ہندی سے اردو تراجم ۔ عبدالرزاق قادری

ہم جب اکتوبر 2010 سے جون 2011 تک ہندی کی ککشا (کلاس) میں پڑھتے تھے تو اس دوران ہمیں میڈم نے مختلف مواقع پر کچھ پراجیکٹ (تراجم) وغیرہ کا کام ذمے لگایا۔ ہماری میڈم پٹیالہ(بھارت) سے تھیں ۔ اب پاکستانی شہری ہیں۔ ایم اے ہندی کے ساتھ اور دیگر علوم سے بھی روشناس تھیں ۔ ہمارا سیلےبس (نصاب) بھارتی کتب میں سے منتخب تھا۔ اول سے شاید دسویں کلاس تک پھر شاید ا سے بھی آگے کے نصاب میں سے اسباق کا چناو (انتخاب) کر کے بنایا گیا تھا۔ گرامر ، شاعری ، ہندی بھاشا کی تاریخ ، نثر اور بھی کئی کچھ تھا۔ اب وہ نصاب تھا ۔ اس کو پڑھا بھی لکھا بھی اور ترجمے بھی کیے۔ اب کوئی دانش ور ہندی مواد میں ہندوءوں کے تذکرے کی وجہ سے اگر کفر کا فتویٰ لگانا چاہے تو گزارش ہے کہ پہلے علماء سے علمی مسئلہ ضرور پوچھ لے۔ اور اگر ہم غلط ٹھہرے تو ضرور رجوع اور توبہ کریں گے۔ نیچے تراجم حاضر ہیں۔ یہ میں نے خود اپنے قلم سے ترجمے کر کے دےو ناگری سے اردو ھذا میں ڈھالے تھے۔ پھر کمپیوٹر پر کمپوز بھی کروا لیے تھے پچھلے سال۔ ای میل میں مسودے موجود تھے سو آج کام آگئے۔ عبدالرزاق قادری
 
بھارتی افراد جانتے ہوں گے کہ یہ کس کلاس (جماعت ، درجہ) کا سبق ہے ۔ ہو سکتا ہے پرانا نصاب ہو یا نیا ہو ۔ ہندی دےوناگری میں تھا ۔ میں نے اردو میں ڈھالا۔

