بدلہ لینے کی تاک
تے نالی رام کے رویہ کی شکایت لے کر کچھ براہمنڑ راج گرو کے پاس پہنچے، راج گرو تو پہلے ہی تینالی رام سے بدلہ لینے کی تاک میں تھا کیونکہ وہ(تے نالی رام ) اس کے پول کھول چکا تھا۔ راج گرو اور براہنمڑوں نے مل کر تینالی رام کو سبق سکھانے کی ترکیب سوچی۔ فیصلہ یہ ہوا ۔ کہ راج گرو تینالی رام کو اپنا شاگرد بنانے کا بہانہ بنا کر رواج کے مطابق اس کے جسم کو داغا جائے گا۔ داغا بھی اتنے زور سے جائے گا کہ بچُو (تینالی رام) کو مزا آجائے جب اس طرح تینالی رام سے بدلہ لے لیا جائے گا۔ تو راج گرو اسے یہ کہہ کر شاگرد بنانے سے انکار کر دیں گے۔ کہ یہ تو نیچی (نچلی) ذات کا براہمنڑ ہے۔
ان ایک سو آٹھ براہمنڑوں اور راج گرو نے یہ منصوبہ اپنے آپ تک ہی محدود رکھا۔ تینالی رام سے بدلہ لینے کے لئے وہ بہت زیادہ بے چین تھے۔ منصوبہ کے مطابق راج گرو نے تینالی رام کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ اس کی عظیم خیالی اور علم کو دیکھتے ہوئے وہ اسے اپنا ششی (شاگرد) بنانا چاہتا ہے۔ تینالی رام بھانپ گیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے لیکن وہ ناٹک کرتا رہا کہ وہ راج گرو کے فرمان (ارادے) سے بہت خوش ہے۔
تینالی رام نے انتہائی تجسس سے پوچھا ’’آپ کب مجھے اپنا شاگردبنانا پسند فرمائیں گے؟‘‘
’’اگلا جمعہ بڑا شبھ دن ہے، اشنان(سنان) کرکے تمہیں قیمتی کپٹرے پہننے ہوں گے جو تمہیں میری طرف سے بھینٹ کئے جائیں گے۔ بھینٹ (نذرانہ) کے طور پر تمہیں ایک سو سونے کی اشرفیاں بھی دوں گا۔ اس کے بعد تمہیں پوتر (مقدس) ناقوس اور لوہے سے داغا جائے گا۔اس طرح تم میرے شاگرد بن جاؤ گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر تینالی رام چلاگیا۔اس نے ساری بات اپنی پتنی کو سنائی۔ بولا ’’ضرور اس دھورت (مکار) کے دل میں کوئی چال ہے‘‘
پتنی بولی ’’تم نے اس کا شاگرد بننا قبول ہی کیوں کیا؟‘‘
’’پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں راج گرو اگر سیر ہے تو میں سوا سیر ہوں‘‘ تینالی رام نے کہا۔
’’تم نے کیا کرنے کا وچار کیا ہے؟‘‘
مجھے پتہ چلا ہے جن ایک سو آٹھ براہمنڑوں کو میں نے اپنے گھر نمنترنڑ (دعوت) دیا تھا ان کی راج گرو کے ہاں کوئی سبھا (محفل) ہوئی ہے۔ اصلی بات کا پتہ چلانے کا ایک طریقہ میرے پاس ہے۔ ان براہمنڑوں میں سے ایک کا نام سومیا جولو (جُ لُ) ہے، اس کے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔ پر اس کے پاس خرچ کرنے کے لئے ایک پیسہ بھی نہیں ہے میں دس سنہری اشرفیاں دے کرسو میاجولوسے ساری باتیں معلوم کرلوں گا۔ پھردیکھنا اس راج گروکے بچے کی میں کیاگت بناتا ہوں ‘‘تینالی رام نے کہا۔
" اس کنجوس سے ؟ پتھر سے پانی نکال لیناآسان ہے پرراج گروسے ایک پیسہ بھی نکالنا کٹِھن ہے سومیاجولوبولا اس احساس فراموش کے لیے کوئی اپنی جان بھی دے دے ۔ توبھی وہ کسی کے کام آنے والانہیں ہے ‘‘
تینالی رام نے جیب سے دس سنہری اشرفیاں نکالیں اورسومیاجولوسے کہا اگرتم مجھے یہ بتادوکہ راج گروکے گھرہوئی گپت (خفیہ) بیٹھک میں کیاباتیں ہوئی ہیں تومیں تمہیں یہ سنہری اشرفیاں دے دوں گا۔
’’نہیں ۔نہیں ،میں نے یہ بتادیا تو میں کہیں کانہ رہوں گا ‘‘ سومیاجولو نے کہا !
