شروع کیا۔ آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی تھے جن کی مادری زبان گجراتی تھی لیکن انھوں نے بھی ہندی کی حمایت کی اور جب1882میں ہنٹر کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کو اسکولوں میں ذریعۂ تعلیم کی زبان کا فیصلہ کرنا تھا تو سوامی دیانند نے آریہ سماجیوں کو خطوط لکھے اور ہدایت دی کہ:
”وہ ہندی کی پُرزور حمایت کریں اور کمیشن کو میمورنڈم بھیجیں اگر یہ وقت ضائع ہو گیا تو پھر مستقبل میں یہ موقع ہاتھ نہیں آنے کا۔“
بلکہ انھوں نے ’ایک دیس، ایک بھاشا‘ جیسا نعرہ بھی دیا جو ظاہر ہے کہ کھلا فاشزم (Fascism) تھا۔ ہندی کے بیشتر حامی مثلاً بابو شیو پرساد، راجا جے کشن داس، راجا بھِنگا اور بابو ہریش چندر اردو سے ماہرانہ واقفیت رکھتے تھے لیکن ہندی کا سوال چوں کہ ہندی قومیت کے مسئلے سے وابستہ کردیا گیا اس لیئے یہ تمام لوگ اردو کے سخت مخالف اور ہندی کے حامی ہو گئے۔ 1882میں ہندی کے حامیوں نے ایجوکیشن کمیشن کو 118 میمورنڈم دیئے جن میں 67 ہزار دستخط جمع کیئے گئے تھے جب کہ اردو کی حمایت میں ’ایک ایڈریس ایجوکیشن کمیشن کو پیش کیا گیا‘ اور اس میں بھی یہ کہا گیا کہ:
”اردو ہماری نہ مذہبی زبان ہے اور نہ قومی، اور نہ اسے کسی غیر ملک سے درآمد ہی کی گئی ہے۔ اس نے ہندوستان میں جنم لیا ہے، اس کی پیدائش ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی مشترکہ کوششوں سے ہوئی ہے۔ یہ اس طرح بتدریج ہندوستان کی ورناکلر زبان بنی ہے۔“
1893میں ناگری پرچارنی سبھا (بنارس) کا قیام عمل میں آیا، جس کے بانیوں میں گوپال پرشاد کھتری، رام نرائن مصر اور شیام سندر داس شامل تھے۔ ہندی کے نفاذ کے سلسلے میں ناگری پرچارنی سبھا نے سب سے اہم اور منظم تحریک کا رول ادا کیا۔1897 میں پنڈت مدن موہن مالویہ نے بھی ایک پمفلٹ ’کورٹ کیرکٹر اینڈ پرائمری ایجوکیشن‘ شائع کیا اور اس میں ہندی کی وکالت کی۔ 9مارچ1898 کو ہندو تعلیم یافتہ اُمرا کا ایک وفد مدن موہن مالویہ کی قیادت میں لفٹننٹ گورنر سر میکڈانلڈ سے ملا اوراس نے فارسی رسم الخط کی جگہ ناگری رسم خط کے اجرا کا مطالبہ کیا۔ اور32 سال کی اس تحریک کے نتیجے میں سرکار نے 1900 میں عدالتوں میں فارسی رسم خط کے ساتھ ساتھ ناگری رسم خط کے استعمال کی بھی اجازت دے دی۔“
سرسیّد نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ اُن کے بعد اُن کے لائق جانشینوں نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک نے یہ خدمت انجام دی
نواب محسن الملک
ہندوؤں كی تحریك كی وجہ سے 1900ء میں یو پی كے بدنام زمانہ گورنر انٹونی میكڈانلڈ نے احكامات جاری كئے كہ دفاتر میں اردو كی بجائے ہندی كو بطور سركاری زبان استعمال كیا جائے۔ اس حكم كے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900ء كو علی گڑھ میں نواب محسن الملك نے ایك جلسے سے خطاب كرتے ہوئے حكومت كے اقدام پر سخت نكتہ چینی كی۔ نواب محسن الملك نے اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم كی جس كے تحت ملك میں مختلف مقامات پر اردو كی حمایت میں جلسے كئے گئے اور حكومت كے خلاف سخت غصے كا اظہار كیا گیا۔ اردو كی حفاظت كے لئے علی گڑھ كے طلبائ نے پرجوش مظاہرے كئے جس كی بنائ پر گونر میكڈانلڈ كی جانب سے نواب محسن الملك كو یہ دھمكی دی گئی كہ كالج كی سركاری گرانٹ بند كر دی جائے گی۔