کمپیوٹر

ایک دن روہن نے اپنے دوستوں کو جماعت جہاز، کشتی وغیرہ کی رنگین تصو یریں دکھائیں یہ تصویریں لکیروں کی مدد سے نہیں بلکہ نقظوں سے بنی ہوئی تھیں۔ دوستوں کے پوچھنے پر روہن نے بتایا
کہ یہ فوٹو (چِتر ، تصویریں) اس کے ابا جان کے کمرے میں پڑی ہوئی ایک مشین نے بنائے ہیں
تمام بچوں نے حیران ہوکر پوچھا،
’’مشین نے بنائے ہیں؟‘‘
’’ہاں ! ہاں! کمپیوٹر مشین نے، روہن نے کہا۔
اسی وقت استانی صاحبہ جماعت میں داخل ہوئی بچے اپنے تجسس کو روک نہ سکے۔ انہیں دیکھتے ہی وہ پوچھ بیٹھے
’’باجی کمپیوٹر کیا ہوتا ہے؟‘‘
استانی صاحبہ نے بچو ں کے تجسس کو دیکھتے ہوئے کہا کہ کمپیوٹر بجلی سے چلنے والی ایک ایسی مشین ہے جس سے ضرب، تقسیم، وغیرہ کے مشکل سے مشکل سوالوں کے جواب پل بھر میں حاصل کیے جا سکتے ہیں یہ مشین بہت تیزی سے کام کرتی ہے۔
جانتے ہو ہاورڈ آٹیکن نے پہلا کمپیوٹر 1944 میں بنایا تھا۔ کمپیوٹر دیکھنے میں بکسے کی ھیئت کا ایک آلہ ہے جس پر ٹی وی جیسی ایک سکرین پڑی ہوتی ہے اسے مانیٹر کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ کی بورڈ لگا ہوتا ہے جس کی مدد سے کمپیوٹر کو جو بھی ہدایات دی جاتی ہے اس کا نتیجہ سکرین پر دیکھنے کو ملتا ہے۔کمپیوٹر کے ساتھ پرنٹر جوڑ سکتے ہیں۔ پرنٹر بہت تیز رفتار (سپیڈ) سے وہ سب چھاپ سکتا ہے جو کچھ سکرین پر ابھر کر آتا ہے سکرین، کی بورڈ اور پرنٹر بجلی کے الگ الگ تاروں کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔کمپیوٹر کلی طور پر انسان پر مخصر ہے ۔ ابھی تک ایسا کوئی کمپیوٹر ایجاد نہیں ہوا جو کہ انسان کی ہدایات کے بغیر کا م کرسکے۔ یہ انسان کے ذریعے مجتمع نمبروں اور ہدایات کے مطابق ہی کام کرتا ہے۔
’’کیا کمپیوٹر صرف حساب کتاب اور تصویریں بنانے کے ہی کام آتاہے؟ ‘‘ مینا نے پوچھا
نہیں! نہیں! ایسی بات نہیں ہے۔ استانی صاحبہ نے فرمایا
’’ صنعتوں میں تقریباً تمام مشینیں کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول ہوتی ہیں۔ فیکٹریوں میں بننے والے ساز و سامان کی دیکھ بھال بھی کمپیوٹر کے ذریعے ہوتی ہے۔ اب تو ڈیزائنینگ کے لئے بھی کمپیوٹر کا بہت استعمال ہونے لگا ہے۔چاہے وہ کپڑوں کا ڈیزائن ہو یا راکٹ کا ہوائی جہاز وغیرہ کے ڈیزائن بنانے جیسا مشکل کام بھی کمپیوٹر کی مدد سے ہی ممکن ہے۔ اب تو کمپیوٹر کے بغیر ہوائی جہاز، راکٹ ، خلدی سیاروں وغیرہ کو چلانا بھی ناممکن ہے۔ آج کل ریل اور فضائی خدمات میں کمپیوٹر ہی سے بکنگ ہوتی ہے۔