’’ میں وعدہ کرتاہوں کہ یہ بات میں اپنے تک ہی محدود رکھوں گا ‘‘ تینالی رام نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا !
’’ تینالی رام بولا ’’سوچو تمہاری پتنی اس وقت کتنی نازک اوش تھا (مرحلہ، موقع) میں ہے اور پھر میں بھی براہمنڑ ہوں۔ سہایتا (مدد) مانگنے کے لئے آئے ہوئے شخص کو مایوس لوٹا دینا ہماری پرمپرا کے وردھ (خلاف ) ہے۔ میں کشما (معافی) چا ہتا ہوں کہ اس دن اور لوگوں کے ساتھ تمہارے جسم کو بھی میں نے دغوا دیا، خیر یہ دس سونے کی اشرفیاں لے لو۔ اب آگے تمہاری جیسی مرضی۔‘‘ یہ کہہ کر تینالی رام نے اشرفیاں اس کی طرف بڑھا دیں
وہ سنہری اشرفیاں پاکر بے حد خوش ہوا اور اس نے تینالی رام کو ساری باتیں بتا دیں۔
’’دیکھو ! کسی کو یہ پتا نہ چلے کہ میں نے یہ (راز) بھید کھولا ہے۔‘‘
’’تم بالکل بے فکر رہو‘‘ تینالی رام نے کہا۔
گھر آکر تینالی رام نے اپنی پتنی کو یہ بات بتائی۔
پتنی بولی ’’کچھ بھی ہو۔ دس سنہری اشرفیوں کا نقصان تو ہوا ہی ہے‘‘ ۔
’’تم دیکھتی ہی جاؤ دس سونے کی اشرفیاں جانے سے اور کتنی ہی سنہری اشرفیاں آئیں گی‘‘ ہنستے ہوئے تینالی رام بولا۔
جمعے کے دن تینالی رام صبح اُٹھا، اشنان کیا اور راج گرو کے دییے ہوئے ریشم کے کپڑے پہنے، جن کی قیمت کوئی ایک ہزار روپے رہی ہوگی۔ راج گرو نے اسے ایک سو سونے کی اشرفیاں دیں۔ اب داغنے کی رسم نبھانے کی باری آئی۔
شنکھ (ناقوس) اور لوہ چکر آگ میں رہے تھے۔ راج گرو اور براہمنڑ دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے کہ بچو آج آئے ہو جھانسے میں۔
جیسے ہی شنکھ اور لوہ چکر داغے جانے کے لیے تیار ہوگیا، تینالی رام نے پچاس سونے کی اشرفیاں راج گرو کو دیں اور یہ کہتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔
’’آدھا ہی بہت ہے باقی آدھا میں نے واپس کر دیا ہے۔‘‘ راج گرو اور براہمنڑ گرم گرم شنکھ اور لوہ چکر لے کر اس کے پیچھے بھاگے۔ راستے میں اور بھی بہت ہی بھیڑ اکٹھی ہوگئی۔
تینالی رام بھاگتا ہوا راجا کے پاس پہنچا اور بولا ’’مہاراج جب سمار وہ ( ) ہو رہا تھا، مجھے اچانک خیال آیا کہ میں راج گرو کا ششی ہونے یوگ (قابل) نہیں ہوں۔ کیونکہ میں ویدک براہمنڑ نہیں، نیوگی ( ) براہمنڑ ہوں، اشنان اور ریشم کے کپڑے پہنے کی رسم پوری کرنے کی پچاس سنہری اشرفیاں میں نے رکھ لیں اور باقی پچاس راج گرو کو واپس کردی ہیں، جو انہوں نے مجھے داغنے کی رسم پوری کرنے کے لیے دی تھیں۔‘‘
راج گرو کو راجا کے سامنے ماننا پڑا کہ نیوگی براہمنڑ ہونے کے کارنڑ (کی وجہ سے) تینالی رام اس کا ششی نہیں بن سکتا۔ اس نے یہ بھی بہانا بنایا کہ وہ تینالی رام کے نیوگی براہمنڑ ہونے کی بات تو بھول ہی چکا تھا، اصلی بات وہ راجا کو کیسے بتاتا؟
’’تینالی رام کی ایمانداری ، تعریف کے قابل ہے اسے ضرور انعام ملنا چاہیے‘‘ راجا نے کہا
اور تینالی رام کو ایک ہزار سونے کی اشرفیاں انعام کے طور پر بھینٹ کیں۔
اس سبق میں بھی کچھ تھوڑی سی گڑ بڑ ہے ۔ کیونکہ کمپوزنگ کسی دکان سے کروائی تھی ۔ ای میل سے کاپی کی ہے۔ اصل مسودہ گھر پڑا ہے ۔ میں گھر سے باہر ہوں ادھار رہا۔