یوپی کے لیفٹنٹ گورنر سر انٹونی میکڈانل نے اردو کے خلاف مہم شروع کی تو نواب محسن الملک نے اس کا جواب دینے کے لیے لکھنو میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ محسن الملک نے س جلسے میں جس جوش و خروش سے تقریر کی۔اس کی نظیر نہیں ملتی۔یوں سمجھئے کہ الفاظ کا ایک لاوا تھا جو ابل ابل کر پہاڑ سے نکل رہا تھا۔آخر میں نواب محسن الملک نے یہ کہتے ہویے کہ:
”اگر حکومت اردو کو مٹانے پر ہی تل گئی ہے تو بہت اچھا۔ ہم اردو کی لاش کو گومتی دریا میں بہا کر خود بھی ساتھ ہی مٹ جائیں گے“
اور والہانہ انداز میں یہ شعر پڑھا۔
”چل ساتھ کہ حسرت دل محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔‘‘
اردو كے خلاف تحریك میں كانگریس اپنی پوری قوت كے ساتھ شامل كار رہی اور اسے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔ اسی زمانے سے دو قومی نظریے کی باقاعدہ بنیاد پڑنی شروع ہوئی، ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم وجود میں آئی ۔ دو متحارب سلطنتیں وجود میں آئیں جو مسلح حالت میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔
نواب محسن الملک نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ اُن کے بعد اُن کے جانشینوں اور انجمنِ ترقّئ اُردو نے یہ خدمت انجام دی۔
انجمنِ ترقئ اُردو
۱۹۰۳ء میں محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس کا سالانہ جلسہ دلّی میں منعقد ہوا۔ اس جلسے میں کانفرنس کے مختلف شعبے قائم کیے گئے۔ اِنہیں شعبوں میں ایک شعبہ ترقّیٴ اردو کا بھی تھا۔ یہی شعبہ’ انجمنِ ترقّیٴ اُردو‘کی بنیاد تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہےتھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے۔ مولوی صاحب اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرھ حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔ انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی ، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیاگیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے ۔ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیاگیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔
انڈین نیشنل کانگریس کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں بڑی پیچیدہ، چالاک سیاست سے کام لیا لیکن انجمن اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی اَن تھک محنت، حوصلے اور مقابلے کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انجمن نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انجمن کے یہ کارنامے تحریکِ پاکستان کا اہم حصّہ ہیں۔2 مولوی صاحب سرسیّد کے تربیت یافتہ تھے محسن الملک کے ساتھ کام کرچکے تھے۔ مولانا حالی کے عقیدت مند اور علمی، ادبی کاموں سے دلچسپی رکھتے تھے۔ مولوی صاحب انجمن کے سیکریٹری مقرر ہوگئے۔ انجمن کو اپنے ساتھ اورنگ آباد لے آئے اور رفتہ رفتہ اس صدی میں اردو زبان و ادب کی ترقّی کی سب سے بڑی انجمن کا سب سے اہم حوالہ بن گئے۔ مولوی عبدالحق انجمنِ ترقّیٴ اُردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ اُن کا سونا جاگنا، اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔ ساری تنخواہ انجمن کی نذر کردیتے (بعد میں پینشن بھی انجمن پر ہی خرچ کرتے رہے) لکھنے پڑھنے سے جو آمدنی ہوتی وہ بھی انجمن کے کھاتے میں جاتی۔ زندہ رہے تو اردو کے لیے اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ کراچی کے جناح اسپتال میں بسترمرگ پر تھے مگر لیٹے لیٹے ”قاموس الکتب“ (جلد اوّل) کا معرکہ آرا مقدمہ لکھ دیا۔ مولوی عبدالحق نے جنھیں انجمن کے حوالے اور اردو کی خدمت سے خواص و عوام نے ”بابائے اردو“ کا خطاب دیا انجمن کو غیرمعمولی ترقّی دی۔ اس کی خدمات کا دائرہ وسیع کیا۔ وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق علمی اور ادبی منصوبے مرتّب کیے اور ان پر بڑی دل جمعی سے کام کیا انجمن کے کاموں کی ایسی شہرت ہوئی کہ نظام دکن میر عثمان علی خاں نے ایک ذاتی فرمان کے ذریعے سے اس کی سرپرستی منظور کی اور اس کے لیے مستقل امداد جاری کردی۔مولوی عبدالحق نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
ماخذ
محمداحمد حسان خان خالد محمود چوہدری ابن رضا عزیزامین x boy اوشو محمد خلیل الرحمٰن زیک تلمیذ الف عین سید عاطف علی محمد وارث bilal260 عثمان جاسمن عبدالحسیب
1867ءمیں بنارس كے چیدہ چیدہ ہندو رہنماؤں نے مطالبہ كیا كہ سرکاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم كر دیا جائے اور اس كی جگہ ہندی كو سركاری زبان كے طور پر رائج كیا جائے۔ ہندوؤں نے برطانوی بل بوتے پر زور پکڑتے ہی سب سے پہلا حملہ اردو زبان پر کیا اور ایک شعوری تحریک شروع کی جس کے تحت اُردو زبان سے اسلامی و مسلمان لفظیات کو نکال کر اس میں زبردستی سنسکرت الفاظ شامل کرکے ہندی کے نام سے ایک نئی زبان بنائی ۔ یہ کہا گیا كہ اردو قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اس کی جگہ ہندی یا دیوناگری رسم الخط جاری کیا جائے۔ اس لسانی تحریک کا صدر دفتر آلہ آباد میں قائم کیاگیا جبکہ پورے ملک میں ہندوؤں نے کئی ایک ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دیں، تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کیا جائے اور اس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔ سر سید احمد خان نے حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے بنارس کے شہر میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اگر ہندوؤں کی تنگ نظری اور تعصب کا یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا میں تقسیم ہو جائے گا۔
ایک علیحدہ زبان کے طور پر ہندی کی تشکیل کے سیاسی لائحۂ عمل سے قبل ہندی اردو ہی کا پرانا نام تھا۔ فطری طور پر فارسی کا اقتدار ہونے کے سبب مسلم دورِ اقتدار کے اکثر متون فارسی رسمِ خط میں ہیں اور ایسا اس لیے بھی ہے کہ فارسی رسم خط کو اختیار کرنے کی آزادی ہر فرد کو حاصل تھی جب کہ سنسکرت اور ناگری لپی پر برہمنوں کی اجارہ داری تھی اور عام ہندو اس میں مداخلت کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن اگر کچھ متون دیوناگری لپی میں بھی ہیں تو اس سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ دیوناگری لپی میں موجود متون اس سیاسی جدید ہندی کے ماضی کا حصہ ہیں جس کی تشکیل کے عزائم میں انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں شدت آئی۔ محض دیوناگری لپی میں موجود متون کو جدید ہندی میں شامل کرنے کا لائحۂعمل ہندی تاریخ کے نظریہ سازوں کے لیئے بڑی مصیبتوں کا سبب بنا۔