انسانی جسم کے اندرونی اعضاء کی تشخیص کرنے اور مریضوں کے آپریشن کا رکھنے کا کام کمپیوٹر آسانی سے کرسکتاہے۔کمپیوٹر کی مدد سے ہم ہزاروں میل دور بیٹھے شخص کو خط، تصویر اور نقشہ وغیرہ بھیج سکتے ہیں اور اس کا جواب بھی فی الفور حاصل کر سکتے ہیں۔ دفاعی کا موں میں کمپیوٹر کا کردار بہت قابل ستائش (سراہے جانے کے لائق) ہے۔
سیٹلائٹ سے موصول شدہ موسم کی متعلق معلومات کو کمپیوٹر کے ذریعہ جانچ پر کھ کر کے سائنس دان آنے والے موسم کا حال بتاتے ہیں۔
بھارت جیسے زرعی ملک میں اس کی بہت اہمیت ہے‘‘
’’باجی میں تو اس پر طرح طرح کے کھیل بھی کھیلتا ہوں‘‘ ۔روہن نے کہا۔
’’ہاں بچوں کی تفریح کے لئے کمپیوٹر کی مدد سے قسم قسم کے کھیل بھی انسٹال کئے گئے ہیں‘‘ استانی صاحبہ نے فرمایا
’’انہیں ٹی وی جیسی سکرین (مانیٹر) پر کچھ بٹنوں کی مدد سے کھیلا جاتا ہے، جسے ویڈیو گیمز کہتے ہیں ان کھیلوں میں لڈو، شطرنج اور تاش جیسے کھیل بھی ہوتے ہیں۔‘‘استانی صاحبہ نے مزید بتایا کہ آج کل کمپیوٹر کی مدد سے صاف ستھری چھپوائی والی مختلف رنگوں والی کتابیں بڑی آسانی سے تیار ہوجاتی ہیں۔کارٹون فلمیں بنانے کے لئے کمپیوٹر ہماری بہت مدد کرتا ہے۔ جانتے ہو ایک منٹ کی کارٹون فلم بنانے کے لیے پورے 1440 چتر (فوٹو) بنانے پڑتے ہیں اب خود ہی اندازہ لگا لو کہ اڑھائی گھنٹے کی پوری فلم کے لیے کتنی تصویریں بنانی پڑتی ہوں گی۔ پہلے درجنوں فنکار دن رات محنت کرکے کئی مہینوں میں یہ کام سرانجام دیتے تھے۔ اب یہ کام کمپیوٹر کی مدد سے بہت کم وقت میں طے پا جاتا ہے۔
’’کیا کمپیوٹر بیٹری سے بھی چل سکتا ہے؟‘‘ شکیلا نے پوچھا
’’ہاں یہ بیٹری سے بھی چل سکتا ہے ‘‘۔ استانی صاحبہ نے فرمایا ’’بیٹری سے چلنے والے انتے چھوٹے کمپیوٹر بنائے جاچکے ہیں۔ جنہیں جیب میں رکھا جاسکتا ہے یا کلائی پر باندھا جاسکتا ہے‘‘۔
استانی جی پھر تو کمپیوٹر نے کمال ہی کر دیا یہ تو ہمارے بٹرے ہی کام کی چیز ہے‘‘ راگنی نے کہا۔ دراصل آج انسان کی ترقی میں کمپیوٹر کا بہت بڑا کردار ہے۔
 
اس سبق کا ہندی نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں آ رہا۔ ہدیہ کا معنی میں نے خود اوڑھایا تھا ۔ حالاں کہ یہ بالکل درست نہیں ہے ۔ انعام ، معاوضہ یا کوئی اور اردو لفظ بھی ہو سکتا ہے۔ ہندی اصل لفظ ادھا رہا۔
ہدیہ

وجے نگر میں ایک اپاہج اور غریب براہمنڑ رہتا تھا ۔ چونکہ وہ پیروں سے اپاہج تھا اس لئے اس کے روزگار کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا۔ اس نے کئی بار راجہ کرشن دیو رائے کے دربار میں شکایت بھیجی لیکن راج پروہت نے کبھی اس کی بات کو اہمیت نہ دی وہ نجانے کیوں اس سے حاسد تھا۔ ایک دن کسی نے اس کو مشورہ دیا کہ تم تے نالی رام کے پاس چلے جاؤ۔وہ ضرور تمہارے لئے کچھ نہ کچھ کریں گے۔
پھر ہمت کرکے وہ ایک دن تینالی رام کے پاس جاپہنچا ۔ اور ان کو پوری بات بتائی۔ تینالی رام نے بڑی توجہ سے اس کی بات سنی اور لحظہ بھر سوچا،پھر اس کے کان میں کوئی بات کہہ کر اسے وداع کر دیا۔
اس دن مہاراج نرمدا کے دوسرے کنارے پر خانقاہ درویش(ہندی لفظ اور کچھ شاید آشرم تھا جو ہندو ازم کا تھا) پر جانے والے تھے۔ کیوں کہ جاسوس کی معلومات کے مطابق وہاں کوئی مشہور فقیر(یہ بھی ہندو ازم کا لفظ ہے) آنے والے تھے۔ اس سفر پر تینالی رام کو بھی جانا تھا۔ تینالی رام اس سفر پر جانے کی تیاری ہی کر رہے تھے وہ اپاہج براہمن آگیا۔
اسے وداع کرکے تینالی رام گھر نکلے تو انہیں یاد آیا کہ سفر کے لئے پانی کا انتظام انہیں ہی کرنا ہے ۔کیوں کہ ان دنوں گرمی کا موسم تھا ۔ اور شدید گرمی پڑ رہی تھی ۔اس لئے پانی کا انتظام کرتے ہوئے تینالی رام راج محل جا پہنچے۔ ان کے پہنچتے ہی قافلہ روانہ ہوگیا ۔ خانقاہ کی دوری تقریباً دس کوس تھی۔
پانچ چھ کوس کا سفر طے کرنے کے بعد مہاراج نے قافلہ روکنے کا حکم دے دیا۔ آموں کے سایہ دار درختوں کے نیچے پڑاؤ ڈال دیا گیا۔ سب نے منہ ہاتھ دھوکر کھانا کھانا شروع کیا۔ ابھی کھانا کھایا ہی جا رہا تھا نجانے کیسے پانی کا گھڑا لڑھک گیا اور دیکھتے یہ دیکھتے پینے کا سارا پانی ضائع ہو گیا۔
اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
سب لوگ پریشان ہوگئے کیوں کہ سب کے ہاتھ منہ کھانے میں مشغول تھے ۔ مہاراج نے حکم دیا۔’’فوراً پینے کے پانی کی تلاش کی جائے‘‘ سارے فوجی اور درباری پانی کی تلاش میں ادھر ادھر پھیل گئے۔لیکن وہاں وہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔تبھی ایک درباری آکر بولا ’’مہاراج جنوب کی طرف ایک جھونپڑی میں ٹھنڈے پانی کے بھر ے چھ سات گھڑے پڑے ہیں لیکن جھونپڑی خالی ہے۔
’’توکیا ہوا؟‘‘ پیاس سے بے چین ایک وزیر بولا۔ ’’شہنشاہ کے لیے پانی سے کون روکے گا، زیادہ بات ہوگی تو قیمت ادا کردیں گے۔‘‘وزیر کی بات سے سبھی متفق ہوگئے۔
وہ سب لوگ جھونپڑی کے پاس گئے اور ہاتھ منہ دھوکر پانی پینے ہی لگے تھے کہ جھونپڑی کا مالک آگیا۔ پروہت نے اسے دیکھا تو چڑ گیا۔ وہ وہی غریب براہمنٹر تھا۔ جس کی مدد کی درخواست پر راج پروہت روڑے اٹکاتا تھا ۔ وہاں آکر وہ ہاتھ جوڑ کر راج درباریوں کو پانی پیتے دیکھتا رہا۔ جب سب پانی پی چکے تو منتری (وزیر) نے اس غریب براہمنڑ سے کہا۔ ’’ہمیں پیاس لگی تھی ارد گرد پانی موجود نہ تھا اس لئے تمہارا پانی پی لیا، اس کی جو مرضی قیمت لے لو،
بولو کیا قیمت لوگے غریب براہمنڑکے کچھ بولنے سے پہلے ہی راج پروہت بول پڑا۔ (یہاں جملہ یا جملے کم ہیں)
نہیں مہاراج !میں پانی کی قیمت نہیں لیناچاہتا۔ ہاں پانی کوپرسادسمجھ کرآپ اس غریب براہمنٹر کوکچھ معاوضہ(ہدیہ) دینا چاہیں تو آشی ورد دے دیں۔ وہ میں قبول کرلوں گا۔
مہاراج نے مسکراکرتینالی رام کی طرف دیکھا تب تینالی رام نے کہا’’یہ غریب براہمنٹر ٹھیک ہی کہتا ہے مہاراج ، اس مصیبت کے وقت میں پانی کا ملنا بھگوان کاپرساد ملنے کے مترادف ہی ہے ۔لہٰذا پرساد کاہدیہ بھی شاہی آداب (روایات) کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔مہاراج نے فوراً اپنے گلے کاقیمتی ہاراتارکرغریب براہمنٹرکو دے دیا۔
کہیں درمیان سے اور آخر سے بھی سے تھوڑا سا کم ہے ، یعنی چند جملے رہ گئے ہیں ۔ معذرت
 