اس کے اسباب لسانی سے زیادہ فرقہ وارانہ (Sectarian) تھے جن کی جڑیں ہندو احیاء پرستی میں پیوست تھیں۔ بعد میں انھیں عوامل نے ’’ہندی، ہندو، ہندوستان‘‘ کے نعرے کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں کے مذہبی اکثریتی طبقے نے دیوناگری رسمِ خط کی شکل میں اس نئی زبان کو تقویت دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں اردو چشم زدن میں محض ایک اقلیتی طبقے کی زبان بن کر رہ گئی، اسی زمانے سے دو قومی نظریے کی باقاعدہ بنیاد پڑنی شروع ہوئی ۔ اور ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم وجود میں آئی۔
سرسید احمد خان
اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے پر سرسید احمد خان جیسا روشن خیال‘ ترقی پسند مسلمان دانشور و ادیب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ اور انہیں ہندو مسلم اتحاد كے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے اس موقع پر آپ نے فرمایا كہ:
’’مجھے یقین ہو گیا ہے كہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایك قوم كے كبھی نہیں ایك دوسرے كے ساتھ مل كر نہیں رہ سكتے۔‘‘
سرسید احمد خان نے ہندوؤں كی اردو زبان كی مخالفت كے پیش نظر اردو كے تحفظ كے لئے اقدامات كرنیكا ارادہ كیا1867ء میں آپ نے حكومت سے مطالبہ كیا كہ ایك ٫٫ دار الترجمہ٬٬ قائم كیا جائے تاكہ یونیورسٹی كے طلبائ كیلئے كتابوں كا اردو ترجمہ كیا جا سكے ہندوؤں نے سرسید احمد خان كے اس مطالبے كی شدت سے مخالفت كی لیكن آپ نے تحفظ اردو كے لئے ہندوؤں كا خوب مقابلہ كیا۔ آپ نے الٰہ آباد میں ایك تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم كی اورسائنٹفک سوسائٹی كے ذریعے اردو كی حفاظت كا بخوبی بندوبست كیا۔
یہ مسئلہ انیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے سر اٹھا رہا تھا۔ شمال مغربی صوبوں میں سرکاری کام کاج کی زبان کے طور پر اردو کے رواج کے فوراً بعد ہندو تعلیم یافتہ اعلا طبقے نے احتجاج کیا اور اگست 1840 میں حکومت نے آسان زبان استعمال کرنے کی ہدایت متعلقہ محکموں کو دی اور1856 میں revenue کے جونیر افسران کو ناگری رسم الخط سےکھنے کی ہدایت دی گئی۔ اور یہاں سے شعبۂ مال گزاری میں ہندی کو داخلہ ملا۔
سرسیّد نے یکم اگست1867 کو وائسرائے اور گورنر جنرل کو ایک میمورنڈم دیا جس میں موجودہ نظامِ تعلیم کو ناقص بتایا گیا، جس کی بنیاد انگریزی ذریعۂ تعلیم پر تھی۔ سرسیّد کے خیال میں ”یوروپین علوم و فنون اور سائنس کی روشنی“ کو عام کیا جانا ضروری تھا اور اس کے لیئے انگریزی نہیں بلکہ دیسی زبان زیادہ موزوں تھی۔ اس میمورنڈم پر دس افراد کے دستخط تھے جن میں سے چار یعنی اسرچند مکرجی، بدری پرساد، منولال اور راجا جے کشن داس غیر مسلم تھے۔
اس منصوبے کو برطانوی حکومت نے رد کر دیا، جس کی اطلاع5ستمبر 1867 کو بیلی نے برٹش انڈین ایسوی ایشن کے صدر اور اراکین کو ایک خط کے ذریعے دی۔ حکومت نے اس تجویز کو اگرچہ رد کر دیا لیکن اس نے کلکتہ یونیورسٹی، بنارس انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری اور کئی دوسرے افراد سے اس سلسلے میں ان کی رائے بھی مانگی اور17فروری1868 کو بنارس انسٹی ٹیوٹ کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا گیا جس میں سیّد احمد خاں اور بابو شیوپرساد بھی شریک تھے اور اس اجلاس میں بابو شیو پرساد نے بھی خاموشی اختیار کرلی اور صدر نے محسوس کیا کہ کوئی اس موضوع پر گفتگو کرنا نہیں چاہتا اور اس اجلاس کو برخاست کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے بھی اپنی کتاب ”ہندی اردو تنازع“ میں سرسیّد کے یکم اگست 1867 کے میمورنڈم کا ذکر کیا اور لکھا ہے:
”اس درخواست پر حکومت نے خاصی توجہ دی تھی، لیکن بعض دوسری باتوں کے ساتھ بڑی رکاوٹ یہ پیدا ہو گئی کہ بنارس کے ہندوؤں کی طرف سے اس کی مخالفت شروع ہو گئی۔ اردو کے مخالفین نے اخبارات میں اس بات کا مطالبہ کر دیا کہ اس مجوزہ یونیورسٹی میں مسلمانوں کے لیئے اردو زبان اور ہندوؤں کے لیئے ہندی زبان مخصوص کی جائے۔‘‘
1868میں راجا شیوپرساد نے ایک کتابچہ ’میمورنڈم آن کورٹ کیریکٹرس‘ شائع کیا، جس میں فارسی اور اردو تعلیم کی سرکاری سرپرستی کو ہندی کی ترقی میں سدِراہ بتایا اور فارسی رسم الخط کی جگہ ہندی رسم الخط کو عدالت میں رائج کرنے کا مطالبہ کیا اور یہ لے یہاں تک پہنچی کہ راجا جے کشن داس (جو سرسیّد کے خاص دوستوں میں تھے) نے برطانوی حکومت کو ہندوؤں کے حق میں مسلمانوں کی حکومت سے بہتر قرار دیا اور لکھا:
”جب سے ہندوستان میں مسلمانوں کا تسلط ہوا اس وقت سے ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں ایسی سختی برتی گئی جس کے سبب سے ان کے دل نہایت افسردہ و پژمردہ ہو گئے اور اےسے سخت موانع پیش آئے کہ ان کا سلسلۂ مذہبی تمام درہم برہم ہو گیا اور رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ سنسکرت کا قدیمی علم صرف براے نام رہ گیا اور اس پر طرہ یہ ہوا کہ کاروبارِ عدالت بھی فارسی میں دفعتاً شروع ہو گئے، چنانچہ رفتہ رفتہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم سنسکرت ہندوستان میں کالعدم ہو گیا الغرض ایسی ایسی وجوہ سے بجائے روشن ضمیری و استعداد علمی کے ہندوستان میں تاریکی، جہالت طاری ہو گئی۔“
حالانکہ سنسکرت کا سمٹنا مسلمان حکمرانوں کے جابرانہ رویئے کی وجہ سے نہ تھا بلکہ برہمنوں کی اجارہ داری کے سبب سے تھا جس کا اندازہ مشہور فرانسیسی سیاح برنیئر کے سفرنامے سے کیا جاسکتا ہے جس میں اس نے لکھا ہے:
”یہ کتابیں جو مجھے بنارس میں دکھائی گئی تھیں اگر وہ بید ہی تھے تو بڑی ضخامت کی ہوتی ہیں اور یہ ایسی نایاب ہیں کہ میرے آقا کو باوجود بڑی تلاش اور شوق خریداری کے ایک کتاب بھی نہیں ملی۔ ہندو ان کو بڑی ہوشیاری سے چھپائے رکھتے ہیں کہ مبادا مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں۔“
یہاں برنیئر نے آقا کے لقب سے نواب دانشمند خاں کو یاد کیا ہے، جس کی محفل میں برنیئر کے بقول اےسے ہندو پنڈت بھی آتے تھے جو داراشکوہ کی خدمت میں رہ چکے تھے اور دانشمند خاں ان سے ہندو فلسفے اور ان کی مذہبی کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتا تھا۔ محمود غزنوی کے زمانے میں البیرونی، اکبر کے زمانے میں فیضی اور بعد میں شہزادہ داراشکوہ نے ہندوؤں کے مذہبی صحیفوں کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا، لیکن برہمنوں نے جیساکہ برنیئر کے بیان سے ظاہر ہے، اپنی مذہبی کتابوں کو چھپا کے رکھا۔ لیکن راجا جے کشن نے برہمنوں کے اس خوف کی جگہ مسلمان حکمرانوں کے جبر اور اردو زبان کو اس کا ذمہ دار بتایا اور بقول ڈاکٹر مظہر مہدی:
”راجا جے کشن داس نے کہا کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے قیام کے بعد وہ جبر و تشدد تو ختم ہو گیا جو صدیوں تک ہندوؤں پر روا رکھا گیا تھا اور ان کے لیئے سازگار حالات بھی پیدا ہوئے لیکن وہ پورے طور پر ان سے مستفیض نہ ہوسکے جس کی بنیادی وجہ اس حکومت کا اردو اور فارسی رسم الخط کو قبول کرنا اور حکومت کے دفاتر میں ان کا اجرا کرنا تھا، کیوں کہ اس زبان اور رسم الخط کو صرف روزگار پیشہ لوگوں نے اسی قدر سیکھا جتنی ان کو ضرورت تھی لیکن تاجروں اور کسانوں نے ’اس کو محض لغو و فضول‘ جانا کیوں کہ وہ اس اجنبی زبان میں علم حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے جو ان کے مزاج اور فطرت کے خلاف ہو۔“
اس سے ظاہر ہے کہ1869تک زبان کا مسئلہ ہندو اور مسلم شناخت کا مسئلہ بن چکا تھا گویا کہ پوری طرح کمیونلائز ہو چکا تھا۔ ہندی کے نام نہاد علم بردار اردو کی مخالفت میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انھوں نے انگریزی حکومت کو اپنے حق میں مسلمانوں کی حکومت سے بہتر بتایا۔ ’نینی تال انسٹی ٹیوٹ‘کا قیام1869 میں عمل میں آیا جس کی بنیاد ہی ہندی کی حمایت اور اردو کی مخالفت کے خیال سے رکھی گئی تھی۔ 28اگست 1869 کو اس کا ایک جلسہ ہوا جس میں بابو بودھی بلبھ پنت نے اردو اور فارسی رسم الخط کی مخالفت میں تقریر کی۔ اس جلسے کی صدارت گنگا دت پنت نے کی اور اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ اس ملک میں ”اردو کا چلن مسلمانوں کی فتح کے بعد ہوا اور مسلم فاتحین نے اسے اپنی سہولت کے لیئے رواج دیا۔ لیکن اب اس ملک کے حاکم انگریز ہیں جو نہ اردو بولتے ہیں اور نہ ہندی، اس لیئے یہاں اس ملک کی فطری زبان ہندی رائج ہونی چاہیے۔“
اس جلسے کی کارروائی کماؤں کے کمشنر کو بھی بھیجی گئی کہ وہ اس کو حکومت کے سامنے پیش کر دیں۔ اس جلسے میں تمام مسلمان اردو کی حمایت کر رہے تھے اور تمام ہندو ہندی کی۔ گویا کہ زبان کا مسئلہ پوری طرح فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر چکا تھا۔
اس سلسلے میں مذہبی اور اصلاحی تنظیموں کی مداخلت نے مزید پیچیدگی پیدا کر دی۔ آریہ سماج نے بھی ہندی کی حمایت کے لیئے کام کرنا شروع کیا۔ آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی تھے جن کی مادری زبان گجراتی تھی لیکن انھوں نے بھی ہندی کی حمایت کی اور جب1882میں ہنٹر کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کو اسکولوں میں ذریعۂ تعلیم کی زبان کا فیصلہ کرنا تھا تو سوامی دیانند نے آریہ سماجیوں کو خطوط لکھے اور ہدایت دی کہ:
”وہ ہندی کی پُرزور حمایت کریں اور کمیشن کو میمورنڈم بھیجیں اگر یہ وقت ضائع ہو گیا تو پھر مستقبل میں یہ موقع ہاتھ نہیں آنے کا۔“
بلکہ انھوں نے ’ایک دیس، ایک بھاشا‘ جیسا نعرہ بھی دیا جو ظاہر ہے کہ کھلا فاشزم (Fascism) تھا۔ ہندی کے بیشتر حامی مثلاً بابو شیو پرساد، راجا جے کشن داس، راجا بھِنگا اور بابو ہریش چندر اردو سے ماہرانہ واقفیت رکھتے تھے لیکن ہندی کا سوال چوں کہ ہندی قومیت کے مسئلے سے وابستہ کردیا گیا اس لیئے یہ تمام لوگ اردو کے سخت مخالف اور ہندی کے حامی ہو گئے۔ 1882میں ہندی کے حامیوں نے ایجوکیشن کمیشن کو 118 میمورنڈم دیئے جن میں 67 ہزار دستخط جمع کیئے گئے تھے جب کہ اردو کی حمایت میں ’ایک ایڈریس ایجوکیشن کمیشن کو پیش کیا گیا‘ اور اس میں بھی یہ کہا گیا کہ:
”اردو ہماری نہ مذہبی زبان ہے اور نہ قومی، اور نہ اسے کسی غیر ملک سے درآمد ہی کی گئی ہے۔ اس نے ہندوستان میں جنم لیا ہے، اس کی پیدائش ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی مشترکہ کوششوں سے ہوئی ہے۔ یہ اس طرح بتدریج ہندوستان کی ورناکلر زبان بنی ہے۔“
1893میں ناگری پرچارنی سبھا (بنارس) کا قیام عمل میں آیا، جس کے بانیوں میں گوپال پرشاد کھتری، رام نرائن مصر اور شیام سندر داس شامل تھے۔ ہندی کے نفاذ کے سلسلے میں ناگری پرچارنی سبھا نے سب سے اہم اور منظم تحریک کا رول ادا کیا۔1897 میں پنڈت مدن موہن مالویہ نے بھی ایک پمفلٹ ’کورٹ کیرکٹر اینڈ پرائمری ایجوکیشن‘ شائع کیا اور اس میں ہندی کی وکالت کی۔ 9مارچ1898 کو ہندو تعلیم یافتہ اُمرا کا ایک وفد مدن موہن مالویہ کی قیادت میں لفٹننٹ گورنر سر میکڈانلڈ سے ملا اوراس نے فارسی رسم الخط کی جگہ ناگری رسم خط کے اجرا کا مطالبہ کیا۔ اور32 سال کی اس تحریک کے نتیجے میں سرکار نے 1900 میں عدالتوں میں فارسی رسم خط کے ساتھ ساتھ ناگری رسم خط کے استعمال کی بھی اجازت دے دی۔“
سرسیّد نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ اُن کے بعد اُن کے لائق جانشینوں نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک نے یہ خدمت انجام دی
نواب محسن الملک
ہندوؤں كی تحریك كی وجہ سے 1900ء میں یو پی كے بدنام زمانہ گورنر انٹونی میكڈانلڈ نے احكامات جاری كئے كہ دفاتر میں اردو كی بجائے ہندی كو بطور سركاری زبان استعمال كیا جائے۔ اس حكم كے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900ء كو علی گڑھ میں نواب محسن الملك نے ایك جلسے سے خطاب كرتے ہوئے حكومت كے اقدام پر سخت نكتہ چینی كی۔ نواب محسن الملك نے اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم كی جس كے تحت ملك میں مختلف مقامات پر اردو كی حمایت میں جلسے كئے گئے اور حكومت كے خلاف سخت غصے كا اظہار كیا گیا۔ اردو كی حفاظت كے لئے علی گڑھ كے طلبائ نے پرجوش مظاہرے كئے جس كی بنائ پر گونر میكڈانلڈ كی جانب سے نواب محسن الملك كو یہ دھمكی دی گئی كہ كالج كی سركاری گرانٹ بند كر دی جائے گی۔
یوپی کے لیفٹنٹ گورنر سر انٹونی میکڈانل نے اردو کے خلاف مہم شروع کی تو نواب محسن الملک نے اس کا جواب دینے کے لیے لکھنو میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ محسن الملک نے س جلسے میں جس جوش و خروش سے تقریر کی۔اس کی نظیر نہیں ملتی۔یوں سمجھئے کہ الفاظ کا ایک لاوا تھا جو ابل ابل کر پہاڑ سے نکل رہا تھا۔آخر میں نواب محسن الملک نے یہ کہتے ہویے کہ:
”اگر حکومت اردو کو مٹانے پر ہی تل گئی ہے تو بہت اچھا۔ ہم اردو کی لاش کو گومتی دریا میں بہا کر خود بھی ساتھ ہی مٹ جائیں گے“
اور والہانہ انداز میں یہ شعر پڑھا۔
”چل ساتھ کہ حسرت دل محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔‘‘
اردو كے خلاف تحریك میں كانگریس اپنی پوری قوت كے ساتھ شامل كار رہی اور اسے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔ اسی زمانے سے دو قومی نظریے کی باقاعدہ بنیاد پڑنی شروع ہوئی، ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم وجود میں آئی ۔ دو متحارب سلطنتیں وجود میں آئیں جو مسلح حالت میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔
نواب محسن الملک نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ اُن کے بعد اُن کے جانشینوں اور انجمنِ ترقّئ اُردو نے یہ خدمت انجام دی۔
انجمنِ ترقئ اُردو
۱۹۰۳ء میں محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس کا سالانہ جلسہ دلّی میں منعقد ہوا۔ اس جلسے میں کانفرنس کے مختلف شعبے قائم کیے گئے۔ اِنہیں شعبوں میں ایک شعبہ ترقّیٴ اردو کا بھی تھا۔ یہی شعبہ’ انجمنِ ترقّیٴ اُردو‘کی بنیاد تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہےتھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے۔ مولوی صاحب اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرھ حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔ انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی ، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیاگیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے ۔ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیاگیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔
انڈین نیشنل کانگریس کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں بڑی پیچیدہ، چالاک سیاست سے کام لیا لیکن انجمن اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی اَن تھک محنت، حوصلے اور مقابلے کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انجمن نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انجمن کے یہ کارنامے تحریکِ پاکستان کا اہم حصّہ ہیں۔2 مولوی صاحب سرسیّد کے تربیت یافتہ تھے محسن الملک کے ساتھ کام کرچکے تھے۔ مولانا حالی کے عقیدت مند اور علمی، ادبی کاموں سے دلچسپی رکھتے تھے۔ مولوی صاحب انجمن کے سیکریٹری مقرر ہوگئے۔ انجمن کو اپنے ساتھ اورنگ آباد لے آئے اور رفتہ رفتہ اس صدی میں اردو زبان و ادب کی ترقّی کی سب سے بڑی انجمن کا سب سے اہم حوالہ بن گئے۔ مولوی عبدالحق انجمنِ ترقّیٴ اُردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ اُن کا سونا جاگنا، اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔ ساری تنخواہ انجمن کی نذر کردیتے (بعد میں پینشن بھی انجمن پر ہی خرچ کرتے رہے) لکھنے پڑھنے سے جو آمدنی ہوتی وہ بھی انجمن کے کھاتے میں جاتی۔ زندہ رہے تو اردو کے لیے اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ کراچی کے جناح اسپتال میں بسترمرگ پر تھے مگر لیٹے لیٹے ”قاموس الکتب“ (جلد اوّل) کا معرکہ آرا مقدمہ لکھ دیا۔ مولوی عبدالحق نے جنھیں انجمن کے حوالے اور اردو کی خدمت سے خواص و عوام نے ”بابائے اردو“ کا خطاب دیا انجمن کو غیرمعمولی ترقّی دی۔ اس کی خدمات کا دائرہ وسیع کیا۔ وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق علمی اور ادبی منصوبے مرتّب کیے اور ان پر بڑی دل جمعی سے کام کیا انجمن کے کاموں کی ایسی شہرت ہوئی کہ نظام دکن میر عثمان علی خاں نے ایک ذاتی فرمان کے ذریعے سے اس کی سرپرستی منظور کی اور اس کے لیے مستقل امداد جاری کردی۔مولوی عبدالحق نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
ماخذ
محمداحمد حسان خان خالد محمود چوہدری ابن رضا عزیزامین x boy اوشو محمد خلیل الرحمٰن زیک تلمیذ الف عین سید عاطف علی محمد وارث bilal260 عثمان جاسمن عبدالحسیب