بدلہ لینے کی تاک
تے نالی رام کے رویہ کی شکایت لے کر کچھ براہمنڑ راج گرو کے پاس پہنچے، راج گرو تو پہلے ہی تینالی رام سے بدلہ لینے کی تاک میں تھا کیونکہ وہ(تے نالی رام ) اس کے پول کھول چکا تھا۔ راج گرو اور براہنمڑوں نے مل کر تینالی رام کو سبق سکھانے کی ترکیب سوچی۔ فیصلہ یہ ہوا ۔ کہ راج گرو تینالی رام کو اپنا شاگرد بنانے کا بہانہ بنا کر رواج کے مطابق اس کے جسم کو داغا جائے گا۔ داغا بھی اتنے زور سے جائے گا کہ بچُو (تینالی رام) کو مزا آجائے جب اس طرح تینالی رام سے بدلہ لے لیا جائے گا۔ تو راج گرو اسے یہ کہہ کر شاگرد بنانے سے انکار کر دیں گے۔ کہ یہ تو نیچی (نچلی) ذات کا براہمنڑ ہے۔
ان ایک سو آٹھ براہمنڑوں اور راج گرو نے یہ منصوبہ اپنے آپ تک ہی محدود رکھا۔ تینالی رام سے بدلہ لینے کے لئے وہ بہت زیادہ بے چین تھے۔ منصوبہ کے مطابق راج گرو نے تینالی رام کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ اس کی عظیم خیالی اور علم کو دیکھتے ہوئے وہ اسے اپنا ششی (شاگرد) بنانا چاہتا ہے۔ تینالی رام بھانپ گیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے لیکن وہ ناٹک کرتا رہا کہ وہ راج گرو کے فرمان (ارادے) سے بہت خوش ہے۔
تینالی رام نے انتہائی تجسس سے پوچھا ’’آپ کب مجھے اپنا شاگردبنانا پسند فرمائیں گے؟‘‘
’’اگلا جمعہ بڑا شبھ دن ہے، اشنان(سنان) کرکے تمہیں قیمتی کپٹرے پہننے ہوں گے جو تمہیں میری طرف سے بھینٹ کئے جائیں گے۔ بھینٹ (نذرانہ) کے طور پر تمہیں ایک سو سونے کی اشرفیاں بھی دوں گا۔ اس کے بعد تمہیں پوتر (مقدس) ناقوس اور لوہے سے داغا جائے گا۔اس طرح تم میرے شاگرد بن جاؤ گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر تینالی رام چلاگیا۔اس نے ساری بات اپنی پتنی کو سنائی۔ بولا ’’ضرور اس دھورت (مکار) کے دل میں کوئی چال ہے‘‘
پتنی بولی ’’تم نے اس کا شاگرد بننا قبول ہی کیوں کیا؟‘‘
’’پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں راج گرو اگر سیر ہے تو میں سوا سیر ہوں‘‘ تینالی رام نے کہا۔
’’تم نے کیا کرنے کا وچار کیا ہے؟‘‘
مجھے پتہ چلا ہے جن ایک سو آٹھ براہمنڑوں کو میں نے اپنے گھر نمنترنڑ (دعوت) دیا تھا ان کی راج گرو کے ہاں کوئی سبھا (محفل) ہوئی ہے۔ اصلی بات کا پتہ چلانے کا ایک طریقہ میرے پاس ہے۔ ان براہمنڑوں میں سے ایک کا نام سومیا جولو (جُ لُ) ہے، اس کے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔ پر اس کے پاس خرچ کرنے کے لئے ایک پیسہ بھی نہیں ہے میں دس سنہری اشرفیاں دے کرسو میاجولوسے ساری باتیں معلوم کرلوں گا۔ پھردیکھنا اس راج گروکے بچے کی میں کیاگت بناتا ہوں ‘‘تینالی رام نے کہا۔
" اس کنجوس سے ؟ پتھر سے پانی نکال لیناآسان ہے پرراج گروسے ایک پیسہ بھی نکالنا کٹِھن ہے سومیاجولوبولا اس احساس فراموش کے لیے کوئی اپنی جان بھی دے دے ۔ توبھی وہ کسی کے کام آنے والانہیں ہے ‘‘
تینالی رام نے جیب سے دس سنہری اشرفیاں نکالیں اورسومیاجولوسے کہا اگرتم مجھے یہ بتادوکہ راج گروکے گھرہوئی گپت (خفیہ) بیٹھک میں کیاباتیں ہوئی ہیں تومیں تمہیں یہ سنہری اشرفیاں دے دوں گا۔
’’نہیں ۔نہیں ،میں نے یہ بتادیا تو میں کہیں کانہ رہوں گا ‘‘ سومیاجولو نے کہا !
’’ میں وعدہ کرتاہوں کہ یہ بات میں اپنے تک ہی محدود رکھوں گا ‘‘ تینالی رام نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا !
’’ تینالی رام بولا ’’سوچو تمہاری پتنی اس وقت کتنی نازک اوش تھا (مرحلہ، موقع) میں ہے اور پھر میں بھی براہمنڑ ہوں۔ سہایتا (مدد) مانگنے کے لئے آئے ہوئے شخص کو مایوس لوٹا دینا ہماری پرمپرا کے وردھ (خلاف ) ہے۔ میں کشما (معافی) چا ہتا ہوں کہ اس دن اور لوگوں کے ساتھ تمہارے جسم کو بھی میں نے دغوا دیا، خیر یہ دس سونے کی اشرفیاں لے لو۔ اب آگے تمہاری جیسی مرضی۔‘‘ یہ کہہ کر تینالی رام نے اشرفیاں اس کی طرف بڑھا دیں
وہ سنہری اشرفیاں پاکر بے حد خوش ہوا اور اس نے تینالی رام کو ساری باتیں بتا دیں۔
’’دیکھو ! کسی کو یہ پتا نہ چلے کہ میں نے یہ (راز) بھید کھولا ہے۔‘‘
’’تم بالکل بے فکر رہو‘‘ تینالی رام نے کہا۔
گھر آکر تینالی رام نے اپنی پتنی کو یہ بات بتائی۔
پتنی بولی ’’کچھ بھی ہو۔ دس سنہری اشرفیوں کا نقصان تو ہوا ہی ہے‘‘ ۔
’’تم دیکھتی ہی جاؤ دس سونے کی اشرفیاں جانے سے اور کتنی ہی سنہری اشرفیاں آئیں گی‘‘ ہنستے ہوئے تینالی رام بولا۔
جمعے کے دن تینالی رام صبح اُٹھا، اشنان کیا اور راج گرو کے دییے ہوئے ریشم کے کپڑے پہنے، جن کی قیمت کوئی ایک ہزار روپے رہی ہوگی۔ راج گرو نے اسے ایک سو سونے کی اشرفیاں دیں۔ اب داغنے کی رسم نبھانے کی باری آئی۔
شنکھ (ناقوس) اور لوہ چکر آگ میں رہے تھے۔ راج گرو اور براہمنڑ دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے کہ بچو آج آئے ہو جھانسے میں۔
جیسے ہی شنکھ اور لوہ چکر داغے جانے کے لیے تیار ہوگیا، تینالی رام نے پچاس سونے کی اشرفیاں راج گرو کو دیں اور یہ کہتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔
’’آدھا ہی بہت ہے باقی آدھا میں نے واپس کر دیا ہے۔‘‘ راج گرو اور براہمنڑ گرم گرم شنکھ اور لوہ چکر لے کر اس کے پیچھے بھاگے۔ راستے میں اور بھی بہت ہی بھیڑ اکٹھی ہوگئی۔
تینالی رام بھاگتا ہوا راجا کے پاس پہنچا اور بولا ’’مہاراج جب سمار وہ ( ) ہو رہا تھا، مجھے اچانک خیال آیا کہ میں راج گرو کا ششی ہونے یوگ (قابل) نہیں ہوں۔ کیونکہ میں ویدک براہمنڑ نہیں، نیوگی ( ) براہمنڑ ہوں، اشنان اور ریشم کے کپڑے پہنے کی رسم پوری کرنے کی پچاس سنہری اشرفیاں میں نے رکھ لیں اور باقی پچاس راج گرو کو واپس کردی ہیں، جو انہوں نے مجھے داغنے کی رسم پوری کرنے کے لیے دی تھیں۔‘‘
راج گرو کو راجا کے سامنے ماننا پڑا کہ نیوگی براہمنڑ ہونے کے کارنڑ (کی وجہ سے) تینالی رام اس کا ششی نہیں بن سکتا۔ اس نے یہ بھی بہانا بنایا کہ وہ تینالی رام کے نیوگی براہمنڑ ہونے کی بات تو بھول ہی چکا تھا، اصلی بات وہ راجا کو کیسے بتاتا؟
’’تینالی رام کی ایمانداری ، تعریف کے قابل ہے اسے ضرور انعام ملنا چاہیے‘‘ راجا نے کہا
اور تینالی رام کو ایک ہزار سونے کی اشرفیاں انعام کے طور پر بھینٹ کیں۔
اس سبق میں بھی کچھ تھوڑی سی گڑ بڑ ہے ۔ کیونکہ کمپوزنگ کسی دکان سے کروائی تھی ۔ ای میل سے کاپی کی ہے۔ اصل مسودہ گھر پڑا ہے ۔ میں گھر سے باہر ہوں ادھار رہا۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ تینالی رام کی کہانیاں۔ یہ صاحب ہندی والوں کے ملا نصیر الدین ہیں۔
اور جس کا تم نے ‘ہدیہ‘ عنوان دیا ہے۔ وہ ’اپہار‘ ہو گی۔
 
واہ تینالی رام کی کہانیاں۔ یہ صاحب ہندی والوں کے ملا نصیر الدین ہیں۔
اور جس کا تم نے ‘ہدیہ‘ عنوان دیا ہے۔ وہ ’اپہار‘ ہو گی۔
جی بے شمار افسانے اس کے نام سے منصو ب ہیں ہندی میں جیسے "تےنالی رام اور وِدوان کی مات رِ بھاشا" والا۔
"اپہار" نہیں ہے جی۔ ان شاءاللہ کل گھر سے دیکھ کر آؤں گا درست لفظ
 

الف عین

لائبریرین
تینالی راما در اصل تیلگو کیریکٹر ہے۔ لیکن ہندی ہی نہیں، ہر ہندوستانی زبان میں ان کے لطیفے مشہور ہیں۔ سوائے اردو کے۔
 
Top